مفتی منیب الرحمان کی کل قضاء روزہ رکھنے کی اپیل

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ روزہ سیاست دانوں کی مرضی پر قربان نہیں کر سکتے ہیں، آج 13 مئی 2021ء بروز جمعرات کے روزے کی قضاء بروز جمعہ کل کے دن رکھوں گا۔

پاکستان بھر میں آج عیدالفطر نہایت مذہبی جوش و جذبے سےمنائی جا رہی ہے۔

پاکستان بھر میں دن کا آغاز عید کی نماز پڑھ کر کیا گیا۔


مفتی منیب الرحمٰن کی جانب سے عید کے خطبے کے دوران کہا گیا ہے کہ روزہ سیاست دانوں کی مرضی پر قربان نہیں کر سکتے ہیں، آج کے دن عید منانے کے فیصلے پر میں ساری رات روتا رہا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں مسلمانِ پاکستان سے کہون گا کہ ایک دن روزے کی قضاء ضرور رکھیں اور معتکف بھی روزے کی حالت میں ایک روز کا اعتکاف کریں۔



مفتی منیب الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کے دوران رویت ہلال کمیٹی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو من پسند ، کٹھ پتلی رویت ہلال کمیٹی چاہیے تھی، رویت ہلال کمیٹی مسجد قاسم خان کے مفتی شہاب الدین کا انتظار کر رہی تھی جیسے ہی انہوں نے چاند دیکھے جانے کا اعلان کیا انہوں نے بھی کر دیا۔

واضح رہے کہ اس وقت مفتی منیب الرحمٰن سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹرینڈ بھی کر رہے ہیں۔

 
Last edited by a moderator:

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
اس سارے جھگڑے کا ایک حل جو مجھے سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی شخص ، جماعت یا ادارہ نماز مغرب کے بعد چاند دیکھنے کی غرض سے باہر نکلنے کا ارادہ کرے تو اس سے پہلے یہ اطمنان کر لے کہ دنیا کے کسی حصہ سے چاند کی شہادت نہیں آئ ہے کیونکہ اگر کوئی شہادت آ چکی ہے خواہ دنیا کے کسی بھی حصہ کی ہو وہ آپ کے لۓ کافی ہے کہ چاند نظر آ چکا ہے اور اب مزید چاند کی تلاش کی ضرورت باقی نہیں۔ پہلے زمانے میں یہ ممکن نہ تھا لیکن ٹیکنالوجی کے باعث اب یہ بہت آسان ہے ۔
 

ali-raj

Chief Minister (5k+ posts)
The government may have done nothing else to honour it's resolve to enact 'Riasat e Madina' model, but the announcement of Eid according to the schedule of Riasat e Madina is one thing they can claim credit for ! ?
Can you elaborate what were the salient points of "Original Riasat-e-Madina" and what was the actual duration of model enactment. Do consider to add the peoples resolve in supporting that model as well.
 

ali-raj

Chief Minister (5k+ posts)
agar Peshawar walo ne chaand dekh liya to riasat ne theek faisla kiya ab agar kisi ne jhooti gawahi di hogi to wo khud iska zimmedar hoga hume riasat k sath chalna hai
بالکل سہی بات ہے
پر پوری دنیا میں ہم سے آگے ہم سے پیچھے
ہم سے اوپر ہم سے نیچے
کہیں بھی اننتیس دن کی عید نہیں ہوئی
پھر پاکستان میں کیسے
اور ہر چھوٹے سے چھوٹے گاو٘ں میں نیٹ ہے کوئی ویڈیو کوئی پکچر کچھ بھی نہیں ملا؟
آج ویسے بھی شام میں سچ جھوٹ سامنے آ جائے گا
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
بالکل سہی بات ہے
پر پوری دنیا میں ہم سے آگے ہم سے پیچھے
ہم سے اوپر ہم سے نیچے
کہیں بھی اننتیس دن کی عید نہیں ہوئی
پھر پاکستان میں کیسے
اور ہر چھوٹے سے چھوٹے گاو٘ں میں نیٹ ہے کوئی ویڈیو کوئی پکچر کچھ بھی نہیں ملا؟
آج ویسے بھی شام میں سچ جھوٹ سامنے آ جائے گا
امت مسلمہ ایک قوم ہے اور اس قوم کا ایک بھی قابل اعتماد فرد چاند دیکھنے کی گواہی دے دے وہ تمام امت کے لیے کافی ہے مثال کے طور پر کوئی مسلمان آسٹریلیا سے گواہی دیتا ہے کہ چاند نظر آ گیا ہے تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ جیسے ہی ان کے علاقے میں صبح نمودار ہوتی ہے وہ عید کی نماز کا اہتمام کریں
پہلے مواصلاتی نظام ایسا نہ تھا جیسے آج ہے لہذا چھوٹ تھی- مثال کے طور پر پہلے امریکا میں رہنے والی لڑکی کی ٹیلیفونک نکاح پاکستان میں رہنے والے لڑکے سے بیک وقت قائم ہو سکتا ہے اور علماء اسے تسلیم کرتے ہیں ، حوالہ باوجود اسکے کہ پہلے زمانے میں یہ ممکن نہ تھا
رمضان کے مہینے میں ، عید الفطر یا عید الاضحیکے موقع پر دنیا کے مختلف مقامات پر مسلمان مختلف ایام پر روزہ رکھتے یا منانا شروع کرتے ہیں اور مختلف ایام پر ختم کر تے ہیں ، جوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متضاد ہیں۔۔
ان اختلافات سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کچھ واقعی ایک مسئلہ ہے جب ہم مسلمان اس بات پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں کہ کب ایک روزہ شروع کرنا یا عید کو ایک عالمی دن کے طور پر مسلمان امت کے طور پر منانا ہے۔ ہم بار بار یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں ، ایک امت ، ایک عقیدہ توحید کے ساتھ اور ایک بھائی ہیں ، تو پھر ہمارے درمیان دنیا کے مختلف حصوں میں یہ اختلافات کیوں موجود ہیں؟ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:۔

