پی آئی اے کا طیارہ جو لاہور تا کراچی محو پرواز تھا، اپنی منزل کے عین قریب حادثے کا شکار ہوگیا- درجنوں اموات کی ابتدائی اطلاعات ہیں-
اکثریت ان مسافروں کی ہوگی جو عید کی خوشیاں اپنے پیاروں کے ہمراہ منانا چاہ رہے ہوں گے- بےخبر تھے کہ بےرحم موت منتظر ہے- اناللہ وانا الیہ راجعون- رب کریم متوفین کی مغفرت اور لواحقین کو صبرجمیل عطا کرے
یہ پہلا سانحہ نہیں (اگرچہ دعاگوں ہوں کہ آخری ہو)- ہر کچھ توقف کے بعد ایسے حادثات کا رونما ہونا معمول بن چکا ہے- قیمتی جانوں کا ضیاع ہونا جہاں اندوناک ہے وہیں بیرونی دنیا میں ملکی ساکھ بارے منفی تاثر پیدا ہوتا ہے
ترقی یافتہ ممالک ایسے ماڈلز اور ٹیکنالوجیز پر عمیق تحقیق کرچکے ہیں جن سے ایسے حادثوں پر قابو پاسکیں- طیاروں کی اورہالنگ، عملے کی تربیت، معیار، نظم وضبط جیسی بنیادی چیزوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا- دیکھا جاۓ تو ہمارے ملک میں تو روزانہ کی فلائیٹس کو انگلیوں کی پوروں پر گنا جاسکتا ہے- آپ ہم سے کئی گنا چھوٹے ملک سنگاپور، تھائی لینڈ یا سوئیڈن کا ڈیٹا نکال کر دیکھیے، انگنت فلائٹس صبح وشام اڑانیں بھرتی ہیں- اور اہم بات حادثات کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر (انسانی غلطی کی بہرحال گنجائش رہتی ہے)-ے
ہمارے پالیسی سازوں اور ریاستی بزرجمہروں کو یہ معمولی سی راکٹ سائنس سمجھنا ہوگی کہ ملکی ترقی کی شرح اور شہری ہوابازی کے پھیلاؤ کا براہ راست تعلق ہے- ملک ترقی کرے گا تو فاصلے سمٹیں گے، وقت کی قدر ہوگی اور مڈل اور اپرکلاس کی طلب فضائی سفر کے لیے بڑھتی جاۓ گی- اس طلب کو پورا کرنے اور معیار برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ سفرمحفوظ ہو، آرام دہ ہو، معیاری اور کم قیمت ہو- آخر پالیسی ساز اس بارے کب سنجیدگی سے سوچیں گے
آخری بات، عمران خان نے جیسے شوگر مافیا پر انکوائری رپورٹ جاری کی اور ملوث عناصر کو منطقی انجام تک پہنچا رہے ہیں- ان سے امید ہے کہ وہ اس حادثے پر بھی کوئی کمیشن تشکیل دیں گے تاکہ ایسے سانحہ کا تدارک ہوسکے- جانیں بھی قیمتیں اور ملکی وقار بھی
اکثریت ان مسافروں کی ہوگی جو عید کی خوشیاں اپنے پیاروں کے ہمراہ منانا چاہ رہے ہوں گے- بےخبر تھے کہ بےرحم موت منتظر ہے- اناللہ وانا الیہ راجعون- رب کریم متوفین کی مغفرت اور لواحقین کو صبرجمیل عطا کرے
یہ پہلا سانحہ نہیں (اگرچہ دعاگوں ہوں کہ آخری ہو)- ہر کچھ توقف کے بعد ایسے حادثات کا رونما ہونا معمول بن چکا ہے- قیمتی جانوں کا ضیاع ہونا جہاں اندوناک ہے وہیں بیرونی دنیا میں ملکی ساکھ بارے منفی تاثر پیدا ہوتا ہے
ترقی یافتہ ممالک ایسے ماڈلز اور ٹیکنالوجیز پر عمیق تحقیق کرچکے ہیں جن سے ایسے حادثوں پر قابو پاسکیں- طیاروں کی اورہالنگ، عملے کی تربیت، معیار، نظم وضبط جیسی بنیادی چیزوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا- دیکھا جاۓ تو ہمارے ملک میں تو روزانہ کی فلائیٹس کو انگلیوں کی پوروں پر گنا جاسکتا ہے- آپ ہم سے کئی گنا چھوٹے ملک سنگاپور، تھائی لینڈ یا سوئیڈن کا ڈیٹا نکال کر دیکھیے، انگنت فلائٹس صبح وشام اڑانیں بھرتی ہیں- اور اہم بات حادثات کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر (انسانی غلطی کی بہرحال گنجائش رہتی ہے)-ے
ہمارے پالیسی سازوں اور ریاستی بزرجمہروں کو یہ معمولی سی راکٹ سائنس سمجھنا ہوگی کہ ملکی ترقی کی شرح اور شہری ہوابازی کے پھیلاؤ کا براہ راست تعلق ہے- ملک ترقی کرے گا تو فاصلے سمٹیں گے، وقت کی قدر ہوگی اور مڈل اور اپرکلاس کی طلب فضائی سفر کے لیے بڑھتی جاۓ گی- اس طلب کو پورا کرنے اور معیار برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ سفرمحفوظ ہو، آرام دہ ہو، معیاری اور کم قیمت ہو- آخر پالیسی ساز اس بارے کب سنجیدگی سے سوچیں گے
آخری بات، عمران خان نے جیسے شوگر مافیا پر انکوائری رپورٹ جاری کی اور ملوث عناصر کو منطقی انجام تک پہنچا رہے ہیں- ان سے امید ہے کہ وہ اس حادثے پر بھی کوئی کمیشن تشکیل دیں گے تاکہ ایسے سانحہ کا تدارک ہوسکے- جانیں بھی قیمتیں اور ملکی وقار بھی