نوازشریف کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر احسانات

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
im1n1n31133.jpg


جی سی لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے ہمارے کلاس فیلو اور دوست ریٹائرڈ جسٹس ثاقب نثار الزامات کی زد میں ہیں۔ آجکل جس پرانے کلاس فیلو سے ان کے پر لگنے والے الزامات کی بوچھاڑ کے بارے میں بات ہو، وہ جواب میں یہی کہتا ہے کہ ؎ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، یہ یقینی بات ہے کہ موصوف کے مزید ’کارنامے‘ابھی سامنے آئیں گے۔

حضرت علیؓ مرتضیٰ کے سونے سے لکھنے والے دو قول یاد آتے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا،’’اﷲ تعالیٰ ہر شخص کی اصلیت دنیا میں ہی ظاہر کردے گا۔‘‘ جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو بھی بے تحاشا عزت اور مقبولیت دے کر آزمایا گیا مگر انھوں نے اسے عدلیہ کی مضبوطی کے بجائے اپنی ذاتی تشہیر، اختیارات اور نمود ونمائش کے لیے استعمال کیا، عزت و ذلت کے مالک نے انھیں بھی عیاں کردیا۔

ہمارے دوست ثاقب نثار صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا، انھوں نے عدل کے سب سے بلند منصب کو بے توقیر کیا تو عظیم ترین عادل و قادر نے ان کی عزت خاک میں ملادی۔ شیرِ خداؓ کا ایک اور قول ہے کہ ’’جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچنے کی کوشش کرو۔‘‘ میاں نوازشریف نے ثاقب نثار پر جتنا بڑا احسان کیا تھااس پر سب حیران تھے ، وہ بہت جوینئر وکیل تھے، اُس وقت انھیں زیادہ سے زیادہ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بنانے کے لیے سوچا جاسکتا تھا۔

کوئی شخص یہ تصوّربھی نہیں کرسکتا تھا کہ ہائیکورٹ کے ایک سینئر، قابل اور اعلیٰ کردار کے مالک جسٹس ملک اختر حسن کی جگہ ثاقب نثار کو فیڈرل لاء سیکریٹری مقرر کردیا جائے گا۔ پرائم منسٹر نوازشریف نے اُن پر یہ غیر معمولی احسان یہ کیا اور پھر چند مہینوں بعد لاہور ہائیکورٹ میں دس اسامیاں نکلیں تو ثاقب نثار صاحب اور آصف کھوسہ صاحب کو ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا۔ میں اُن دنوں پرائم منسٹر کا اسٹاف آفیسر تھا ،اس لیے بہت سی اندر کی باتوں سے بھی واقف ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ثاقب صاحب کو جج بنوانے کے لیے خالد انور اور کھوسہ صاحب کے لیے ان کے سُسر جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحوم) کو میاں صاحبان کی کتنی منتیں کرنی پڑیں۔ مگر دونوں نے اپنے محسن ایسے ڈنگ مارے کہ سب حیران رہ گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پہلا سال چیف جسٹس صاحب کی زیرِ نگرانی رہتے ہیں۔

وہ نئے مقرّر کردہ جج صاحبان کی کارکردگی سے مطمئن ہوں تو ایک سال کے بعد انھیں کنفرم کردیا جاتاہے۔ ثاقب نثار صاحب اور آصف کھوسہ صاحب دونوں کو پہلے سال کے بعد کنفرم نہ کیا گیا۔ مگر اس میں پرائم منسٹرکا کوئی کردار نہ تھا ۔ بس پرائم منسٹر نے اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا تو دونوں نے دل میں عناد پال لیا مگر کچھ قانونی حلقوں کے مطابق انھوں نے منتخب وزیرِاعظم کے خلاف جو کچھ بھی کیا دباؤ کے تحت کیا۔

ثاقب نثار صاحب کے چیف جسٹس بننے پر راقم نے انھی صفحات پر ایک کالم لکھا تھا جس میں یہ تحریر کیا تھا کہ ’’پرانے کلاس فیلوز پوچھتے ہیں کہ آپ میاں ثاقب صاحب کو مبارک باددے آئے ہیں؟‘‘ میں نے دوستوں کو بتایا ہے کہ میں انھیں چیف جسٹس بننے کی مبارک نہیں دوںگا بلکہ وہ جب تک چیف جسٹس ہیں، میں انھیں بالکل نہیں ملوںگا۔اگر انھوں نے اپنے منصب کے تقاضے پورے کیے اور اس کے ساتھ انصاف کیا تو پھر ان کی ریٹائرمنٹ پر میں انھیں مبارک باد دینے جاؤںگااور پھول بھی پیش کروںگا۔‘‘ چیف جسٹس بن کر ہر روز ان کے کچھ روپ سامنے آتے تھے، دو سالوں میں توسارے رنگ و روپ سامنے آگئے۔

ان کی ریٹائرمنٹ پر راقم نے پھر کالم لکھّا کہ ’’کل گُل فروش شیر علی کی دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ وہ میری گاڑی پہچان کر سامنے آگیا، میں نے گاڑی روک لی تو وہ ایک خوبصورت گلدستہ لے آیا اور اسے میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا ’ میں آپ کے سارے کالم پڑھتا ہوں، میں جانتا تھا کہ آج چیف جسٹس صاحب ریٹائر ہورہے ہیں، اس لیے میں نے آج آتے ہی ایک گلدستہ تیار کرالیا تھا، لیکن میں خود گومگو میں تھا۔ میں نے آپ کی شرط بھی پڑھ رکھی تھی، اس لیے یہ سوچ رہا تھا کہ آپ گلدستہ پیش کرنے کے لیے جائیں گے یا نہیں جائیں گے۔

