فہدحسین نفرت اورمایوسی کی پٹی اتار کر غیرجانبداری کامظاہرہ کریں،شیریں مزاری

7shireemazarticle.jpg

ایس ایم مزاری

میڈیا کیلئے ایڈیٹوریل اور کالم نویسی کرنے والے کی اپنی ذاتی رائے اور نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ ذاتی رائے کا اظہار ہر فرد کا بنیادی حق ہے مگر رائے قائم کرتے ہوئے حقائق کو ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ تاہم، اگر آپ ایک اخبار میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں جسکا دعویٰ ہے کہ اسکا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تو ایسے اخبار کے ملازمین کے کالم اور ایڈیٹوریل میں حقائق اور دانش کی کم از کم کچھ جھلک ہونا بہت ضروری ہے۔

مگر فہد حسین خود کو ان تمام معیارات سے مبرا سمجھتے ہیں لہذٰا وہ انتہائی متکبرانہ انداز میں اپنی منشا کے مطابق جو چاہے لکھ سکتے ہیں۔ انکے نزدیک پاکستان ایک جاگیر ہے جسکے مختلف حصے کرپٹ مافیاز کی ذاتی ملکیت ہیں۔ جسکی بنا پر وہ اپنے کالم میں سینٹرل پنجاب کو "شریفوں کی جاگیر کے دل" سے تعبیر کرتے ہیں۔

واقعی؟ کیا شریفوں نے اپنی لوٹی ہوئی دولت سے پنجاب کا ایک مخصوص علاقہ خرید رکھا ہے؟

یقیناً منڈی بہاؤالدین جلسے کے حجم کے باعث شدید صدمے سے دوچار فہد حسین کا لکھتے وقت عقل و دانش کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ویسے یاددہانی کے طور پر فہد حسین وہی شخصیت ہیں جنہیں مسلسل لابنگ کے باوجود پی ٹی وی ایم ڈی کا عہدہ حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ ظاہر ہے ایسے میں انا مجروح ہونے سے بندہ ویسے ہی آپے سے باہر ہو جاتا ہے، جیسا کہ فہد حسین کے ساتھ ہوا۔ مگر ایسے شخص سے اصولوں اور اخلاقیات کی پاسداری کی توقع رکھنا فضول ہے جس نے اس شخص کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہوں جو اسے صحافت میں لایا۔

دراصل انہیں اصل تکلیف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت عوام کو مسلم لیگ ن کی کرپشن اور قرضوں کے انبار کیوں یاد دلاتی رہتی ہے جبکہ وہ خود مصائب سے پُر ماضی کے بوجھ تلے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے مسلسل کوشاں ہے۔ موصوف ہیلتھ کارڈ اور احساس پروگرام سمیت رفاہِ عامہ کے دیگر بہت سے منصوبوں کو یکسر نظر انداز کیے بیٹھے ہیں۔

اسکے علاوہ پاکستان میں انسانی حقوق کی بہتری خصوصاً کمزور اور محروم طبقے کیلئے بنائے جانے والے ٹھوس قوانین پر بھی مکمل چپ سادھے ہوئے ہیں۔ وہ صدی میں ایک بار پیش آنے والی عالمی وبا کورونا سے درست طور نمٹنے کی پی ٹی آئی حکومت کی عالمی پذیرائی یافتہ پالیسیوں کے بھی معترف نہیں۔

مجال ہے جو موصوف نے کورونا وبا کے باوجود پاکستان کی 5.37 فیصد جی ڈی پی گروتھ پر لب کشائی کی ہو جو کہ ن لیگ نے اپنے اقتدار کے آخری سال میں ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بل بوتے پر حاصل کی۔

حد تو یہ ہے کہ کورونا کے باوجود ریکارڈ برآمدات، ترسیلاتِ زر اور ٹیکس وصولیوں میں اضافے سمیت گندم، گنے، مکئی، اور چاول کی ریکارڈ کاشت بھی جناب صرفِ نظر کر گئے۔ یہ تمام انکے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اوپر سے موصوف پی ٹی آئی سے وضاحت طلب کرتے ہیں کہ آخر اس نے عوام کیلئے کیا ہی کیا ہے اور ووٹر پی ٹی آئی سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔

چونکہ بغض اور مایوسی کے باعث موصوف کو پی ٹی آئی کی متعدد عوام دوست پالیسیاں سرے سے دکھائی ہی نہیں دیتیں لہذٰا یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ عوام بھی اندھی ہے۔ اس ادراک کے بنا کہ اگر پی ٹی آئی ناکام ہوتی ہے تو ووٹر اگلے الیکشن میں اسے خود مسترد کر دے گا!

