نورمقدم قتل کیس: کیا واقعی تفتیشی افسر نے ظاہر جعفر کو بچانے کی کوشش کی یا ظاہرجعفر کے وکیل نے ایسے سوالات پوچھے جن کا غلط مطلب اخذ کیا گیا؟
گزشتہ روز آئی جی اسلام آباد کی زیر صدارت اجلاس ہوا ، اجلاس میں تفتیشی افسر بھی شریک ہوئے جن کے بارے میں سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جارہا تھا کہ وہ ظاہر جعفر کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
دراصل ظاہر جعفر کے وکیل نے سوالوں کا ایسا پیٹرن رکھا جن کا جواب ہاں یا ناں میں دیا جانا تھا اور سوالوں کا پیٹرن ایسا تھا کہ جس سے ابہام پیدا ہو اور ملزم کیلئے ریلیف کا راستہ ہموار ہو۔ اس سے قبل ظاہرجعفر کے وکلاء اسے ذہنی مریض ثابت کرنیکی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔
آئی جی اسلام آباد کی زیرصدارت اجلاس میں نور مقدم کیس کی سماعت اور میڈیا رپورٹس پر تفتیشی حکام سے سوالات کئے گئے ، تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم کے وکیل ذوالقرنین سکندر نے ان سے جو سوالات پوچھے ان سوالوں کا جواب ہاں یا نہیں میں دیا جاتا ہے۔
تفتیشی افسر نے اپنے ریمارکس پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی پینٹ پر نہیں شرٹ پر خون تھا جبکہ ظاہر جعفر کی جلد کا حصہ مقتولہ کے ناخن میں پھنسا تھا۔
انکے مطابق ان سے پوچھا گیا کیا ملزم کی پینٹ پر خون لگا تھا؟ ،جواب دیا نہیں، کیونکہ فرانزک رپورٹ کے مطابق خون پینٹ پرنہیں شرٹ پرتھا۔
تفتیشی افسر کے مطابق پوچھا گیا چاقو پر کسی کی انگلیوں کے نشان ملے؟ جواب دیانہیں کیونکہ فرانزک رپورٹ میں چاقو پر مقتولہ کا خون بتایا گیا،انگلیوں کے نشان نہیں۔
تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ پوچھا گیا مقتولہ کی شناخت کیلئے فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ کیاگیا؟جواب دیانہیں، فوٹوگرامیٹری ٹیسٹ ملزم کی شناخت کے لیے کرایا جاتا ہے۔
بعدازاں سوال جواب کا جائزہ لینے کے بعد آئی جی پولیس نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرح کے دوران چونکہ ہاں یا ناں میں جواب دینا تھا اور وضاحت کا موقع نہیں تھا جس کی وجہ سے تفتیشی افسر کے جوابات کا منفی تاثر لیا گیا ہے۔