عرفان صدیقی کا ناقابل اشاعت کالم: کچھ اہل دانش کی مختصر آرا

Goldfinger

MPA (400+ posts)

irfan-siddiqui-390x205.jpg


عرفان صدیقی کا ناقابل اشاعت کالم: کچھ اہل دانش کی مختصر آرا

ataul-haq-qasmi-300x214.jpg

حقیقت پر مبنی ہر تحریر ناقابل اشاعت ہےآپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا “سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے”۔

(عطا الحق قاسمی)
arif-nizami-300x188.jpg

اس تحریر کی اشاعت روکنے کی کوئی جائز وجہ نظر نہیں آتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیلف سنسر شپ کی کارفرمائی ہے۔
(عارف نظامی)


irshad-ahmad-arif-300x182.jpg




میری ناقص رائے میں کوئی قابل اعتراض جملہ اور لفظ نہیں جس کو ناقابل اشاعت قرار دیا جائے

(ارشاد احمد عارف)

nusrat-javed-246x300.jpg


دیانت داری سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے اس میں کچھ قابل اعتراض معلوم نہیں ہوا۔ یہ میری معروضی رائے ہے۔ اس کا ہمارے ذاتی تعلق اور باہم احترام سے کوئی تعلق نہیں۔


(نصرت جاوید)

hamid-mir-660x371.jpg


معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپکے اس کالم میں نہیں بلکہ آپ کے اندر ایک بہت بڑی کمزوری تھی۔ یہ دراصل آپکے ادراک کی کمزوری تھی اور وہ یہ کہ آپ نے یہ کالم لکھ کر ایسے اخبارات کو بھیجا جو صحافت نہیں، صرف کاروبار کر رہے ہیں۔ اچھی صحافت اچھا کاروبار بن سکتا ہے لیکن جب کاروبار بچانے کے لئے صحافت کی جائے تو پھر وہ صحافت نہیں رہتی افسوس آپ کو یہ بات سمجھ نہیں آئی لیکن آخرکار آپکا کالم ہم تک پہنچ ہی گیا۔ اور ان کے ذریعہ پہنچا جو کاروبار نہیں، صرف صحافت کر رہے ہیں

(حامد میر)



murtaza-solangi-300x197.jpg

جناب ماورائے آئین طاقتیں ماضی کے واقعات کا ذکر بھی عوام سے چھپانا چاہتی ہیں کیونکہ مستقبل میں اسی طرح کا کام کرنے کے عزائم ادارتی طور پر موجود رہتے ہیں۔ اسی لیے ان موضوعات پر تقریر اور تحریر شجر ممنوعہ ہے۔

(مرتضی سولنگی)




aniq-naji-300x257.jpeg

اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین۔ مسئلہ اس تحریر کا نہیں اس سے کہیں زیادہ تلخ باتیں چھپتی ہیں۔ مسئلہ آپ کے نام کا ہے۔ آپ کا نام کے ساتھ زیادہ حساسیت آ جاتی ہے۔ اگر کثیر الاشاعت اخبار آپ سے معذرت کر گیا تو اندازہ لگا لیں۔ بہت سے اخباری مالکان تو اب کاروباری شخصیات ہیں اگر ہم یہ سمجھیں کہ وہ صحافت کی خدمت کرنے نکلے ہیں یا تاریخ درست کرنے نکلے ہیں تو یہ ہماری سادگی ہو گی۔



ویسے نہ چھاپ کر یہ کالم کہیں زیادہ پڑھا گیا لہذا ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ آپ غور کریں کہ مریم بی بی کو میاں صاحب نے سارا زور کر بھی زیادہ سے زیادہ منظر عام پر جگہ ہی دلوائی تھی، ریاستی اہل کاروں اور عمران خان نے تین سال سے کم عرصے میں مریم نواز کو پاکستان کی سب سے بڑی لیڈر بنا دیا اور اس مقام پر لے گئے کہ اب اسے کوئی سیاست میں چیلنج نہیں کر سکتا۔

(انیق ناجی)

amna-mufti-4b2-300x173.jpg


میں نے عرفان صدیقی صاحب کے زیر بحث کالم کو دو تین بار پڑھا۔ مجھے اس میں کوئی بات بھی ناقابل اشاعت نہیں لگی۔ جتنا میں اپنے پریس لاز کو جانتی ہوں مجھے اس کالم کا کوئی نقطہ یا جملہ پریس کے مروجہ قوانین یا ضا بطوںسے متصادم نظر نہیں آتا۔ اگر صحافتی اقدار کی بات کریں، تو بھی اس کالم میں کوئی شے قابل اعتراض نہیں۔ سو میری رائے میں یہ کالم کسی بھی پہلو سے ناقابل اشاعت نہیں ہے۔ اس کے برعکس مجھے تو یہ لگتا ہے کہ اسے نہ چھاپنے سے عوام کے جاننے کا حق مجروح ہوا ہے۔ اگر یہ کالم شائع کر بھی دیا جاتا تو کوئی خاص فرق نہ پڑتا کیوں کہ طاقت کے ایوانوں میں ہونے والی اس رسہ کشی سے سبھی واقف ہیں۔