(Qur'an 49:10) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سواپنے بھائیوں میں صلح کرادو اور الله سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے

قرآن سحری کے اختتامی وقت کا ذکر اس طرح کرتا ہے:۔

کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔
‎(سورة البقرة, Al-Baqara, Chapter #2, Verse #187)

آج سائنس کی ترقی کے ساتھ ، کوئی باہر جانے کی زحمت نہیں کرتا ہے کہ آیا صبح کا سفید دھاگہ آپ کو سیاہ دھاگے سے الگ کر دیتا ہے یا نہیں۔ ہمیں صرف طباعت شدہ ٹائم ٹیبل پر اعتماد ہے جو سائنسی حساب پر مبنی محض ایک پیش گوئی ہے۔ اور ہم اس وقت کی میز پر عمل کرنے کے لئے اپنی گھڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ کوئی بھی کبھی بھی ان حساب کو چیلنج کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ہے۔

آئیے اب نظر ڈالتے ہیں ان دلائل پر جو رمضان اور عید کے چاند کی روئیت کے بارے میں قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں

حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ

’’اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے رکھو اور اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے افطار کر لو، اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو ۳۰ دنوں کی گنتی پوری کر لو‘‘
(صحیح بخاری - 1909 islam360)

حدیث میں صُومُوا، أَفْطِرُوا اور لِرُؤْيَتِهِ کے الفاظ قابل غور ہیں

’’صُومُوا‘‘ اور ’’أَفْطِرُوا‘‘ جمع کے صیغے ہیں جو تمام مسلمانوں کو محیط ہیں۔ یعنی تم سب مسلمان روزہ رکھو اور افطار کرو۔

لفظ ’’لِرُؤْيَتِهِ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’اس کے دیکھے جانے پر‘‘۔ واضح رہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں کو فرداً فرداً چاند دیکھنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ کسی اور کے چاند دیکھنے کو کافی قرار دیتی ہے۔

چنانچہ حدیث کا مطلب ہے کہ چاند کے دیکھے جانے پر تمام مسلمان روزے شروع کریں یعنی رمضان شروع کریں اور تمام مسلمان روزہ رکھنا چھوڑ دیں یعنی عید کریں

یہ حدیث رمضان کی شروعات اور اختتام کو چاندکے دیکھے جانے کے ساتھ منسلک کرتی ہے جبکہ اس بات کی کوئی تخصیص نہیں کرتی کہ یہ چاند کون دیکھے۔ اس کی تخصیص اگلی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

امام سرخسیؒ نے المبسوط میں ابن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے: ’’مسلمانوں نے صبح روزہ نہ رکھا کیونکہ انہیں چاند نظر نہ آیا۔ پھر ایک بدو پہنچا اور اس بات کی شہادت دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ تو رسول اللہ ا نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ بدو نے کہا: ہاں! آپ ا نے فرمایا: اللہ اکبر!تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے۔ پس آپ ا نے روزہ رکھا اور تمام لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ‘‘ ۔ اس حدیث کو ابو داؤدؒ نے بھی ابن عباسؓ سے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے (سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۲۳۳۳)۔

آپ ﷺ نے ایک اعرابی کی رویت کو، جسے آپ ﷺ شاید جانتے بھی نہ تھے، قبول کیا جس نے مدینہ کے باہر چاند دیکھا تھا

یہ حدیث اپنے علاقے سے باہر چاند نظر آنے کے حکم کو بیان کرتی ہے کیونکہ وہ بدو مدینہ کے باہر سے آیا تھا

آپ ﷺ نے اس کی رؤیت کو قبول کرنے کی محض ایک شرط لگائی یعنی کہ آیا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں

مندرجہ بالا دونوں حدیث کو جوڑ کر حکم یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی بھی مسلمان چاند کے دیکھے جانے کی گواہی دے دے تو اس کی گواہی معتبر سمجھی جائیگی اور تمام مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کہ وہ اس کے مطابق رمضان کی شروعات اور اختتام کریں

اس حدیث میں رسول اللہﷺ کا یہ کہنا کہ ’’تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ قابل ذکر ہے اور اس سے رو گردانی نہیں کی جانی چاہئے رمضان کے مسئلے کی وضاحت کے بعد عید کے دن کے مسئلے کی وضاحت بھی ضروری ہے : جیسا کہ رمضان کے آغاز کا فیصلہ چاند نظر آنے پر ہوتا ہے اسی طرح عید کاانحصار بھی چاند کے نظر آنے پر ہے۔ اس سے متعلق ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺسے یہ حدیث روایت کی ہے : ’’رسول اللہ ﷺنے دو دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے : عیدالاضحیٰ اور عید الفطرکے دن‘ ‘(بخاری و مسلم2672)۔

:یہ حدیث درست عید کا دن متعین کرنے کو انتہائی اہم مسئلہ بنا دیتی ہے۔ آئیے اب عید سے متعلق احادیث کا مطالعہ کریں

رمضان کے آخری دن لوگوں میں ( چاند کی رویت پر ) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔‘‘(سنن ابو داؤد ۔2339 islam360)

نماز کے ٹائم ٹیبل کی طرح ، سائنسدان رمضان المبارک سمیت ہر مسلمان مہینے کے آغاز کے لئے حساب کتاب کرسکتے ہیں اور تشکیل دے سکتے ہیں۔