اسکے برعکس ایک اخبار کے ایڈیٹر، معاف کیجیئے گا محض ریذیڈنٹ ایڈیٹر، کا حکومت کو اپنی ناکامیوں سے چشم پوشی کا بھاشن دینا جہالت کی بدترین مثال ہے۔

پی ٹی آئی نے جب بھی کچھ اچھا کیا یا اپوزیشن کو کوئی بڑا دھچکا لگا تو مایوسی کے عالم میں موصوف کا لہجہ نہایت غمگین ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی موجودگی میں پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں کامیابی کیوں حاصل ہوئی اس پر تو انکی چیخیں دیدنی تھیں۔

پی ٹی آئی کے بغض میں مبتلا فہد حسین یہ دیکھنے میں ناکام ہیں کہ کیسے اپوزیشن پی ٹی آئی کی کامیاب ہوتی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے بیک ڈور سے اقتدار میں آنے کے پَر تول رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو اگلے انتخابات میں بھی پارلیمنٹ کا دروازہ اپنے لیے بند نظر آرہا ہے جیسا کہ اس بار ان کے اپنے ہی ضلع میں بلدیاتی انتخابات میں بدترین شکست سے واضح ہے۔

کوئی اچنبھے کی بات نہیں اگر ایسے میں فہد حسین کو خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی شکستِ فاش بھی دکھائی نہ دے۔ سینٹرل پنجاب کی عوام کا منڈی بہاؤالدین جلسے میں پی ٹی آئی اور وزیر اعظم کیلئے زبردست خیر مقدم اور جوش و خروش فہد حسین کیلئے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

بہرطور انکی ایک بات سے مکمل اتفاق ہے کہ --- نہ یہ وہ کنٹینر ہے، نہ وہ بیانیہ، اور نہ ہی وہ لیڈر! کیونکہ یہ برسرِ اقتدار پی ٹی آئی کا کنٹینر ہے، یہ وہ پی ٹی آئی ہے جسکا بیانیہ سماجی بہبود کے مینڈیٹ کو پورا کرنا ہے، یہ پی ٹی آئی لیڈر وہ ہے جو آج وزیراعظم ہے اور جسکا مقصد عوام کی فلاح ہے نہ کہ لوٹی ہوئی دولت بچانا۔

جی ہاں یہی فرق ہے جو کہ صاف عیاں ہے۔

غالباً فہد کو اب اپنی آنکھوں سے نفرت اور مایوسی کی پٹی اتار کر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ ذاتی عناد کے تابع لکھی جانے والی ان کی بےسروپا تحریروں میں عقل و دانش کی جھلک نظر آسکے۔

فہد حسین نے ڈان اخبار کیلئے "وہی شخص، وہی کنٹینر اور وہی بیانیہ۔ تو تب اور اب میں فرق کیا ہے؟" کے عنوان سے کالم لکھا تھا اور اس کالم میں فہد حسین نے دعوی کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت عوام میں بیانیے کی جنگ ہار چکی ہے۔

https://twitter.com/x/status/1494922233529405441
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
7shireemazarticle.jpg

ایس ایم مزاری

میڈیا کیلئے ایڈیٹوریل اور کالم نویسی کرنے والے کی اپنی ذاتی رائے اور نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ ذاتی رائے کا اظہار ہر فرد کا بنیادی حق ہے مگر رائے قائم کرتے ہوئے حقائق کو ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ تاہم، اگر آپ ایک اخبار میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں جسکا دعویٰ ہے کہ اسکا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تو ایسے اخبار کے ملازمین کے کالم اور ایڈیٹوریل میں حقائق اور دانش کی کم از کم کچھ جھلک ہونا بہت ضروری ہے۔

