جی ہاں عرب سپرنگ میں جسطرح روایتی سیاسی و بادشاہی نظام زمین بوس ہوا اس کی شروعات شمالی افریقی مسلمان ممالک سے ہوی تھیں۔ تیونس، مراکش، الجزائر، مصر اور لیبیا کے نظام زندگی کو تہس نہس کرتی یہ تحریکات آگے بڑھتی رہیں اور عراق و شام،اردن و لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگیں ۔ ان کے دھواں دھواں ملبے سے اسلامی پارٹیاں نمودار ہوئیں۔ عوام نے ان کو اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھا، غربت اور امارت میں لکیر سمجھا اور اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے محفوظ سمجھا مگر جلد ہی یہ تمام امیدیں دم توڑنے لگیں۔ کیونکہ اسلامی پارٹیوں کے پاس سواے پرانے قصے دہرانے کے کوی ایک بھی لائحہ عمل نہیں تھا جس پر چلتے ہوے عوام میں آسودگی اور خوشحالی آسکتی ۔ میں کہتا ہوں وہ لوگ ہم سے بہت زیادہ عقلمند ہیں جو چند سال کے بعد ہی اسلامی سیاسی پارٹیوں کے چنگل سے باہر نکل آے ہیں۔ جی ہاں مراکش میں اسلامی پارٹی کو عوام نے اس بار بغیر نہلاے ہی دفن کردیا ہے۔
مراکش میں پہلی تبدیلی آی ہے اور اسلامی پارٹی کو جسے پچھلے الیکشن میں ایک سو پچیس سیٹس ملی تھیں اب تین کا ہندسہ بھی نصیب نہیں ہوا اور صرف بارہ سیٹس کے ساتھ یہ پارٹی زمین بوس ہوچکی ہے
یہ درست ہے کہ دیگر پارٹیاں بھی عوام کیلئے کوی خاص نہیں کرسکیں حالانکہ پاکستان کی نسبت مراکشی عوام بہت ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔ اس کے باوجود مراکشی عوام نے اسلامی پارٹی کے نظریات کو ڈمپ کرتے ہوے دوبارہ نارمل سیاسی پارٹی کو ووٹ دئیے ہیں ۔ مراکشی ہم سے زیادہ جدید اور ترقی یافتہ ہیں شاید یورپ کی ہمسائیگی کی وجہ بھی ان کی ترقی کا باعث ہے یورپین کی آمد سے ٹورازم انڈسٹری کافی پھل پھول گئی ہے، اسپین میں مراکشی بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں جو شائد صلاح الدین ایوبی کے دور کی یاد تازہ کرنے گئے ہیں
یہ تو مراکش کے عقلمند اور ترقی پسند عوام تھے لیکن ایک ہم ہیں کہ بدقسمتی سے ہمارا ترقی معکوس کا سفر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اگرچہ ہمارے حسرتی وزیراعظم نے غلامی کی زنجیرں توڑ ڈالیں مگر افغان عوام تھے کہ ان زنجیروں کو قائم رکھنے کیلئے جہازوں کے پہیوں سے لٹک کر بھی اپنے ظالم آقاوں کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ اسی لئے وزیراعظم صاحب کو مشورہ ہے کہ جب تک عوام کے دلوں کا راز نہ پا لو اس طرح کے اقوال زریں تقسیم کرنے سے باز آجاو ورنہ وہی انجام ہوگا جو مراکش میں اسلامی پارٹی کا ہوا ہے۔ جس بات کا علم نہ ہو یاسطحی علم ہو وہ کرنا حماقت عظیم ہے۔
طالبان کی حکومت نے جو وعدے کئے تھے تنگ نظر ملاوں نے وہ پورے نہیں کئے اور مجھے معلوم ہے کہ انہین دنیا میں کوی بھی تسلیم نہیں کرنے والا اگر پاکستان نے تسلیم کر بھی لیا تو اس کا کوی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ جانور خواتین کو راہ چلتے چھڑیاں مارتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں سائنسی علوم پر پابندی ہے لڑکیوں کو تعلیم سے روکا جارہا ہے
