مرزا قادیانی لعنتی

Status
Not open for further replies.

بشر

Councller (250+ posts)

یوم المرگ مرزا قادیانی کذاب


مئی 26. 1908 مرزا غلام احمد قادیانی کذاب کا یومِ مرگ ہے۔ مرزا 1835 میں قادیان موجودہ ضلع گرداسپور مشرقی پنجاب بھارت میں پیدا ہوا اور وہیں دفن ہے۔ مرزا نے ابتدائی تعلیم کے بعد سیالکوٹ میں عدالت کی نوکری سے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرزا اپنے وقت کا انتہائی شاطر انسان تھا جسے فنِ مناظرہ پہ کافی عبور حاصل تھا اور اس نے اپنی اس قابلیت کے ذریعے جوانی میں ہندو عیسائی مناظرین کو شکست بھی دی جسے دیکھتے ہوئے اہلسنت عوام میں سے کچھ لوگ اسکے گرد جمع ہوۓ۔ 45 سال کی عمر میں 1880 میں مرزا کی مشہور کتاب "براہین احمدیہ" شائع ہوئی۔ یہ پانچ جلدوں پہ مشتمل کتاب ہے جس میں مرزا نے غیر مسلم اقوام پہ سینکڑوں دلائل سے یہ ثابت کیا کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اس کتاب کے رد پہ دس ہزار روپے کی انعامی رقم کا بھی اعلان کیا جو اس زمانے میں ایک بہت بڑی رقم تھی۔ اسکے علاوہ بھی مرزا کی بیسیوں کتابیں ہیں جن میں سے روحانی خزائن کافی زیادہ مشہور ہے۔

مرزا کا طریقہ واردات وہی تھا جو عام طور پہ ذہین شعبدہ باز لوگوں کا ہوتا ہے یعنی پہلے مقبولِ عام راۓ پیش کرنا اسکے دلائل دے کے لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنا اور پھر یہ دعویٰ کر دینا کہ سب سے بڑی علمی شخصیت میں ہی ہوں۔ اس زمانے میں چونکہ ہندوستانی معاشرے میں ہر مذہب کے لوگ کثیر تعداد میں بستے تھے تو مرزا نے سب سے پہلے غیر مسلم افراد سے مناظرے جیت کے مسلمانوں میں اپنے مریدین پیدا کئے۔ جب مرید اکٹھے ہو گئے تو ایسا نہیں کہ اس نے اچانک ہی نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا بلکہ مرحلہ وار خود کو اس دعوے تک پہنچایا۔ پہلے اس نے مریدوں کی ذہن سازی کی انکو تیار کیا تاکہ کل میں دعویٰ نبوت کروں تو یہ ماننے میں تامل نہ کریں۔ آپ یقیناً آگاہ ہوں گے کہ اس طریقہ واردات کو انگلش میں سلو پازئنگ کہا جاتا ہے۔
شروع شروع میں مرزا نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس دعوی کا پس منظر اہلسنت کے ہاں یہ نظریہ ہے کہ خدا اپنے کسی خاص بندے کو ہزار سال یا سو سال بعد مجدد بنا کے بھیجتا ہے۔ اسکے بعد 1882 میں مرزا نے دعویٰ کیا میں "مامور من اللہ" ہوں۔ یہ دعویٰ اپنے مریدوں کی نبض چیک کرنے جیسا تھا کہ دیکھا جائے ہضم کرتے ہیں یا نہیں۔ مرزا نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا مجھے الہام ہوا ہے اور اس نے الہام کی عربی عبارت بھی مریدوں کو سنائی۔ مریدوں نے حسبِ توقع مرزا پہ یقین کرلیا۔ شخصیت پرستی اور اندھی تقلید کا نقصان یہی ہوتا ہے کہ آپ دماغی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں اور آپ کو جو سنایا جاتا ہے فوراً ایمان لے آتے ہیں ورنہ انسان تھوڑا سا بھی ذہن استعمال کرے تو گمراہی سے بچ سکتا ہے کیونکہ انسان فطرتاً جاہل نہیں ہے۔ خیر جو کچھ شخصیت پرستی میں مبتلا حضرات کے ساتھ ہوتا ہے وہی مرزا کے مریدوں کے ساتھ بھی ہوا۔

