میں راغب دین کیوں ہوا ؟

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
میں راغب دین کیوں ہوا ؟

اپریل دوہزار بیس کی بات ہے، جب کرونا نیا نیا دنیا میں آیا تھا، اور میں کینیڈا جاکر پھنس گیا تھا، کہ میری ملک کی واپسی کی فلائیٹ سے دو دن قبل ہی فلائیٹیں منسوخ ہوگئیں تھیں۔
اللہ رب العزت کے کرم سے ملک اگر نا آسکا تھا مگر اس نے دوسری طرف نکلنے کا رستہ کھول دیا تھا۔ ۔ سفر اگرچہ لمبا تھا ، ۔براعظم امریکہ سے چین آنے میں ، صرف ہوا میں کوئی بیس گھنٹے لگ گئے تھے، ایئر پورٹ پر خوار ہوئے وقت کے علاوہ۔

انگریز دور سے صاف دکھتے ہیں مگر قریب سے اس کے الٹ ہوتے ہیں۔ اور اسی کا نمونہ میں نے کینیڈا کی لوکل فلائیٹ میں دیکھا۔۔ جہاز کی حالت کیا بتاوں، بعض سیٹوں کے تو گدے بھی غائب تھے۔ یا اکھڑے ہوئے تھے۔۔ خیر۔۔

کرونا کو بھی انہوں نے اسی انداز میں ہنڈل کیا۔۔ یعنی مس ہینڈل کیا۔۔ جس کی وجہ سے میں بھی اس مرض کو اس جہاز سے اپنے ساتھ لیئے دوسرے ملک پہنچا ۔ وہاں انہوں نے کوئی گیارہ دن ہسپتال میں رکھے رکھا۔ اور جب صحت یاب ہوا تو رخصت دے دی۔۔

اگرچہ مذہبی قسم کے گھرانے سے ہونے کی وجہ سے نماز روزہ وغیرہ کے بچپن ہی سے بابند تھے۔۔۔ مگر ہسپتال کے اس قید کے دنوں میں ، میں نے اپنے رب سے وعدہ کیا کہ خود میں تبدیلی لاونگا، اور اس رب کے دین کی خدمت کرونگا۔۔۔۔مگر کیسے۔۔؟ ۔۔

ہسپتال سے نکل کر ذہن میں اپنا وعدہ یاد آتا تو یہ سوچ کر سر جھٹک دیتا کہ حرام سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔نماز پڑھتا ہوں۔ اور کیا کروں۔۔مگر یہ شیطان کا جال تھا۔۔ جو وہ نہایت نرمی سے مجھ پر ڈال دیتا اور میں پھر سے غافل ہوجاتا۔۔

غافل سے مراد۔۔ نماز پڑھو مگر جب فرصت ملے۔۔۔اور جو پڑھو تو اکثر دیہان کہیں اور ہو۔۔اس کی کتاب کو ہاتھ لگائے مدت گزر گئی ہو۔۔گالی کے بغیر گپ شپ بے مزہ لگے۔۔ اپنی ہی دنیا میں مگن رہو، جیسے باقی لوگ زمین پر ہیں ہی نہیں۔۔اس رب سے تنہائی میں بات کیئے زمانے گزر گئے ہوں۔۔اور بہت کچھ۔۔۔

اسی طرح کرتے کرتے ایک اور اپریل آیا مگر اس اپریل کے آنے سے پہلے میں کچھ الگ الگ سا محسوس کرنے لگا تھا۔۔ جیسے دنیا سے دل اچاٹ ہوچکا ہو۔۔جو نہ کسی نیئےکپڑے جوتے نہ الیکٹرانکس نہ کسی نئی گاڑی وغیرہ سے مرغوب ہو۔۔۔ اور کسی ایک طرف کو نکل جانے کو جی کرتا تھا۔۔کہ۔