ان حالات میں طالبان کے پاس ٹائم زیادہ نہیں ہے بہتر ہوگا کہ جلد ایک موڈرن حکومت کا ڈھانچا تشکیل دے کر کل سے ہی خواتین کے حقوق بحال کردیں ورنہ اس بار جب خوفناک ائرسٹرائکس ہونگی تو انہیں پاکستان کی طرف بھاگنے کی مہلت نہیں ملے گی۔ ہم دوسری بار دھوکا نہیں کھاسکتے اور مزید کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اگر حکومت نے ان کو پناہ دی تو پھر اس حکومت کو مراکشی عوام کی طرح ڈمپ کردیا جاے گا
مراکش میں پہلی تبدیلی آی ہے اور اسلامی پارٹی کو جسے پچھلے الیکشن میں ایک سو پچیس سیٹس ملی تھیں اب تین کا ہندسہ بھی نصیب نہیں ہوا اور صرف بارہ سیٹس کے ساتھ یہ پارٹی زمین بوس ہوچکی ہے
یہ درست ہے کہ دیگر پارٹیاں بھی عوام کیلئے کوی خاص نہیں کرسکیں حالانکہ پاکستان کی نسبت مراکشی عوام بہت ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔ اس کے باوجود مراکشی عوام نے اسلامی پارٹی کے نظریات کو ڈمپ کرتے ہوے دوبارہ نارمل سیاسی پارٹی کو ووٹ دئیے ہیں ۔ مراکشی ہم سے زیادہ جدید اور ترقی یافتہ ہیں شاید یورپ کی ہمسائیگی کی وجہ بھی ان کی ترقی کا باعث ہے یورپین کی آمد سے ٹورازم انڈسٹری کافی پھل پھول گئی ہے، اسپین میں مراکشی بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں جو شائد صلاح الدین ایوبی کے دور کی یاد تازہ کرنے گئے ہیں
یہ تو مراکش کے عقلمند اور ترقی پسند عوام تھے لیکن ایک ہم ہیں کہ بدقسمتی سے ہمارا ترقی معکوس کا سفر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اگرچہ ہمارے حسرتی وزیراعظم نے غلامی کی زنجیرں توڑ ڈالیں مگر افغان عوام تھے کہ ان زنجیروں کو قائم رکھنے کیلئے جہازوں کے پہیوں سے لٹک کر بھی اپنے ظالم آقاوں کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ اسی لئے وزیراعظم صاحب کو مشورہ ہے کہ جب تک عوام کے دلوں کا راز نہ پا لو اس طرح کے اقوال زریں تقسیم کرنے سے باز آجاو ورنہ وہی انجام ہوگا جو مراکش میں اسلامی پارٹی کا ہوا ہے۔ جس بات کا علم نہ ہو یاسطحی علم ہو وہ کرنا حماقت عظیم ہے۔
طالبان کی حکومت نے جو وعدے کئے تھے تنگ نظر ملاوں نے وہ پورے نہیں کئے اور مجھے معلوم ہے کہ انہین دنیا میں کوی بھی تسلیم نہیں کرنے والا اگر پاکستان نے تسلیم کر بھی لیا تو اس کا کوی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ جانور خواتین کو راہ چلتے چھڑیاں مارتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں سائنسی علوم پر پابندی ہے لڑکیوں کو تعلیم سے روکا جارہا ہے
ان حالات میں طالبان کے پاس ٹائم زیادہ نہیں ہے بہتر ہوگا کہ جلد ایک موڈرن حکومت کا ڈھانچا تشکیل دے کر کل سے ہی خواتین کے حقوق بحال کردیں ورنہ اس بار جب خوفناک ائرسٹرائکس ہونگی تو انہیں پاکستان کی طرف بھاگنے کی مہلت نہیں ملے گی۔ ہم دوسری بار دھوکا نہیں کھاسکتے اور مزید کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اگر حکومت نے ان کو پناہ دی تو پھر اس حکومت کو مراکشی عوام کی طرح ڈمپ کردیا جاے گا