گذشتہ دنوں ایک نہایت ہی دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز صورتِ حال سامنے آئی جب پاکستان کے صدر عارف علوی فرانس کو مذہبی آزادیوں پر لیکچر دیتے پائے گئے۔۔ موصوف نے فرمایا ،"فرانس میں اسلام مخالف سخت قانون سازی کر کے مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔یہ ایک خطرناک مثال ہے کہ اکثریت کی حمایت میں قانون تبدیل کر کے اقلیت کو تنہائی کا شکار کیا جائے"۔۔ آخری جملہ پڑھ کر مجھے لگا کہیں موصوف پاکستان میں احمدیوں کے خلاف کی جانے والی قانون سازی کی بات تو نہیں کررہے۔۔ مگر حیرت نہ ہوئی کہ پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک، خواص سے لے کر عوام تک ایسے دوغلے معیارات عام پائے جاتے ہیں۔۔ اپنے ملک میں اسلام کے علاوہ جتنے بھی مذاہب ہیں یا غیر مذہب کے لوگ ہیں، ان سب کا ناطقہ بند کرکے رکھا ہوا ہے اور دنیا کو لیکچر دیئے جارہے ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی آزادیاں سلب مت کرو۔۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سگریٹ کے بڑے بڑے کش لیتے ہوئے، دھویں کے مرغولے چھوڑتے ہوئے دوسروں کو لیکچر دے رہا ہو کہ سگریٹ مت پیو، سگریٹ پینا تو بہت بری بات ہے۔۔
خود پاکستان میں یہ حال ہے کہ مولوی کو تو پوری اجازت ہے کہ وہ کہیں پر بھی ، کسی بھی مسجد میں، کسی بھی سڑک پر، چوک چوراہے پر محفل جما کر لوگ اکھٹے کرکے کسی بھی قسم کی مذہبی خرافات کا پرچار کرسکتا ہے، مگریہی آزادی پاکستان میں غیر مسلموں کو نہیں ہے۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ کسی چوک چوراہے پر کوئی پنڈٹ یا پادری ہندوؤں یا عیسائیوں کا مجمع لگا کر سپیکر چلا کر اپنے مذہب کا پرچار کررہا ہو۔۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے مذہبی پیشوایوں کھلے عام اپنے مذہب کی ترویج کرسکیں؟ پاکستان میں احمدی فرقے کو تو اس قدر آئسولیٹ کیا ہوا ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی احمدی قتل ہوا ہوتا ہے، مگر اس کی خبر تک نہیں چھپتی۔ کوئی کسی احمدی کے قتل کی مذمت نہیں کرسکتا۔
پاکستان میں مذہبی آزادیوں کا تو یہ حال ہے کہ باقاعدہ طور پر آئین میں درج ہے کہ کوئی عیسائی، کوئی ہندو، کوئی غیر مسلم پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کے عہدے پر تعینات نہیں ہوسکتا۔ ذرا اندازہ کیجئے، ایک شخص جو خود جنم سے پاکستانی ہے، جس کا باپ پاکستانی ہے، جس کی ماں پاکستانی ہے، جس کے دادا نانا پاکستانی ہوں، وہ صرف اس لئے اپنے ہی ملک کے صدر اور وزیراعظم کے عہدے کیلئے نا اہل قرار پاتا ہے کیونکہ اس کا مذہب کچھ اور ہے۔۔۔ اس سے بڑی نا انصافی اور مذہبی نابرابری کی مثال اور کیا ہوگی۔۔
ایک وقت تھا جب امریکہ میں افریقن امریکن (بلیک) لوگوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا، پھر امریکی معاشرے میں شعور کی لہر بیدار ہوئی، بلیک لوگوں کو غلامی سے آزاد کرانے کیلئے امریکی معاشرے سے ہی آواز اٹھی، یہاں تک کہ سول وار لڑی گئی، امریکہ عارضی طور پر ٹوٹ گیا، مگر آخر کالوں کو غلامی سے آزاد کردیا گیا۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ ان کے حقوق کی بحالی کی جدوجہد جاری رہی، جان ایف کینیڈی سے لے کر عام سفید فام امریکی عوام نے بھی مارٹن لوتھر کنگ کے ساتھ مل کر کالوں کے حقوق کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی، رفتہ رفتہ انہیں ان کے حقوق بہت حد تک واپس دیئے گئے، پھر اسی سفید فام امریکہ نے بارک اوبامہ جیسے سیاہ فام کو دو بار اپنا صدر منتخب کیا، سیاہ فام جارج فلائیڈ کا گورے پولیس والے کے ہاتھوں بہیمانہ قتل ہوتا ہے تو پورے امریکہ کی عوام ہنگام مچادیتی ہے، مگر پاکستانی معاشرہ ایسا جامد اور ساقط معاشرہ ہے کہ مجال ہے مسلم اکثریت میں سے کوئی غیر مسلم یا غیر مذہب اقلیت کے حق کیلئے آواز اٹھادے، کیا پاکستان میں کبھی کسی احمدی کے مرنے پر، کسی ہندو لڑکی کے زبردستی دائرہ اسلام میں دخول پر، کسی ہندو مندر کی تخریب پر، احمدیوں کے خلاف ہونے والی قانون سازی کے خلاف کبھی مسلمانوں نے کوئی جلوس نکالاہو، کوئی ہڑتال کی ہو؟۔۔
پاکستان کا کٹھ پتلی وزیراعظم عمران خان ہر دوسرے روز فرانس کو بھاشن دے رہا ہوتا ہے کہ ہمارے پیغمبر کی توہین مت کرو، ہم تو تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں، تم بھی ہمارے مذہب کا احترام کرو۔۔۔ اب یہ بیان بھی اتنا ہی کھوکھلا ہے جتنا کہ صدر عارف علوی کا۔۔ پاکستان میں کوئی بھی شخص، کوئی بھی مولوی احمدیوں کے پیغمبر مرزا غلام احمد کو کتنی بھی بڑی گالی دے سکتا ہے، جتنی چاہے توہین کرسکتا ہے، اور اس کیلئے کوئی پکڑ نہیں، کوئی قانون نہیں۔ ابھی کل ہی عامر لیاقت نے ہندوؤں کی دیوی کے متعلق توہین آمیز ٹویٹ کی اور آج معافی مانگ کر بری الذمہ ہوگیا، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی پیغمبر اسلام کی توہین کرے اور پھر محض معافی سے اس کی جان چھوٹ جائے؟۔ ذاتی طور پر میں اس حق میں ہوں کہ کسی بھی مذہب کی توہین یا تضحیک قابلِ سزا یا قابلِ گرفت نہیں ہونی چاہئے، مگر آپ نے اگر توہین توہین کھیلنا ہی ہے اور دنیا کو اس پر لیکچر بھی دینا ہے تو کم از کم اس میں تو مساوات پیدا کرلو۔۔ اگر پیغمبر اسلام کی توہین پر موت کی سزا ہے تو احمدیوں کے پیغمبر مرزا غلام احمد کی توہین پر بھی سزائے موت ہی ہونی چاہئے، کسی ہندو دیوی دیوتا کی توہین پر بھی سزائے موت ہی ہونی چاہئے۔۔۔ کم از کم تمہاری بات میں تھوڑا بہت وزن تو پیدا ہوجائے گا، وگرنہ صدر عارف علوی ہو یا وزیراعظم عمران خان تمہارے دنیا کو مذہبی آزادیوں اور مذہبی شخصیات کے احترام پر دیئے گئے لیکچرز لطیفوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔۔
خود پاکستان میں یہ حال ہے کہ مولوی کو تو پوری اجازت ہے کہ وہ کہیں پر بھی ، کسی بھی مسجد میں، کسی بھی سڑک پر، چوک چوراہے پر محفل جما کر لوگ اکھٹے کرکے کسی بھی قسم کی مذہبی خرافات کا پرچار کرسکتا ہے، مگریہی آزادی پاکستان میں غیر مسلموں کو نہیں ہے۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ کسی چوک چوراہے پر کوئی پنڈٹ یا پادری ہندوؤں یا عیسائیوں کا مجمع لگا کر سپیکر چلا کر اپنے مذہب کا پرچار کررہا ہو۔۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے مذہبی پیشوایوں کھلے عام اپنے مذہب کی ترویج کرسکیں؟ پاکستان میں احمدی فرقے کو تو اس قدر آئسولیٹ کیا ہوا ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی احمدی قتل ہوا ہوتا ہے، مگر اس کی خبر تک نہیں چھپتی۔ کوئی کسی احمدی کے قتل کی مذمت نہیں کرسکتا۔