میں نے سر جھکا کر کہا ’’شیر علی مجھے بہت افسوس ہے کہ میں ان کے لیے گلدستہ لے کر نہیں جارہا، اس لیے یہ واپس لے جاؤ‘‘۔ مجھے واقعی دکھ تھا کہ ہم ایک کلاس فیلو کے بارے میں یہ نہ کہہ سکے کہ “We are proud of you” ۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ثاقب نثار صاحب ذاتی طور پر میری بہت عزت کرتے تھے۔ مجھے اپنے بچوں کی شادیوں پربھی مدعو کرتے رہے اور میں ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتا رہا لیکن وہ صرف ایک کلاس فیلو یا دوست نہیں تھے، وہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر براجمان تھے، لہٰذا چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر جب بھی کوئی غیرجانبدار شخص ان کی کارکردگی کا جائزہ لے گا تو انھیں فیل کردے گا۔

جج یا قاضی کے معیار اور آداب پر بیشمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ وہ نہ صرف میزانِ عدل کا توازن برقرار نہ رکھ سکے بلکہ منصبِ قضاء کے کسی معیار پر بھی پورا نہ اُتر سکے۔ انھوں نے اپنے کسی نا معلوم بغض یا دباؤ کے تحت میاں نوازشریف کو ایک انتہائی بودے اور مضحکہ خیز الزام کی بناء پروزارتِ عظمٰی سے ہٹانے، انھیں سزا دلانے اور پھر انھیں تاحیات نااہل کرانے اور ملک کو غیر مستحکم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ ممکن ہے وہ بھی کبھی حقائق اُگل دیں۔

وہ چیف جسٹس کے طور پر پورے خاندان کو لے کر بیرونِ ملک گئے، وہاں مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کیا اور ایک سیاسی پارٹی کے عہدیداروں کے درمیان بیٹھ کر کھانے کھاتے رہے اور انھی کی منعقدکردہ تقریبات میں شریک ہوتے رہے اور اپنی تقریروں میں پی ٹی آئی کے لیے اپنی ’’خدمات‘‘ کا برملا ذکر بھی کرتے رہے۔

سپریم کورٹ تو کیا ایک سول جج کو بھی اور ایک پولیس افسر کو بھی سو فیصد غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ثاقب صاحب کے ساتھی جسٹس آصف کھوسہ صاحب نے وڈیو فیم جج ارشد ملک کے طرزِ عمل کے بارے میں کہا تھا کہ اس سے پوری عدلیہ کا سر شرم سے جھک گیا مگر کھوسہ صاحب نے اُسی جج کا فیصلہ برقرار رکھ کر سب کو حیران کردیا۔

٭ثاقب نثار صاحب نے بنی گالہ کے بنگلے کے مسئلے پر وزیرِاعظم عمران خان کو ریلیف دیا، حالانکہ ان کا کیس بہت کمزور تھا۔ نہ صرف انھوں نے عمران خان صاحب کو ریلیف دیا بلکہ انھوں نے وزیرِاعظم صاحب کو ’صادق‘ اور ’امین‘ جیسے اَلقاب عنایت کردیے جو صرف آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ کے لیے مخصوص ہیں۔

٭اگر کوئی امیدوار انتخابی فارم جمع کراتے وقت اپنی کسی بھی جائیداد کا اندراج نہ کرسکے تو خود سپریم کورٹ اس کا الیکشن کالعدم قرار دیتی رہی ہے۔ شیخ رشید صاحب نے اپنی کچھ پراپرٹی کا اندراج نہیں کیا تھا، اس لیے انھیں نااہل ہوجانے کا واضح خطرہ نظر آرہا تھا مگر ثاقب نثار صاحب نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا جس پر قانونی حلقے حیران ہوئے۔

٭کراچی کے سابق ایس ایس پی راؤانوار کے خلاف ایک قبائلی نوجوان کے قتل کا الزام تھا۔ میڈیا میں شور مچا تو انوار غائب ہوگیا۔ ثاقب نثار صاحب نے آئی جی سندھ کو عدالت میں بلاکر بڑھک ماری کہ اسے گرفتار کرو ورنہ جیل جاؤ گے۔

آئی جی نے ریٹائر نگ روم میں جاکر چیف جسٹس کو ساری صورتِ حال بتادی تو جج صاحب بالکل لیٹ گئے اور پھر کئی مہینوں بعد راؤ انوار اس شان سے پیش ہوا کہ اس کی گاڑی اس گیٹ سے داخل ہوئی جو صرف جج صاحبان کے لیے مخصوص ہے۔ ہمارے کلاس فیلو نے ملک کی خدمت کا جذبہ لے کر امریکا سے آنے والے انتہائی قابل ڈاکٹروں کو بھری عدالت میں بے عزت کیا، جس پر وہ بددل ہو کر واپس چلے گئے اور ایشیاء کا بہترین اسپتال (جو شہباز شریف نے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا) برباد ہوکر رہ گیا۔

یہ تو چند باتیں ہیں ورنہ ان کے ’’کارناموں ” پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا ذکر میں پرانی دوستی کی وجہ سے مناسب نہیں سمجھتا، مگر اُن پر لگنے والے الزامات کی لازمی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تحقیقات سپریم کورٹ کے وہ تین جج صاحبان کریں جنھوں نے نہ کبھی آمریت کے سامنے سرجھکایا ہے اور نہ کبھی کوئی پلاٹ قبول کیا ہے۔

