اس نطفہ حرام کی اپروچ بہت ہے۔ اس کی اس بات میں بھی بہت گہری سوچ ہے کہ "میں تو خود چاہتا تھا ڈی این اے ہو جاے" مگر جب اس نے ریپ کیا تو لڑکی کے بیان کے بعد یہ فرار ہوکر اپنے سرپرستوں کے گھر چلا گیا تھا وہاں سے اس نے ضمانت قبل از گرفتاری بھی کروا لی اور پھر جب پولیس اسے پکڑنے گئی تو اس نے اچھی خاصی مزاحمت کی، معلمہ کی گواہی ڈی این اے سے بھی پاورفل ہوگی
ان ساری باتوں سے تو یہ گلٹی دکھای دے رہا ہے سچا تھا تو فرار کیوں ہوا وہیں رہتا؟
لڑکی سے بے ہوشی میں زیادتی کی گئی ہے کوی تو مجرم ہے اس کے مدرسے میں ہی تمام واقع ہوا ہے
یارو کیسے کیسے ابلیس معاشرے میں عزت دار بن کر کھلے پھر رہے ہیں ان سے اپنے بچوں کو بچایا جاے کیوکہ حکومت تو مدرسوں پر پابندی لگانے سے معذور دکھای دیتی ہے
آپکے سبھی جذبات کی قدر اور احترام ہے ۔ نہ مجرم سےرتی برابر ہمدردی ہے مگر جس جرم کا الزام ہے وہ عدالتی شواہد سے ثابت ہو تبھی سزا دی جائے ۔۔
اسکے اچھے برے کردار کا اسپر لگے مخصوص عمل اور مبینہ الزام سے تعلق نہیں، جرم ثابت کرنے کےلیئے صرف متعلقہ وااقعاتی یا شہادتی ثبوت لازم ہیں ۔۔
اکثر طور جج مبینہ جرم کے عمل سے ماورا گفتگو سے منع کر دیتا ہے ورنہ اسے عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں بنایا جاتا ۔
جرم سرزد ہونے کے بعد کسی عمل کو بھی بنیادی شہادت نہیں بنایا جا سکتا ، بعدازاں عمل از خود ایک نیا جرم ہو سکتا ہے مگر شہاد ت نہیں، ہاں جج اسے ایک ثانوی ثبوت طور لے سکتا ہے ۔
۔ اسی طرح کسی کا ،موٹیو ،، یعنی کسی جرم کرنے کی مبینہ وجوہ کو بھی جرم کی شہادت نہیں مانا جا سکتا، پاکستانی سپریم کورٹ سمیت عام عدالتی اصول ہے کہ ، ہر عمل کا کچھ موٹیو تو ہوتا ہے مگر اسکا ذکر تک جرم ثابت کرنے میں نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں موٹیو کادخل جب جرم ثابت ہو جائے تو سزا کی مقدار میں ہو گا ۔۔ یہ عدالتی نظام اور شہادت کے اصول ہیں، اور عدالت پر تنقید بھی انہی اصول پر ہو تو کیا بھلا ہو ۔