فیس بک اور ایس ایم ایس کی تبلیغ

TruPakistani

Minister (2k+ posts)
فیس بک اور ایس ایم ایس کی تبلیغ
میرے اپنے مشاہدے میں انسان اتنی گراوٹ کا شکار ہوا ہے کہ اپنی عقل کی اختراع کو بھی امام علی (ع) سے موسوم کر بیٹھتا ہے، اور کبھی شیخ سعدی اور ونسٹن چرچل کی باتیں بھی امام علی (ع) کے نام سے ہی پھیل رہی ہوتی ہیں۔ ان باتوں کو مزید سچا اور پکا ثابت کرنے کے لئے آخر میں "نہج البلاغہ" یا کسی اور مذہبی کتاب کا نام بھی بطور حوالہ لکھ دیا جاتا ہے۔ میں نے خود کئی بار تصدیق کی خاطر نہج البلاغہ کو کھول کر دیکھا تو ایسے اقوال کہیں نظر نہ آئے۔

تحریر: سید قمر رضوی

سورہ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں خداوندِ قدوس کا ارشاد ہے کہ
"اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ طور پر کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو، پھر اپنے کئے پر تمہیں شرمندگی اٹھانا پڑے۔"
جبکہ سورہ الاسرا کی چھتیسیویں آیت میں خدا کا فرمان ہے کہ
اور جس بات کا تمہیں علم نہ ہو، اس کے پیچھے نہ پڑو۔ بےشک کان، آنکھ اور دل، ہر ایک سے (قیامت کے دن) پوچھ گچھ کی جا ئے گی۔"
اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق رسولِ صادق علیہ افضل السلام نے ارشاد فرمایا کہ
کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ جو کچھ سنے اسے تحقیق کئے بغیر آگے بیان کر دے۔
اپنی بات کا آغاز کرنے کے لئے مجھے دو آیات اور ایک حدیث کا سہارا یوں لینا پڑا تاکہ بات میں کسی قسم کی کوئی کجی نہ رہے اور اسکا وزن بھی ثابت ہو جائے۔
مندرجہ بالا آیات و حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ "خبر" کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور اسکو پہنچانے والے کا کردار خدا اور رسول (ص) کی نظر میں کیا وقعت رکھتا ہے۔ خبر اگر درست ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ غلط نکلے تو خدا کے ارشاد کی روشنی میں پوری قوم کی پریشانی کا باعث بھی بن سکتی ہے، اور ساتھ ہی مخبر کے لئے دنیا میں باعثِ شرمندگی اور آخرت میں اعضا و جوارح کے حساب کتاب کے مشکل مرحلے کی ضامن بھی بن جائیگی۔

یہی تمام مظاہر ہمارے روزمرہ مشاہدات و تجربات کا ایک جزوِ لاینفک بن چکے ہیں کہ ہم رہ ہی خبر کی دنیا میں رہے ہیں، جسے عرفِ عام میں انفرمیشن ایج کہتے ہیں۔ جہاں بیسیوں اخبارات و رسائل، سینکڑوں ٹی وی و ریڈیو چینلز، انٹرنیٹ اور انسٹینٹ میسجنگ کے ذریعے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا سے متصل ہیں۔ کسی زمانے میں کسی کی خبر گیری کرنا ایک باقاعدہ ذمہ داری ہوا کرتا تھا، جبکہ آج اپنے محلے سے لیکر بین الاقوامی معاملات تک پر نگاہ رکھنا شاید چیونگم چبانے سے بھی زیادہ آسان ہوگیا ہے۔

ملکی یا بین الاقوامی سیاست ہو، کھیل کا میدان ہو، موسم کا حال ہو، تفریح طبع کا مرحلہ ہو، علاج و معالجہ کروانا ہو، تعلیمی مسائل ہوں یا کاروبار اور معیشت کے اتار چڑھاؤ۔۔۔ سب معاملات چٹکی بجانے سے بھی کم وقت میں آج کے انسان کی دسترس میں ہیں۔ انفرمیشن ایج کا خبر گیری اور خبر رسانی کا یہ سلسلہ اس قدر منظم اور مربوط ہے کہ یہاں صحیح اور غلط کا تصور بھی تقریباً ناپید ہے اور تمام معاملات کو تصحیح کے عمل کی کئی تہوں سے گزار کر آگے پہنچانے میں کسی قسم کا تامل دیکھنے میں نہیں آتا۔ کبھی کبھی حقیقت اس کے برعکس بھی ہو جاتی ہے کہ غلطی کا گمان ہر جگہ ہوتا ہے اور اسکے لئے گنجائش بھی رکھی جاتی ہے۔