 

The Sane

Chief Minister (5k+ posts)
im1n1n31133.jpg


جی سی لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے ہمارے کلاس فیلو اور دوست ریٹائرڈ جسٹس ثاقب نثار الزامات کی زد میں ہیں۔ آجکل جس پرانے کلاس فیلو سے ان کے پر لگنے والے الزامات کی بوچھاڑ کے بارے میں بات ہو، وہ جواب میں یہی کہتا ہے کہ ؎ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، یہ یقینی بات ہے کہ موصوف کے مزید ’کارنامے‘ابھی سامنے آئیں گے۔

حضرت علیؓ مرتضیٰ کے سونے سے لکھنے والے دو قول یاد آتے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا،’’اﷲ تعالیٰ ہر شخص کی اصلیت دنیا میں ہی ظاہر کردے گا۔‘‘ جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو بھی بے تحاشا عزت اور مقبولیت دے کر آزمایا گیا مگر انھوں نے اسے عدلیہ کی مضبوطی کے بجائے اپنی ذاتی تشہیر، اختیارات اور نمود ونمائش کے لیے استعمال کیا، عزت و ذلت کے مالک نے انھیں بھی عیاں کردیا۔

ہمارے دوست ثاقب نثار صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا، انھوں نے عدل کے سب سے بلند منصب کو بے توقیر کیا تو عظیم ترین عادل و قادر نے ان کی عزت خاک میں ملادی۔ شیرِ خداؓ کا ایک اور قول ہے کہ ’’جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچنے کی کوشش کرو۔‘‘ میاں نوازشریف نے ثاقب نثار پر جتنا بڑا احسان کیا تھااس پر سب حیران تھے ، وہ بہت جوینئر وکیل تھے، اُس وقت انھیں زیادہ سے زیادہ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بنانے کے لیے سوچا جاسکتا تھا۔

کوئی شخص یہ تصوّربھی نہیں کرسکتا تھا کہ ہائیکورٹ کے ایک سینئر، قابل اور اعلیٰ کردار کے مالک جسٹس ملک اختر حسن کی جگہ ثاقب نثار کو فیڈرل لاء سیکریٹری مقرر کردیا جائے گا۔ پرائم منسٹر نوازشریف نے اُن پر یہ غیر معمولی احسان یہ کیا اور پھر چند مہینوں بعد لاہور ہائیکورٹ میں دس اسامیاں نکلیں تو ثاقب نثار صاحب اور آصف کھوسہ صاحب کو ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا۔ میں اُن دنوں پرائم منسٹر کا اسٹاف آفیسر تھا ،اس لیے بہت سی اندر کی باتوں سے بھی واقف ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ثاقب صاحب کو جج بنوانے کے لیے خالد انور اور کھوسہ صاحب کے لیے ان کے سُسر جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحوم) کو میاں صاحبان کی کتنی منتیں کرنی پڑیں۔ مگر دونوں نے اپنے محسن ایسے ڈنگ مارے کہ سب حیران رہ گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پہلا سال چیف جسٹس صاحب کی زیرِ نگرانی رہتے ہیں۔

وہ نئے مقرّر کردہ جج صاحبان کی کارکردگی سے مطمئن ہوں تو ایک سال کے بعد انھیں کنفرم کردیا جاتاہے۔ ثاقب نثار صاحب اور آصف کھوسہ صاحب دونوں کو پہلے سال کے بعد کنفرم نہ کیا گیا۔ مگر اس میں پرائم منسٹرکا کوئی کردار نہ تھا ۔ بس پرائم منسٹر نے اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا تو دونوں نے دل میں عناد پال لیا مگر کچھ قانونی حلقوں کے مطابق انھوں نے منتخب وزیرِاعظم کے خلاف جو کچھ بھی کیا دباؤ کے تحت کیا۔

ثاقب نثار صاحب کے چیف جسٹس بننے پر راقم نے انھی صفحات پر ایک کالم لکھا تھا جس میں یہ تحریر کیا تھا کہ ’’پرانے کلاس فیلوز پوچھتے ہیں کہ آپ میاں ثاقب صاحب کو مبارک باددے آئے ہیں؟‘‘ میں نے دوستوں کو بتایا ہے کہ میں انھیں چیف جسٹس بننے کی مبارک نہیں دوںگا بلکہ وہ جب تک چیف جسٹس ہیں، میں انھیں بالکل نہیں ملوںگا۔اگر انھوں نے اپنے منصب کے تقاضے پورے کیے اور اس کے ساتھ انصاف کیا تو پھر ان کی ریٹائرمنٹ پر میں انھیں مبارک باد دینے جاؤںگااور پھول بھی پیش کروںگا۔‘‘ چیف جسٹس بن کر ہر روز ان کے کچھ روپ سامنے آتے تھے، دو سالوں میں توسارے رنگ و روپ سامنے آگئے۔

ان کی ریٹائرمنٹ پر راقم نے پھر کالم لکھّا کہ ’’کل گُل فروش شیر علی کی دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ وہ میری گاڑی پہچان کر سامنے آگیا، میں نے گاڑی روک لی تو وہ ایک خوبصورت گلدستہ لے آیا اور اسے میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا ’ میں آپ کے سارے کالم پڑھتا ہوں، میں جانتا تھا کہ آج چیف جسٹس صاحب ریٹائر ہورہے ہیں، اس لیے میں نے آج آتے ہی ایک گلدستہ تیار کرالیا تھا، لیکن میں خود گومگو میں تھا۔ میں نے آپ کی شرط بھی پڑھ رکھی تھی، اس لیے یہ سوچ رہا تھا کہ آپ گلدستہ پیش کرنے کے لیے جائیں گے یا نہیں جائیں گے۔