مگر فہد حسین خود کو ان تمام معیارات سے مبرا سمجھتے ہیں لہذٰا وہ انتہائی متکبرانہ انداز میں اپنی منشا کے مطابق جو چاہے لکھ سکتے ہیں۔ انکے نزدیک پاکستان ایک جاگیر ہے جسکے مختلف حصے کرپٹ مافیاز کی ذاتی ملکیت ہیں۔ جسکی بنا پر وہ اپنے کالم میں سینٹرل پنجاب کو "شریفوں کی جاگیر کے دل" سے تعبیر کرتے ہیں۔

واقعی؟ کیا شریفوں نے اپنی لوٹی ہوئی دولت سے پنجاب کا ایک مخصوص علاقہ خرید رکھا ہے؟

یقیناً منڈی بہاؤالدین جلسے کے حجم کے باعث شدید صدمے سے دوچار فہد حسین کا لکھتے وقت عقل و دانش کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ویسے یاددہانی کے طور پر فہد حسین وہی شخصیت ہیں جنہیں مسلسل لابنگ کے باوجود پی ٹی وی ایم ڈی کا عہدہ حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ ظاہر ہے ایسے میں انا مجروح ہونے سے بندہ ویسے ہی آپے سے باہر ہو جاتا ہے، جیسا کہ فہد حسین کے ساتھ ہوا۔ مگر ایسے شخص سے اصولوں اور اخلاقیات کی پاسداری کی توقع رکھنا فضول ہے جس نے اس شخص کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہوں جو اسے صحافت میں لایا۔

دراصل انہیں اصل تکلیف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت عوام کو مسلم لیگ ن کی کرپشن اور قرضوں کے انبار کیوں یاد دلاتی رہتی ہے جبکہ وہ خود مصائب سے پُر ماضی کے بوجھ تلے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے مسلسل کوشاں ہے۔ موصوف ہیلتھ کارڈ اور احساس پروگرام سمیت رفاہِ عامہ کے دیگر بہت سے منصوبوں کو یکسر نظر انداز کیے بیٹھے ہیں۔

اسکے علاوہ پاکستان میں انسانی حقوق کی بہتری خصوصاً کمزور اور محروم طبقے کیلئے بنائے جانے والے ٹھوس قوانین پر بھی مکمل چپ سادھے ہوئے ہیں۔ وہ صدی میں ایک بار پیش آنے والی عالمی وبا کورونا سے درست طور نمٹنے کی پی ٹی آئی حکومت کی عالمی پذیرائی یافتہ پالیسیوں کے بھی معترف نہیں۔

مجال ہے جو موصوف نے کورونا وبا کے باوجود پاکستان کی 5.37 فیصد جی ڈی پی گروتھ پر لب کشائی کی ہو جو کہ ن لیگ نے اپنے اقتدار کے آخری سال میں ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بل بوتے پر حاصل کی۔

حد تو یہ ہے کہ کورونا کے باوجود ریکارڈ برآمدات، ترسیلاتِ زر اور ٹیکس وصولیوں میں اضافے سمیت گندم، گنے، مکئی، اور چاول کی ریکارڈ کاشت بھی جناب صرفِ نظر کر گئے۔ یہ تمام انکے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اوپر سے موصوف پی ٹی آئی سے وضاحت طلب کرتے ہیں کہ آخر اس نے عوام کیلئے کیا ہی کیا ہے اور ووٹر پی ٹی آئی سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔

چونکہ بغض اور مایوسی کے باعث موصوف کو پی ٹی آئی کی متعدد عوام دوست پالیسیاں سرے سے دکھائی ہی نہیں دیتیں لہذٰا یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ عوام بھی اندھی ہے۔ اس ادراک کے بنا کہ اگر پی ٹی آئی ناکام ہوتی ہے تو ووٹر اگلے الیکشن میں اسے خود مسترد کر دے گا!