یہاں میرا مقصود نہ تو بین الاقوامی سیاست ہے اور نہ ہی دنیا کے کونوں میں لڑی جانیوالی جنگیں، نہ ہی کھیل کے میدان کی دلچسپی ہے اور نہ ہی تعلیمی میدان کی فراہمی۔ نہ تو چین کی ترقی سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی پاکستان کی تنزلی سے۔ میرا مدعا صرف آجکل سوشل میڈیا اور ایس ایم ایس پر جاری "جعلی تبلیغات" ہیں، جنہیں کچھ شرپسند اور عاقبت نااندیش عناصر دانستہ طور پر اور کچھ نادان دوست نادانستہ طور پر پھیلانے میں صبح و شام مصروف ہیں۔ ان صاحبان نے اس گھن چکر میں پوری قوم کے جوانوں کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے تمام مسائل کا واحد حل فیس بک اور ایس ایم ایس سروس کے پاس ہے۔

جہاں تک ٹی وی اور اخبارات کی خبروں کا تعلق ہے تو ان کے پیچھے تحقیق و تصدیق کا ایک پورا نظام کارفرما ہوتا ہے، جبکہ ایس ایم ایس لکھنے اور شئیر کرنے کے لئے صرف ایک انگوٹھے کی معمولی سی جنبش ہی کافی ہے اور اگر فیس بک پر کچھ کرنا ہو تو چار انگلیاں اور شامل کر لیجئے اور جو دل چاہیں کریں۔ یہاں یہ غلط فہمی نہ رہے کہ سو فیصد لوگ یہی کام کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک وہ اہلِ دانش جو مذہبی و انسانی ذمہ داری سمجھتے ہوئے دینِ ناب کی تبلیغات میں مصروفِ عمل ہیں، وہ یقیناً انبیاء و آئمہ علیہم السلام کی سنت جاری کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنکی وجہ سے سچ قائم بھی ہے اور تیزی سے پھیل بھی رہا ہے۔ خدا ان مؤمنین کی توفیقاتِ خیر میں مزید اضافہ فرمائے۔

آغاز میں ذکر کی گئی آیات و حدیث کا ہدف اگر آج کل کے انہی نام نہاد ماہرینِ دینیات و ٹھیکیدارانِ تبلیغ کو قرار دیا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ جن کا مقصد ہی غیر تحقیق شدہ، من گھڑت اور چٹ پٹی باتوں کو ایک ایس ایم ایس کی صورت میں ڈھال کر یا فوٹو شاپ کے غلط استعمال سے ایک خوبصورت شکل دے کر معصومین (ع) کے نام سے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں تک پہنچانا ہے۔ ساتھ ہی ثواب کے لالچ اور عذاب کے ڈراوے کا تڑکہ لگا کر مزید آگے پھیلانے کی ذمہ داری سونپنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔

اب ایک نیا سلسلہ یہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ اگر اس پیغام کو موصول کرنے والا آگے پھیلانے کا سوچے گا تو شیطان اسے روکے گا، چنانچہ شیطان کے بہکاوے میں ہرگز نہ آنا اور فوراً اس پیغام کو دوسروں تک پہنچا دینا۔۔۔۔۔ اگر ایک لمحے کو سوچ ہی لیا جائے تو سمجھ میں آجائے کہ روکنے والا نہیں، بلکہ اس کام کی ترغیب دینے والا شیطان ہے کہ جسکی اندھی تقلید کے باعث جھوٹ کا یہ لامتناہی سلسلسہ پھیل رہا ہے، جو اس حد تک خطرناک ہے کہ دنیا میں انسان کا عقیدہ و ایمان اور آخرت میں اسکی کل آخرت ہی تباہ کرنے کو کافی ہے۔

کیونکہ جھوٹ تو ویسے بھی وہ گناہِ کبیرہ ہے، جس سے خدا، انبیاء اور آئمہ کو شدید نفرت ہے۔ جبکہ یہاں انہی ہستیوں کی صادق و امین ذواتِ مقدسہ سے جھوٹ اور بہتان باندھ کر نجانے کتنے نادانوں کا ایمان خراب کیا جا رہا ہے۔ معصومین علیہم السلام کی ذواتِ صادقہ سے کسی جھوٹ کو منسوب کرنے کے نتیجے میں گناہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی روزہ دار بھولے سے بھی یہ فعل کر گزرے تو نہ صرف اسکا روزہ باطل ہوجائیگا، بلکہ کفارہ کے تمام احکامات بھی من و عن لاگو ہوں گے۔ چنانچہ صرف اس خدشے کے پیشِ نظر کہ کہیں کوئی بات معصومین علیہم السلام نے شاید نہ فرمائی ہو، بزرگ اور فاضل علماء حالتِ روزہ میں بیان کرنے سے اجتناب فرماتے ہیں۔

