فیک خبروں کا جن

Alishbah

Voter (50+ posts)
کہتے ہیں "خبر" کا لفظ اس وقت معرض وجود میں آیا جب انیسویں صدی میں سکندر اعظم فلپائن سے اپنے گھوڑوں سمیت ہندوستان پہنچا یہاں کھیوڑہ کے مقام پر اسکے پومی نامی گھوڑے نے پہاڑ چاٹنا شروع کر دیے ۔۔جی ہاں ! کھیوڑہ میں نمک کی کانیں سکندر اعظم کے گھوڑوں نے ہی دریافت کی تھیں ۔۔بس جیسے ہی اسکے گھوڑوں نے نمک کی کان دریافت کی ویسے ہی اسکے ایک سپاہی نے جا کر اسکے کان میں کہا "صاحب جی ! ایک "خبر" ہے ۔۔"

وہی دن تھا جب یہ لفظ "خبر "پہلی مرتبہ کسی انسان کی زبان سے ادا ہوا۔۔

معذرت لیکن آپکی اطلاع کیلیے عرض ہے کہ "خبر" کی ایجاد کے متعلق اوپر بیان کی گئی کہانی اتنی ہی جھوٹی ہے جتنا کہ آج کل ہمارے ملک میں خبریں ہوتی ہیں ۔۔ جیسے ہمارے صحافی کسی کی جراب سونگھ کہ اسکی شادی کا موسم بتا دیتے ہیں ہو بہو میں نے ویسے ہی سکندر اعظم کے گھوڑے کے پہاڑ چاٹنے سے خبر لفظ کو جوڑ دیا ہے ورنہ سکندر اعظم نہ تو فلپائن سے آیا تھا بلکہ شاید اس نے کبھی فلپائن دیکھا بھی نہ ہو ، نہ ہی اسکا پومی نامی کوئی گھوڑا تھا اور نہ ہی لفظ "خبر" سے اسکے کسی سپاہی کا کوئی تعلق کیونکہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جبکہ سکندر اعظم یونانی تھا ۔۔۔

خیر اوپر کی لغویات میں نے صرف اسلیے درج کی ہیں تا کہ میں مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تیزی سے بوتل سے باہر نکلتے فیک , جعلی اور جھوٹی خبروں کے ہولناک جن کے بارے میں کچھ قلم کشائی کر پاؤں ۔۔

تو بات یہ ہے دوستوں اکیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ و المیہ یہ ہے کہ انسان جھوٹا ہو گیا ہے ۔۔۔اسکو جھوٹ سننا اور جھوٹ پھیلانا کوئی گناہ لگتا ہی نہیں ہے ۔۔خصوصی طور پر پاکستانی ، کیونکہ علم و تحقیق سے تو ہماری قوم اس طرح دور بھاگتی ہے جیسے شریف خاندان شرافت سے لہذا جہاں بھی جو بھی الٹا سیدھا ، لولا لنگڑا ، کانا ، کوئی بھی پروپگینڈا ہو اس پر آنکھیں بند کر کہ خدائی احکام سمجھ کہ یقین کرنا اس قوم کا وطیرہ بن نہیں رہا بلکہ بن چکا ہے ۔۔۔اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پھیلائے جانے والا پروپگینڈا کس حد تک بے تکا ہے ، اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ بار بار بار بار بار اس قسم کا پروپگینڈا جھوٹا ثابت ہوتا ہے ہماری قوم نے تو بس "فرضِ عین " سمجھ کہ اسکو چوک چوراہوں پر ضرور موضوع گفتگو بنانا ہے بلکہ اب تو وٹس ایپ نامی نئی تتلی بھی ہاتھ لگ گئی ہے جس پر ایک بٹن کلک کرنے سے چھیڑ خانی ہو جاتی ہے اور ہم چھیڑ خانی سے