اب ، سورة القدر کا ترجمہ پڑھیں:۔
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ وہ صبح روشن ہونے تک سلامتی کی رات ہے۔

اوپر بیان کی گئی سورة القدر سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ صرف ایک ہی رات ہے جسے "لَيْلَةِ الْقَدْرِ" کہا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا بحث کی بنیاد پر مسلمان ساری دنیا کے لئےایک سائنسی کیلنڈر پر کیوں راضی نہیں ہوسکتے ، جس طرح ہم سب اپنی گھڑیاں استعمال کرتے ہوئے، بغیر باہر نکلے، سحری کے آخری وقت پر متفق ہیں۔ اس طرح پوری مسلم دنیا میں ایک عید ،ایک رمضان اور ایک "لَيْلَةِ الْقَدْرِ" پر متفق ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر مسلمان "لَيْلَةِ الْقَدْرِ" کی فضیلت حاصل کر سکے گا جو رات ہر سال اس دنیا میں صرف ایک بار آتی ہے۔

ذرا تصور کریں کہ رات کے وقت فرشتے ہمارے سیارے پر اتر رہے ہیں ، زمین کی گردش کے ساتھ ، وہ ایک ہی رات میں ساری زمین کا احاطہ کر رہے ہیں ۔

اوپر ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی پہلا چاند نظر آتا ہے ، اس کی شہادت دنیا کے کسی بھی حصے میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ یعنی ، جیسے ہی وہ اپنے علاقے میں مغرب کے بعد چاند کو دیکھنے کا ارادہ کرتے ہیں ، سب سے پہلے اس بات کی تسلی کر لیں کہ دنیا کے کسی حصے سے چاند کی شہادت تو نہیں آئی ہے اگر آ چکی ہے تو انہیں اسی بنیاد پر چاند نظر آنےکا اعلان کر دینا کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان میں رؤیت حلال کمیٹی کے چیئرمین چاند دیکھنے مغرب کے بعد باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہوں اور انہیں اطلاح ملتی ہے کہ انڈونیشیا میں پہلے ہی چند کا اعلان ہو چکا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں چاند کا اعلان کر دیں۔

مثال کے طور پر ، اگر پہلا چاند آسٹریلیا میں دکھائی دیتا ہے تو 5 گھنٹے کے بعد پاکستان میں سورج غروب ہوجائے گا۔ لہذا پاکستانیوں کو آسٹریلیا سے ملنے والی گواہی کی بنیاد پر نیا مہینہ شروع کرنا چاہئے۔ اسی طرح ، برطانیہ میں سورج غروب 9 گھنٹے کے بعد ہوگا۔ وہ اسی آسٹریلیا سے ملنے والی گواہی، اپنے ملک میں نئے مہینے کے آغاز کا اعلان کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ اسی انداز میں ، نیو یارک ، امریکہ جو آسٹریلیا کے سے 14 گھنٹوں کا وقت کا فرق رکھتا ہے۔ وہ بھی آسٹریلیا کی گواہی پر مبنی غروب آفتاب ہوتے ہی نئے مہینے کے آغاز کا اعلان کرسکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ ٹیکنالوجی اور مواصلت کے ذرائع کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں تھا لیکن اب یہ بالکل ممکن ہے۔

لہٰذا اگر مسلمانوں کو اپنے خطے میں چاند نظر نہ آئے اور وہ رمضان کو جاری رکھے ہوئے ہوں لیکن بعد میں انہیں یہ پتہ چلے کہ کسی اور خطے میں چاند نظر آ چکا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ روزہ توڑ دیں ۔ ان واضح دلائل کی بنیاد پر فقہائے حنفی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اختلاف مطلع کا کوئی اعتبار نہیں، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’درمختار‘ میں درج ہے ؛’’مطلع مختلف ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اگر مغربی ممالک والے چاند دیکھ لیں تو مشرقی ممالک کو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘(جلد اول، صفحہ 149)۔ احناف کی دیگر کتابوں جیسے فتاویٰ عالمگیری، فتح القدیر، بحرالرائق، طحاوی، زیلعی وغیرہ میں بھی یہی درج ہے۔ مالکی اور حنبلی فقہ کا بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ’’اختلاف مطلع کے غیر معتبر ہونے پر ہمارا بھی اعتبار ہے اور مالکیوں اور حنابلہ کا بھی۔‘‘ (شامی جلد4، صفحہ 105)۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: اگر لوگ رمضان سمجھ کر عید الفطر کے دن روزہ رکھ رہے ہوں اور پھر ان تک قطعی ثبوت پہنچ جائے کہ رمضان کا نیا چاند ان کے رمضان شروع کرنے ایک دن پہلے دیکھ لیا گیا تھا اور اب وہ (درحقیقت) اکتیسویں )۳۱) دن میں ہیں، تو انہیں اس دن کا روزہ توڑ لینا چاہئے، چاہے جس وقت بھی ان تک یہ خبر پہنچے۔‘‘ (موطا، کتاب ۱۸، نمبر ۴۔۱۔۱۸) جہاں تک شافعیوں کا تعلق ہے تو وہ ایک رائے پر متفق نہیں جیسا کہ علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348) ابن تیمیہ ؒ الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ ۱۱۱ پر لکھتے ہیں: ’’ایک شخص جس کو کہیں چاند کے دیکھنے کا علم بروقت ہو جائے تو وہ روزہ رکھے اور ضرور رکھے، اسلام کی نص اور سلف صالحین کا عمل اسی پر ہے۔ اس طرح چاند کی شہادت کو کسی خاص فاصلے میں یا کسی مخصوص ملک میں محدود کر دینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی‘‘۔
(والله أعلم
)​
 

