ملیے اس وکیل سے جس نے صلح کے باوجود زیادتی کے ملزم کو سزا دلوائی

asfhai11.jpg

اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت نے مدعی مقدمہ سے صلح کے باوجود 8 سالہ بچی سے زیادتی کی کوشش کا گھناؤنا جرم ثابت ہونے پر سکیورٹی گارڈ سہیل اختر کو 14 سال قید کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت میں دوران سماعت پبلک پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے ریاست کی جانب سے کیس کی پیروی کی، سیکورٹی گارڈ سہیل اختر کے خلاف تھانہ ترنول میں11 جنوری کو مقدمہ درج ہوا کہ بچی کو پانی دینے کے بہانے بلایا اور گارڈ نے کیبن میں زبردستی کرنے کی کوشش کی۔
https://twitter.com/x/status/1577185784238460928
بچی کے شور مچانے پر اس کی فیملی پہنچی تو ملزم وہاں سے بھاگ گیا، گرفتاری کے بعد مئی میں ملزم پر چارج فریم ہوا، عدالت نے 5 ماہ میں ٹرائل مکمل کرتے ہوئے جرم ثابت ہوجانے پر سزا کا حکم سنا دیا۔


پبلک پراسیکیوٹر رانا حسن عباس اس کیس میں ملزم کو سزا دلا پائے حالانکہ مدعی مقدمہ اور گواہان تک سب اپنے بیان سے منحرف ہو گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت نے بچی سے سوال کیے تو بچی نے وہ سارا واقعہ دوبارہ بتایا کہ اس کے ساتھ کس طرح کیا ہوا۔

انہوں نے کہا جب گواہان اور مدعی مقدمہ جو اس کے والد تھے وہ پیچھے ہٹ گئے تو میں نے 8 سالہ بچی کے بیان کو استعمال کیا کیونکہ ایسے کیسز میں صلح کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اس لیے ان کے صلح پر اصرار کے باوجود ملزم کو سزا دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1577283901206118401 سرکاری وکیل نے انکشاف کیا کہ ایسے جینڈر بیسڈ ہراسگی کے کیسز میں 50 فیصد تک لوگ کیس کی پیروی چھوڑ دیتے ہیں یا عدالت کو کہتے ہیں صلح کر لی ہے مگر یہ اہم ہے کہ ایسے کیسز میں صلح کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔
 

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
asfhai11.jpg

اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت نے مدعی مقدمہ سے صلح کے باوجود 8 سالہ بچی سے زیادتی کی کوشش کا گھناؤنا جرم ثابت ہونے پر سکیورٹی گارڈ سہیل اختر کو 14 سال قید کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت میں دوران سماعت پبلک پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے ریاست کی جانب سے کیس کی پیروی کی، سیکورٹی گارڈ سہیل اختر کے خلاف تھانہ ترنول میں11 جنوری کو مقدمہ درج ہوا کہ بچی کو پانی دینے کے بہانے بلایا اور گارڈ نے کیبن میں زبردستی کرنے کی کوشش کی۔
https://twitter.com/x/status/1577185784238460928
بچی کے شور مچانے پر اس کی فیملی پہنچی تو ملزم وہاں سے بھاگ گیا، گرفتاری کے بعد مئی میں ملزم پر چارج فریم ہوا، عدالت نے 5 ماہ میں ٹرائل مکمل کرتے ہوئے جرم ثابت ہوجانے پر سزا کا حکم سنا دیا۔


پبلک پراسیکیوٹر رانا حسن عباس اس کیس میں ملزم کو سزا دلا پائے حالانکہ مدعی مقدمہ اور گواہان تک سب اپنے بیان سے منحرف ہو گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت نے بچی سے سوال کیے تو بچی نے وہ سارا واقعہ دوبارہ بتایا کہ اس کے ساتھ کس طرح کیا ہوا۔

انہوں نے کہا جب گواہان اور مدعی مقدمہ جو اس کے والد تھے وہ پیچھے ہٹ گئے تو میں نے 8 سالہ بچی کے بیان کو استعمال کیا کیونکہ ایسے کیسز میں صلح کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اس لیے ان کے صلح پر اصرار کے باوجود ملزم کو سزا دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1577283901206118401 سرکاری وکیل نے انکشاف کیا کہ ایسے جینڈر بیسڈ ہراسگی کے کیسز میں 50 فیصد تک لوگ کیس کی پیروی چھوڑ دیتے ہیں یا عدالت کو کہتے ہیں صلح کر لی ہے مگر یہ اہم ہے کہ ایسے کیسز میں صلح کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔
بہت قابل تعریف ہیں جج اور وکیل دونوں
 

WHAT

MPA (400+ posts)
ویری ویل ڈن وکیل صاحب

لیکن آپ کا کمال کم ہے

ملزم غریب آدمی ھے اس لئے "انصاف "


ہو گیا ، کوئی تھوڑا سا با اثر ہوتا تو دیکھتے

Humaisha -ve , kahin sy to ibtada hui, koi to misal qaim hui
 

WHAT

MPA (400+ posts)
asfhai11.jpg

اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت نے مدعی مقدمہ سے صلح کے باوجود 8 سالہ بچی سے زیادتی کی کوشش کا گھناؤنا جرم ثابت ہونے پر سکیورٹی گارڈ سہیل اختر کو 14 سال قید کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت میں دوران سماعت پبلک پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے ریاست کی جانب سے کیس کی پیروی کی، سیکورٹی گارڈ سہیل اختر کے خلاف تھانہ ترنول میں11 جنوری کو مقدمہ درج ہوا کہ بچی کو پانی دینے کے بہانے بلایا اور گارڈ نے کیبن میں زبردستی کرنے کی کوشش کی۔
https://twitter.com/x/status/1577185784238460928
بچی کے شور مچانے پر اس کی فیملی پہنچی تو ملزم وہاں سے بھاگ گیا، گرفتاری کے بعد مئی میں ملزم پر چارج فریم ہوا، عدالت نے 5 ماہ میں ٹرائل مکمل کرتے ہوئے جرم ثابت ہوجانے پر سزا کا حکم سنا دیا۔


پبلک پراسیکیوٹر رانا حسن عباس اس کیس میں ملزم کو سزا دلا پائے حالانکہ مدعی مقدمہ اور گواہان تک سب اپنے بیان سے منحرف ہو گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت نے بچی سے سوال کیے تو بچی نے وہ سارا واقعہ دوبارہ بتایا کہ اس کے ساتھ کس طرح کیا ہوا۔

انہوں نے کہا جب گواہان اور مدعی مقدمہ جو اس کے والد تھے وہ پیچھے ہٹ گئے تو میں نے 8 سالہ بچی کے بیان کو استعمال کیا کیونکہ ایسے کیسز میں صلح کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اس لیے ان کے صلح پر اصرار کے باوجود ملزم کو سزا دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1577283901206118401 سرکاری وکیل نے انکشاف کیا کہ ایسے جینڈر بیسڈ ہراسگی کے کیسز میں 50 فیصد تک لوگ کیس کی پیروی چھوڑ دیتے ہیں یا عدالت کو کہتے ہیں صلح کر لی ہے مگر یہ اہم ہے کہ ایسے کیسز میں صلح کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔

Dil Khush ho gaya, zabardast
Alhamdulillah,

Allah aisay saray mujrimo ko ibrat ka nishan bana dy ain ko halak kr dy