کنارہ کر لیں ،، ہو ہی نہ جائے ۔۔۔

تو جی دوستو!! غور طلب پہلو یہ ہے کہ بوتل کے اس

جن کی جو کہ اب مکمل طور پر باہر آ چکا ہے تین اقسام ہیں ۔

۔۔پہلی تو وہ خبریں جو جان بوجھ کہ پیسوں/لفافوں/پلاٹوں اور دیگر پلس اٹھارہ عیاشیوں کے عوض نشر کروائی جاتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں جا بجا پھیلی صحافتی و سوشل میڈیائی طوائفیں ان کو گھنگھرو کی طرح باندھ کر ان پر طرح طرح کا رقص کرتی ہیں ۔۔ان خبروں کی نوعیت کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ بات کی الف پکڑ کہ اسکی "ے" کو پھپھے کٹنی "ذرائع" یہ بتاتے ہیں کہ نام سے چلا دو ۔۔۔۔۔۔اس قسم کی خبروں کے سب سے زیادہ زیر عتاب "خان صاحب " رہتے ہیں کیونکہ انکا ماننا ہے کہ عزت ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے لہذا نہ وہ کسی طوائف سے بناتے ہیں اور نہ ہی کسی کا گلا دباتے ہیں ۔۔

دوسری قسم ہے جی وہ خبریں جنکو پلانٹ تو نہیں کیا جاتا مگر صحافتی طوائفیں اپنے کوٹھوں کے مالک کے حکم پر محض گاہک بنانے (ریٹنگ) کیلیے انکا پرچار کرتی ہیں ۔۔ویسے میں نے سنا ہے پاکستان میں سنسر شپ بہت ہے کہیں مجھے ایسے غیر اخلاقی الفاظ استعمال کرنے پر دھر ہی نہ لیا جائے لیکن یہ میں نہیں کہہ رہی یہ تو سب سے بڑے کوٹھے کے مالک نے خود ہی کہا تھا کہ" ہم تو دھندہ کرتے ہیں بھئی "٫ دھندہ ہے پر گندہ ہے یہ۔۔۔خیر اس قسم کی خبروں کے متاثرین میں بھی سب سے پہلے حضور والا "کپتان" ہی ہیں کیونکہ انکا نام بکتا ہے ان سے منسوب بات بکتی ہے لہذا اپنا اپنا دھندہ چلانے کیلیے انکا نام استعمال کرنا پڑتا ہے ،، سمجھا کرو نا کرنا پڑتا ہے یارو!! ۔۔۔

اس جن کی آخری اور نئی نویلی قسم جو مارکیٹ میں
ابھی ابھی آئی ہے اور سب سے تیزی سے مشہور ہوئی ہے وہ ہے جی "پرانی خبروں کو تھوڑی ردو بدل کے ساتھ نیا بنا کہ پیش کرنا" ۔۔۔اس کام میں وہ طوائفیں بہت پیش پیش ہیں جنکو بوڑھا ہو جانے کی وجہ سے کوٹھوں سے دھکے دیے جا رہے ہیں وہ بے چاری مصیبت کی ماری نہ ادھر کی رہی ہیں نہ ادھر کی لہذا وہ" بڑی ٹھکرائن" کو راضی کرنے کیلیے یہ حرکت کر رہی ہیں کیونکہ پیٹ بھی تو پالنا ہوتا ہے نا ،، پیٹ تو پھر پالنا ہی ہے نا یارو!!!

خیر اس تیسری قسم کے زیر عتاب بھی سب سے بڑھ کہ عزت مآب وزیر اعظم صاحب ہی بنے ہیں کیونکہ کون چاہتا ہے کہ امن ہو اور خبر نہ ہو۔۔۔۔

تردید !!!تردید !!! تردید !!! اور صرف تردید ۔۔۔میرے کپتان کا تو ایمان ہے کہ اسکی عزت ذلت کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور جیت اسی کی ہوتی ہے جسکی نیت صاف ہوتی ہے بات تو اسکی بھی سولہ آنے درست ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بوتل سے مکمل باہر آ چکے اس جن نے جھوٹ کی گرویدہ اس قوم کو ایک ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے جس سے نہ صرف حکومت کیلیے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی ایک بہت وڈا نقصان ہو رہا ہے جسکا ذکر میں اتنی غیر اخلاقی گفتگو کے بعد نہیں کر سکتی ۔۔لہذا ! میری گزارش ہے کہ بوتل کے اس جن کو دوبارہ اندر ڈالنا ہے تو کوئی پکا منتر پڑھیں ، کوئی دم درود کریں اور تب بھی کوئی فرق نہ پڑے تو کسی "بڑے" سے تعویز کروا لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited by a moderator:

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
https://www.siasat.pk/forums/threads/گل-خان-کا-گلہ،-میراثیوں-کے-گلے۔۔.659427/

46063479_2188772204744942_6984111844046667776_n.jpg