اسکے برعکس ایک اخبار کے ایڈیٹر، معاف کیجیئے گا محض ریذیڈنٹ ایڈیٹر، کا حکومت کو اپنی ناکامیوں سے چشم پوشی کا بھاشن دینا جہالت کی بدترین مثال ہے۔

پی ٹی آئی نے جب بھی کچھ اچھا کیا یا اپوزیشن کو کوئی بڑا دھچکا لگا تو مایوسی کے عالم میں موصوف کا لہجہ نہایت غمگین ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی موجودگی میں پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں کامیابی کیوں حاصل ہوئی اس پر تو انکی چیخیں دیدنی تھیں۔

پی ٹی آئی کے بغض میں مبتلا فہد حسین یہ دیکھنے میں ناکام ہیں کہ کیسے اپوزیشن پی ٹی آئی کی کامیاب ہوتی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے بیک ڈور سے اقتدار میں آنے کے پَر تول رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو اگلے انتخابات میں بھی پارلیمنٹ کا دروازہ اپنے لیے بند نظر آرہا ہے جیسا کہ اس بار ان کے اپنے ہی ضلع میں بلدیاتی انتخابات میں بدترین شکست سے واضح ہے۔

کوئی اچنبھے کی بات نہیں اگر ایسے میں فہد حسین کو خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی شکستِ فاش بھی دکھائی نہ دے۔ سینٹرل پنجاب کی عوام کا منڈی بہاؤالدین جلسے میں پی ٹی آئی اور وزیر اعظم کیلئے زبردست خیر مقدم اور جوش و خروش فہد حسین کیلئے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

بہرطور انکی ایک بات سے مکمل اتفاق ہے کہ --- نہ یہ وہ کنٹینر ہے، نہ وہ بیانیہ، اور نہ ہی وہ لیڈر! کیونکہ یہ برسرِ اقتدار پی ٹی آئی کا کنٹینر ہے، یہ وہ پی ٹی آئی ہے جسکا بیانیہ سماجی بہبود کے مینڈیٹ کو پورا کرنا ہے، یہ پی ٹی آئی لیڈر وہ ہے جو آج وزیراعظم ہے اور جسکا مقصد عوام کی فلاح ہے نہ کہ لوٹی ہوئی دولت بچانا۔

جی ہاں یہی فرق ہے جو کہ صاف عیاں ہے۔

غالباً فہد کو اب اپنی آنکھوں سے نفرت اور مایوسی کی پٹی اتار کر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ ذاتی عناد کے تابع لکھی جانے والی ان کی بےسروپا تحریروں میں عقل و دانش کی جھلک نظر آسکے۔

فہد حسین نے ڈان اخبار کیلئے "وہی شخص، وہی کنٹینر اور وہی بیانیہ۔ تو تب اور اب میں فرق کیا ہے؟" کے عنوان سے کالم لکھا تھا اور اس کالم میں فہد حسین نے دعوی کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت عوام میں بیانیے کی جنگ ہار چکی ہے۔

https://twitter.com/x/status/1494922233529405441
What the Heck Are you doing Here Madam Shereen Mazari
If you are going to read my reply then please let me ask you about giving nationality to Afghans born in Pakistan. Walaahi I prayed from my heart for You and Imran Khan when you both brought it up.

This was one good thing we could have done to compensate for the crimes we Pakistanis committed for this poor nation in fighting the Haraam Amreeki Jihaad on their motherland.
Please I need to know --- was this just another Imrani blow or is it still in consideration.

https://www.dawn.com/news/1434933
 

Curious_Mind

Senator (1k+ posts)
7shireemazarticle.jpg

ایس ایم مزاری

میڈیا کیلئے ایڈیٹوریل اور کالم نویسی کرنے والے کی اپنی ذاتی رائے اور نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ ذاتی رائے کا اظہار ہر فرد کا بنیادی حق ہے مگر رائے قائم کرتے ہوئے حقائق کو ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ تاہم، اگر آپ ایک اخبار میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں جسکا دعویٰ ہے کہ اسکا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تو ایسے اخبار کے ملازمین کے کالم اور ایڈیٹوریل میں حقائق اور دانش کی کم از کم کچھ جھلک ہونا بہت ضروری ہے۔

مگر فہد حسین خود کو ان تمام معیارات سے مبرا سمجھتے ہیں لہذٰا وہ انتہائی متکبرانہ انداز میں اپنی منشا کے مطابق جو چاہے لکھ سکتے ہیں۔ انکے نزدیک پاکستان ایک جاگیر ہے جسکے مختلف حصے کرپٹ مافیاز کی ذاتی ملکیت ہیں۔ جسکی بنا پر وہ اپنے کالم میں سینٹرل پنجاب کو "شریفوں کی جاگیر کے دل" سے تعبیر کرتے ہیں۔