Pakcola

Senator (1k+ posts)
بالکل سہی بات ہے
پر پوری دنیا میں ہم سے آگے ہم سے پیچھے
ہم سے اوپر ہم سے نیچے
کہیں بھی اننتیس دن کی عید نہیں ہوئی
پھر پاکستان میں کیسے
اور ہر چھوٹے سے چھوٹے گاو٘ں میں نیٹ ہے کوئی ویڈیو کوئی پکچر کچھ بھی نہیں ملا؟
آج ویسے بھی شام میں سچ جھوٹ سامنے آ جائے گا
Video r pics to aai hai pata nahi kal ki hai ya nahi r han aaj k chaand se pata chal jae ga such jhoot ka baki Pathano per ALLAH ka khas karam hai unko zaroor chand jald nazar aajata hai
 

ali-raj

Chief Minister (5k+ posts)
امت مسلمہ ایک قوم ہے اور اس قوم کا ایک بھی قابل اعتماد فرد چاند دیکھنے کی گواہی دے دے وہ تمام امت کے لیے کافی ہے مثال کے طور پر کوئی مسلمان آسٹریلیا سے گواہی دیتا ہے کہ چاند نظر آ گیا ہے تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ جیسے ہی ان کے علاقے میں صبح نمودار ہوتی ہے وہ عید کی نماز کا اہتمام کریں
پہلے مواصلاتی نظام ایسا نہ تھا جیسے آج ہے لہذا چھوٹ تھی- مثال کے طور پر پہلے امریکا میں رہنے والی لڑکی کی ٹیلیفونک نکاح پاکستان میں رہنے والے لڑکے سے بیک وقت قائم ہو سکتا ہے اور علماء اسے تسلیم کرتے ہیں ، حوالہ باوجود اسکے کہ پہلے زمانے میں یہ ممکن نہ تھا
رمضان کے مہینے میں ، عید الفطر یا عید الاضحیکے موقع پر دنیا کے مختلف مقامات پر مسلمان مختلف ایام پر روزہ رکھتے یا منانا شروع کرتے ہیں اور مختلف ایام پر ختم کر تے ہیں ، جوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متضاد ہیں۔۔
ان اختلافات سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کچھ واقعی ایک مسئلہ ہے جب ہم مسلمان اس بات پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں کہ کب ایک روزہ شروع کرنا یا عید کو ایک عالمی دن کے طور پر مسلمان امت کے طور پر منانا ہے۔ ہم بار بار یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں ، ایک امت ، ایک عقیدہ توحید کے ساتھ اور ایک بھائی ہیں ، تو پھر ہمارے درمیان دنیا کے مختلف حصوں میں یہ اختلافات کیوں موجود ہیں؟ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:۔

(Qur'an 49:10) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سواپنے بھائیوں میں صلح کرادو اور الله سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے

قرآن سحری کے اختتامی وقت کا ذکر اس طرح کرتا ہے:۔

کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔
‎(سورة البقرة, Al-Baqara, Chapter #2, Verse #187)

آج سائنس کی ترقی کے ساتھ ، کوئی باہر جانے کی زحمت نہیں کرتا ہے کہ آیا صبح کا سفید دھاگہ آپ کو سیاہ دھاگے سے الگ کر دیتا ہے یا نہیں۔ ہمیں صرف طباعت شدہ ٹائم ٹیبل پر اعتماد ہے جو سائنسی حساب پر مبنی محض ایک پیش گوئی ہے۔ اور ہم اس وقت کی میز پر عمل کرنے کے لئے اپنی گھڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ کوئی بھی کبھی بھی ان حساب کو چیلنج کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ہے۔

آئیے اب نظر ڈالتے ہیں ان دلائل پر جو رمضان اور عید کے چاند کی روئیت کے بارے میں قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں

حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ

’’اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے رکھو اور اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے افطار کر لو، اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو ۳۰ دنوں کی گنتی پوری کر لو‘‘
(صحیح بخاری - 1909 islam360)

حدیث میں صُومُوا، أَفْطِرُوا اور لِرُؤْيَتِهِ کے الفاظ قابل غور ہیں

’’صُومُوا‘‘ اور ’’أَفْطِرُوا‘‘ جمع کے صیغے ہیں جو تمام مسلمانوں کو محیط ہیں۔ یعنی تم سب مسلمان روزہ رکھو اور افطار کرو۔

لفظ ’’لِرُؤْيَتِهِ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’اس کے دیکھے جانے پر‘‘۔ واضح رہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں کو فرداً فرداً چاند دیکھنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ کسی اور کے چاند دیکھنے کو کافی قرار دیتی ہے۔

چنانچہ حدیث کا مطلب ہے کہ چاند کے دیکھے جانے پر تمام مسلمان روزے شروع کریں یعنی رمضان شروع کریں اور تمام مسلمان روزہ رکھنا چھوڑ دیں یعنی عید کریں

یہ حدیث رمضان کی شروعات اور اختتام کو چاندکے دیکھے جانے کے ساتھ منسلک کرتی ہے جبکہ اس بات کی کوئی تخصیص نہیں کرتی کہ یہ چاند کون دیکھے۔ اس کی تخصیص اگلی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

امام سرخسیؒ نے المبسوط میں ابن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے: ’’مسلمانوں نے صبح روزہ نہ رکھا کیونکہ انہیں چاند نظر نہ آیا۔ پھر ایک بدو پہنچا اور اس بات کی شہادت دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ تو رسول اللہ ا نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ بدو نے کہا: ہاں! آپ ا نے فرمایا: اللہ اکبر!تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے۔ پس آپ ا نے روزہ رکھا اور تمام لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ‘‘ ۔ اس حدیث کو ابو داؤدؒ نے بھی ابن عباسؓ سے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے (سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۲۳۳۳)۔

