نئی حکومت کے آتے ہیں پنجاب پولیس کی پھرتیاں دیکھنے لائق ہیں، لاہور پولیس کے ایس ایچ او جاوید نے شہری کے پاس وزارت داخلہ کا اجازت نامہ ہونے کے باوجود اس کی گاڑی کے شیشوں سے نہ صرف کالے اسٹیکر اتارے بلکہ اسے اہلخانہ کے سامنے غلیظ گالیں بھی دیں۔
واقعہ سے متعلق معروف اینکر پرسن اقرار الحسن نے سوشل میڈیا پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ "لاہور پولیس بدمعاشی اور غنڈہ گردی پر اُتر آئی۔ ایس ایچ او جاوید نے گاڑی کے شیشوں کے حوالے سے وزارتِ داخلہ کا اجازت نامہ پھاڑ کر شہری کو والدہ، بہن، اہلیہ اور بچوں کے سامنے غلیظ گالیاں دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بدمعاش ایس ایچ او کی وزارت داخلہ کا لیٹر پھاڑنے کی ویڈیو بھی موجود۔ ہے مگر اعلیٰ افسران مکمل خاموش ہیں۔ تاہم ان کے اس ٹوئٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے پولیس کے رویے کی مذمت کی جبکہ کچھ صارفین نے اسے پولیس کا اچھا اقدام قرار دیا۔
علی بلتی نامی صارف نے کہا کہ پرانے پاکستان میں خوش آمدید۔
فیض احمد مزاری نے کہا کہ پولیس کو شرم انی چاہیے۔
ڈاکٹر مختار اعوان نے کہا کہ پرانے پاکستان میں خوش آمدید، مجھے ڈر ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں کسی دن ماڈل ٹاؤن جیسا سانحہ نہ رونما ہو جائے۔
ایک صارف نے کہا کہ گو کہ ویڈیو میں اقرار الحسن کے کسی دعوی کی تصدیق نہیں کی جا سکتی تاہم یہ پولیس کا مجرمانہ فعل ہے اور اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ یہ ایک غیر اخلاقی فعل ہے۔
فرخ خالد نے کہاکہ اگر کسی کاغذ کے ٹکڑے پر لگی مہر کی کوئی وقعت نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اب کسی کو قانون کی عملداری سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے۔
سعدی نامی صارف نے پولیس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وطن کے ان سپوتوں کو سلام جو دھوپ میں کھڑے قانون پر عملدرآمد یقینی بنا رہے ہیں۔ میں تو ان قانون کے رکھوالوں کی دعوت کرنا چاہوں گا۔
گرو نامی صارف نے کہا کہ آپ کو خاص پروٹوکول کیوں چاہیے؟ جب آپ کی جان کو خطرہ نہیں تو پھر آپ وزارت داخلہ کا خط کیوں استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح کا خط تو میں بھی حاصل کر سکتا ہوں، جب ملک میں دہشت گردی کا خطرہ ہو تو پھر یہ سب کرنا ضروری ہے۔
ایک صارف نے محکمہ پولیس پنجاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بہت اچھا کیا کیونکہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