"قوم پرستی ایک جذبہ"
شبیر احمد شمس
"نیشنلزم " جسے حرف عام میں قوم پرستی کہا جاتا ہے۔اگر آپ کسی بھی ڈکشنری میں اسکی معنی کو تلاش کریں گے،تو ہر ایک کا یہی جواب ہوگا۔یہ دراصل کیا چیز ہے؟ ہر کسی کے ذہن میں جو قومی شعور سے کسی نہ کسی حد تک واقفیت رکھتا ہو،یہ سوال پایا جاتا ہے۔اسی طرح ہر ذہن کی طرح میرے ذہن پر بھی اسے جاننے اور سمجھنے کا بھوت ہر زاویئے سے سوار تھا۔اس سلسلے میں گوگل سے سیکھنے کی ناکام کوشش کیں۔ڈاکٹر مبارک علی صاحب کی ترتیب شدہ کالمز جو انہوں نے"نیشنلزم کیا ہے؟" نامی کتاب میں شائع کئے ہیں،کا مطالع کیا۔لیکن اس نے بھی مجھے طمانئیت کا سکون نہیں دیا۔یہ درحقیقت انسانی فطرت ہے جب آپ کسی چیز میں آگے بڑھتے جائیں گے،اور اس میں اپنے مطالعے کو وسیع کرنے کی کوشش کریں گے،تو اسکے ساتھ ہی آپ کے سوالات بھی نئی پروازوں کے ساتھ اڑان بھرنا شروع کردیتے ہیں۔
ان سب سے جو میں نے اب تک سیکھا ہے وہ یہ کہ "قوم پرستی" دراصل ایک جذبے کا نام ہے۔یہ اسی طرح کا جذبہ ہے جیسے محبت کا جذبہ ہوتا ہے۔ان دونوں میں فرق صرف محبوب کا ہے،لیکن اسکے باوجود دونوں ایک ہی منزلت یعنی قلب سے تعلق رکھتے ہیں۔پہلی صورت یعنی قوم پرستی میں محبوبوں کی موجودگی مختلف ہیں۔
روایات،تہذیب،ثقافت (جو ایک ہی باب تاریخ کے موضوعات ہیں)،مذہب،قومی ہیروز،زبان اور اسی طرح دوسری چھوٹی بڑی چیزیں معشوقانہ چال چلتے ہیں۔دوسری صورت، محبت کا موضوع سخن انسان ہے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں اسکے بارے میں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔کوئی اسے منفی نگاہ میں دیکھتا ہے تو کوئی اسے حالات کے ہر موڑ پر اندفاع کرنے کی بازی لگاتا ہے۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور محمد الرسول اللہ کے زمانے میں مسلمان قومیت کا تصور دیکھتے ہیں،تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس جذبے نے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔ہجرت مدینہ کے سولہ سترہ مہینے بعد جب تحویل کعبہ کا حکم ہوا،تو قرآن میں سورۃ البقرہ میں اللہ نے اسکے مقصد سے بھی ہمیں آگاہ کیا۔وہ یہ کہ اسکا عین ایک ہی مقصد تھا، یعنی مسلمانوں کو "امت وسط" بنانا تھا۔اسی طرح دوسرے اہل دنیا سے اسے الگ ایک قوم بنایا،اور یہ بات واضح ہے کہ جہاں "قوم" کی تشکیل ہوتی ہے اسکی بنیاد قوم پرستی پر ہوتی ہے اور بعد میں اگر وہ قائم رہتی ہے تو یہی قوم پرستی اسے مدد دیتی ہے۔اس وقت محض ایک قوم تھی،لیکن آگے جاکر امت کی شکل اختیار کرگئی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومیت کا تصور کیا امت کے تصور کیلئے نقصان دہ نہیں ہے ؟ کیونکہ اگر ہر قوم،قوم پرستی کا مظاہرہ کرکے اپنے مفاد کو مدنظر رکھے گی،تو اسی طرح تو امت کا تصور ختم ہو جائے گا ؟
میں نے اس سوال کے جواب کو ڈھونڈنے کیلئے جگت کی،تو مجھے یہ جواب ملا کہ امت مسلمہ کے مابین رشتہ قومیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اخوت کی بنیاد پر ہے اور یہی چیز ہے جس نے اقوام عالم کے مسلمانوں کو امت کی شکل میں جوڑے رکھا ہے۔