آپ ﷺ نے ایک اعرابی کی رویت کو، جسے آپ ﷺ شاید جانتے بھی نہ تھے، قبول کیا جس نے مدینہ کے باہر چاند دیکھا تھا

یہ حدیث اپنے علاقے سے باہر چاند نظر آنے کے حکم کو بیان کرتی ہے کیونکہ وہ بدو مدینہ کے باہر سے آیا تھا

آپ ﷺ نے اس کی رؤیت کو قبول کرنے کی محض ایک شرط لگائی یعنی کہ آیا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں

مندرجہ بالا دونوں حدیث کو جوڑ کر حکم یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی بھی مسلمان چاند کے دیکھے جانے کی گواہی دے دے تو اس کی گواہی معتبر سمجھی جائیگی اور تمام مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کہ وہ اس کے مطابق رمضان کی شروعات اور اختتام کریں

اس حدیث میں رسول اللہﷺ کا یہ کہنا کہ ’’تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ قابل ذکر ہے اور اس سے رو گردانی نہیں کی جانی چاہئے رمضان کے مسئلے کی وضاحت کے بعد عید کے دن کے مسئلے کی وضاحت بھی ضروری ہے : جیسا کہ رمضان کے آغاز کا فیصلہ چاند نظر آنے پر ہوتا ہے اسی طرح عید کاانحصار بھی چاند کے نظر آنے پر ہے۔ اس سے متعلق ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺسے یہ حدیث روایت کی ہے : ’’رسول اللہ ﷺنے دو دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے : عیدالاضحیٰ اور عید الفطرکے دن‘ ‘(بخاری و مسلم2672)۔

:یہ حدیث درست عید کا دن متعین کرنے کو انتہائی اہم مسئلہ بنا دیتی ہے۔ آئیے اب عید سے متعلق احادیث کا مطالعہ کریں

رمضان کے آخری دن لوگوں میں ( چاند کی رویت پر ) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔‘‘(سنن ابو داؤد ۔2339 islam360)

نماز کے ٹائم ٹیبل کی طرح ، سائنسدان رمضان المبارک سمیت ہر مسلمان مہینے کے آغاز کے لئے حساب کتاب کرسکتے ہیں اور تشکیل دے سکتے ہیں۔

اب ، سورة القدر کا ترجمہ پڑھیں:۔
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ وہ صبح روشن ہونے تک سلامتی کی رات ہے۔

اوپر بیان کی گئی سورة القدر سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ صرف ایک ہی رات ہے جسے "لَيْلَةِ الْقَدْرِ" کہا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا بحث کی بنیاد پر مسلمان ساری دنیا کے لئےایک سائنسی کیلنڈر پر کیوں راضی نہیں ہوسکتے ، جس طرح ہم سب اپنی گھڑیاں استعمال کرتے ہوئے، بغیر باہر نکلے، سحری کے آخری وقت پر متفق ہیں۔ اس طرح پوری مسلم دنیا میں ایک عید ،ایک رمضان اور ایک "لَيْلَةِ الْقَدْرِ" پر متفق ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر مسلمان "لَيْلَةِ الْقَدْرِ" کی فضیلت حاصل کر سکے گا جو رات ہر سال اس دنیا میں صرف ایک بار آتی ہے۔

ذرا تصور کریں کہ رات کے وقت فرشتے ہمارے سیارے پر اتر رہے ہیں ، زمین کی گردش کے ساتھ ، وہ ایک ہی رات میں ساری زمین کا احاطہ کر رہے ہیں ۔

اوپر ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی پہلا چاند نظر آتا ہے ، اس کی شہادت دنیا کے کسی بھی حصے میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ یعنی ، جیسے ہی وہ اپنے علاقے میں مغرب کے بعد چاند کو دیکھنے کا ارادہ کرتے ہیں ، سب سے پہلے اس بات کی تسلی کر لیں کہ دنیا کے کسی حصے سے چاند کی شہادت تو نہیں آئی ہے اگر آ چکی ہے تو انہیں اسی بنیاد پر چاند نظر آنےکا اعلان کر دینا کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان میں رؤیت حلال کمیٹی کے چیئرمین چاند دیکھنے مغرب کے بعد باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہوں اور انہیں اطلاح ملتی ہے کہ انڈونیشیا میں پہلے ہی چند کا اعلان ہو چکا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں چاند کا اعلان کر دیں۔

مثال کے طور پر ، اگر پہلا چاند آسٹریلیا میں دکھائی دیتا ہے تو 5 گھنٹے کے بعد پاکستان میں سورج غروب ہوجائے گا۔ لہذا پاکستانیوں کو آسٹریلیا سے ملنے والی گواہی کی بنیاد پر نیا مہینہ شروع کرنا چاہئے۔ اسی طرح ، برطانیہ میں سورج غروب 9 گھنٹے کے بعد ہوگا۔ وہ اسی آسٹریلیا سے ملنے والی گواہی، اپنے ملک میں نئے مہینے کے آغاز کا اعلان کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ اسی انداز میں ، نیو یارک ، امریکہ جو آسٹریلیا کے سے 14 گھنٹوں کا وقت کا فرق رکھتا ہے۔ وہ بھی آسٹریلیا کی گواہی پر مبنی غروب آفتاب ہوتے ہی نئے مہینے کے آغاز کا اعلان کرسکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ ٹیکنالوجی اور مواصلت کے ذرائع کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں تھا لیکن اب یہ بالکل ممکن ہے۔