پاکستان میں مذہبی آزادیوں کا تو یہ حال ہے کہ باقاعدہ طور پر آئین میں درج ہے کہ کوئی عیسائی، کوئی ہندو، کوئی غیر مسلم پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کے عہدے پر تعینات نہیں ہوسکتا۔ ذرا اندازہ کیجئے، ایک شخص جو خود جنم سے پاکستانی ہے، جس کا باپ پاکستانی ہے، جس کی ماں پاکستانی ہے، جس کے دادا نانا پاکستانی ہوں، وہ صرف اس لئے اپنے ہی ملک کے صدر اور وزیراعظم کے عہدے کیلئے نا اہل قرار پاتا ہے کیونکہ اس کا مذہب کچھ اور ہے۔۔۔ اس سے بڑی نا انصافی اور مذہبی نابرابری کی مثال اور کیا ہوگی۔۔
ایک وقت تھا جب امریکہ میں افریقن امریکن (بلیک) لوگوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا، پھر امریکی معاشرے میں شعور کی لہر بیدار ہوئی، بلیک لوگوں کو غلامی سے آزاد کرانے کیلئے امریکی معاشرے سے ہی آواز اٹھی، یہاں تک کہ سول وار لڑی گئی، امریکہ عارضی طور پر ٹوٹ گیا، مگر آخر کالوں کو غلامی سے آزاد کردیا گیا۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ ان کے حقوق کی بحالی کی جدوجہد جاری رہی، جان ایف کینیڈی سے لے کر عام سفید فام امریکی عوام نے بھی مارٹن لوتھر کنگ کے ساتھ مل کر کالوں کے حقوق کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی، رفتہ رفتہ انہیں ان کے حقوق بہت حد تک واپس دیئے گئے، پھر اسی سفید فام امریکہ نے بارک اوبامہ جیسے سیاہ فام کو دو بار اپنا صدر منتخب کیا، سیاہ فام جارج فلائیڈ کا گورے پولیس والے کے ہاتھوں بہیمانہ قتل ہوتا ہے تو پورے امریکہ کی عوام ہنگام مچادیتی ہے، مگر پاکستانی معاشرہ ایسا جامد اور ساقط معاشرہ ہے کہ مجال ہے مسلم اکثریت میں سے کوئی غیر مسلم یا غیر مذہب اقلیت کے حق کیلئے آواز اٹھادے، کیا پاکستان میں کبھی کسی احمدی کے مرنے پر، کسی ہندو لڑکی کے زبردستی دائرہ اسلام میں دخول پر، کسی ہندو مندر کی تخریب پر، احمدیوں کے خلاف ہونے والی قانون سازی کے خلاف کبھی مسلمانوں نے کوئی جلوس نکالاہو، کوئی ہڑتال کی ہو؟۔۔
پاکستان کا کٹھ پتلی وزیراعظم عمران خان ہر دوسرے روز فرانس کو بھاشن دے رہا ہوتا ہے کہ ہمارے پیغمبر کی توہین مت کرو، ہم تو تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں، تم بھی ہمارے مذہب کا احترام کرو۔۔۔ اب یہ بیان بھی اتنا ہی کھوکھلا ہے جتنا کہ صدر عارف علوی کا۔۔ پاکستان میں کوئی بھی شخص، کوئی بھی مولوی احمدیوں کے پیغمبر مرزا غلام احمد کو کتنی بھی بڑی گالی دے سکتا ہے، جتنی چاہے توہین کرسکتا ہے، اور اس کیلئے کوئی پکڑ نہیں، کوئی قانون نہیں۔ ابھی کل ہی عامر لیاقت نے ہندوؤں کی دیوی کے متعلق توہین آمیز ٹویٹ کی اور آج معافی مانگ کر بری الذمہ ہوگیا، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی پیغمبر اسلام کی توہین کرے اور پھر محض معافی سے اس کی جان چھوٹ جائے؟۔ ذاتی طور پر میں اس حق میں ہوں کہ کسی بھی مذہب کی توہین یا تضحیک قابلِ سزا یا قابلِ گرفت نہیں ہونی چاہئے، مگر آپ نے اگر توہین توہین کھیلنا ہی ہے اور دنیا کو اس پر لیکچر بھی دینا ہے تو کم از کم اس میں تو مساوات پیدا کرلو۔۔ اگر پیغمبر اسلام کی توہین پر موت کی سزا ہے تو احمدیوں کے پیغمبر مرزا غلام احمد کی توہین پر بھی سزائے موت ہی ہونی چاہئے، کسی ہندو دیوی دیوتا کی توہین پر بھی سزائے موت ہی ہونی چاہئے۔۔۔ کم از کم تمہاری بات میں تھوڑا بہت وزن تو پیدا ہوجائے گا، وگرنہ صدر عارف علوی ہو یا وزیراعظم عمران خان تمہارے دنیا کو مذہبی آزادیوں اور مذہبی شخصیات کے احترام پر دیئے گئے لیکچرز لطیفوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔۔