جنرل عاصم باجوہ کی پریس بریفنگ تھی کہ داستان زار روس آنکھیں بار بار بھر آتیں کیسے اس کے غریب بھای بغیر جنرل کی سپورٹ کے امریکن ایمبیسی سے ویزہ لے کر امریکہ پنہچے ، سنا ہے امریکن ایمبیسی غربا کی آہ و بکا سے متاثر ہوکر آن دی سپاٹ ویزہ انکی جھولی میں ڈال دیتی ہے؟
امریکہ پنہچتے ہی جنرل کے بھای پیزہ ڈیلیوری جیسا انتہای کم آمدن والا کام کرتے ہوے چند سال بعد پاپا جوہنز کی چون فرنچائیز کے مالک بن گئے سکوٹری جس پر وہ ڈیلیوری باکس رکھ کر سڑکوں کا دھواں نگلتے تھے کی جگہ فراری آگئیں اور شئیر رومز کی جگہ کنگ سائیز ولاز نے لے لی، جمز اور سوئمنگ پولز جیسی عیاشی کا تو سوال ہی نہیں تھا ہاں مگر ارب پتی ہوتے ہی انکے ولاز کے اندر ہی جم اور سوئمنگ پولز بن گئے، گھر کے لان جھیل تک پھیل گئے اور چٹی سفید بگلوں جیسی موٹر بوٹس بھی آگئیں
میری حکومت سے گزارش ہے کہ ایک موقع میرے چند دوستوں کو بھی عنایت کرکے دیکھیں گارنٹی ہے کہ امریکہ جاتے ہی یہ سب پیزہ ڈیلیوری شروع کردیں گے تاکہ دو چار سال میں کم از کم ایک فرنچائیز تو اپنی کرسکیں، یہ دوست پڑھے لکھے ہیں، پاکستان میں اچھا خاصا افسری کام کرتے کرتے ان کے چوتڑ گھس گئے پر اب تک اپنا گھر تک نہیں بنا سکے بلکہ بعض ایک کے پاس تو اتنی رقم بھی نہیں کہ اپنے بوسیدہ وراثتی گھر کی تعمیر نو کر سکیں؟
یہ دوست پڑھے لکھے ہیں کوی ڈاکٹر بابر اعوان کی طرح جعلی ڈگری ہولڈر بھی نہیں کہ دیدہ دلیری سے ججز کو رشوت دے کر کیس کروانے کے ماہر ہوں اور کروڑوں روپے ماہانہ کماتے ہوں
ان دوستوں کی کسی روحانی شخصیت سے دعا سلام بھی نہیں جو ان کو سی سی پی او یا وزیراعلی پنجاب لگوا دے
کسی جرنیل سے بھی قرابت داری نہیں کہ انہیں امریکہ کا ویزہ فری میں مل جاے
یہ بے چارے تو اس قابل بھی نہیں کہ ملک کا وزیراعظم خود بنفس نفیس ان کی پاکدامنی کی قسمیں کھا کر قوم کو بتاے کہ ان کو کچھ نہ کہو یہ حلال شاپ ہے اور باقی کی حرام
امریکہ پنہچتے ہی جنرل کے بھای پیزہ ڈیلیوری جیسا انتہای کم آمدن والا کام کرتے ہوے چند سال بعد پاپا جوہنز کی چون فرنچائیز کے مالک بن گئے سکوٹری جس پر وہ ڈیلیوری باکس رکھ کر سڑکوں کا دھواں نگلتے تھے کی جگہ فراری آگئیں اور شئیر رومز کی جگہ کنگ سائیز ولاز نے لے لی، جمز اور سوئمنگ پولز جیسی عیاشی کا تو سوال ہی نہیں تھا ہاں مگر ارب پتی ہوتے ہی انکے ولاز کے اندر ہی جم اور سوئمنگ پولز بن گئے، گھر کے لان جھیل تک پھیل گئے اور چٹی سفید بگلوں جیسی موٹر بوٹس بھی آگئیں
میری حکومت سے گزارش ہے کہ ایک موقع میرے چند دوستوں کو بھی عنایت کرکے دیکھیں گارنٹی ہے کہ امریکہ جاتے ہی یہ سب پیزہ ڈیلیوری شروع کردیں گے تاکہ دو چار سال میں کم از کم ایک فرنچائیز تو اپنی کرسکیں، یہ دوست پڑھے لکھے ہیں، پاکستان میں اچھا خاصا افسری کام کرتے کرتے ان کے چوتڑ گھس گئے پر اب تک اپنا گھر تک نہیں بنا سکے بلکہ بعض ایک کے پاس تو اتنی رقم بھی نہیں کہ اپنے بوسیدہ وراثتی گھر کی تعمیر نو کر سکیں؟
یہ دوست پڑھے لکھے ہیں کوی ڈاکٹر بابر اعوان کی طرح جعلی ڈگری ہولڈر بھی نہیں کہ دیدہ دلیری سے ججز کو رشوت دے کر کیس کروانے کے ماہر ہوں اور کروڑوں روپے ماہانہ کماتے ہوں
ان دوستوں کی کسی روحانی شخصیت سے دعا سلام بھی نہیں جو ان کو سی سی پی او یا وزیراعلی پنجاب لگوا دے
کسی جرنیل سے بھی قرابت داری نہیں کہ انہیں امریکہ کا ویزہ فری میں مل جاے
یہ بے چارے تو اس قابل بھی نہیں کہ ملک کا وزیراعظم خود بنفس نفیس ان کی پاکدامنی کی قسمیں کھا کر قوم کو بتاے کہ ان کو کچھ نہ کہو یہ حلال شاپ ہے اور باقی کی حرام