اب اگر ہم قوم پرستی کے نتائج دیکھتے ہیں،تو ابتدائے آفرینش سے کہی غلط ثابت ہوکر خسران کی راہ اختیار کرچکی ہے۔یا پھر کسی مظلوموں کی آزادی کیلئے کارآمد ثابت ہوئی ہے۔
لیکن اگر ہم پاکستان کی بات کرے تو پاکستان کی آزادی اور تشکیل بھی قوم پرستی کی بنیاد پر تھی۔جب ہمارے قومی رہنماؤں نے اس بات کو محسوس کیا کہ برصغیر پاک وہند میں رہتے ہوئے ہمارے مفادات کو اواخر تک پاؤں تلے روندنا جائے گا۔تو ان احساسات کو برصغیر کے مسلمانوں تک منتقلی کیلئے قوم پرستی کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔اب یہاں نتیجہ خوش آئند ہے۔کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو ہم ہمیشہ کیلئے محکوم و مظلوم بن کر رہ جاتے۔اب اگر آگے جاکر پاکستان کے عوام وہ قوم پرستی جس کی بنیاد پر پاکستان کا وجود ممکن ہوا(دو قومی نظریہ) سے ہٹتے ہیں،اور علاقائی قوم پرستی کے فروغ کیلئے سرگرم ہونگے،تو یہ اب مزید خسارہ ہوگا۔جس طرح آج کل تعلیمی اداروں کے اندر یا پاکستانی پولٹکس میں علاقائی قوم پرستی کے جذبات کی آگ کو بھڑکایا جاتا ہے،کیونکہ پاکستان کے اندر اب مزید بنٹنے کا حوصلہ نہیں اور قوم پرستی کے نتائج تقسیم کئے بغیر رونما نہیں ہوتے۔
Note:if any one has some kind of knowledge regarding Nationalism are requested to share it in the comment box.
شبیر احمد شمس
"نیشنلزم " جسے حرف عام میں قوم پرستی کہا جاتا ہے۔اگر آپ کسی بھی ڈکشنری میں اسکی معنی کو تلاش کریں گے،تو ہر ایک کا یہی جواب ہوگا۔یہ دراصل کیا چیز ہے؟ ہر کسی کے ذہن میں جو قومی شعور سے کسی نہ کسی حد تک واقفیت رکھتا ہو،یہ سوال پایا جاتا ہے۔اسی طرح ہر ذہن کی طرح میرے ذہن پر بھی اسے جاننے اور سمجھنے کا بھوت ہر زاویئے سے سوار تھا۔اس سلسلے میں گوگل سے سیکھنے کی ناکام کوشش کیں۔ڈاکٹر مبارک علی صاحب کی ترتیب شدہ کالمز جو انہوں نے"نیشنلزم کیا ہے؟" نامی کتاب میں شائع کئے ہیں،کا مطالع کیا۔لیکن اس نے بھی مجھے طمانئیت کا سکون نہیں دیا۔یہ درحقیقت انسانی فطرت ہے جب آپ کسی چیز میں آگے بڑھتے جائیں گے،اور اس میں اپنے مطالعے کو وسیع کرنے کی کوشش کریں گے،تو اسکے ساتھ ہی آپ کے سوالات بھی نئی پروازوں کے ساتھ اڑان بھرنا شروع کردیتے ہیں۔
ان سب سے جو میں نے اب تک سیکھا ہے وہ یہ کہ "قوم پرستی" دراصل ایک جذبے کا نام ہے۔یہ اسی طرح کا جذبہ ہے جیسے محبت کا جذبہ ہوتا ہے۔ان دونوں میں فرق صرف محبوب کا ہے،لیکن اسکے باوجود دونوں ایک ہی منزلت یعنی قلب سے تعلق رکھتے ہیں۔پہلی صورت یعنی قوم پرستی میں محبوبوں کی موجودگی مختلف ہیں۔