اپریل کی دوسری تاریخ تھی۔ میں نے وضو کیا اور جائے نماز جو بستر پر پڑا تھا، کو اٹھانے کے لیئے ہلکا سا جھکا ، تو کمر پر جیسے بجلی گر گئی ہو۔ خود کو سیدھا کرنا چاہا پر نہ کرسکا۔ ۔ بیڈ قریب ہی تھا اس پر خود کو گرا دیا۔ اور چند منٹ تک تو سمجھ ہی نہ سکا کہ ہوا کیا ہے۔ ۔ تھوڑی دیر بعد جب اپنی حالت کو سمجھناشروع کیا تو ، ایک دم سے انالله وانا اليه راجعون، استغفار ، اور یونس علیہ سلام کی دعا زبان پر آگئی۔

حالت ایسی تھی کہ جس میں انسان نہ کھڑا ہوسکے نہ بیٹھ سکے۔لیٹنے کے سوا چارا نہ تھا۔۔ ۔ باقی وقت تو آدمی لیٹ کر گزار بھی لے مگر رفع حاجت کے وقت کیا کرے گا۔ ۔ ایسی حالت میں سب سے بڑا مسٗلہ ٹوئیلٹ کی سیٹ پر بیٹھنے کا ہوتا ہے،۔ جسے ہم صحت مند لوگ مفت میں عطا کی گئی سہولت سمجھتے ہیں۔ اور کھبی نہیں سوچتے کہ یہ چھن بھی سکتی ہے۔

خیر ۔ رب العالمین کے فضل سے ٹوئلٹ کا مسٗلہ دو تین دن ہی رہا یعنی بیٹھنا مشکل تھا،۔ مگر چار دن تک بیٹھنے کی ضرورت بھی نہیں آئی۔۔ کیونکہ کھانا انتہائی کم اور محتاط کر دیا تھا۔ جہاں تک چھوٹے کی بات ہے ، وہ مرد حضرات کھڑے ہوکر بھی کرسکتے ہیں۔

تقریبا ایک ہفتے بعد میں چل پھرنے لگا۔ اور تقریبا ایک مہینہ آرام کے بعد کام پر واپس جانے لگا۔ ۔ اس ایک مہینے کےدوران اللہ رب العزت نے قرآنی تفاسیر ۔۔مستند علما کی دروس کی ویڈیوز۔۔ اور دیگر دینی علم کی طرف راغب کیا۔۔ یہ بات سو فیصد سچ ہے کہ دنیائی علم چاہے پہاڑ جتنا بھی حاصل کرلو۔ جب تک تم اپنے رب کو نہ پہچان لو۔ جب تک یہ نہ جان لو کہ وہ تم سے چاہتا کیا ہے۔ تم جاہل کے جاہل ہی رہو گے۔۔ یہ انہی دنوں جانا۔۔۔

یعنی دین صرف نماز روزہ زکوۃ کا نام نہیں بلکہ اس کے علم کو حاصل کرنا، اور ساری زندگی حاصل کرتے رہنا اور اسکے مطابق زندگی گزارنا ہی اصل دین ہے۔ کیونکہ جب آپ صحیح علم حاصل کرلیتے ہیں ، ایک تو آپ کو آسانی ہوجاتی ہے۔ اور آپ یہاں وہاں کے قصوں کہانیوں سے بچ جاتے ہیں۔جس سے دینی فرائض سر انجام دینے میں آسانی ہوجاتی ہے۔۔۔ تو دوسرا آپ میں تقوی آجاتا ہے۔۔ اور راہ چلتے آپ کی آنکھ بے حیائی کی تلاش میں نہیں ہوتی بلکہ اس سے بچنے کی کوشش میں ہوتی ہے، ۔ آپکی نماز آپکی دنیائی وقت کے گرد نہی بلکہ آپکا دنیائی ٹائم ٹیبل نماز کے گرد گھومتا ہے ،کہ کس نماز کے وقت میں کہاں ہونگا۔۔جسے پڑھ سکوں۔ ۔ مثال کے طور پر ۔ عصر کا وقت قریب ہوگا تو آپ اس سے فارغ ہوکر نکلیں گے۔۔ یا پھر دو نمازوں میں اتنا وقت رکھیں گے کہ دوسری نماز کے وقت آپ یا تو واپس آسکیں یا پھر ایسی جگہ پہنچ جائیں جہاں اسے ادا کرنا ممکن ہو۔۔۔نماز کے علاوہ ۔ صحیح علم حاصل کرنے سے آپکی کوشش ہوگی کہ کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکلے جس پر پکڑ ہو۔۔ یا کوئی ایسی غزا منہ میں نہ جائے جو عزاب کا باعث بنے۔۔۔ غرض یہ کہ آپ حق داروں کے حقوق ادا کرنے کا سوچنے لگ جائیں گے۔۔ ماں باپ بیوی بچوں ۔۔ پڑوسیوں ۔۔ غربا و مساکین اور یتیموں کا غم آپ کو ستانے لگے گا۔۔ غرض یہ کہ آنکھ کھلنے سے بند ہونے تک آپ کی زبان اپنے رب سے رابطے میں ہوگی ، آنکھ اسکی محبت میں نم اور دل نرم ہوگا۔۔۔