لہٰذا اگر مسلمانوں کو اپنے خطے میں چاند نظر نہ آئے اور وہ رمضان کو جاری رکھے ہوئے ہوں لیکن بعد میں انہیں یہ پتہ چلے کہ کسی اور خطے میں چاند نظر آ چکا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ روزہ توڑ دیں ۔ ان واضح دلائل کی بنیاد پر فقہائے حنفی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اختلاف مطلع کا کوئی اعتبار نہیں، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’درمختار‘ میں درج ہے ؛’’مطلع مختلف ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اگر مغربی ممالک والے چاند دیکھ لیں تو مشرقی ممالک کو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘(جلد اول، صفحہ 149)۔ احناف کی دیگر کتابوں جیسے فتاویٰ عالمگیری، فتح القدیر، بحرالرائق، طحاوی، زیلعی وغیرہ میں بھی یہی درج ہے۔ مالکی اور حنبلی فقہ کا بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ’’اختلاف مطلع کے غیر معتبر ہونے پر ہمارا بھی اعتبار ہے اور مالکیوں اور حنابلہ کا بھی۔‘‘ (شامی جلد4، صفحہ 105)۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: اگر لوگ رمضان سمجھ کر عید الفطر کے دن روزہ رکھ رہے ہوں اور پھر ان تک قطعی ثبوت پہنچ جائے کہ رمضان کا نیا چاند ان کے رمضان شروع کرنے ایک دن پہلے دیکھ لیا گیا تھا اور اب وہ (درحقیقت) اکتیسویں )۳۱) دن میں ہیں، تو انہیں اس دن کا روزہ توڑ لینا چاہئے، چاہے جس وقت بھی ان تک یہ خبر پہنچے۔‘‘ (موطا، کتاب ۱۸، نمبر ۴۔۱۔۱۸) جہاں تک شافعیوں کا تعلق ہے تو وہ ایک رائے پر متفق نہیں جیسا کہ علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348) ابن تیمیہ ؒ الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ ۱۱۱ پر لکھتے ہیں: ’’ایک شخص جس کو کہیں چاند کے دیکھنے کا علم بروقت ہو جائے تو وہ روزہ رکھے اور ضرور رکھے، اسلام کی نص اور سلف صالحین کا عمل اسی پر ہے۔ اس طرح چاند کی شہادت کو کسی خاص فاصلے میں یا کسی مخصوص ملک میں محدود کر دینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی‘‘۔
(والله أعلم
)​
امت مسلمہ ایک قوم ہے اور اس قوم کا ایک بھی قابل اعتماد فرد چاند دیکھنے کی گواہی دے دے وہ تمام امت کے لیے کافی ہے مثال کے طور پر کوئی مسلمان آسٹریلیا سے گواہی دیتا ہے کہ چاند نظر آ گیا ہے تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ جیسے ہی ان کے علاقے میں صبح نمودار ہوتی ہے وہ عید کی نماز کا اہتمام کریں
پہلے مواصلاتی نظام ایسا نہ تھا جیسے آج ہے لہذا چھوٹ تھی- مثال کے طور پر پہلے امریکا میں رہنے والی لڑکی کی ٹیلیفونک نکاح پاکستان میں رہنے والے لڑکے سے بیک وقت قائم ہو سکتا ہے اور علماء اسے تسلیم کرتے ہیں ، حوالہ باوجود اسکے کہ پہلے زمانے میں یہ ممکن نہ تھا
رمضان کے مہینے میں ، عید الفطر یا عید الاضحیکے موقع پر دنیا کے مختلف مقامات پر مسلمان مختلف ایام پر روزہ رکھتے یا منانا شروع کرتے ہیں اور مختلف ایام پر ختم کر تے ہیں ، جوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متضاد ہیں۔۔
ان اختلافات سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کچھ واقعی ایک مسئلہ ہے جب ہم مسلمان اس بات پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں کہ کب ایک روزہ شروع کرنا یا عید کو ایک عالمی دن کے طور پر مسلمان امت کے طور پر منانا ہے۔ ہم بار بار یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں ، ایک امت ، ایک عقیدہ توحید کے ساتھ اور ایک بھائی ہیں ، تو پھر ہمارے درمیان دنیا کے مختلف حصوں میں یہ اختلافات کیوں موجود ہیں؟ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:۔

(Qur'an 49:10) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سواپنے بھائیوں میں صلح کرادو اور الله سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے

قرآن سحری کے اختتامی وقت کا ذکر اس طرح کرتا ہے:۔

کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔
‎(سورة البقرة, Al-Baqara, Chapter #2, Verse #187)

آج سائنس کی ترقی کے ساتھ ، کوئی باہر جانے کی زحمت نہیں کرتا ہے کہ آیا صبح کا سفید دھاگہ آپ کو سیاہ دھاگے سے الگ کر دیتا ہے یا نہیں۔ ہمیں صرف طباعت شدہ ٹائم ٹیبل پر اعتماد ہے جو سائنسی حساب پر مبنی محض ایک پیش گوئی ہے۔ اور ہم اس وقت کی میز پر عمل کرنے کے لئے اپنی گھڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ کوئی بھی کبھی بھی ان حساب کو چیلنج کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ہے۔

آئیے اب نظر ڈالتے ہیں ان دلائل پر جو رمضان اور عید کے چاند کی روئیت کے بارے میں قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں

حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ

’’اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے رکھو اور اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے افطار کر لو، اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو ۳۰ دنوں کی گنتی پوری کر لو‘‘
(صحیح بخاری - 1909 islam360)