میں نے سر جھکا کر کہا ’’شیر علی مجھے بہت افسوس ہے کہ میں ان کے لیے گلدستہ لے کر نہیں جارہا، اس لیے یہ واپس لے جاؤ‘‘۔ مجھے واقعی دکھ تھا کہ ہم ایک کلاس فیلو کے بارے میں یہ نہ کہہ سکے کہ “We are proud of you” ۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ثاقب نثار صاحب ذاتی طور پر میری بہت عزت کرتے تھے۔ مجھے اپنے بچوں کی شادیوں پربھی مدعو کرتے رہے اور میں ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتا رہا لیکن وہ صرف ایک کلاس فیلو یا دوست نہیں تھے، وہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر براجمان تھے، لہٰذا چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر جب بھی کوئی غیرجانبدار شخص ان کی کارکردگی کا جائزہ لے گا تو انھیں فیل کردے گا۔

جج یا قاضی کے معیار اور آداب پر بیشمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ وہ نہ صرف میزانِ عدل کا توازن برقرار نہ رکھ سکے بلکہ منصبِ قضاء کے کسی معیار پر بھی پورا نہ اُتر سکے۔ انھوں نے اپنے کسی نا معلوم بغض یا دباؤ کے تحت میاں نوازشریف کو ایک انتہائی بودے اور مضحکہ خیز الزام کی بناء پروزارتِ عظمٰی سے ہٹانے، انھیں سزا دلانے اور پھر انھیں تاحیات نااہل کرانے اور ملک کو غیر مستحکم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ ممکن ہے وہ بھی کبھی حقائق اُگل دیں۔

وہ چیف جسٹس کے طور پر پورے خاندان کو لے کر بیرونِ ملک گئے، وہاں مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کیا اور ایک سیاسی پارٹی کے عہدیداروں کے درمیان بیٹھ کر کھانے کھاتے رہے اور انھی کی منعقدکردہ تقریبات میں شریک ہوتے رہے اور اپنی تقریروں میں پی ٹی آئی کے لیے اپنی ’’خدمات‘‘ کا برملا ذکر بھی کرتے رہے۔

سپریم کورٹ تو کیا ایک سول جج کو بھی اور ایک پولیس افسر کو بھی سو فیصد غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ثاقب صاحب کے ساتھی جسٹس آصف کھوسہ صاحب نے وڈیو فیم جج ارشد ملک کے طرزِ عمل کے بارے میں کہا تھا کہ اس سے پوری عدلیہ کا سر شرم سے جھک گیا مگر کھوسہ صاحب نے اُسی جج کا فیصلہ برقرار رکھ کر سب کو حیران کردیا۔

٭ثاقب نثار صاحب نے بنی گالہ کے بنگلے کے مسئلے پر وزیرِاعظم عمران خان کو ریلیف دیا، حالانکہ ان کا کیس بہت کمزور تھا۔ نہ صرف انھوں نے عمران خان صاحب کو ریلیف دیا بلکہ انھوں نے وزیرِاعظم صاحب کو ’صادق‘ اور ’امین‘ جیسے اَلقاب عنایت کردیے جو صرف آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ کے لیے مخصوص ہیں۔

٭اگر کوئی امیدوار انتخابی فارم جمع کراتے وقت اپنی کسی بھی جائیداد کا اندراج نہ کرسکے تو خود سپریم کورٹ اس کا الیکشن کالعدم قرار دیتی رہی ہے۔ شیخ رشید صاحب نے اپنی کچھ پراپرٹی کا اندراج نہیں کیا تھا، اس لیے انھیں نااہل ہوجانے کا واضح خطرہ نظر آرہا تھا مگر ثاقب نثار صاحب نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا جس پر قانونی حلقے حیران ہوئے۔

٭کراچی کے سابق ایس ایس پی راؤانوار کے خلاف ایک قبائلی نوجوان کے قتل کا الزام تھا۔ میڈیا میں شور مچا تو انوار غائب ہوگیا۔ ثاقب نثار صاحب نے آئی جی سندھ کو عدالت میں بلاکر بڑھک ماری کہ اسے گرفتار کرو ورنہ جیل جاؤ گے۔

آئی جی نے ریٹائر نگ روم میں جاکر چیف جسٹس کو ساری صورتِ حال بتادی تو جج صاحب بالکل لیٹ گئے اور پھر کئی مہینوں بعد راؤ انوار اس شان سے پیش ہوا کہ اس کی گاڑی اس گیٹ سے داخل ہوئی جو صرف جج صاحبان کے لیے مخصوص ہے۔ ہمارے کلاس فیلو نے ملک کی خدمت کا جذبہ لے کر امریکا سے آنے والے انتہائی قابل ڈاکٹروں کو بھری عدالت میں بے عزت کیا، جس پر وہ بددل ہو کر واپس چلے گئے اور ایشیاء کا بہترین اسپتال (جو شہباز شریف نے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا) برباد ہوکر رہ گیا۔