واقعی؟ کیا شریفوں نے اپنی لوٹی ہوئی دولت سے پنجاب کا ایک مخصوص علاقہ خرید رکھا ہے؟

یقیناً منڈی بہاؤالدین جلسے کے حجم کے باعث شدید صدمے سے دوچار فہد حسین کا لکھتے وقت عقل و دانش کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ویسے یاددہانی کے طور پر فہد حسین وہی شخصیت ہیں جنہیں مسلسل لابنگ کے باوجود پی ٹی وی ایم ڈی کا عہدہ حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ ظاہر ہے ایسے میں انا مجروح ہونے سے بندہ ویسے ہی آپے سے باہر ہو جاتا ہے، جیسا کہ فہد حسین کے ساتھ ہوا۔ مگر ایسے شخص سے اصولوں اور اخلاقیات کی پاسداری کی توقع رکھنا فضول ہے جس نے اس شخص کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہوں جو اسے صحافت میں لایا۔

دراصل انہیں اصل تکلیف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت عوام کو مسلم لیگ ن کی کرپشن اور قرضوں کے انبار کیوں یاد دلاتی رہتی ہے جبکہ وہ خود مصائب سے پُر ماضی کے بوجھ تلے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے مسلسل کوشاں ہے۔ موصوف ہیلتھ کارڈ اور احساس پروگرام سمیت رفاہِ عامہ کے دیگر بہت سے منصوبوں کو یکسر نظر انداز کیے بیٹھے ہیں۔

اسکے علاوہ پاکستان میں انسانی حقوق کی بہتری خصوصاً کمزور اور محروم طبقے کیلئے بنائے جانے والے ٹھوس قوانین پر بھی مکمل چپ سادھے ہوئے ہیں۔ وہ صدی میں ایک بار پیش آنے والی عالمی وبا کورونا سے درست طور نمٹنے کی پی ٹی آئی حکومت کی عالمی پذیرائی یافتہ پالیسیوں کے بھی معترف نہیں۔

مجال ہے جو موصوف نے کورونا وبا کے باوجود پاکستان کی 5.37 فیصد جی ڈی پی گروتھ پر لب کشائی کی ہو جو کہ ن لیگ نے اپنے اقتدار کے آخری سال میں ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بل بوتے پر حاصل کی۔

حد تو یہ ہے کہ کورونا کے باوجود ریکارڈ برآمدات، ترسیلاتِ زر اور ٹیکس وصولیوں میں اضافے سمیت گندم، گنے، مکئی، اور چاول کی ریکارڈ کاشت بھی جناب صرفِ نظر کر گئے۔ یہ تمام انکے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اوپر سے موصوف پی ٹی آئی سے وضاحت طلب کرتے ہیں کہ آخر اس نے عوام کیلئے کیا ہی کیا ہے اور ووٹر پی ٹی آئی سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔

چونکہ بغض اور مایوسی کے باعث موصوف کو پی ٹی آئی کی متعدد عوام دوست پالیسیاں سرے سے دکھائی ہی نہیں دیتیں لہذٰا یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ عوام بھی اندھی ہے۔ اس ادراک کے بنا کہ اگر پی ٹی آئی ناکام ہوتی ہے تو ووٹر اگلے الیکشن میں اسے خود مسترد کر دے گا!

اسکے برعکس ایک اخبار کے ایڈیٹر، معاف کیجیئے گا محض ریذیڈنٹ ایڈیٹر، کا حکومت کو اپنی ناکامیوں سے چشم پوشی کا بھاشن دینا جہالت کی بدترین مثال ہے۔

پی ٹی آئی نے جب بھی کچھ اچھا کیا یا اپوزیشن کو کوئی بڑا دھچکا لگا تو مایوسی کے عالم میں موصوف کا لہجہ نہایت غمگین ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی موجودگی میں پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں کامیابی کیوں حاصل ہوئی اس پر تو انکی چیخیں دیدنی تھیں۔

پی ٹی آئی کے بغض میں مبتلا فہد حسین یہ دیکھنے میں ناکام ہیں کہ کیسے اپوزیشن پی ٹی آئی کی کامیاب ہوتی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے بیک ڈور سے اقتدار میں آنے کے پَر تول رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو اگلے انتخابات میں بھی پارلیمنٹ کا دروازہ اپنے لیے بند نظر آرہا ہے جیسا کہ اس بار ان کے اپنے ہی ضلع میں بلدیاتی انتخابات میں بدترین شکست سے واضح ہے۔