حدیث میں صُومُوا، أَفْطِرُوا اور لِرُؤْيَتِهِ کے الفاظ قابل غور ہیں

’’صُومُوا‘‘ اور ’’أَفْطِرُوا‘‘ جمع کے صیغے ہیں جو تمام مسلمانوں کو محیط ہیں۔ یعنی تم سب مسلمان روزہ رکھو اور افطار کرو۔

لفظ ’’لِرُؤْيَتِهِ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’اس کے دیکھے جانے پر‘‘۔ واضح رہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں کو فرداً فرداً چاند دیکھنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ کسی اور کے چاند دیکھنے کو کافی قرار دیتی ہے۔

چنانچہ حدیث کا مطلب ہے کہ چاند کے دیکھے جانے پر تمام مسلمان روزے شروع کریں یعنی رمضان شروع کریں اور تمام مسلمان روزہ رکھنا چھوڑ دیں یعنی عید کریں

یہ حدیث رمضان کی شروعات اور اختتام کو چاندکے دیکھے جانے کے ساتھ منسلک کرتی ہے جبکہ اس بات کی کوئی تخصیص نہیں کرتی کہ یہ چاند کون دیکھے۔ اس کی تخصیص اگلی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

امام سرخسیؒ نے المبسوط میں ابن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے: ’’مسلمانوں نے صبح روزہ نہ رکھا کیونکہ انہیں چاند نظر نہ آیا۔ پھر ایک بدو پہنچا اور اس بات کی شہادت دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ تو رسول اللہ ا نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ بدو نے کہا: ہاں! آپ ا نے فرمایا: اللہ اکبر!تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے۔ پس آپ ا نے روزہ رکھا اور تمام لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ‘‘ ۔ اس حدیث کو ابو داؤدؒ نے بھی ابن عباسؓ سے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے (سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۲۳۳۳)۔

آپ ﷺ نے ایک اعرابی کی رویت کو، جسے آپ ﷺ شاید جانتے بھی نہ تھے، قبول کیا جس نے مدینہ کے باہر چاند دیکھا تھا

یہ حدیث اپنے علاقے سے باہر چاند نظر آنے کے حکم کو بیان کرتی ہے کیونکہ وہ بدو مدینہ کے باہر سے آیا تھا

آپ ﷺ نے اس کی رؤیت کو قبول کرنے کی محض ایک شرط لگائی یعنی کہ آیا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں

مندرجہ بالا دونوں حدیث کو جوڑ کر حکم یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی بھی مسلمان چاند کے دیکھے جانے کی گواہی دے دے تو اس کی گواہی معتبر سمجھی جائیگی اور تمام مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کہ وہ اس کے مطابق رمضان کی شروعات اور اختتام کریں

اس حدیث میں رسول اللہﷺ کا یہ کہنا کہ ’’تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ قابل ذکر ہے اور اس سے رو گردانی نہیں کی جانی چاہئے رمضان کے مسئلے کی وضاحت کے بعد عید کے دن کے مسئلے کی وضاحت بھی ضروری ہے : جیسا کہ رمضان کے آغاز کا فیصلہ چاند نظر آنے پر ہوتا ہے اسی طرح عید کاانحصار بھی چاند کے نظر آنے پر ہے۔ اس سے متعلق ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺسے یہ حدیث روایت کی ہے : ’’رسول اللہ ﷺنے دو دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے : عیدالاضحیٰ اور عید الفطرکے دن‘ ‘(بخاری و مسلم2672)۔

:یہ حدیث درست عید کا دن متعین کرنے کو انتہائی اہم مسئلہ بنا دیتی ہے۔ آئیے اب عید سے متعلق احادیث کا مطالعہ کریں

رمضان کے آخری دن لوگوں میں ( چاند کی رویت پر ) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔‘‘(سنن ابو داؤد ۔2339 islam360)

نماز کے ٹائم ٹیبل کی طرح ، سائنسدان رمضان المبارک سمیت ہر مسلمان مہینے کے آغاز کے لئے حساب کتاب کرسکتے ہیں اور تشکیل دے سکتے ہیں۔

اب ، سورة القدر کا ترجمہ پڑھیں:۔
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ وہ صبح روشن ہونے تک سلامتی کی رات ہے۔

اوپر بیان کی گئی سورة القدر سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ صرف ایک ہی رات ہے جسے "لَيْلَةِ الْقَدْرِ" کہا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا بحث کی بنیاد پر مسلمان ساری دنیا کے لئےایک سائنسی کیلنڈر پر کیوں راضی نہیں ہوسکتے ، جس طرح ہم سب اپنی گھڑیاں استعمال کرتے ہوئے، بغیر باہر نکلے، سحری کے آخری وقت پر متفق ہیں۔ اس طرح پوری مسلم دنیا میں ایک عید ،ایک رمضان اور ایک "لَيْلَةِ الْقَدْرِ" پر متفق ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر مسلمان "لَيْلَةِ الْقَدْرِ" کی فضیلت حاصل کر سکے گا جو رات ہر سال اس دنیا میں صرف ایک بار آتی ہے۔

ذرا تصور کریں کہ رات کے وقت فرشتے ہمارے سیارے پر اتر رہے ہیں ، زمین کی گردش کے ساتھ ، وہ ایک ہی رات میں ساری زمین کا احاطہ کر رہے ہیں ۔