روایات،تہذیب،ثقافت (جو ایک ہی باب تاریخ کے موضوعات ہیں)،مذہب،قومی ہیروز،زبان اور اسی طرح دوسری چھوٹی بڑی چیزیں معشوقانہ چال چلتے ہیں۔دوسری صورت، محبت کا موضوع سخن انسان ہے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں اسکے بارے میں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔کوئی اسے منفی نگاہ میں دیکھتا ہے تو کوئی اسے حالات کے ہر موڑ پر اندفاع کرنے کی بازی لگاتا ہے۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور محمد الرسول اللہ کے زمانے میں مسلمان قومیت کا تصور دیکھتے ہیں،تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس جذبے نے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔ہجرت مدینہ کے سولہ سترہ مہینے بعد جب تحویل کعبہ کا حکم ہوا،تو قرآن میں سورۃ البقرہ میں اللہ نے اسکے مقصد سے بھی ہمیں آگاہ کیا۔وہ یہ کہ اسکا عین ایک ہی مقصد تھا، یعنی مسلمانوں کو "امت وسط" بنانا تھا۔اسی طرح دوسرے اہل دنیا سے اسے الگ ایک قوم بنایا،اور یہ بات واضح ہے کہ جہاں "قوم" کی تشکیل ہوتی ہے اسکی بنیاد قوم پرستی پر ہوتی ہے اور بعد میں اگر وہ قائم رہتی ہے تو یہی قوم پرستی اسے مدد دیتی ہے۔اس وقت محض ایک قوم تھی،لیکن آگے جاکر امت کی شکل اختیار کرگئی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومیت کا تصور کیا امت کے تصور کیلئے نقصان دہ نہیں ہے ؟ کیونکہ اگر ہر قوم،قوم پرستی کا مظاہرہ کرکے اپنے مفاد کو مدنظر رکھے گی،تو اسی طرح تو امت کا تصور ختم ہو جائے گا ؟
میں نے اس سوال کے جواب کو ڈھونڈنے کیلئے جگت کی،تو مجھے یہ جواب ملا کہ امت مسلمہ کے مابین رشتہ قومیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اخوت کی بنیاد پر ہے اور یہی چیز ہے جس نے اقوام عالم کے مسلمانوں کو امت کی شکل میں جوڑے رکھا ہے۔
اب اگر ہم قوم پرستی کے نتائج دیکھتے ہیں،تو ابتدائے آفرینش سے کہی غلط ثابت ہوکر خسران کی راہ اختیار کرچکی ہے۔یا پھر کسی مظلوموں کی آزادی کیلئے کارآمد ثابت ہوئی ہے۔
لیکن اگر ہم پاکستان کی بات کرے تو پاکستان کی آزادی اور تشکیل بھی قوم پرستی کی بنیاد پر تھی۔جب ہمارے قومی رہنماؤں نے اس بات کو محسوس کیا کہ برصغیر پاک وہند میں رہتے ہوئے ہمارے مفادات کو اواخر تک پاؤں تلے روندنا جائے گا۔تو ان احساسات کو برصغیر کے مسلمانوں تک منتقلی کیلئے قوم پرستی کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔اب یہاں نتیجہ خوش آئند ہے۔کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو ہم ہمیشہ کیلئے محکوم و مظلوم بن کر رہ جاتے۔اب اگر آگے جاکر پاکستان کے عوام وہ قوم پرستی جس کی بنیاد پر پاکستان کا وجود ممکن ہوا(دو قومی نظریہ) سے ہٹتے ہیں،اور علاقائی قوم پرستی کے فروغ کیلئے سرگرم ہونگے،تو یہ اب مزید خسارہ ہوگا۔جس طرح آج کل تعلیمی اداروں کے اندر یا پاکستانی پولٹکس میں علاقائی قوم پرستی کے جذبات کی آگ کو بھڑکایا جاتا ہے،کیونکہ پاکستان کے اندر اب مزید بنٹنے کا حوصلہ نہیں اور قوم پرستی کے نتائج تقسیم کئے بغیر رونما نہیں ہوتے۔
Note:if any one has some kind of knowledge regarding Nationalism are requested to share it in the comment box.