یہ تو چند باتیں ہیں ورنہ ان کے ’’کارناموں ” پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا ذکر میں پرانی دوستی کی وجہ سے مناسب نہیں سمجھتا، مگر اُن پر لگنے والے الزامات کی لازمی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تحقیقات سپریم کورٹ کے وہ تین جج صاحبان کریں جنھوں نے نہ کبھی آمریت کے سامنے سرجھکایا ہے اور نہ کبھی کوئی پلاٹ قبول کیا ہے۔

احسان کیسا حرام خور چیمے۔۔۔۔ اگر ثاقب نثار واقعی لائق وکیل تھا تو اس کی تقرری میرٹ پر ہوئی، اور اگر نالائق وکیل تھا تو یقیناً تقرری داماد سمجھ کر کی گئی۔ اس صورت میں لتر کھوتی شریف کے صحتمند چُوتڑوں پر مارنے چائیں۔
 

The Sane

Chief Minister (5k+ posts)
im1n1n31133.jpg


جی سی لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے ہمارے کلاس فیلو اور دوست ریٹائرڈ جسٹس ثاقب نثار الزامات کی زد میں ہیں۔ آجکل جس پرانے کلاس فیلو سے ان کے پر لگنے والے الزامات کی بوچھاڑ کے بارے میں بات ہو، وہ جواب میں یہی کہتا ہے کہ ؎ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، یہ یقینی بات ہے کہ موصوف کے مزید ’کارنامے‘ابھی سامنے آئیں گے۔

حضرت علیؓ مرتضیٰ کے سونے سے لکھنے والے دو قول یاد آتے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا،’’اﷲ تعالیٰ ہر شخص کی اصلیت دنیا میں ہی ظاہر کردے گا۔‘‘ جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو بھی بے تحاشا عزت اور مقبولیت دے کر آزمایا گیا مگر انھوں نے اسے عدلیہ کی مضبوطی کے بجائے اپنی ذاتی تشہیر، اختیارات اور نمود ونمائش کے لیے استعمال کیا، عزت و ذلت کے مالک نے انھیں بھی عیاں کردیا۔

ہمارے دوست ثاقب نثار صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا، انھوں نے عدل کے سب سے بلند منصب کو بے توقیر کیا تو عظیم ترین عادل و قادر نے ان کی عزت خاک میں ملادی۔ شیرِ خداؓ کا ایک اور قول ہے کہ ’’جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچنے کی کوشش کرو۔‘‘ میاں نوازشریف نے ثاقب نثار پر جتنا بڑا احسان کیا تھااس پر سب حیران تھے ، وہ بہت جوینئر وکیل تھے، اُس وقت انھیں زیادہ سے زیادہ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بنانے کے لیے سوچا جاسکتا تھا۔

کوئی شخص یہ تصوّربھی نہیں کرسکتا تھا کہ ہائیکورٹ کے ایک سینئر، قابل اور اعلیٰ کردار کے مالک جسٹس ملک اختر حسن کی جگہ ثاقب نثار کو فیڈرل لاء سیکریٹری مقرر کردیا جائے گا۔ پرائم منسٹر نوازشریف نے اُن پر یہ غیر معمولی احسان یہ کیا اور پھر چند مہینوں بعد لاہور ہائیکورٹ میں دس اسامیاں نکلیں تو ثاقب نثار صاحب اور آصف کھوسہ صاحب کو ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا۔ میں اُن دنوں پرائم منسٹر کا اسٹاف آفیسر تھا ،اس لیے بہت سی اندر کی باتوں سے بھی واقف ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ثاقب صاحب کو جج بنوانے کے لیے خالد انور اور کھوسہ صاحب کے لیے ان کے سُسر جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحوم) کو میاں صاحبان کی کتنی منتیں کرنی پڑیں۔ مگر دونوں نے اپنے محسن ایسے ڈنگ مارے کہ سب حیران رہ گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پہلا سال چیف جسٹس صاحب کی زیرِ نگرانی رہتے ہیں۔

وہ نئے مقرّر کردہ جج صاحبان کی کارکردگی سے مطمئن ہوں تو ایک سال کے بعد انھیں کنفرم کردیا جاتاہے۔ ثاقب نثار صاحب اور آصف کھوسہ صاحب دونوں کو پہلے سال کے بعد کنفرم نہ کیا گیا۔ مگر اس میں پرائم منسٹرکا کوئی کردار نہ تھا ۔ بس پرائم منسٹر نے اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا تو دونوں نے دل میں عناد پال لیا مگر کچھ قانونی حلقوں کے مطابق انھوں نے منتخب وزیرِاعظم کے خلاف جو کچھ بھی کیا دباؤ کے تحت کیا۔

ثاقب نثار صاحب کے چیف جسٹس بننے پر راقم نے انھی صفحات پر ایک کالم لکھا تھا جس میں یہ تحریر کیا تھا کہ ’’پرانے کلاس فیلوز پوچھتے ہیں کہ آپ میاں ثاقب صاحب کو مبارک باددے آئے ہیں؟‘‘ میں نے دوستوں کو بتایا ہے کہ میں انھیں چیف جسٹس بننے کی مبارک نہیں دوںگا بلکہ وہ جب تک چیف جسٹس ہیں، میں انھیں بالکل نہیں ملوںگا۔اگر انھوں نے اپنے منصب کے تقاضے پورے کیے اور اس کے ساتھ انصاف کیا تو پھر ان کی ریٹائرمنٹ پر میں انھیں مبارک باد دینے جاؤںگااور پھول بھی پیش کروںگا۔‘‘ چیف جسٹس بن کر ہر روز ان کے کچھ روپ سامنے آتے تھے، دو سالوں میں توسارے رنگ و روپ سامنے آگئے۔