لیکن ہماری تاریخ کا ” نازک موڑ” ایک ہی مقام پر رکا ہوا ہے۔ جیسے وقت ٹھہر گیا ہو۔ یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ جیسا کہ میں نے اپنی رائے بتا دی ہے کہ میرے خیال میں کوئی قابل گرفت لفظ بھی استعمال نہیں ہوا نہ ہی کوئی قومی راز فاش کیا گیا ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ ایڈیٹر صاحب موجودہ حالات کے تناظر میں اپنے ادارے کو مشکلات سے بچانے کے لئے یہ کالم چھاپنے سے گریز کر رہے ہوں۔ ایڈیٹر کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلہ کرنا کچھ اور ہوتا ہے اور گھر کے پر سکون ماحول میں بیٹھ کر اصولی رائے دینا کچھ اور۔


(آمنہ مفتی)

farooq-adil-300x198.jpg


آپ نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ آپ کی ایک ایسی تحریر اخبار میں جگہ کیوں نہ پا سکی جس میں ایک تاریخی واقعے کا ذکر تھا اور اس میں چند ریٹائر افسروں کے نام آتے تھے۔ یوں یہ سوال اس معاشرے میں کچھ ایسا اجنبی نہیں کہ یہ قوم دہائیوں سے اسی قسم کے تجربات سے گزر رہی ہے لیکن زمانہ حال، لگتا ہے کہ ماضی پر بازی لے گیا ہے۔ یہ بازی کیسے ماری گئی ہے، اس کے ذکر سے قبل بہتر ہو کہ ایران کے تجربے کو سمجھ لیا جائے۔



ادیب اکبر مخدومی مختار مسعود نے لکھا ہے کہ جن دنوں شہنشاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی، اول اول اشرافیہ انقلاب کی خبروں سے صرف نظر کرتی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان لوگوں کی دلچسپی خبروں میں پیدا ہو گئی لیکن گفتگو میں حصہ لینے سے گریز کرتے۔ بعد کے زمانے میں ان موقع شناس لوگوں نے حالات کا رخ بھانپ لیا اور اس موضوع پر بڑھ چڑھ کر تبصرے کرنے لگے۔



اس تجربے کی روشنی میں آپ کے اٹھائے ہوئے سوال کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ یہ قوم بہت سے رازوں سے آگاہ ہے اور ان کا تجزیہ کر کے اپنے لیے لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس قومی سرگرمی میں ذرائع ابلاغ کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ خود احتسابی یا خود شناسی کا یہ زمانہ گزر جانے کے بعد جب فرزندان وطن مختلف طبقات کی فرد عمل کا جائزہ لینے کے بعد انھیں جزا و سزا دینے کا فیصلہ کریں گے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس طبقے کے ساتھ ویسا ہی سلوک نہ ہو جیسا انقلاب ایران کے بعد انقلاب کے مخالفین یا مصلحت کوش طبقات کے ساتھ کیا گیا تھا۔


(فاروق عادل)


Khalid_Masood_Khan-300x300.png


بڑی سیدھی بات ہے۔ اس کالم میں چار فوجی جرنیلوں کے نام ہیں۔ کالم شائع کرنے میں بھلا اور کیا چیز مانع ہو گی؟



جہاں اخبار فردوس عاشق اعوان اور فیصل واؤڈا کے خلاف لکھے جانے والے کالموں سے ان دو افراد کے نام نکال دیتے ہوں وہاں جرنیلوں کا نام چھاپنے کی جرآت کون کرتا ہے؟

خالد مسعود (کالم نگار)

bilal-ghauri-2-293x300.jpg


آپ کے کالم سے آئین شکن جرنیلوں کی شان میں گستاخی کا تاثر ملتا ہے۔ اگرچہ جن جرنیلوں کا آپ نے ذکر کیا ،وہ قصہ پارینہ ہوچکے مگر ان کا ذکر کرنے سے عہد حاضر کے “پرویز مشرف“ اور“جنرل محمود“ کے افعال کی طرف دھیان جا سکتا ہے۔ کیا یہی وجہ کافی نہیں ؟


(بلال غوری)

amir-hashim-khakwani-300x201.jpg


آپ کا یہ کالم صحافتی اعتبار سے تو قابل اشاعت ہے. ظاہر ہے اس میں کوئی بات تاریخی اعتبار سے غلط، توہین آمیز یا حساس نہیں ہے۔ البتہ آپ جانتے ہیں کہ آج کل کے حالات میں کوئی اخبار اسے چھاپنے کا رسک نہیں لے گا. ہر کوئی زیر عتاب آنے سے ڈرتا ہے۔ یہ ہمارے میڈیا کا المیہ ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ ابھی ایسی تحریریں سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائٹس پر شائع ہو جاتی ہیں، مجھے تو خطرہ ہے کہ یہ آزادی بھی جلد سلب ہوجائے گی

(عامر خاکوانی)

lubna-zaheer-2-300x211.jpg


صحافت اور ابلاغیات کے شعبہ تدریس سے منسلک ہونے کے سبب میں خود کو صحافت کی ایک طالب علم خیال کرتی ہوں۔ آپ کی ویب سائٹ پر شروع ہونے والا قومی مباحثہ ہمارے طلباء و طالبات میں بھی موضوع بنا ہوا ہے۔ میں نے عرفان صدیقی صاحب کا کالم ایک سے زیادہ بار پڑھا۔ جامعہ کے طالب علموں کے ایک گروپ میں بھی اس پر خاصی بحث ہوئی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کالم میں کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں جسے ناقابل اشاعت قرار دیا جائے۔ یہ تقاضا تو بالکل ہی مضحکہ خیز لگتا ہے کہ بیس سال پہلے کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ان کرداروں کے نام نہ لئے جائیں، جنہوں نے صدر محمد رفیق تارڑ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔



اگر ہم اپنی نئی نسل کو اپنی تاریخ سے اتنا ہی نا بلد رکھنا چاہتے ہیں تو اس قوم کا کیا بنے گا؟ عرفان صدیقی صاحب خوبصورت ادبی زبان لکھنے والے کالم نگار ہیں۔ وہ اپنی بات کو بڑے سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔ کم از کم تین دہائیوں کا تجربہ رکھنے والا شخص بھی اگر اس طرح کے سنسر کی زد میں آتا ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔



آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس مسئلے کو ایک قومی ایشو بنا کر مباحثے کا پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے۔ ابلاغیات کے شعبے سے تعلق ہونے کے باعث میں سنجیدگی سے سوچتی ہوں کہ کیا اب اپنی تاریخ کا تذکرہ بھی جرم ٹھہرا ہے؟ کیا اب ہماری زمین اتنی ہی بنجر ہو گئی ہے کہ اس میں سچائی کا کوئی بیج پھوٹ ہی نہیں سکتا؟ میں اسے سیاست سے بالکل ہٹ کر ایک قومی المیہ خیال کرتی ہوں۔ اس المیے کا ایک سبب وہ خوف ہے جو ہمارے ذہنوں اور دلوں میں بٹھا دیا گیا ہے۔



اچھے خاصے جمہوری سوچ رکھنے والے بھی، سچ بات کہنے کا وقت آئے تو منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ تاہم عرفان صدیقی صاحب کے ناقابل اشاعت کالم نے بیداری کی زبردست لہر اٹھائی ہے۔ اس سے واضح ہو گیا ہے کہ سچ لکھنے کی جسارت کرنے والے اب اخبارات کے محتاج نہیں رہے۔ انہیں ہزاروں لاکھوں قارئین میسر آ گئے ہیں۔ براہ کرام آپ اپنے مقبول پلیٹ فارم کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رکھیے۔


(ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر)



SOURCE




















 
Last edited by a moderator:

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)

فیض احمد فیض نے ایک نظم لکھی تھی ۔ پچھلے 40 سالوں میں پاکستان میں کچھ نہیں بدلا۔

میرے دل ، میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ھم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئ پائیں
کسی یار نامہ بر کا​
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
جناب جب مشرف نے افتخار چودھری کو غیر آئینی طریقے سے فارغ کیا تو افتخار چودھری نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جگہ جگہ ایوان صدر جانے اور پانچ جرنیلوں کے سامنے استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے واقعات دھراتا رہا۔ اس وقت سب جرنیل مشرف سمیت حاضر سروس تھے، لیکن اس وقت تو ہر اخبار یا چینل اس واقعے کی رپورٹنگ جرنیلوں کے نام لے لے کر کر رہا تھا۔ اسی طرح اس وقت بھی تمام اخبارات کھل کر نواز شریف بیانات جو وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دیتے ہیں ناموں سمیت اخبارات کی زینت بنتے ہیں تو پھر ان کی عرفان صدیقی سے کیا دشمنی ہے؟

مجھے لگتا ہے یہ ایسا دور ہے جس میں جو مشہور ہونا چاہتا ہے وہ کہہ دیتا ہے کہ فوج میرے خلاف ہے اور اس طرح وہ تما خونی لبرلز، سُرخوں ، پنڈی سے لاہور کے درمیان سفر کے دوران انقلابی بن جانے والوں اور لفافہ صحافیوں کا ہیرو بن جاتا ہے۔
 

pinionated

Minister (2k+ posts)
This is all done to be relevant and in press. Otherwise who gives a fuc& about them… same strategy was used by Hamid Mir
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
جب مشرف نے گنجے کو لات مار کر نکالا تھا تو عرفان صدیقی اور رفیق تاڑ ڑ کیوں نوکریوں سے چمٹے رہے ان کو بھی آئین کی حکمرانی کے لئے استعفے دے دینا چاہئیے تھے اگر یہ استعفے دے دیتے تو آج یہ کالم لکھنا بالکل جائز تھا ہم بھی اسکی تائید کرتے مگر یہ تو خود مشرف کی چیف اگزیکٹیوٹی میں اس کے جوتے چاٹتا رہا ہے اور آج اسے برا کہہ رہا ہے اور منافقت کسے کہتے ہیں