نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز سے نجی ٹی وی چینل پر میزبان نے سوال کیا کہ ان کے والد 5 گھنٹے کا سفر کر کے فیکٹری کا دورہ کر سکتے ہیں تو ایئرایمبولنس پر پاکستان کیوں نہیں آ سکتے۔
اس پر حسین نواز نے کہا کہ یہ ویڈیو اب کی نہیں کئی ماہ پرانی ہے اور انہوں نے ٹرین پر سفر کیا اور اس مقصد کیلئے ٹرین کا ایک پورا کمپارٹمنٹ بک کرایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ہی میاں صاحب کو اس بات کیلئے منایا تھا کیونکہ میں چاہتا کہ ان کو تھوڑا سا چینج مل جائے اور اس سے ان کی طبیعت بہتر ہو جائے گی۔
انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے اس بات کی تفتیش نہیں کی کہ نوازشریف کے پاکستان میں پلیٹ لٹس کیوں گے تھے اور ان کی طبیعت اتنی زیادہ کیوں خراب ہوئی تھی۔ حسین نواز نے کہا کہ میں نام نہیں لوں گا مگر پاکستان سے ہی کسی نے ڈاکٹر عدنان کو کہا کہ آپ نوازشریف کو یہاں سے لے جائیں کیونکہ حکومت ہر جائز ناجائز کام کیلئے ہم پر دباؤ ڈالتی ہے۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ عمران خان سے لے کر شیخ رشید تک اور نوازشریف سے لے کر مریم نواز تک ہر کردار جانتا ہے کہ پلیٹ لیٹس کو کیوں، کیسے اور کس نے Manageکیا۔ عمران خان یا نوازشریف ہمت کر کے سچ بتا دیں۔ عمران خان میں جرات ہے تو جوڈیشل کمیشن بنا دیں اور نوازشریف میں ہمت ہے تو جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کریں۔
اس پر املکہ حیدر نے کہا کہ یہ موصوف بیمار ہیں پاکستان نہیں آ سکتے مگر فیکٹری جا سکتے ہیں۔
حسین نواز کے جواب پر بختیار نامی صارف نے کہا کہ کوئی سر پیر نہیں ہے ۔ بس آئیں بائیں شائیں ۔ لگے ہاتھوں لڑکے سے یہ بھی پوچھ لیتے کہ بھئی تم ہی آ جاؤ اور فلیٹ کی رسیدیں دکھا دو کیونکہ ابا جان کہتے ہیں وہ بچوں کے ہیں اور بچے آتے نہیں ۔ جتنی مٹی پلید اس خاندان کی ہو رہی ہے اگر کوئی عزت والا ہوتا تو اعتراف کر لیتا اور معافی مانگتا۔
ثنااللہ سروری نے بھی کہا کہ پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے والدین نہیں نوازشریف یہاں آکر ان کے کاروبار میں برکت کیلئے بھی دعا کریں۔
فیضان نے کہا کہ مان لیا ویڈیو پرانی ہے تو جب اس وقت سفر کر سکتے تھے تو تب کیوں نہیں واپس آئے۔ اگر یہ آپ کے دوست کی فیکٹری تھی تو ویڈیو بنانے والے بھی آپ کے لوگ تھے ویڈیو بھی تو آپ ہی کے لوگوں نے ہی اپ لوڈ کی ناں۔