انگریزی تحریر : عمران خان کو کیوں فوراً ہٹایا گیا ہے؟
مصنفہ: جسٹس ناصرہ جاوید اقبال (بہو علامہ محمد اقبال)
اردو ترجمہ: احمد عزیر
میں آپ کو بتاؤں گی کہ عمران خان نے ایسا کیا جُرم کیا کہ امریکہ کو اُسے فوراً اسکے عہدے سے ہٹانا پڑا اور اگر امریکہ ایسا نہ کرتا تو اسے کس قسم کے نقصانات اٹھانے پڑ سکتے تھے۔اس کو سمجھنے کے لیے پہلے دو تصورات کا احاطہ کرتے ہیں۔
1) پیٹرو ڈالر کیا ہے؟ یہ 1974 میں شاہ فیصل اور صدر نکسن کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودی عرب ذمہ داری یہ تھی کہ اوپیک کے تمام ممالک کو تیل امریکی ڈالر میں فروخت کرنے پر راضی کرے اور کوئی دوسری کرنسی یا سونا قبول نہ کرے۔ فروخت سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی امریکی بینکوں یا فیڈرل ریزرو میں جمع کی جائے گی جس سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کو تیل خریدنے کے لیے پہلے ڈالر خریدنا پڑتا ہے اور یہ انتظام ڈالر کو مضبوط رکھتا بدلے میں سعودی کرنسی ایک ڈالر = 3.75 ریال مقرر کی گئی تھی، سعودی معیشت کی حالت جیسی بھی ہو امریکی ڈالر اور ریال کی شرح یہی رہے گی اور یہی وجہ ہے کہ آج 48 سال بعد ہی ایک ڈالر , تین اعشاریہ پچھتر ریال کے برابر ہے۔ دوسرا امریکہ نے گارنٹی دی کہ آل سعود اقتدار میں رہے گا، حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ امریکہ کی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا تھی کہ اوپیک ممالک میں سے کوئی بھی اس معاہدے سے کسی صورت بھی باہر نہ نکلے۔ عراق اور لیبیا نے بغاوت کی اور ہم سب جانتے ہیں ان کی حالت کیا ہوئی۔
2) 1953 میں ہندوستان اور سوویت یونین (روس) کے درمیان ہندوستانی روپیہ-روبل تجارت کا معاہدہ ہوا۔ جس کے تحت روس سے ہندوستانی خریداری کے لیے وہ ہندوستانی روپے میں ادائیگی کریں گے۔ اس سے ہندوستانی روپے کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہےگا اور کرنسی مضبوط رہےگی- دوئم ہندوستان سے روسی خریداری کے لیے روسی روبل میں ادائیگی کریں گے۔ اس سے روبل کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور کرنسی مضبوط رہتی ہے
ایک ہندوستانی بینک روس میں ایک شاخ کھولےگا اور روس کا ایک بینک تجارت کی سہولت کیلئے ہندوستان میں ایک شاخ کھولےگا- براہ کرم نوٹ کریں، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ معاہدہ 1953 میں ہوا تھا جو 1974 میں پیٹرو ڈالر کے معاہدے سے پہلے ہوا تھا۔
عمران خان پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے جنہوں نے 2019 میں پاکستانی روپے اور چینی یوآن میں لین دین کا چین سے معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں سیمی کنڈکٹر، ٹرانسفارمرز، نشریاتی آلات اور الیکٹرونکس آلات شامل تھے۔ اگرچہ امریکہ اس سے خوش نہیں تھا، لیکن وہ چپ رہا کیونکہ اس میں تیل کا لین دین شامل نہیں تھا۔ عمران خان نے 2022 میں تیل کے لیے پاکستانی روپے اور روسی روبل کا معاہدہ کرنے کے بالکل قریب تھا۔
یاد رکھیں پیٹرو ڈالر کا معاہدہ 1974 کا ہے۔ اور امریکہ پاکستان کے اس معاہدے کو کبھی قبول نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اگر دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کرتے ہیں تو ڈالر کمزور ہو جائے گا اور امریکی معیشت میں گراوٹ آجائے گی اور وہ مزید سپر پاور نہیں رہے گا۔ اگر عمران خان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو اگلے الیکشن ہارنے کی قیمت پر بھی پاکستان امریکی غلامی سے نکل آتا اسی لئے امریکہ کو اسے فوری طور پر ہٹانا پڑا۔ اس کے علاوہ امریکہ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ عمران خان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ جنت میں صدام حسین اور معمر قذافی کے ساتھ نہیں بیٹھا ہے امریکہ نے اسے زندہ رہنے کا دوسرا موقع دیا ہے۔ اگر عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوتا ہے اور اپنی دوسری مدت میں وہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو روپے کی یہ مسلسل قدر میں کمی (1 ڈالر = 180روپے) رک جائے گی، پاکستان آئ ایم ایف کو ادائیگی کرنا شروع کر دے گا اور تبادلوں کی شرح بحال ہو جائے گی اور پاکستان دو سے 3سال میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکے گا۔