یہاں یہ بات ضرور جان لیں کہ۔۔ اگر آپ کسی عالم کو دیکھیں کسی نمازی کو دیکھیں کسی حاجی کودیکھیں۔۔ کہ وہ رب کی عبادت کرتا ہے مگر اس کے اطوار اس عبادت کی گواہی نہ دیں ۔۔ یعنی، اس کے لوگوں سے ڈیلنگ ہتک آمیز ہو، اپنی کسی رتبے کی وجہ سے، اسکے رشتے داروں میں وہ حق تلف مشہور ہو۔۔ اس کی زبان ایسی ہو کہ منہ کھولے تو بدبو آئے۔۔تو ایسے شخص کی کوئی عبادت قابل قبول نہی ۔۔ رسول اللہ ﷺ نے کچھ اسطرح فرمایا (میرے اپنے الفاظ میں) اگر تمہارے اعمال میں تمہاری عبادت کی جھلک نہی تو سمجھو کہ تمہاری عبادت قبول نہیں۔۔

جیسے پہلے ہی عرض کرچکا کہ بندہ ناچیز رب العالمین کے فضل سے حرام کاموں سے بچنے کی کوشش پہلے بھی کرتا تھا، مگر وہ کوشش کافی نہ تھی ، اسی لیئے رب نے اپنی راہ پر لانے کے لیئے مجھے اس سختی سے گزارہ۔۔۔یعنی جب بھی انسان کو جھٹکہ لگے۔۔اسے برا سمجھنے کے بجائے اس رحمٰن کا اپنی طرف بلاوا سمجھنا چاہیئے۔۔۔ ۔۔۔۔اب بھی کمزوریاں ہیں۔۔مگر کوشش جاری ہے کہ صراط مستقیم پر چلوں۔۔۔ پہلے بھی سکون تھا مگر اب اور طرح کا سکون ہے۔۔ کیونکہ ہر وقت اس سے رابطہ رہتا ہے۔۔ خاص طور پر سفر میں یا بستر پر۔۔۔ورنہ ایسے بدقسمت لوگوں کو بھی میں جانتا ہوں کہ جو مسلمان ہوکر،ستر سال کراس کرجاتے ہیں اور اسی کے قریب تک انہیں رب یاد نہیں آتا ،اور اسی حالت میں۔دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔۔ جنہیں نہ اپنے پاخانے کی سوچ رہتی ہے نہ کسی کو پہچانتے ہیں۔۔ایسا وقت آنے سے پہلے سوچیئے ۔۔

۔ آپ مسلمان بہن اور بھائی، جو بھی اس تحریر کو پڑھ رہےہیں۔ اگر آپ کی زندگی پریشانیوں میں گری ہے۔۔ اور آپ ہر وقت وسوسوں میں ڈھوبے رہتے ہیں تو۔۔ شروعات اللہ کے ذکر سے کیجیئے۔۔ بستر پر لیٹنے کے بعد ذکر کرتے رہیئے، یہاں تک کہ نیند آجائے۔۔۔۔ اور آنکھ کھلنے کے بعد ۔۔ بستر سے اٹھنے سے پہلے اپنے رب کو یاد کریں اور اس سے خوب مانگیں۔۔ اس جہان اور اس جہان کی عافیت۔۔ انشا اللہ دن اچھا گزرے گا۔۔ اور اگر کوئی پریشانی آئے گی بھی،تو وہ رب آپ کو اسے سہنے کا حوصلہ دیگا۔۔ اس کے علاوہ اس کے دین کے صحیح علم اور ہدایت پانے کی دعا کرتے رہیں۔۔ چاہے آپ خود کو کتنا بھی صحیح سمجھیں۔۔ پھر بھی کھلے دل کے ساتھ ہدایت کی دعا کرتے رہیں۔جزاک اللہ۔۔


