ن لیگ کی فوج سے صرف ایک ہی ڈیمانڈ ہے اور وہ ہے موجودہ حکومت کا خاتمہ

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
ایک دوسرے حلقے کے مطابق ن لیگ کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو کہا جا رہا کہ بیشک ہمارے کیسز چلنے دیں،ہمیں نا اہل رہنے دیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ ہو یا پھر وزارت عظمیٰ ن لیگ کو کچھ بھی نہیں چاہیے۔ الیکشن بھی اپنے مقررہ وقت پر ہوں، ہمیں اس پر بھی اعتراض نہیں۔ ن لیگ کی صرف اور صرف ایک ہی ڈیمانڈ ہے اور وہ ہے موجودہ حکومت کا خاتمہ۔

ن لیگ کی لیڈرشپ کا خیال ہے کہ عمران کے علاوہ کوئی بھی اقتدار میں ہو، اس کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ہے لیکن عمران خان کی موجودگی میں ان کے مسائل موجود رہیں گے۔

جیسا کہ وزیراعظم نے کہا کہ ایف آئی اے کی طرف سے جاری تحقیقات میں شہباز شریف کے خلاف کافی ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ عمران خان اگر حکومت میں موجود رہتے ہیں تو ان کی بھرپور کوشش ہوگی کہ یہ کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ نواز شریف اور مریم نواز پہلے ہی نااہل ہو چکے ہیں۔ اس کیس میں اگر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو سزا ہو جاتی ہے تو شریف فیملی کے لیے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کے بھی ملتے جلتے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں مل کر کسی حکومتی پارٹی کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور عمران خان حکومت کو گھر بھجوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ ن لیگ اور پیپلزپارٹی انتخابات کی طرف جائیں گے یا پھر موجودہ اسمبلی کی میعاد جو کہ2023ء میں پوری ہو گی کا انتظار کریں گے؟

اگر عمران خان وزیراعظم نہیں رہتے تو دونوں پارٹیز کا خیال ہے وہ اپنے خلاف چلنے والے کیسز کے علاوہ باقی معاملات بھی سنبھال لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا وزیراعظم عمران خان اس کے لیے تیار ہیں؟اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک قانونی راستہ ہے اور اگر قومی اسمبلی میں اعتماد کھو دیتا ہوں تو پھر ظاہر ہے تحریک انصاف کو اپوزیشن بینچز پر بیٹھنا پڑے گا اور اس کے لیے ہم تیار ہیں۔ چند تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ آئندہ انتخابات میں بہت کم وقت باقی ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہے گی ملک کسی سیاسی عدم استحکام کی طرف جائے۔ جو بھی تبدیلی آنی ہے وہ 2023ء میں الیکشن کے ذریعے ہی آئے اور اگر عمران خان کو حکومت سے نکالا جاتا ہے تو وہ ایک بھرپور مزاحمتی تحریک لانے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