ان کی ریٹائرمنٹ پر راقم نے پھر کالم لکھّا کہ ’’کل گُل فروش شیر علی کی دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ وہ میری گاڑی پہچان کر سامنے آگیا، میں نے گاڑی روک لی تو وہ ایک خوبصورت گلدستہ لے آیا اور اسے میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا ’ میں آپ کے سارے کالم پڑھتا ہوں، میں جانتا تھا کہ آج چیف جسٹس صاحب ریٹائر ہورہے ہیں، اس لیے میں نے آج آتے ہی ایک گلدستہ تیار کرالیا تھا، لیکن میں خود گومگو میں تھا۔ میں نے آپ کی شرط بھی پڑھ رکھی تھی، اس لیے یہ سوچ رہا تھا کہ آپ گلدستہ پیش کرنے کے لیے جائیں گے یا نہیں جائیں گے۔

میں نے سر جھکا کر کہا ’’شیر علی مجھے بہت افسوس ہے کہ میں ان کے لیے گلدستہ لے کر نہیں جارہا، اس لیے یہ واپس لے جاؤ‘‘۔ مجھے واقعی دکھ تھا کہ ہم ایک کلاس فیلو کے بارے میں یہ نہ کہہ سکے کہ “We are proud of you” ۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ثاقب نثار صاحب ذاتی طور پر میری بہت عزت کرتے تھے۔ مجھے اپنے بچوں کی شادیوں پربھی مدعو کرتے رہے اور میں ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتا رہا لیکن وہ صرف ایک کلاس فیلو یا دوست نہیں تھے، وہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر براجمان تھے، لہٰذا چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر جب بھی کوئی غیرجانبدار شخص ان کی کارکردگی کا جائزہ لے گا تو انھیں فیل کردے گا۔

جج یا قاضی کے معیار اور آداب پر بیشمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ وہ نہ صرف میزانِ عدل کا توازن برقرار نہ رکھ سکے بلکہ منصبِ قضاء کے کسی معیار پر بھی پورا نہ اُتر سکے۔ انھوں نے اپنے کسی نا معلوم بغض یا دباؤ کے تحت میاں نوازشریف کو ایک انتہائی بودے اور مضحکہ خیز الزام کی بناء پروزارتِ عظمٰی سے ہٹانے، انھیں سزا دلانے اور پھر انھیں تاحیات نااہل کرانے اور ملک کو غیر مستحکم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ ممکن ہے وہ بھی کبھی حقائق اُگل دیں۔

وہ چیف جسٹس کے طور پر پورے خاندان کو لے کر بیرونِ ملک گئے، وہاں مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کیا اور ایک سیاسی پارٹی کے عہدیداروں کے درمیان بیٹھ کر کھانے کھاتے رہے اور انھی کی منعقدکردہ تقریبات میں شریک ہوتے رہے اور اپنی تقریروں میں پی ٹی آئی کے لیے اپنی ’’خدمات‘‘ کا برملا ذکر بھی کرتے رہے۔

سپریم کورٹ تو کیا ایک سول جج کو بھی اور ایک پولیس افسر کو بھی سو فیصد غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ثاقب صاحب کے ساتھی جسٹس آصف کھوسہ صاحب نے وڈیو فیم جج ارشد ملک کے طرزِ عمل کے بارے میں کہا تھا کہ اس سے پوری عدلیہ کا سر شرم سے جھک گیا مگر کھوسہ صاحب نے اُسی جج کا فیصلہ برقرار رکھ کر سب کو حیران کردیا۔

٭ثاقب نثار صاحب نے بنی گالہ کے بنگلے کے مسئلے پر وزیرِاعظم عمران خان کو ریلیف دیا، حالانکہ ان کا کیس بہت کمزور تھا۔ نہ صرف انھوں نے عمران خان صاحب کو ریلیف دیا بلکہ انھوں نے وزیرِاعظم صاحب کو ’صادق‘ اور ’امین‘ جیسے اَلقاب عنایت کردیے جو صرف آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ کے لیے مخصوص ہیں۔

٭اگر کوئی امیدوار انتخابی فارم جمع کراتے وقت اپنی کسی بھی جائیداد کا اندراج نہ کرسکے تو خود سپریم کورٹ اس کا الیکشن کالعدم قرار دیتی رہی ہے۔ شیخ رشید صاحب نے اپنی کچھ پراپرٹی کا اندراج نہیں کیا تھا، اس لیے انھیں نااہل ہوجانے کا واضح خطرہ نظر آرہا تھا مگر ثاقب نثار صاحب نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا جس پر قانونی حلقے حیران ہوئے۔

٭کراچی کے سابق ایس ایس پی راؤانوار کے خلاف ایک قبائلی نوجوان کے قتل کا الزام تھا۔ میڈیا میں شور مچا تو انوار غائب ہوگیا۔ ثاقب نثار صاحب نے آئی جی سندھ کو عدالت میں بلاکر بڑھک ماری کہ اسے گرفتار کرو ورنہ جیل جاؤ گے۔

آئی جی نے ریٹائر نگ روم میں جاکر چیف جسٹس کو ساری صورتِ حال بتادی تو جج صاحب بالکل لیٹ گئے اور پھر کئی مہینوں بعد راؤ انوار اس شان سے پیش ہوا کہ اس کی گاڑی اس گیٹ سے داخل ہوئی جو صرف جج صاحبان کے لیے مخصوص ہے۔ ہمارے کلاس فیلو نے ملک کی خدمت کا جذبہ لے کر امریکا سے آنے والے انتہائی قابل ڈاکٹروں کو بھری عدالت میں بے عزت کیا، جس پر وہ بددل ہو کر واپس چلے گئے اور ایشیاء کا بہترین اسپتال (جو شہباز شریف نے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا) برباد ہوکر رہ گیا۔