سات سال ایسے گزر گئے اور 1889 میں مرزا نے ایک قدم آگے رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی اور لدھیانہ میں چالیس افراد سے پہلے دن بیعت لی جو اگلے کچھ دنوں میں سینکڑوں تک پہنچ گئی۔ ابھی تک مرزا نے صرف یہ دعویٰ کیا تھا کہ مجھے الہام ہوتا ہے اس سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ 1891 میں مرزا ایک قدم اور آگے بڑھا اور اس نے دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں انکی واپسی کا کوئی امکان نہیں البتہ انکا نئے روپ میں ظہور ہوا ہے اور وہ روپ میں ہوں اس لئے مجھے مسیح موعود کہا جاۓ۔ اسی سال مرزا نے پہلے سالانہ جلسے کا اہتمام بھی کیا اور خود کو رسول اللہ ص کے بعد انکا امتی نبی ڈکلیر کر دیا (خدا لعنت کرے)۔ مرزا کے دعویٰ نبوت کے بعد تمام مسلمانوں خاص طور پہ اہلسنت میں بے چینی پیدا ہوئی کیونکہ مرزا خود اہلسنت تھا۔ شیعوں کے ہاں ردعمل اس لیے کم آیا کیونکہ وہ اسے پاگل سمجھتے تھے اور اسکی باتوں پہ توجہ دینے کو تیار ہی نہیں تھے۔ ظاہر ہے جب شیعوں کا عقیدہ یہ ہو کہ نبوت کے بعد امامت ہے اور ہمارا امام زندہ ہے اور نبی کریم ص کے بعد مولا علی ع نے دعویٰ نبوت نہیں کیا تو یہ دماغی مریض کہاں سے اٹھ کے آ گیا ہے۔ اس لئے شیعوں کی طرف تو سکون تھا لیکن اہلسنت بیچارے بے چین تھے ظاہر ہے ان میں سے ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا انکی بے چینی زیادہ بنتی تھی۔

مرزا کے عقائد کا جائزہ لیا جائے تو وہ حنفی فقہ پہ عمل کرتا تھا اور جو حنفی عقائد ہیں یعنی توحید نبوت قیامت انکا قائل تھا۔ اپنے مخالف کو کافر قرار دینے کا قائل تھا یعنی تکفیری سوچ کا مالک شخص تھا۔ مرزا قادیانی اور باقی اہلسنت کے درمیان جو اصل اختلاف تھا وہ قرآنی اصطلاح "خاتم النبیین" کی تشریح پر تھا۔ مرزا کے نزدیک رسول اللہ ص آخری نبی تو ہیں لیکن صرف شریعت کے خاتمے کے لحاظ سے آخری نبی ہیں یعنی انکی دی گئی شریعت ہی آخری شریعت ہے اب قیامت تک کوئی اور شریعت نہیں آئیگی لیکن اسکا کہنا تھا رسول اللہ ص کی دی گئی آخری شریعت کو آگے بڑھانے کے لئے نبی آ سکتا ہے (نعوذ باللہ)۔ اس لئے وہ کہتا تھا تشریعی نبوت یعنی شریعت والی نبوت تو ختم ہو گئی ہے لیکن عام نبوت ختم نہیں ہوئی اور میں اسی طرح کا عام نبی ہوں جو نئی شریعت تو نہیں لایا البتہ شریعت محمدی کو آگے بڑھانے کے لئے سرکار ختمی مرتبت کی امت میں سے ہی نبی چن لیا گیا ہے یعنی امتی نبی۔

مرزا کے تمام مرید سنی سے قادیانی ہوۓ تھے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا شیعوں کے ہاں مرزا کو کوئی پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ شیعہ امامت کے قائل تھے جو ختم نبوت کی اصل مہر ہے مرزا خود بھی ناصبی تعلیمات سے متاثر تھا اور شیعوں سے نفرت کرتا تھا اس لئے آج بھی آپ کو شاید ہی کوئی قادیانی ملے جس کے اجداد شیعہ ہوں یا جو خود شیعہ سے قادیانی ہوا ہو۔ کم سے کم میں نے تو ایک بھی نہیں دیکھا البتہ بیسیوں ایسے قادیانی خاندانوں کو جانتا ہوں جو سنی سے قادیانی ہوۓ تھے۔ ایسے چار خاندان تو میرے محلے میں ہی رہتے ہیں۔مرزا کے مریدین میں کون کون شامل تھا یہ ایک انتہائی دلچسپ موضوع ہے۔ مختصراً بتاتا چلوں کہ پنجاب میں اہلسنت کے ہاں مرزا کا اثر اتنا پھیل گیا تھا کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اور فزکس میں نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام تو ایک طرف رہے علامہ اقبال جیسی شخصیت بھی قادیانی ہو گئی تھی اور اپنے بڑے بیٹے آفتاب اقبال کو قادیان پڑھنے کے لیے بھی بھیجا تھا۔ 1895 میں علامہ اقبال کے قادیان جا کے مرزا کے 313 خاص مقلدین میں شامل ہونے کا تذکرہ بھی نقل ہوا ہے۔ علامہ اقبال 1932 میں قادیانی جماعت سے الگ ہوۓ اور انکے خلاف لکھنا شروع کیا۔ وجوہات کیا تھیں اس بارے میں مختلف آرا موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے آپ علامہ اقبال کے چھوٹے بیٹے جاوید اقبال مرحوم کی مشہور کتاب "زندہ رود" کا مطالعہ فرمائیں جس میں خود جاوید اقبال یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انکے بڑے بھائی آفتاب اقبال قادیانی تھے اور انکی اولاد بھی قادیانی ہی رہی۔ اسکے علاؤہ سرائیکی زبان کے مشہور صوفی شاعر خواجہ غلام فرید آف کوٹ مٹھن کے بارے میں "اشارات فریدی" میں ملتا ہے کہ جب ان سے سوال ہوا آپ مرزا قادیانی کو کیسا سمجھتے ہیں تو انہوں نے کہا وہ علمی شخصیت ہیں اور جو وہ کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ سکین پیجز اسی اشارات فریدی کے لگاۓ ہوۓ ہیں۔ ان چند مثالوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قادیانی تحریک کس قدر تیزی سے پھیلی تھی۔

قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا سلسلہ تو مرزا کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا لیکن برطانوی راج کی وجہ سے قانونی طور پہ قادیانی مسلمان ہی سمجھے جاتے تھے اور حکومت انہیں مسلمانوں کا ہی ایک گروہ سمجھتی تھی۔ اہلسنت علما نے قادیانیوں کا علمی رد کرنے کی بہت کوشش کی لیکن یہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ علمی میدان میں مجموعی طور پہ قادیانیوں کا پلہ بھاری رہا اور اسکی وجہ مرزا کا گھر کا بھیدی ہونا رہی۔ مرزا اہلسنت مناظرین کا رد خود اہلسنت کتب سے کرتا تھا اور سنی مولویوں کو خود اہلسنت علما کی ختم نبوت کے بارے میں صدیوں پہ پھیلی مبہم ابحاث میں ایسے الجھاتا تھا کہ دیکھنے والے شک کرنے لگتے تھے اور کئی قادیانی ہو جاتے تھے۔ کافی اہلسنت علما نے مرزا کے خلاف کتابیں لکھیں لیکن یہ ایک سچائی ہے قادیانی تحریک کا راستہ پھر بھی نہ روکا جا سکا اور اس کشمکش کا نتیجہ فسادات کی صورت میں نکلتا تھا جو قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہے۔ 1953 میں قادیانی مسلم فسادات بہت خطرناک صورت اختیار کر گئے تھے۔ آخرکار ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1974 میں ربوہ سے شروع ہونے والے فسادات کے بعد قومی اسمبلی میں ہونے والی ایک طویل بحث کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔

غیر جانبدار ذرائع سے ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں میری ذاتی راۓ ہے کہ اگر قادیانیت کا راستہ بزورِ بازو نہ روکا جاتا تو پاکستان میں اہلسنت عوام کی ایک بڑی تعداد قادیانی ہو جاتی۔ علمی میدان میں رد مشکل ہوتا جا رہا تھا بے چینی بڑھتی جا رہی تھی اس لئے قانون کے ذریعے قادیانیوں کی سرگرمیوں پہ پابندی لگائی گئی لیکن اسکے باوجود آپ دیکھیں کہ اس وقت بھی ایک کروڑ سے زیادہ افراد دنیا کے 200 ممالک میں قادیانی مذہب اختیار کر چکے ہیں اگر بزورِ طاقت انکا راستہ نہ روکا جاتا اور مناظرے جاری رہتے تو یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی۔


میں پیروان ِ مکتبِ اہلبیت کو اس لئے خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ عقیدہ امامت کی موجودگی ہمیشہ وہ پناہ گاہ رہی جس نے شیعوں کو ہر قسم کے جھوٹے نبی سے محفوظ رکھا اور آج شیعہ بچہ بھی جانتا ہے کہ مولا علی ع اور آئمہ اہلبیت نے اگر دعویٰ نبوت نہیں کیا تو کسی شعبدہ باز کی اوقات ہی کیا ہے۔ شیعانِ علی ع کو یقین ہے ہمارا امام آئیگا نبی نہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ عیسیٰ نبی انکے مقتدی ہوں گے۔ اہلسنت بھی اگر غدیر سے جڑ جاتے تو ہمیشہ کے لئے ایسے کذابوں سے جان چھوٹ جاتی۔ یہ غدیر چھوڑ کے سقیفہ والی گاڑی پکڑنے کا نتیجہ ہے کہ منزل نہیں ملتی اور ہادی کی تلاش میں کبھی نہ ختم ہونے والا سفر جاری رہتا ہے۔


UAwX9KP.jpg



ZOY3zAh.jpg
 
Status
Not open for further replies.