میڈیا کیلئے آج کی اہم خبر تو ہیلی کاپٹر کریش ہے جسمیں متعدد سفیر پائلٹس کی ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھ گئے، لیکن میرے لئے ایک اور خبر حد سے زیادہ کرب کا باعث بنی ہے اور وہ یہ کہ مولوی سٹیٹ میں خواتین سے زیادتی کے تقریبا دس ہزار واقعات صرف ایک سال میں ہوے، انمیں سے پانچ ہزار رجسٹرڈ ہوے باقی کو ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا گیا یا پھر گھر والوں نے اپنی پیاری بیٹی کو تھانے کچہری میں رولنے کی بجاۓ کمپرومائز کر لیا،پولیس والوں کی گندی نظروں اور لوگوں کی ہنسی سے بچنے کیلئے زہر کا پیالہ پی لیا ، یہ رحجان انتہائی خطرناک پھلو رکھتا ہے کیونکہ اس سے مجرموں کی دلیری بڑھتی جاۓ گی
ہمارے ملک کی ان بہنوں کو انصاف دلانے کیلئے منصفوں اور وزیروں کو پکارنے کو میرا تو اب دل نہیں کرتا آخر کیوں میں ان ہیجڑوں کی منتیں کروں جو اتھارٹی ہونے کے باوجود کسی ریپسٹ کو پھانسی نہیں دے سکتے،آخر کیوں میں ان مذہبی ٹھیکداروں کو پکاروں جو مظلوم عورت کو شریعت کی بھول بھلیوں میں ایسا الجھاتے ہیں کہ وہ بے چاری یہ سوچنے لگتی ہے کہ اس ملک میں انصاف لینا ناممکن اور ریپ ہونا آسان ہے
جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے اس مسئلے کا حل ایسا تلاش کیا کہ انکی جماعت کے ممبران بھی ششدر رہ گئے ،فرمایا کہ "ایسی عورت جو ریپ ہوئی ہو بہتر ہے خاموش رہے" سبحان اللہ امیر کا یہ حال تو مریدوں کی حالت کیا ہوگی ؟
کیا ریپسٹس کو لٹکانے کیلئے کسی محمد بن قاسم کو پکاروں یا پھر منور حسن کی مان لی جاۓ ؟؟؟
ریپ کے پانچ ہزار مقدمات، مگر سزا صرف 219 کو
پاکستان کے ایوان بالا میں حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گذشتہ دو برسوں کے دوران جنسی زیادتی کے تقریباً پانچ ہزار مقدمات درج ہوئے جن میں سے محض 219 افراد کو ہی عدالت سے سزائیں مل سکی ہیں۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سید طاہر حسین مشہدی کے ایک سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ جولائی 2013 سے اس سال فروری تک ملک میں ریپ کے 4960 مقدمات درج ہوئے جن میں ساڑھے چھ ہزار سے زائد تعداد میں ملزمان گرفتار بھی ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ 3645 مقدمات میں باضابطہ چالان بھی پیش ہوئے لیکن محض 219 افراد کو عدالتوں سے سزائیںدلوائی جا سکی ہیں۔حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں جنسی زیادتی کے واقعات کے مقدمے درج نہیں کروائے جاتے اس لیے یہ تعداد دراصل کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کی سنہ 2014 کی رپورٹ کے مطابق اُس سال ملک میں 597 خواتین سے اجتماعی زیادتی کی گئی جبکہ ریپ کے واقعات کی تعداد 828 تھی۔ایوان کے سامنے صوبے اور ضلع کی سطح پر ریپ کے واقعات کی تفصیل بھی رکھی گئی۔اس کے مطابق آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ مقدمات درج ہوئے جن کی تعداد 4322 تھی۔ ان میں سے محض 209 مقدمات میں ملزمان کو سزائیں سنائی جا سکی ہے۔پنجاب میں ضلع فیصل آباد اس فہرست میں سب سے اوپر رہا جہاں درج کیے جانے والے مقدمات کی تعداد 337 بتائی گئی ہے۔
پولیس کے پاس درج شدہ ریپ کے واقعات میں دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ رہا جہاں پچھلے دو سالوں میں 328 مقدمات درج ہوئے جن میں سے محض چار ملزمان کو سزا ہو سکی اور ان مقدمات کی اکثریت زیر التوا ہے۔ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایسے 68 مقدمات درج ہوئے جبکہ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ان واقعات کی تعداد 37 بتائی گئی ہے۔شدت پسندی سے بری طرح متاثر خیبر پختونخوا میں اس عرصے کے دوران جنسی زیادتی کے 215 مقدمات درج کیے گئے جن میں صرف دو افراد کو سزا ہو سکی اور باقی سب مقدمات التوا کا شکار ہیں۔اس صوبے میں ضلع سوات 30 مقدمات کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ ایبٹ آباد کا ضلع 29 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
صوبے میں قبائلی جرگوں کے نظام کی وجہ سے خیال ہے کہ اکثر واقعات مقامی لوگ خود ہی حل کر لیتے ہیں۔آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں ریپ کے واقعات کی تعداد بھی سب سے کم یعنی محض 29 رہی ہے جہاں کوئٹہ میں سب سے زیادہ یعنی 11 مقدمات درج ہوئے۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 22 مقدمات درج ہوئے جہاں صدر مقام مظفرآباد میں تو چھ مقدمات درج ہوئے لیکن ضلع بھمبر 22 مقدمات کے ساتھ سرفہرست رہا۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی آبادی کے اعتبار سے ریپ کے مقدمات کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ یہاں 39 مقدمات درج تو ہوئے لیکن اب تک کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں دی جا سکی۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/05/150508_rape_statistics_pakistan_zs
