ہر گزرنے والا دن یہ بات ثابت کر رہا ہے کہ ہم یورپ و امریکا جتنی فحاشی وہ بے حیائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگرچہ امریکہ و مغربی ممالک میں انصاف کا اعلی نظام قائم ہے، اور وہاں کی پولیس اور عدالتیں ایسی کرپٹ نہیں ہیں جیسا کہ ہمارے یہاں حال ہے، مگر اس کے باوجود وہاں پر خواتین کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے ایسے ہوشربا واقعات رونما ہوتے ہیں کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔
انڈیا دنیا کا ریپ کیپیٹل اسی لئے بن رہا ہے، کہ ان لوگوں نے فحاشی و عریانی کو تو فروغ دیا، مگر اپنی پولیس اور عدالتوں کا نظام ٹھیک نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے۔لہذا ہم اپنے لبرل طبقات سے یہی گزارش کرتے ہیں کہ خدارا قوم پر رحم کرو، اور فحاشی وعریانی کی ترویج سے باز رہو۔ لیکن اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے آقاؤں کو اسی بات پر قائل کر لو کہ جہاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قرضے کے لئے (وومن امپاورمنٹ اور خواتیں کے حقوق کے نام سے) فحاشی وہ عریانی کے پھیلاؤ کی شرط لگاتے ہیں، تو ساتھ ہی وہ شرط بھی لگا دیں کہ اگلی قسط تب ملے گی، جب پولیس کا نظام ٹھیک ہو گا۔تا حالات کچھ نہ کچھ تو کنٹرول میں رہیں۔ورنہ ہو سکتا ہے کہ کسی دن خدا نخواستہ آپ اپنے ہی کھودے گڈے میں گر جاؤ۔
یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ زنا اور ریپ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ زنا کو تو فروغ دیا جائے، مگر یہ تمنا رکھیں کہ ریپ کے کیسزمیں اضافہ نہ ہو۔دونوں میں براہ راست تعلق ہے۔ جتنی ذیادہ فحاشی وہ عریانی کو فروغ ہو گا، اتنے ہی زیادتی کے واقعات ذیادہ ہوں گے۔آپ کو عقل کے کورے ، ناعاقبت اندیش کچھ لوگ ایسے ملیں گے، جویہ تجویز کریں گے کہ اس جنسی آوارگی کا علاج، مزید جنسی آزادی میں ہے، مگر وہ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے کہ یورپی معاشروں میں جہاں عریانی و فحاشی کی کھلی آزادی ہے، حتی کہ اپنی ماں اور بہن سے منہ کالا کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں،وہاں عورتوں کے ساتھ تشددو ذیادتی کے واقعات اتنے ذیادہ کیوں ہوتے ہیں۔
پچھلے ادوار (خصوصا موجودہ حکومت)میں جس طرح فحاشی و عریانی، اور دین بے زاری کو سرکاری سرپرستی میں فروغ دیا گیا ہے اس کا یہی نتیجہ نکلنا ہے کہ آج ہر شخص جنسی بھیڑیا بنا ہوا ہے۔ اور موقع ملنے کی دیر ہے،اس کے اندر کا جنسی حیوان اس پر حاوی ہو جاتا ہے، اور جس کا نتیجہ ہے کہ آئے روز اس قسم کے افسوسناک واقعات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔اور اگر اس حوالے سے سنجیدگی سے توجہ نہ دی، تو اس قسم کے واقعات میں ناقابل برداشت اضافہ ہو سکتا ہے۔ خصوصا ہمارے ملک میں انصاف کا جو نظام ہے، اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ غریب اور کمزور کو اپنی عزت بچانا مشکل ہو جائے گی۔
لہذا ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ جہاں ایسے مجرموں کوعبرت ناک اسلامی سزائیں دینے کی ضرورت ہے، وہیں اس سے ذیادہ اہم فحاشی وعریانی کے فروغ کے ہر قسم کے ذرائع کو روکنا بھی ضروری ہے۔ صرف سزاؤں سے مقصد حاصل نہیں ہو گا۔مسلمانوں کی(دنیا و آخرت) فلاح صرف اسلامی تعلیمات میں پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
اور آخر میں دعا ہے کہ کہیں اس کیس میں بھی ملزموں کا تعلق کسی بااثر طبقہ سے نہ نکل آئے ورنہ اس خاتون کو بھی ویسا ہی انصاف ملے گا جیسا کہ سانحہ ساہیوال متاثرین، شاہ زیب، نقیب اللہ محسود،اور ایم پی اے کی گاڑی کے نیچے آنے والے پولیس مین وغیرہ کو ملا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف ناپید ہے۔
یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ زنا اور ریپ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ زنا کو تو فروغ دیا جائے، مگر یہ تمنا رکھیں کہ ریپ کے کیسزمیں اضافہ نہ ہو۔دونوں میں براہ راست تعلق ہے۔ جتنی ذیادہ فحاشی وہ عریانی کو فروغ ہو گا، اتنے ہی زیادتی کے واقعات ذیادہ ہوں گے۔آپ کو عقل کے کورے ، ناعاقبت اندیش کچھ لوگ ایسے ملیں گے، جویہ تجویز کریں گے کہ اس جنسی آوارگی کا علاج، مزید جنسی آزادی میں ہے، مگر وہ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے کہ یورپی معاشروں میں جہاں عریانی و فحاشی کی کھلی آزادی ہے، حتی کہ اپنی ماں اور بہن سے منہ کالا کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں،وہاں عورتوں کے ساتھ تشددو ذیادتی کے واقعات اتنے ذیادہ کیوں ہوتے ہیں۔
پچھلے ادوار (خصوصا موجودہ حکومت)میں جس طرح فحاشی و عریانی، اور دین بے زاری کو سرکاری سرپرستی میں فروغ دیا گیا ہے اس کا یہی نتیجہ نکلنا ہے کہ آج ہر شخص جنسی بھیڑیا بنا ہوا ہے۔ اور موقع ملنے کی دیر ہے،اس کے اندر کا جنسی حیوان اس پر حاوی ہو جاتا ہے، اور جس کا نتیجہ ہے کہ آئے روز اس قسم کے افسوسناک واقعات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔اور اگر اس حوالے سے سنجیدگی سے توجہ نہ دی، تو اس قسم کے واقعات میں ناقابل برداشت اضافہ ہو سکتا ہے۔ خصوصا ہمارے ملک میں انصاف کا جو نظام ہے، اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ غریب اور کمزور کو اپنی عزت بچانا مشکل ہو جائے گی۔
لہذا ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ جہاں ایسے مجرموں کوعبرت ناک اسلامی سزائیں دینے کی ضرورت ہے، وہیں اس سے ذیادہ اہم فحاشی وعریانی کے فروغ کے ہر قسم کے ذرائع کو روکنا بھی ضروری ہے۔ صرف سزاؤں سے مقصد حاصل نہیں ہو گا۔مسلمانوں کی(دنیا و آخرت) فلاح صرف اسلامی تعلیمات میں پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
اور آخر میں دعا ہے کہ کہیں اس کیس میں بھی ملزموں کا تعلق کسی بااثر طبقہ سے نہ نکل آئے ورنہ اس خاتون کو بھی ویسا ہی انصاف ملے گا جیسا کہ سانحہ ساہیوال متاثرین، شاہ زیب، نقیب اللہ محسود،اور ایم پی اے کی گاڑی کے نیچے آنے والے پولیس مین وغیرہ کو ملا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف ناپید ہے۔