ماشآءاللہ

جانی واہ! الحمدللّہ کیا قابل رشک نصیب پائے ہیں میرے بھائی نے . صبح، جب سے آپکی تحریر پڑھی ہے اسوقت سے ایک خاص کیفیت اور سوچ طاری ہے اور ذہن میں بات سما گئی ہے کہ ہمارا بھائی قسمت والا ہے جسے الله ﷻ نے اس عمر میں صراط مستقیم پر چلنے والی جماعت کیلے منتخب کرکے اسمیں شامل کیا
میرے نزیک ایسی کامیابی کا حاصل ہونا تین وجوہ کی بنا پر وجود پذیر ہوتا
رب کریم ﷻ کی خاص عنایت
والدین کی دعائیں
اور حضور پاک ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی اپنی انفرادی کوشش
آپکی تحریر سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ آپ ان تینوں دروں اور عوامل کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں . ماشآءاللہ

بات کو مختصر رکھنے کیلیے آپ سے دست با دستہ اتنی التماس ہے کہ اپنی روزآنہ کی دعاؤں میں اس گنہگار کو، اسکے والدین کو، اور اسکے اہل وعیال کو بھی ضرور شامل رکھیے گا
الله آپ کا حامی و ناصر ہو اور دین و دنیا میں کامیابی سے ہمکنار کرے
اللہ ہمہ آمین یا رب العلمین
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
جناب اعلی ۔۔ شیطان ایک مکار دشمن ہے جو آپ کو اگر نیکی سے روکنے میں ناکام ہوجائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑی نیکی کی بجائے آپ کو معولی سی نیکی کی طرف راغب کرے۔۔

یہ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ۔۔ چالیس کا ہندسہ کراس کرنے یا ساٹھ و ستر کراس کرنے کے بعد شیطان کی چال یہ ہوتی ہے کہ وہ آپکو یہ کہہ کر علم دین سے روکے ، کہ اب تو بہت دیر ہوگئی۔۔ اب تم کتنا سیکھ سکھو گے۔۔ خوا مخوا کے جمیلوں میں نہ پڑو۔۔

یہی میرے ساتھ بھی ہوا تھا ۔۔ جب اللہ نے قرآن کی وہ تفسیر جو میں سترہ سال پہلے ادھوری چھوڑ گیا تھا کو دوبارہ سے پورا پڑھنے پر دل آمادہ کیا تو ۔۔ اکثر یہ خیال آجاتا کہ ، کیا کرنا ہے اتنا جان کر۔۔ بنیادی چیزوں کا تو پتہ ہے۔۔

یہ لمبا قصہ اس وجہ سے تھا کہ بظاہر آپ مجھ سے دینی و دنیاوی تعلیم میں کئی آگے ہیں۔۔ مگر کہیں ایسا ہو کہ ابھی قرآن کا مطالعہ تک نہیں کیا۔۔ تو کوئی دیر نہیں ہوئی۔۔ انشااللہ بہت کم وقت یعنی مہینوں میں آپ بہت کچھ سیکھ جائیں گے۔۔

اور اگر آپکے سیکھے علم سے کسی ایک کو بھی فائدہ پہنچایا تو آخرت میں مفت کی نیکیاں آپکے میزان میں آپکی منتظر ہونگی۔

اسکے علاوہ آپکی تینوں باتیں درست ہیں کہ اللہ کی رحمت ، رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر چلنے کی کوشش اور والدین و آپ جیسے نیک خواہوں کی دعائیں ہوتی ہیں جو آدمی کو سیدھے رستے پر ڈالتی ہیں۔۔

