نوے کی دہائی وہ وقت تھا جب انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی معمول کی بات سمجھی جاتی تھی اور قومی اخبارات کو اس کی تشہیر سے سروکار نہیں ہوتا تھا۔ اخبار مشکل سے ایک کالم کی خبر دیتے اور غیر نُمایاں انداز میں ایسی خبر شائع کرتے تھے۔
اسٹرٹیجک یا سیاسی تجزیہ نگاری پر مبنی تبصرے بھی اخبارات کی زینت نہیں بنتے تھے۔ خبر بھی دو پیراگراف پر مشتمل ہوا کرتی تھی، پہلے میں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تقرر پانے والے لیفٹیننٹ جنرل کا نام اور دوسرے پیراگراف میں ان کے قبل ازیں منصب کی کچھ تفصیل شامل ہوتی تھی۔
مگر اب حالات یکسر تبدیل ہوئے ہیں جب سے لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تقرری کا اعلان سامنے آیا ہے تب سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک بحث چل رہی ہے۔ صحافی حضرات اس پر مختلف پیش گوئیاں کر رہے ہیں جن کو افواہوں پر مبنی قیاس آرائیاں کہنا زیادہ بہتر ہو گا۔
آیئے اس معاملے پر کچھ صحافیوں کی رائے آپ تک پہنچاتے ہیں۔ صحافی ڈھکی چھپی زبان میں معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دراصل سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں میں دعوے کیے جا رہے ہیں کہ عمران خان لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی تعیناتی سے ناخوش ہیں۔
معروف ٹی وی میزبان اور کامیڈین شفاعت علی نے کہا ہے کہ پنڈی والے صحافی کہتے ہیں کہ چائے کی پیالی میں طوفان ہے۔ اسلام آباد والے کہتے ہیں ٹینشن کم ہوئی ہے مگر مکمل طور پہ نہیں ٹلی۔ دونوں سچ کہتے ہیں۔
سید کوثر کاظمی نامی صحافی نے کہا کہ ڈٹ کے کھڑا کپتان سوموار تک تھک جائے گا۔
سرال المیڈا نے ہارون رشید کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو حل ہونے میں 2، 3 یا 4 دن بھی لگ سکتے ہیں آخر کار وہ عمران نیازی ہیں۔
انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ یہ بحرانی کیفیت جو صورتحال اختیار کر رہی ہے اس میں دو چیزیں صاف ظاہر ہیں کہ جن باتوں پر وزیراعظم کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے ان پر ہم آہنگی نہیں ہے۔دوسرے نمبر پر عمران خان نے اسے نجانے کیوں زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا ہے حالانکہ اس سے کچھ بدلے گا بھی نہیں۔
کامران شاہد نے نام لئے بغیر اپنے ہی ملک کے وزیراعظم کو کم ظرف کہہ دیا اور اس کے شر سے بچنے کا مشورہ دیدیا۔
انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں بھارتی فلم کا کلپ شیئر کرتے ہوئے معاملہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نےارشد شریف کو مخاطب کرتے ہوئے مہدی حسین کی غزل ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا شیئر کی، ایک شعر بھی کپشن میں لکھا۔
ارشد شریف نے بھی شاعرانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا
اک بے وفا سے پیار کیا
اس سے نظر کو چار کیا
ہائے رے ہم نے کیا کیا
انہوں نے ایک اور شاعرانہ تبصرہ کیا جس میں انہوں نے بھارتی گانہ شیئر کیا
تو نے نہیں پی ہاں میں نے پی ہے
جس نے بھی پی یہ عادت بری ہے
بہت ہو چکی دنیا سو چکی
اب مان جا نہیں سر پھوڑتا ہوں
مجھ کو یارو معاف کرنا میں نشہ میں ہوں
جس کا بڑا بھائی ہو شرابی
چھوٹا پیے تو کیا ہے خرابی
بھلا یا برا تم ہی سمجھنا
تم پہ فیصلہ یہ میں چھوڑتا ہوں
صابر شاکر نے بھی ایک گانا شیئر کیا جس میں عشق کے روٹھنے کا ہی ذکر ہے۔
عمار مسعود نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے نام پر اختلاف قائم انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنرل فیض حمید اور عمران خان کے درمیان رابطے منقطع ہو گئے ہیں۔
صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ شٹل سروس نے دو چکر کل رات اور دو آج صبح لگائے، فنی خرابی کے سبب جب سروس تعطل کا شکار ہوئی تو ٹریکٹر ٹرالی کا استعمال بھی ہوا حاصل سفر یہ ہے کہ بزرگوں نے جو طے کیا ہے اس پر تین ماہ تک برداشت کا مظاہرہ کیا جائے گا اسکے بعد کا لائحہ عمل بھی بزرگ ہی طے کرینگے۔
ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان جاری شٹل سروس دو دن چل کر بند ہو گئی ہے میٹرو کو ہی دیرپا متبادل تصور کیا جا رہا ہے۔
عاصمہ شیرازی نے کہا بادی النظر میں معاملہ حل ہو گیا ہے مگر اس کی گرد اتنی جلدی نہیں بیٹھے گی۔
سید طلعت حسین نے کہا کہ ان کے ذرائع کہہ رہے ہیں کہ حال ہی میں فوج کی جانب سے کیے جانے والے تقرر وتبادلوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔
سلیم صافی نے لکھا ہزاروں یوٹرنز لئے لیکن ماشااللہ محسنوں کے گلے میں ہاتھ ڈالنے اور انہیں رسوا کرنے کی عادت پر کوئی یوٹرن نہیں لیا۔100 مودی مل کر پاکستانی اداروں کےا میج کو وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو تنہا اس شخص نے پہنچادیا۔ ادارے کے اندر بھی سب سے زیادہ اس شخص کو آزمائش میں ڈال رکھا ہے جنہوں نے ان کی خاطر دشمنیاں مول لیں۔
سلیم صافی نے یہ بھی کہا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک معاملے سے باہر ہیں۔ فواد چودھری، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے ذریعے قضیہ حل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ صرف فواد چودھری اخلاص سے کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہیں۔ اسد اور قریشی کے ذریعے معاملہ سلجھانا ایسا ہے جیسے صادق سنجرانی کے ذریعے بلوچستان کا قضیہ سلجھانا۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ دستخط کر دیئے گئے ہیں۔
گل بخاری نے کہا کہ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