اوپر ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی پہلا چاند نظر آتا ہے ، اس کی شہادت دنیا کے کسی بھی حصے میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ یعنی ، جیسے ہی وہ اپنے علاقے میں مغرب کے بعد چاند کو دیکھنے کا ارادہ کرتے ہیں ، سب سے پہلے اس بات کی تسلی کر لیں کہ دنیا کے کسی حصے سے چاند کی شہادت تو نہیں آئی ہے اگر آ چکی ہے تو انہیں اسی بنیاد پر چاند نظر آنےکا اعلان کر دینا کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان میں رؤیت حلال کمیٹی کے چیئرمین چاند دیکھنے مغرب کے بعد باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہوں اور انہیں اطلاح ملتی ہے کہ انڈونیشیا میں پہلے ہی چند کا اعلان ہو چکا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں چاند کا اعلان کر دیں۔

مثال کے طور پر ، اگر پہلا چاند آسٹریلیا میں دکھائی دیتا ہے تو 5 گھنٹے کے بعد پاکستان میں سورج غروب ہوجائے گا۔ لہذا پاکستانیوں کو آسٹریلیا سے ملنے والی گواہی کی بنیاد پر نیا مہینہ شروع کرنا چاہئے۔ اسی طرح ، برطانیہ میں سورج غروب 9 گھنٹے کے بعد ہوگا۔ وہ اسی آسٹریلیا سے ملنے والی گواہی، اپنے ملک میں نئے مہینے کے آغاز کا اعلان کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ اسی انداز میں ، نیو یارک ، امریکہ جو آسٹریلیا کے سے 14 گھنٹوں کا وقت کا فرق رکھتا ہے۔ وہ بھی آسٹریلیا کی گواہی پر مبنی غروب آفتاب ہوتے ہی نئے مہینے کے آغاز کا اعلان کرسکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ ٹیکنالوجی اور مواصلت کے ذرائع کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں تھا لیکن اب یہ بالکل ممکن ہے۔

لہٰذا اگر مسلمانوں کو اپنے خطے میں چاند نظر نہ آئے اور وہ رمضان کو جاری رکھے ہوئے ہوں لیکن بعد میں انہیں یہ پتہ چلے کہ کسی اور خطے میں چاند نظر آ چکا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ روزہ توڑ دیں ۔ ان واضح دلائل کی بنیاد پر فقہائے حنفی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اختلاف مطلع کا کوئی اعتبار نہیں، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’درمختار‘ میں درج ہے ؛’’مطلع مختلف ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اگر مغربی ممالک والے چاند دیکھ لیں تو مشرقی ممالک کو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘(جلد اول، صفحہ 149)۔ احناف کی دیگر کتابوں جیسے فتاویٰ عالمگیری، فتح القدیر، بحرالرائق، طحاوی، زیلعی وغیرہ میں بھی یہی درج ہے۔ مالکی اور حنبلی فقہ کا بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ’’اختلاف مطلع کے غیر معتبر ہونے پر ہمارا بھی اعتبار ہے اور مالکیوں اور حنابلہ کا بھی۔‘‘ (شامی جلد4، صفحہ 105)۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: اگر لوگ رمضان سمجھ کر عید الفطر کے دن روزہ رکھ رہے ہوں اور پھر ان تک قطعی ثبوت پہنچ جائے کہ رمضان کا نیا چاند ان کے رمضان شروع کرنے ایک دن پہلے دیکھ لیا گیا تھا اور اب وہ (درحقیقت) اکتیسویں )۳۱) دن میں ہیں، تو انہیں اس دن کا روزہ توڑ لینا چاہئے، چاہے جس وقت بھی ان تک یہ خبر پہنچے۔‘‘ (موطا، کتاب ۱۸، نمبر ۴۔۱۔۱۸) جہاں تک شافعیوں کا تعلق ہے تو وہ ایک رائے پر متفق نہیں جیسا کہ علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348) ابن تیمیہ ؒ الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ ۱۱۱ پر لکھتے ہیں: ’’ایک شخص جس کو کہیں چاند کے دیکھنے کا علم بروقت ہو جائے تو وہ روزہ رکھے اور ضرور رکھے، اسلام کی نص اور سلف صالحین کا عمل اسی پر ہے۔ اس طرح چاند کی شہادت کو کسی خاص فاصلے میں یا کسی مخصوص ملک میں محدود کر دینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی‘‘۔
(والله أعلم
)​
Humbly disagree.
 

sumisrar

Senator (1k+ posts)
اس سارے جھگڑے کا ایک حل جو مجھے سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی شخص ، جماعت یا ادارہ نماز مغرب کے بعد چاند دیکھنے کی غرض سے باہر نکلنے کا ارادہ کرے تو اس سے پہلے یہ اطمنان کر لے کہ دنیا کے کسی حصہ سے چاند کی شہادت نہیں آئ ہے کیونکہ اگر کوئی شہادت آ چکی ہے خواہ دنیا کے کسی بھی حصہ کی ہو وہ آپ کے لۓ کافی ہے کہ چاند نظر آ چکا ہے اور اب مزید چاند کی تلاش کی ضرورت باقی نہیں۔ پہلے زمانے میں یہ ممکن نہ تھا لیکن ٹیکنالوجی کے باعث اب یہ بہت آسان ہے ۔
الله آپ کو جزاۓ خیر دے
اس سے بہتر حل کوئی نہیں
جہاں پہلے چند نظر آ جاۓ
تمام مسلمان اسلامی مہینے کا آغاز کر لیں

ان مولویوں نے پوری دنیا میں مسلمانون کا مذاق
بنا کر رکھ دیا ھے

میں حکومت پاکستان کے دانشمندانہ فیصلے کو سراہتا ہوں
مسلمانو ں میں وحدت کا ایک ہی حل
سٹارٹ ایک روزہ، ایک عید سے کیا جائے

آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں ایک چاند سب کا چاند