اللہ رب العرش العظیم میرے لیئے ان نیک تمناوں اور دعاوں کے بدلے ، آپکو اور آپکے اہل عیال و والدین کو اچھی تندرست صحت دے اور ان اچھی صحتوں سے وہ کام لے جن میں اس کی رضا ہو۔۔ اس جہاں میں بھی اور اس جہان میں بھی رسوائی سے بچائے۔۔ اور بخشش فرمائے آمین۔

اور اس میسج کے پڑھنے والوں کو بھی یہی دعائیں ہیں۔۔آمین۔۔


ماشآءاللہ

جانی واہ! الحمدللّہ کیا قابل رشک نصیب پائے ہیں میرے بھائی نے . صبح، جب سے آپکی تحریر پڑھی ہے اسوقت سے ایک خاص کیفیت اور سوچ طاری ہے اور ذہن میں بات سما گئی ہے کہ ہمارا بھائی قسمت والا ہے جسے الله ﷻ نے اس عمر میں صراط مستقیم پر چلنے والی جماعت کیلے منتخب کرکے اسمیں شامل کیا
میرے نزیک ایسی کامیابی کا حاصل ہونا تین وجوہ کی بنا پر وجود پذیر ہوتا
رب کریم ﷻ کی خاص عنایت
والدین کی دعائیں
اور حضور پاک ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی اپنی انفرادی کوشش
آپکی تحریر سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ آپ ان تینوں دروں اور عوامل کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں . ماشآءاللہ

بات کو مختصر رکھنے کیلیے آپ سے دست با دستہ اتنی التماس ہے کہ اپنی روزآنہ کی دعاؤں میں اس گنہگار کو، اسکے والدین کو، اور اسکے اہل وعیال کو بھی ضرور شامل رکھیے گا
الله آپ کا حامی و ناصر ہو اور دین و دنیا میں کامیابی سے ہمکنار کرے
اللہ ہمہ آمین یا رب العلمین
 

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
85/2= 42.5 .... 43.
پچاسی کا آدھا
لگ بھگ دو سو کلو میٹر بائیک چلائی تھی۔۔
کمر کا پٹہ متاثر ہوا تھا۔۔
اب ٹھیک ہوں ماشا اللہ۔۔
اللہ آپ کو ٹھیک رکھے ، اتنی جوانی میں بے راہروی عام ہے ۔ اوپر ڈاکٹر صاحب کی تحریر ملاحظہ فرمائیں ۔ خود کرنا ورنا کچھ نہیں ہے ، دعاؤں سے کام چلایا جارہا ہے اور پھر رشک کرنے کی بھی عادت ہے ، بھئ اللہ کے بندے یہ کوئ ڈاکٹری گولی تو ہے نہیں جسے منہ میں رکھنے سے بدھضمی کے ڈکار بن ہو جاتے ہیں ۔ باقائدہ ریاضت کرنا پڑتی ہے ۔ خود تو دو منٹ کے لیے سر کے بل کھڑے نہیں ہوسکتے اور اگر کبھی اتفاق سے ہو بھی جائیں تو ایک طرف کو لڑھک جاتے ہیں اب کوئ پوچھے بندہ خدا ریاضت کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑنی۔​
 
Last edited:

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
اللہ آپ کو ٹھیک رکھے ، اتنی جوانی میں بے راہروی عام ہے​
جزاک اللہ ۔۔۔
۔ اوپر ڈاکٹر صاحب کی تحریر ملاحظہ فرمائیں ۔ خود کرنا ورنا کچھ نہیں ہے ، دعاؤں سے کام چلایا جارہا ہے اور پھر رشک کرنے کی بھی عادت ہے ، بھئ اللہ کے بندے یہ کوئ ڈاکٹری گولی تو ہے نہیں جسے منہ میں رکھنے سے بدھضمی کے ڈکار بن ہو جاتے ہیں ۔ باقائدہ ریاضت کرنا پڑتی ہے ۔ خود تو دو منٹ کے لیے سر کے بل کھڑے نہیں ہوسکتے اور اگر کبھی اتفاق سے ہو بھی جائیں تو ایک طرف کو لڑھک جاتے ہیں اب کوئ پوچھے بندہ خدا ریاضت کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑنی۔
یہ ایک غیر معقول قسم کی بات کی ہے آپ نے۔۔