یہ تو چند باتیں ہیں ورنہ ان کے ’’کارناموں ” پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا ذکر میں پرانی دوستی کی وجہ سے مناسب نہیں سمجھتا، مگر اُن پر لگنے والے الزامات کی لازمی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تحقیقات سپریم کورٹ کے وہ تین جج صاحبان کریں جنھوں نے نہ کبھی آمریت کے سامنے سرجھکایا ہے اور نہ کبھی کوئی پلاٹ قبول کیا ہے۔

حرام خورو، حضرت علی کا وہ قول نہیں سُنا کہ کفر پر قائم معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے، ناانصافی اور بد دیانتی پر نہیں۔
 

tempting

Councller (250+ posts)
ایسا ہی ایک کالم چوہدری نثار پر لکھا تھا جس پر نثار نے کہا تھا، گدھے پر پوری لائیبریری بھی رکھ دو تو وہ گدھا ہی رہتا ہے۔

گدھے انسان آوٹ آف ٹرن ترقی تو خود ایک جرم ہے
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
کوئی شخص یہ تصوّربھی نہیں کرسکتا تھا کہ ہائیکورٹ کے ایک سینئر، قابل اور اعلیٰ کردار کے مالک جسٹس ملک اختر حسن کی جگہ ثاقب نثار کو فیڈرل لاء سیکریٹری مقرر کردیا جائے گا۔
یعنی ایک قابل ترین آدمی کی جگہ میرٹ کو نظر انداز کر کے ثاقب نثار کو لگایا اور اسے چور مفرور کا احسان کہا جا رہا ہے۔ حد ہے غلامی کی
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
پرائم منسٹر نوازشریف نے اُن پر یہ غیر معمولی احسان یہ کیا
کیوں کیا احسان ؟ اس احسان کے پیچھے جسٹس رانا شمیم اور جسٹس فائز عیسی کی طرح بعد میں فائدے لینا مقصود تھا
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
یہ بھی جانتا ہوں کہ ثاقب صاحب کو جج بنوانے کے لیے خالد انور اور کھوسہ صاحب کے لیے ان کے سُسر جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحوم) کو میاں صاحبان کی کتنی منتیں کرنی پڑیں۔ مگر دونوں نے اپنے محسن ایسے ڈنگ مارے کہ سب حیران رہ گئے۔
جس ملک میں جج وزیر اعظم سفارش پر لگاتا ہو اس ملک کی عدالتیں دنیا میں آخری نمبر پر ہی آتی ہیں
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
کچھ قانونی حلقوں کے مطابق انھوں نے منتخب وزیرِاعظم کے خلاف جو کچھ بھی کیا دباؤ کے تحت کیا۔
جب منتخب وزیر اعظم سفارش پر جج لگا رہا تھا اس وقت اس پر کس کا دباؤ تھا؟
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

گنجے کے دل میں کھوٹ تھا....... تو اسی لیے اسے اوپر والے کی طرف سے سزا مل گئی
سو تدبیریں چوروں کی اور ایک تدبیر الله کی

ویسے چیمہ صاحب آپ کا اپنے بھائی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انکی سٹوری بھی کچھ ایسی ہی نہیں ہے؟؟ انہیں بھی گنجے نے جج بنایا، ان سے فائدے لیے اور بعد میں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے کر الیکشن لڑوا دیا . اپنے بھائی کے کرتوتوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے آپکی زبان میں چھالے کیوں پڑ گئے؟؟؟ مسٹر اَپ رائٹ صاحب
ویسے چیمہ صاحب آپکو شرم آنی چاہیے، جناب ثاقب نثار صاحب کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کے لیے نانی نے اب آپکو لانچ کر دیا ہے . آپکو ان گنجوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے پہلے اپنی اچھی ساکھ کا خیال کرنا چاہیے تھا
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
انھوں نے اپنے کسی نا معلوم بغض یا دباؤ کے تحت میاں نوازشریف کو ایک انتہائی بودے اور مضحکہ خیز الزام کی بناء پروزارتِ عظمٰی سے ہٹانے، انھیں سزا دلانے اور پھر انھیں تاحیات نااہل کرانے اور ملک کو غیر مستحکم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔
جن پانچ ججز نے متفقہ طور پر میاں مفرور کو نااہل کیا اس بینچ میں ثاقب نثار شامل نہیں تھے پٹواری
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
ثاقب صاحب کے ساتھی جسٹس آصف کھوسہ صاحب نے وڈیو فیم جج ارشد ملک کے طرزِ عمل کے بارے میں کہا تھا کہ اس سے پوری عدلیہ کا سر شرم سے جھک گیا مگر کھوسہ صاحب نے اُسی جج کا فیصلہ برقرار رکھ کر سب کو حیران کردیا۔
کیونکہ عدلیہ میں فیصلے ثبوتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں ویڈیو آڈیو لیکس کی بنیاد پر نہیں
 