ہمارے ملک کی ان بہنوں کو انصاف دلانے کیلئے منصفوں اور وزیروں کو پکارنے کو میرا تو اب دل نہیں کرتا آخر کیوں میں ان ہیجڑوں کی منتیں کروں جو اتھارٹی ہونے کے باوجود کسی ریپسٹ کو پھانسی نہیں دے سکتے،آخر کیوں میں ان مذہبی ٹھیکداروں کو پکاروں جو مظلوم عورت کو شریعت کی بھول بھلیوں میں ایسا الجھاتے ہیں کہ وہ بے چاری یہ سوچنے لگتی ہے کہ اس ملک میں انصاف لینا ناممکن اور ریپ ہونا آسان ہے
جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے اس مسئلے کا حل ایسا تلاش کیا کہ انکی جماعت کے ممبران بھی ششدر رہ گئے ،فرمایا کہ "ایسی عورت جو ریپ ہوئی ہو بہتر ہے خاموش رہے" سبحان اللہ امیر کا یہ حال تو مریدوں کی حالت کیا ہوگی ؟
کیا ریپسٹس کو لٹکانے کیلئے کسی محمد بن قاسم کو پکاروں یا پھر منور حسن کی مان لی جاۓ ؟؟؟
ریپ کے پانچ ہزار مقدمات، مگر سزا صرف 219 کو
پاکستان کے ایوان بالا میں حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گذشتہ دو برسوں کے دوران جنسی زیادتی کے تقریباً پانچ ہزار مقدمات درج ہوئے جن میں سے محض 219 افراد کو ہی عدالت سے سزائیں مل سکی ہیں۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سید طاہر حسین مشہدی کے ایک سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ جولائی 2013 سے اس سال فروری تک ملک میں ریپ کے 4960 مقدمات درج ہوئے جن میں ساڑھے چھ ہزار سے زائد تعداد میں ملزمان گرفتار بھی ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ 3645 مقدمات میں باضابطہ چالان بھی پیش ہوئے لیکن محض 219 افراد کو عدالتوں سے سزائیںدلوائی جا سکی ہیں۔حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں جنسی زیادتی کے واقعات کے مقدمے درج نہیں کروائے جاتے اس لیے یہ تعداد دراصل کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کی سنہ 2014 کی رپورٹ کے مطابق اُس سال ملک میں 597 خواتین سے اجتماعی زیادتی کی گئی جبکہ ریپ کے واقعات کی تعداد 828 تھی۔ایوان کے سامنے صوبے اور ضلع کی سطح پر ریپ کے واقعات کی تفصیل بھی رکھی گئی۔اس کے مطابق آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ مقدمات درج ہوئے جن کی تعداد 4322 تھی۔ ان میں سے محض 209 مقدمات میں ملزمان کو سزائیں سنائی جا سکی ہے۔پنجاب میں ضلع فیصل آباد اس فہرست میں سب سے اوپر رہا جہاں درج کیے جانے والے مقدمات کی تعداد 337 بتائی گئی ہے۔
پولیس کے پاس درج شدہ ریپ کے واقعات میں دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ رہا جہاں پچھلے دو سالوں میں 328 مقدمات درج ہوئے جن میں سے محض چار ملزمان کو سزا ہو سکی اور ان مقدمات کی اکثریت زیر التوا ہے۔ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایسے 68 مقدمات درج ہوئے جبکہ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ان واقعات کی تعداد 37 بتائی گئی ہے۔شدت پسندی سے بری طرح متاثر خیبر پختونخوا میں اس عرصے کے دوران جنسی زیادتی کے 215 مقدمات درج کیے گئے جن میں صرف دو افراد کو سزا ہو سکی اور باقی سب مقدمات التوا کا شکار ہیں۔اس صوبے میں ضلع سوات 30 مقدمات کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ ایبٹ آباد کا ضلع 29 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
صوبے میں قبائلی جرگوں کے نظام کی وجہ سے خیال ہے کہ اکثر واقعات مقامی لوگ خود ہی حل کر لیتے ہیں۔آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں ریپ کے واقعات کی تعداد بھی سب سے کم یعنی محض 29 رہی ہے جہاں کوئٹہ میں سب سے زیادہ یعنی 11 مقدمات درج ہوئے۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 22 مقدمات درج ہوئے جہاں صدر مقام مظفرآباد میں تو چھ مقدمات درج ہوئے لیکن ضلع بھمبر 22 مقدمات کے ساتھ سرفہرست رہا۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی آبادی کے اعتبار سے ریپ کے مقدمات کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ یہاں 39 مقدمات درج تو ہوئے لیکن اب تک کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں دی جا سکی۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/05/150508_rape_statistics_pakistan_zs