مصنفہ: جسٹس ناصرہ جاوید اقبال (بہو علامہ محمد اقبال)
اردو ترجمہ: احمد عزیر
میں آپ کو بتاؤں گی کہ عمران خان نے ایسا کیا جُرم کیا کہ امریکہ کو اُسے فوراً اسکے عہدے سے ہٹانا پڑا اور اگر امریکہ ایسا نہ کرتا تو اسے کس قسم کے نقصانات اٹھانے پڑ سکتے تھے۔اس کو سمجھنے کے لیے پہلے دو تصورات کا احاطہ کرتے ہیں۔
1) پیٹرو ڈالر کیا ہے؟ یہ 1974 میں شاہ فیصل اور صدر نکسن کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودی عرب ذمہ داری یہ تھی کہ اوپیک کے تمام ممالک کو تیل امریکی ڈالر میں فروخت کرنے پر راضی کرے اور کوئی دوسری کرنسی یا سونا قبول نہ کرے۔ فروخت سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی امریکی بینکوں یا فیڈرل ریزرو میں جمع کی جائے گی جس سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کو تیل خریدنے کے لیے پہلے ڈالر خریدنا پڑتا ہے اور یہ انتظام ڈالر کو مضبوط رکھتا بدلے میں سعودی کرنسی ایک ڈالر = 3.75 ریال مقرر کی گئی تھی، سعودی معیشت کی حالت جیسی بھی ہو امریکی ڈالر اور ریال کی شرح یہی رہے گی اور یہی وجہ ہے کہ آج 48 سال بعد ہی ایک ڈالر , تین اعشاریہ پچھتر ریال کے برابر ہے۔ دوسرا امریکہ نے گارنٹی دی کہ آل سعود اقتدار میں رہے گا، حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ امریکہ کی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا تھی کہ اوپیک ممالک میں سے کوئی بھی اس معاہدے سے کسی صورت بھی باہر نہ نکلے۔ عراق اور لیبیا نے بغاوت کی اور ہم سب جانتے ہیں ان کی حالت کیا ہوئی۔
2) 1953 میں ہندوستان اور سوویت یونین (روس) کے درمیان ہندوستانی روپیہ-روبل تجارت کا معاہدہ ہوا۔ جس کے تحت روس سے ہندوستانی خریداری کے لیے وہ ہندوستانی روپے میں ادائیگی کریں گے۔ اس سے ہندوستانی روپے کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہےگا اور کرنسی مضبوط رہےگی- دوئم ہندوستان سے روسی خریداری کے لیے روسی روبل میں ادائیگی کریں گے۔ اس سے روبل کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور کرنسی مضبوط رہتی ہے
ایک ہندوستانی بینک روس میں ایک شاخ کھولےگا اور روس کا ایک بینک تجارت کی سہولت کیلئے ہندوستان میں ایک شاخ کھولےگا- براہ کرم نوٹ کریں، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ معاہدہ 1953 میں ہوا تھا جو 1974 میں پیٹرو ڈالر کے معاہدے سے پہلے ہوا تھا۔
عمران خان پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے جنہوں نے 2019 میں پاکستانی روپے اور چینی یوآن میں لین دین کا چین سے معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں سیمی کنڈکٹر، ٹرانسفارمرز، نشریاتی آلات اور الیکٹرونکس آلات شامل تھے۔ اگرچہ امریکہ اس سے خوش نہیں تھا، لیکن وہ چپ رہا کیونکہ اس میں تیل کا لین دین شامل نہیں تھا۔ عمران خان نے 2022 میں تیل کے لیے پاکستانی روپے اور روسی روبل کا معاہدہ کرنے کے بالکل قریب تھا۔
یاد رکھیں پیٹرو ڈالر کا معاہدہ 1974 کا ہے۔ اور امریکہ پاکستان کے اس معاہدے کو کبھی قبول نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اگر دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کرتے ہیں تو ڈالر کمزور ہو جائے گا اور امریکی معیشت میں گراوٹ آجائے گی اور وہ مزید سپر پاور نہیں رہے گا۔ اگر عمران خان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو اگلے الیکشن ہارنے کی قیمت پر بھی پاکستان امریکی غلامی سے نکل آتا اسی لئے امریکہ کو اسے فوری طور پر ہٹانا پڑا۔ اس کے علاوہ امریکہ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ عمران خان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ جنت میں صدام حسین اور معمر قذافی کے ساتھ نہیں بیٹھا ہے امریکہ نے اسے زندہ رہنے کا دوسرا موقع دیا ہے۔ اگر عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوتا ہے اور اپنی دوسری مدت میں وہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو روپے کی یہ مسلسل قدر میں کمی (1 ڈالر = 180روپے) رک جائے گی، پاکستان آئ ایم ایف کو ادائیگی کرنا شروع کر دے گا اور تبادلوں کی شرح بحال ہو جائے گی اور پاکستان دو سے 3سال میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکے گا۔
**********ہ********