عدم اعتمادپہلےصوبوں میں لانا چاہئے؟ہر بارکہہ دیتےہیں آر یا پار:اعتزاز احسن

aitzaz-ahsan-khan-on-ppd.jpg


پیپلز پارٹی کے رہنما اور ماہر قانون اعتزاز احسن پی ڈی ایم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم والے حلوہ کھانے کی بہت جلدی میں ہیں، اب تو آصف زرداری صاحب بھی ساتھ ہیں ان کی پہلے ہی سن لیتے تو یہ حالات نہ ہوتے۔

تفصیلات کے مطابق نجی پروگرام "خبر ہے" میں بات کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ اب تو آصف زرداری صاحب بھی پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں ذہن پورے ملے نہیں ہیں اختلافات تو ہیں، ووٹ آف نو کانفیڈنس "عدم اعتماد" پہلے صوبوں میں بعد ازاں وفاق میں لانا چاہئے، پہلے باہر کی چوکیوں کو ایکسپلور کرتے ہیں اس کے بعد سینٹر کا ٹارگٹ کرتے ہیں، پی ڈی ایم والے سمجھتے ہیں یہ کام جلدی میں ہو سکتے ہیں، ہر تاریخ پر اگلی تاریخ بتا کر کہہ دیتے ہیں "آر یا پار"، تیزی میں یہ کام نہیں ہوتے، اب شاید انہیں بھی سمجھ آرہی ہے یہ بات۔

ووٹ کاونٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے باغی ارکان اپنی پارٹی یا وزیراعلی اور وزیراعظم کے خلاف ووٹ ڈالتے ہیں تو ووٹ کاونٹ تو ہو گا لیکن اس کے بعد وہ پارٹی کا رکن نہیں رہے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے قبل ایسا ہوتا تھا کہ اگر کوئی دو، چار لوگ مل کر فارورڈ بلاک بناتے ہیں اور پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالتے ہیں تو ان کا ووٹ صفر کاونٹ ہوتا تھا، کیونکہ ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی کا تعین کیا جاتا ہے۔

https://twitter.com/x/status/1496141896820928518
انہوں نے میں حال ہی میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ذرائع سے خبریں چلانا اس لئے بھی غلط ہے کہ اکثر خبریں باقاعدہ غیر معتبر ذرائع سے آتی ہیں، لوگ ان غیر معتبر خبروں کو کسی کے خلاف سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، تو اس سب کو روکنے کے لئے کوئی قانون تو چاہیئے ہی تھا ،

جیسے کہ جج ارشد ملک کے کیس میں تھا، سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے ان آڈیو کلپس کا استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔واضح رہے کہ اتوار کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے، جس کے تحت شخص کی تعریف کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔

https://twitter.com/x/status/1496142654106705929
نئی ترامیم کے مطابق اب ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید تین سے بڑھا کر پانچ سال تک کر دی گئی ہے۔اس صدارتی آرڈیننس کے مطابق شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہو گا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے جو ناقابل ضمانت ہو گا۔

ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ چھ ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی۔

آرڈیننس کے مطابق وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔
 

Resilient

Minister (2k+ posts)
اپوزیشن کی مرضی ہے جہاں سے مرضی شروع کرلے یہ ماما لگتا ہے؟؟

ویسے اگر مرکز میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی صوبوں میں اس کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ، پنجاب، بلوچستان کے ایم پی ایز کو معلوم ہے کیا کرنا ہے