مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم نے آج کے زمانے میں بھی عورت کو مرد کے مقابلے میں کم تر درجے پر کیوں رکھا ہوا ہے؟ وہ زمانہ کب کا گزر گیا جب انسانوں کی اہلیت ان کی جسمانی قوت کے معیار سے طے کی جاتی تھی، اب تو ذہنی استعداد کا زمانہ ہے ۔ جدید دنیا میں عورت ہرشعبے میں فرائض سرانجام دے رہی ہے اور کہیں سے بھی نہیں لگتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح مرد سے کم تر ہے۔ پھر ہم نے کیوں قسم کھا رکھی ہے کہ ہم نے پرانے فرسودہ زمانوں کی سوچ کو ہی اپنے معاشرے پر مسلط رکھنا ہے۔ ہم نے کیوں عورت کے پر کاٹنے کا تہیہ کررکھا ہے۔
جس زمانے میں اسلام نے وراثت سے عورت کا حصہ مرد سے آدھا کیا تھا، اس زمانے میں تو چلو یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاشی طور پر زیادہ تر ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی تھی، مگر اب تو پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں بھی عورتوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے کندھوں پر گھر کی مالی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نے عورت کو اس کے جائز ترین حق سے محروم کرکھا ہے۔ آج کے زمانے میں زیادہ تر گھرانوں میں بیٹے اور بیٹی میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا، پھر وراثت کے معاملے میں ہم کیوں بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دیتے ہیں اور بیٹی کو اس کے جائز حق سے آدھا حق دیا جاتا ہے۔ یہ کس قدر نا انصافی ہے۔
کچھ بنیاد پرست قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو اسلام کا حکم ہے ہم اس کو کیسے بدل سکتے ہیں، ایسے لوگوں سے میرا سوال ہے کہ اسلام میں تو غلام اور لونڈی رکھنا بھی جائز ہے اور لونڈی کے ساتھ بغیر نکاح کے ہمبستری کرنا بھی بالکل جائز ہے، مگر آج کے زمانے میں کیا آپ غلام یا لونڈی رکھنے کا تصور کرسکتے ہیں؟ نہیں کرسکتے، کیونکہ آج کا زمانہ اس چودہ سو سال پرانے زمانے سے قطعی مختلف ہے، اس لئے آپ اسلام میں اجازت ہونے کے باوجود غلام اور لونڈی نہیں رکھ سکتے۔۔ اسی طرح وراثت کایہ اسلامی قانون بھی آج کے زمانے میں کالعدم قرار پانا چاہئے ، کیونکہ یہ نہ صرف صنفی امتیاز کی علامت ہے بلکہ واضح نا انصافی ہے۔
رحمان ملک نے کچھ عرصہ پہلے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی تھی کہ عورت کو وراثت میں مرد کے برابر حصہ دینے کیلئے قانون سازی ہونی چاہئے، مگر اسلامی شدت پسندوں کے ڈر سے کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس معاملے پر کوئی پیش رفت کرتا۔۔ میری رائے میں اب ہمیں پرانے زمانوں کی روایات کو چھوڑ کر دورِ جدید سے ہم آہنگ ہوکر چلنا چاہئے۔ عورت کو وراثت میں مرد کے برابر حصہ ملنے پر ہمارے معاشرے کی عورت مضبوط ہوگی۔ بے شمار عورتیں ہیں جو اپنے گھر کا خرچہ خود اٹھا رہی ہیں، ان کی آمدن کم ہے، مگر وہ تنگی ترشی میں گزارا کررہی ہیں، جب وراثت کے بٹوارے کا وقت آتا ہے تومرد تو مزے سے اپنا حصہ وصول لیتے ہیں اور عورت خالی ہاتھ رہ جاتی ہے، کیونکہ اسے آدھا ادھورا حصہ ملنا ہوتا ہے، اس لئے بیشتر اوقات فیملی پریشر میں وہ اپنے آدھے حصے سے بھی دستبردار ہوجاتی ہیں، اگر عورت کو مرد کے برابر حصہ دینے کا قانون بنا دیا جائے تو یہ مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا کیونکہ پھر عورتیں بھی اپنا حصہ چھوڑنے پر آسانی سے رضا مند نہ ہوں گی۔۔
جس زمانے میں اسلام نے وراثت سے عورت کا حصہ مرد سے آدھا کیا تھا، اس زمانے میں تو چلو یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاشی طور پر زیادہ تر ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی تھی، مگر اب تو پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں بھی عورتوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے کندھوں پر گھر کی مالی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نے عورت کو اس کے جائز ترین حق سے محروم کرکھا ہے۔ آج کے زمانے میں زیادہ تر گھرانوں میں بیٹے اور بیٹی میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا، پھر وراثت کے معاملے میں ہم کیوں بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دیتے ہیں اور بیٹی کو اس کے جائز حق سے آدھا حق دیا جاتا ہے۔ یہ کس قدر نا انصافی ہے۔
کچھ بنیاد پرست قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو اسلام کا حکم ہے ہم اس کو کیسے بدل سکتے ہیں، ایسے لوگوں سے میرا سوال ہے کہ اسلام میں تو غلام اور لونڈی رکھنا بھی جائز ہے اور لونڈی کے ساتھ بغیر نکاح کے ہمبستری کرنا بھی بالکل جائز ہے، مگر آج کے زمانے میں کیا آپ غلام یا لونڈی رکھنے کا تصور کرسکتے ہیں؟ نہیں کرسکتے، کیونکہ آج کا زمانہ اس چودہ سو سال پرانے زمانے سے قطعی مختلف ہے، اس لئے آپ اسلام میں اجازت ہونے کے باوجود غلام اور لونڈی نہیں رکھ سکتے۔۔ اسی طرح وراثت کایہ اسلامی قانون بھی آج کے زمانے میں کالعدم قرار پانا چاہئے ، کیونکہ یہ نہ صرف صنفی امتیاز کی علامت ہے بلکہ واضح نا انصافی ہے۔
رحمان ملک نے کچھ عرصہ پہلے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی تھی کہ عورت کو وراثت میں مرد کے برابر حصہ دینے کیلئے قانون سازی ہونی چاہئے، مگر اسلامی شدت پسندوں کے ڈر سے کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس معاملے پر کوئی پیش رفت کرتا۔۔ میری رائے میں اب ہمیں پرانے زمانوں کی روایات کو چھوڑ کر دورِ جدید سے ہم آہنگ ہوکر چلنا چاہئے۔ عورت کو وراثت میں مرد کے برابر حصہ ملنے پر ہمارے معاشرے کی عورت مضبوط ہوگی۔ بے شمار عورتیں ہیں جو اپنے گھر کا خرچہ خود اٹھا رہی ہیں، ان کی آمدن کم ہے، مگر وہ تنگی ترشی میں گزارا کررہی ہیں، جب وراثت کے بٹوارے کا وقت آتا ہے تومرد تو مزے سے اپنا حصہ وصول لیتے ہیں اور عورت خالی ہاتھ رہ جاتی ہے، کیونکہ اسے آدھا ادھورا حصہ ملنا ہوتا ہے، اس لئے بیشتر اوقات فیملی پریشر میں وہ اپنے آدھے حصے سے بھی دستبردار ہوجاتی ہیں، اگر عورت کو مرد کے برابر حصہ دینے کا قانون بنا دیا جائے تو یہ مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا کیونکہ پھر عورتیں بھی اپنا حصہ چھوڑنے پر آسانی سے رضا مند نہ ہوں گی۔۔