نیا سال آتے ہی کتنے فیصد پاکستانیوں کو مالی مشکلات میں اضافے کا خوف؟

pakistan%20rs%20rtc.jpg


نیا سال بھی لائے گا مالی مشکلات۔۔ 45فیصد پاکستانی خوفزدہ

دوہزار اکیس میں مہنگائی کے طوفان نے پاکستانیوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیے رکھا اور اب عوام کو ڈر ہے کہ آنے والا سال بھی مالی پریشانیوں میں گھرے رہے گا،جی ہاں گیلپ انٹرنیشنل اور گیلپ پاکستان کے سروے میں عوام نے مایوسی کا اظہار کردیا،

پاکستان سمیت دنیا کے 44ممالک میں گیلپ انٹرنیشنل اور گیلپ پاکستان کے کروائے گئے،سروے میں 45 فیصد پاکستانیوں نے 2022میں معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہونےکے خوف کا اظہار کیاجبکہ 40فیصد نے معاشی مشکلات میں کمی کی امید ظاہر کی۔10فیصد نے جیسے حالات ابھی ہیں ویسے ہی ہونے کا کہا جبکہ 05 فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ۔

معاشی بہتری کی امید کا نیٹ اسکور منفی 5فیصد ہے جو 2012ء کے بعد سب سے کم ترین سطح پر ہے،معاشی بہتری کا کہنے والوں کی شرح 26 فیصد نظر آئی،گیلپ پاکستان کے مطابق پیپلزپارٹی نے جب حکومت سنبھالی تو معاشی مستقبل میں بہتری کا نیٹ اسکور منفی38؍ فیصد تھا ۔

2009 میں حالانکہ بہتری ہوئی مگر منفی 8فیصد پر رہا،2010ء میں منفی 21فیصد اور 2011میں منفی 13فیصد اور 2012ء میں 5فیصد نظر آیا لیکن ن لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد 2014میں 47فیصد اور 2015 میں 50فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچا لیکن اس کے بعد سے اس میں کمی دیکھی جارہی ہے اور 2021 میں معاشی مستقبل سے پُرامید ہونے کا نیٹ اسکور منفی 5 فیصد پر آگیا،گیلپ پاکستان کے مطابق معاشی مستقبل پر پاکستانیوں کا نیٹ اسکور پڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں کافی کم ہے۔

بھارت میں 49فیصد 2022 کو معاشی مشکلات میں کمی کے سال کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ 32فیصد معاشی مستقبل سے مایوس ہیں اور بھارت کا نیٹ اسکور 17 فیصد ہے،افغانستان میں مایوس افراد کی شرح پاکستان سے زیادہ ہے،جہاں 60فیصد افغانی اگلے سال معاشی مشکلات میں اضافے کی پیش گوئی کررہے ہیں جبکہ 23 فیصد معاشی مشکلات میں کمی کیلئے پُرامید ہیں اور افغانستان کا نیٹ اسکورمنفی 37فیصد ہے ۔

گیلپ کےEconomic Optimism Index میں مستقبل میں اپنی معیشت پر سب سے زیادہ امید رکھنے والے ممالک میں 61 فیصد کے ساتھ نائیجیریا سر فہرست نظر آیاجبکہ مستقبل میں معیشت سے سب سے زیادہ نااُمید ترکی اور بوسنیاکے 72فیصدافراد نظر آئے،44میں مستقبل میں معیشت سے پُرامید افراد کے نیٹ اسکور کی بنیاد پربنائی گئی فہرست میں پاکستان 15ویں نمبر پر رہا جبکہ بھارت نویں نمبر پر ہے۔