ranaji

President (40k+ posts)
اگر کسی امرتسری کنجر دلے ہاراں رام گلی کے چکلے والے نطفہ حرام گھٹیا نیچ اور زلیل جاہل چور فراڈئے لعنتی بے غیرت خنزیر النسل جس کئ کل اہلیت دو پنجابی جرنیلوں ضیا اور جیلانی کی چاپلوسی اور اس کا پالتو حرامی کتا بننا ہو جب اس جیسے نطفہ حرام چکلے کی پیداوار نواز شریف بٹ کو منافق جرنیل اپنا پالتو کتا بنا کر لوٹ مار کے لئے چھوڑ سکتا ہے تو ایسے خنزیر النسل نطفہ حرام امرتسری چکلے کی پیداوار نوا شریف جیسے نطفہ حرام کے لئے اللہ کریم ثاقب نثار جیسے بندے بھیج کر ایسے خنزیر النسل حرام کے نطفہ نواز شریف بٹ جیسے سابقہ ضیا کے کتا موجودہ مودی کے پالتو کتے نطفہ حرام۔ کو دنیا میں ہی زلیل کر دیتا ہے یہ گھٹیا نیچ بے غیرت امرتسری چکلے کی پیداوار نواز شریف جیسے چور فرازڈئے جاہل گامے ماجھے فراڈئے کو اللہ نے سب کے سامنے ننگا کر دیا اور یہ چور فراڈیا اپنے کسی اصلی کتے والی بلڈاگ والی کراکے زلیل ہوگیا اللہ برحق ہے یہ نطفہ حرام فراڈیا انشا اللہ اور بھی زلیل ہوگا نواز شریف بٹ جاہل گوالمڈیلا ضیا کا مسلط کیا ہوا بلڈاگ یہ دوٹکے کا امرتسر چکلے کی پیداوار جس طرح لوٹ مار سے کھرب پتی بنا۔ کیا لوگ اندھے ہیں بہرے اب اس خنزیر النسل نطفہ حرام کو اگر کسئ گشتی کے بچے اور رحیم یار خان کے چکلے منیرے مختارے کی نسل نے حرام زدگی کی ر تو وہ بھی کتے کی موت ہے مرے گا اپنے چکلے میں
 

ranaji

President (40k+ posts)
یہ نواز شریف بٹ کا چمونہ نطفہ حرام ہے کون چیمہ کیا اس کا ڈاک خانہ بھی کسی چکلے سے ہی ملتا ہے

در لعنت درلعنت ای اوئی کسی ۔۔۔ دیا پترا

اس چکلے والے سے کہنا تھا اگر نواز شریف چور نہیں فراڈیا نہیں تو نطفہ حرام اسکی شٹ اپنی زبان سے چاٹ کر اس کو کوئی امیر المومین ثابت کرنے والے نطفہ حرام تو ہی نواز شیریف کی جگہ رسیدیں دے دے خنزیر النسل کو نہ جعلی ڈیڈ نہ کلبری فونٹ نہ جھوٹ مہ منی لانڈرنگ نہ فراڈ نظر آیا نواز شےف کیسے کیسے نطفہ حرام اپنی ہڈی کے لئے گشتی پن کر کے چوروں کو ڈیفنڈ کرکے نطفہ حرام حرام ہونے کا ثبوت دیتے ہیں آنے بھونکو بکواس کرنے کی حراُم توپی اور بھونکنا بند کر اور اپنی۔۔۔ کے یار کی منی ٹریل تو ہی دیدے رسیدیں تو ہی دیدے نطفہ حرام کسی چکلے کی پیداوار کی چمونے
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
ذوالفقار چیمہ کے خیالات سن کر افسوس ہی ہوتا ہے۔ لگتا ہے نواز شریف نے اسے آئی جی لگا کر اس پر بھی احسان کیا تھا اور آج وہ جسٹس شمیم کی طرح اس احسان کا بدلہ چکا رہا ہے۔

لگتا ہے ہمارے حکمران تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔
بھٹو نے جنرل ضیا کو ترقی دے کر چیف بنوایا حالانکہ وہ سینیارٹی میں ساتویں نمبر پر تھے۔ جنرل ضیا نے جو کچھ بھٹو کے ساتھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
جنرل آٖصف نواز کی اچانک موت کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کسی اور کو چیف بنانا چاہتے تھے لیکن اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان ایک سینئر جنرل، جنرل وحید کاکڑ کے حق میں کھڑے ہو گئے اور غلام اسحٰق کی کوشش سے جنرل کاکڑ چیف بن گئے لیکن نواز شریف اور غلام اسححٰق کی لڑائی اتنی بڑھ گئی کہ جنرل کاکڑ نے دونوں کو چلتا کر دیا۔ بعد میں کبھی صدر اور وزیر اعظم کے مابین اختلاف آتا جنرل کاکڑ فارمولے کا ذکر ضرور چلتا۔
میرٹ کو نظر انداز کرنے کا آخری واقعہ یہ ہے جب نواز شریف ہی نے جنرل مشرف کو چیف بنایا حالانکہ وہ سینیارٹی میں بیچھے تھے۔
لگتا ہے نواز شریف کسی بھی واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھیں گے۔ اب یہ تازہ واقعہ ہے کہ اس نے جوڈیشری میں بھی میرٹ کو شائد اس خیال سے نظر انداز کیا تاکہ کسی لائل آدمی کو نوازے جو بہ وقت ضرورت قانون اور آئین کی بجائے نواز شریف کی ذاتی خدمت کرے۔
 

akbar41

Senator (1k+ posts)
Oh cheemay tu bhi ganjay ke ahsanoo se bana, if ganja given him promotion without merit, then he is stupid should be punished.
Harrami wakalat kar raha choor dacoo ki.