سب سے پہلے بات کرتے ہیں۔ آپکی پوسٹ کے پہلے پیرا گراف کی۔
فرانس میں جو کارٹون چھاپے جا تے ہیں اور تواتر سے اس کام کو کیا جاتا ہے آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ کیا کیوں جاتا ہے؟ یہ فساد فی الارض کی شاہکارمثال ہے۔ میں نارڈک ریجن میں رہتا ہوں اور ہر نارڈک ملک میں (سوائے سویڈن) کے سرکاری سرپرستی میں قرآن جلایا جاتا ہے میں جس ملک میں رہتا ہوں وہاں اپنی گناہگار آنکھوں سے پولیس کی موجودگی میں قرآن کو جلاتے دیکھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آزادیِ اظہار کا سب سے مستند طریقہ آنحضرتﷺ کے کارٹون چھاپنا اور قرآن کو ہی کیوں جلانا ہے۔ اس کے جواب پہ آپ جناب نے غور کرنا ہے۔ کیا آزادیِ اظہار کے لئے کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
آپ فرماتے ہیں کے مذہب پرائیوٹ مسئلہ ہے اگر یہ واقعی درست مان لیا جائے تو قرآن جلانے والوں کو کیا حق ہے کہ وہ کسی کے پرائیوٹ مسئلے کو یوں پبلک میں لا کر پولیس کی سرپرستی اور کیمروں کی موجودگی میں یہ کام کریں۔ اور لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔
اب آتے ہیں زبردستی کسی کو اپنے عقائد کے احترام پہ مجبور کرنا۔ میں اس سوال کے جواب میں آپ سے یہ پوچھنے کی گستا خی کر سکتا ہوں کہ کیا جان بوجھ کے کسی کے عقائد کا مذاق اُ ڑانا ٹھیک ہے؟ میں اوپر بیان کئے گئے آزادیِ اظہار کو صرف اور صرف فتنہ سمھجتا ہوں۔ اور یہ جان بوجھ کے کیا جاتا ہے ۔ لیکن میں اس کے حل کے طور پہ کسی کو جان سے مار دینے کو ہرگز صحیح نہیں سمھجتا۔ساتھ یہ بھی بیان کر دوں کہ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ میں کوئی عالم نہیں ہوں بس مذہب کو ایک طالبعلم کے طور پہ سمھجنے کی کوشش کرتا ہوں۔
اس لئے میرے خیال میں یہ سب جان بوجھ کے مسلمانوں کے جذبات کو ہوا دینے کے لئے کیا جاتا ہو اور اس کا بہترین حل فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا تھا نا کہ کسی کو جان سے مارنا۔
اب آتے ہیں مرزا صاحب کی طرف۔ مرزا جی کا کیس خاص ہے وہ جسکو ہم انگریزی میں peculiar کہتے ہیں۔ مرزا صاحب نے ایک ہی سانس میں آنحصرت ﷺکے ظل اور بروز ہونے کا دعویٰ کیا اور ساتھ ہی آپؐ کی پہلی بعثت کے قائل لوگوں کو گالیاں دیں۔ کنجری عورتوں کی اولاد، ولد الحرام اس کی دومثالیں ہیں(مثالیں تو اور بھی بہت ہیں اگر دل ٹیکنیکل گالیاں سننے کو کرے تو بتائیے گا حوالے دے دوں گا)۔ میرے ناقص علم میں ایسا کوئی نبی نہیں آیا کہ دعویٰ ایک نبی کی اطاعت میں آنے کا ہو اور اسی نبی کے پیروکاروں کو گالیاں بھی دیتا ہو۔ اگر آپ کے علم میں کوئی ہے تو بتائیے گا۔ اب اگر ایک طرف آپ سار ے جہان کو گالیاں دیں اور لکھیں کہ جو “میری فتح کا قائل نہیں اسے ولد الحرام بننے کا شوق ہے” اور ساتھ ہی آپ کہیں کہ مجھے احترام کیوں نہیں دیتے تو بات کچھ بنتی نہیں ہے۔
اب آتے ہیں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے مسئلہ پہ۔ مسلمانوں اور احمدیوں کے درمیان تقسیم کی بنیاد مرزا صاحب نے اپنی زندگی میں ہی رکھ دی تھی اور اپنے پیروکاروں کو حکم دیا تھا کہ جو مجھے نہیں مانتا کا فر ہے اور اسی طرح جو مجھے نہیں مانتا اس کے پیچھے نماز مت پڑو۔ اس تقسیم کو نئی جہتوں پہ مرزا صاحب کی دوسری بیوی نصرت جہاں سے بیٹا اور دوسرا خلیفہ لے کر گیا جس نے مسلمانوں کے جنازے پڑھنے پر پابندی لگائی اور کہا کہ مسلمانوں کی لڑکی لے کو لیکن ان کو اپنی لڑکی مت دو۔ تو جناب اس تقسیم پہ 1973 سے پہلے تو کسی قادیانی کو اعتراض نہیں تھا لیکن 1973 کے بعد یک دم سار ے قادیانیوں نے قلابازی کھائی اور اب مظلوم کارڈ چلانا شروع کر دیا ہے۔ کہ ہمیں تو مجبور کیا جاتا ہے اور ہمارے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ بقول شاعر
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
پنجابی میں اس کے مثال استعمال ہوتی ہے۔ ساڈا کتا ، کتا تے تہاڈا کتا ٹومی۔
اب آتے ہیں قرآن مجید میں یہودیوں اور عیسائیوں کو برا بھلا کہنے پہ۔ کیا آپ مہربانی فرما کر ایسی آیات کے حوالے پیش کریں گے جن میں ان کو برا بھلا کہا گیا ہے۔ جہاں تک میں نے قرآن کا ترجمہ پڑھا ہےاور میرا ناقص علم ہے ۔ قرآن انتہائی شائستگی سے بیان کرتا ہے کہ یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور ان پہ اعتبار مت کرو۔ اس سے زیادہ کیا کہا گیا ہے برائے مہربانی وہ آیت یا آیات پیش کریں تا کہ ان کو پرکھا جا سکے۔ اب میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا اس شائستگی کا جواب کارٹون بنانا اور قرآن کو جلانا ہے؟
ویسے جیسے آپ بغیر حوالہ جات مختلف دعویٰ جات پیش کرتے ہیں۔ اس سے مربیوں کے طریقہ کار کی بو آتی ہے۔
مسالک میرا موضوع نہیں ہیں اس لئے اس پہ کوئی رائے نہیں دوں گا۔
آپ کی پوسٹ میں کچھ چیزیں ابھی بھی جواب طلب ہیں وہ انشاء اللہ ااگلی دفعہ ایڈریس کرنے کی کوشش کروں گا۔