کوئی اچنبھے کی بات نہیں اگر ایسے میں فہد حسین کو خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی شکستِ فاش بھی دکھائی نہ دے۔ سینٹرل پنجاب کی عوام کا منڈی بہاؤالدین جلسے میں پی ٹی آئی اور وزیر اعظم کیلئے زبردست خیر مقدم اور جوش و خروش فہد حسین کیلئے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

بہرطور انکی ایک بات سے مکمل اتفاق ہے کہ --- نہ یہ وہ کنٹینر ہے، نہ وہ بیانیہ، اور نہ ہی وہ لیڈر! کیونکہ یہ برسرِ اقتدار پی ٹی آئی کا کنٹینر ہے، یہ وہ پی ٹی آئی ہے جسکا بیانیہ سماجی بہبود کے مینڈیٹ کو پورا کرنا ہے، یہ پی ٹی آئی لیڈر وہ ہے جو آج وزیراعظم ہے اور جسکا مقصد عوام کی فلاح ہے نہ کہ لوٹی ہوئی دولت بچانا۔

جی ہاں یہی فرق ہے جو کہ صاف عیاں ہے۔

غالباً فہد کو اب اپنی آنکھوں سے نفرت اور مایوسی کی پٹی اتار کر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ ذاتی عناد کے تابع لکھی جانے والی ان کی بےسروپا تحریروں میں عقل و دانش کی جھلک نظر آسکے۔

فہد حسین نے ڈان اخبار کیلئے "وہی شخص، وہی کنٹینر اور وہی بیانیہ۔ تو تب اور اب میں فرق کیا ہے؟" کے عنوان سے کالم لکھا تھا اور اس کالم میں فہد حسین نے دعوی کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت عوام میں بیانیے کی جنگ ہار چکی ہے۔

https://twitter.com/x/status/1494922233529405441
Very well responded by Ms Mazari.
Only a Liberal can handle these Liberal.
 

surfer

Chief Minister (5k+ posts)
What the Heck Are you doing Here Madam Shereen Mazari
If you are going to read my reply then please let me ask you about giving nationality to Afghans born in Pakistan. Walaahi I prayed from my heart for You and Imran Khan when you both brought it up.

This was one good thing we could have done to compensate for the crimes we Pakistanis committed for this poor nation in fighting the Haraam Amreeki Jihaad on their motherland.
Please I need to know --- was this just another Imrani blow or is it still in consideration.

https://www.dawn.com/news/1434933
I guess it's as much under consideration as brave sher leading the revolution?
i.e. not happening?

 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
I guess it's as much under consideration as brave sher leading the revolution?
i.e. not happening?

I can enjoy your satire bro. But this Issue is quite close to my heart. I want Madam Shereen Mazari to tell me what is happening. ((if she comes back and reads it , off course))
 

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
قصور غلیظ ناپاک خون کا ہوتا ہے اور سونےپےُ سہاگہ اور خود ساختہ جعلی سید جو ۔۔۔۔اور میراثی ہیں اکثریت پاکستان میں سید کہلاتے ہیں۔ اصلی اور سچے سید شاید پانچ پرسنٹ بھی ہوں
 

surfer

Chief Minister (5k+ posts)
I can enjoy your satire bro. But this Issue is quite close to my heart. I want Madam Shereen Mazari to tell me what is happening. ((if she comes back and reads it , off course))
We haven't given nationality, but this appears to be a good step.

Pity our media didn't cover this in much detail...or if they did I missed it...

 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
قصور غلیظ ناپاک خون کا ہوتا ہے اور سونےپےُ سہاگہ اور خود ساختہ جعلی سید جو ۔۔۔۔اور میراثی ہیں اکثریت پاکستان میں سید کہلاتے ہیں۔ اصلی اور سچے سید شاید پانچ پرسنٹ بھی ہوں
Arbon main Saeed koi naheen hai
Pakistan main Kahan sa aa Gaye hai????
Total BS
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
We haven't given nationality, but this appears to be a good step.

Pity our media didn't cover this in much detail...or if they did I missed it...

It was not followed upon by media.