ذرا سوچئے کہ بزرگ علماء کہ جن کی زندگیاں درس و تدریس اور تعلیم و تحقیق میں صرف ہوتی ہیں، وہ تو اتنے محتاط کہ روزہ کے عالم میں معصومین (ع) کے تحقیق شدہ اقوال بھی نقل کرنے سے گریز فرماتے ہیں اور کہاں ان جاہلانِ مطلق میں اتنی جرات اور دلیری کہ ان ہستیوں کے مرتبے اور رفعت کے برخلاف انہی سے بے پر کی بات منسوب کرکے دوسروں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے مظلوم امام علی علیہ السلام کی ذاتِ مقدس ہے کہ کسی بھی بات کے نیچے "حضرت علی" لکھ کر دوسروں تک پہنچانا جنت خریدنے کے مترادف ایک بیش قیمت عمل بن چکا ہے۔ میرے اپنے مشاہدے میں انسان اتنی گراوٹ کا شکار ہوا ہے کہ اپنی عقل کی اختراع کو بھی امام علی (ع) سے موسوم کر بیٹھتا ہے۔ اور کبھی شیخ سعدی اور ونسٹن چرچل کی باتیں بھی امام علی (ع) کے نام سے ہی پھیل رہی ہوتی ہیں۔ ان باتوں کو مزید سچا اور پکا ثابت کرنے کے لئے آخر میں "نہج البلاغہ" یا کسی اور مذہبی کتاب کا نام بھی بطور حوالہ لکھ دیا جاتا ہے۔

میں نے خود کئی بار تصدیق کی خاطر نہج البلاغہ کو کھول کر دیکھا تو ایسے اقوال کہیں نظر نہ آئے۔ دوسری جانب ایک اور جعلساز طبقہ مولائے کائنات اور امام سجاد علیہم السلام کے آفاقی کلام کو چند ایسے افراد کے نام سے پھیلا رہا کہ جن کے تصور اور اس ملکوتی کلام کے درمیان ہفت اقلیم کا فاصلہ ہے۔ جنکی عقلیں اس لطیف کلام کو سوچنے اور جنکی زبانیں اس ثقیل کلام کو ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

آخر میں میری گذارش ہے تمام دوستوں سے کہ کسی بھی پیغام کو موصول کرتے ہوئے جذبات کی رو میں بہہ جانے کی بجائے چند لمحوں کا صبر کر لیا کیجیئے اور کسی بھی مستند وسیلے سے اسکی تحقیق کر لیا کریں۔ جب تصدیق ہو جائے تو ڈنکے کی چوٹ پر تمام دوستوں حتٰی کہ غیر مسلمین تک بھی ان باتوں کو پہنچائیں کہ حق یہی ہے۔ سچوں کی سچی باتیں اگر انسان تک پہنچ جائیں تو یہ بات ناممکن نہیں کہ وہ فلاح کے راستے پر چل پڑے۔ ایسا کرنے سے آپ بھی حق کی ترویج کی انبیاء و آئمہ (ع) کی سنت پر عمل پیرا ہو کر اپنی اور دوسروں کی عاقبت سنوار سکتے ہیں۔ لیکن یہ کام صبر اور تحقیق کے بغیر ممکن نہیں۔
 

Exiled-Paki

Councller (250+ posts)
Thanks for writing this post. I have tried to verify several religious texts that were posted on facebook through the references that were given along with them and they did not verify. So in the light of your article I would appeal to all my fellow Muslims to be very careful with forwarding religious text on facebbok like websites unless you have verified it.
 

NokiaN95

MPA (400+ posts)
بات تو اپ کی اچھی ہے لیکن صرف "نہج البلاغہ"ہی کیوں باقی بھی تو کتابیں ہیں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا زیادہ تر باتیں جھوٹی ہی ہوتی ہیں اور چند مثالیں بھی اگر پیسش کر دیتے تو اچھا ہوتا .
 

Tribal

Voter (50+ posts)
True vry true....Scoring Shot......
v r in state of ignorant.. Allah forbid us all.... V jst forward or share sch things... Dnt knw wen vl b v grown up nd educated........ Great sharing Keep up the good pace....
 

seekers

Minister (2k+ posts)
آپ نے آئمہ ع کے فرامین کا ذکر کیا ، اس حوالے سے آپ کی بات کو بڑھاتا چلوں ،کے ان فرامین کو بھی کچھ لوگ غلط معنوں میں لیتے ہیں جس کا ذکر میں ایک تھریڈ میں کر چکا ہوں . اس کی وجھ یہ ہے کے ان کا ہر فرمان ہر کسی کے لنے نہیں ہے . کچھ کلام عام کے لنے اور کچھ خواص کے لنے اور کچھ کلام کے ظاہر و باطن مے دونوں کے لنے نصیحت ہے .