وزیراعظم عمران خان کی عالمی علماکرام کےساتھ خصوصی نشست،پڑھیےمکمل ٹرانسکرپٹ

6pmikscrpt.jpg

مسلم دنیا کےممتازترین دانشوروں کو خوش آمدید کہنا میرے لئےبہت خوشی کا باعث ہے،میں ان سب کو اس پروگرام میں خوش آمدید کہتا ہوں، میں ان سبھی سےایک بنیادی سوال پوچھوں گاجو مسلم دنیا کے نوجوانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے وہ اس سوال کا جواب جاننا چاہتے ہیں اور سوال یہ ہے کہ ہمارے پیغبر حضرت محمدﷺ نے اس وقت سے جب وہ چھ سو بائیس عیسوی میں مدینہ تشریف لائے اور چھ سوبتیس میں جب ان کا وصال ہوادس سالوں میں انہوں نے ایسا کیا کِیا جس نےان لوگوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

ایسے لوگوں سے جن کی دنیا میں کوئی اہمیت ہی نہ تھی وہی لوگ دنیا کے رہبر بن گئے میں ڈاکٹر سید حسین نصر آپ سے شروع کرنا چاہوں گا بنیادی طور پر میں آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ اس تبدیلی کا باعث کیا تھا؟

میں بہت خوش ہوں کہ آپ نے اس سوال کا انتخاب کیا، کیونکہ گزشتہ صدی کے دوران اسلامی دنیا میں کچھ رجحانات نے جنم لیا جنہوں نے پیغمبر ﷺ اور بذاتِ خود اسلام کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے ہم نے دیکھا کہ اس کیلئے متعدد ملکوں میں کئی طریقے اپنائے گئے یہاں وہاں بہت سی تحریکیں چلیں اس لیے توجہ دینا بہت ضروری ہے، کہا جاتا ہے کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو اللہ سے محبت کرے اور اللہ اس سے محبت نہیں کرتا ہے جو اپنے نبیﷺ سے محبت نہیں کرتا۔ پس عشق رسول،جو اُن کی تعظیم کی بنیاد ہے اور ان کا اُسوہ دین اسلام کی بنیادہے۔


قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واضح طور پر بیان کرتاہے "آپ کے پاس اسوہ حسنہ بہترین مثال ہے، زندگی میں پیروی کرنے کے لیے ایک بہترین نمونہ لہٰذا کوئی بھی مسلمان جواللہ پر ایمان رکھتا ہے اسے یقیناً قرآن کی اس بات پر عمل کرنا چاہیے۔ جس کا مطلب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرنا ۔ اُسوہ کی اصطلاح کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس کے بہت سے معنی ہیں اس لیے نبی ﷺ کےنمونہ کی پیروی کی اہمیت ہمیں ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہیے۔

اگر ہم اسلامی معاشرے کا احیاء کرنے جا رہے ہیں تو ہمیں اس نمونے کی پیروی کی طرف واپس جانا ہوگا جو پہلی صدی سے مسلمانوں کی ہر نسل نے کیا ہے تاہم، ایک فرق ہے جوپیشِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔آپ اور میں جو یہاں بیٹھے ہیں۔ جب میں یہاں امریکہ میں بیٹھا ہوں، عزت مآب آپ پاکستان میں بیٹھے ہیں۔

ہمیں یہ موقع میّسر نہیں کہ ہم اپنے گھر سے باہر نکلیں اور ہمیں پیغمبر اسلام ﷺکا دیدارمیؑسرہو ہم بارے میں پڑھتے ہیں. ہم میں سےچند ایک کو خواب میں انکی زیارت نصیب ہوتی ہے اگر ہم اتنے خوش قسمت ہوں ہم ان کی نعتیں پڑھتے ہیں ہم ان کےبارے میں بات چیت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ،اللہ کے نبیﷺ کو اپنے ہجرے سے باہر آتے مسجد میں جاتے، گلی میں چلتے پھرتے، بازارمیں دیکھنا اللہ کے نبیﷺ کو دیکھنا،ان سے بات کرنا، یہ ہمارے لئےناقابلِ تصورہے۔

یہ کوئی حادثاتی بات نہیں ہے، ہر مذہب میں اللہ اس مذہب کے بانی کے ارد گرد چند ممتاز شخصیات کو جمع کردیتا ہے جن کا انتخاب وہ خود کرتا ہے، جو اس بانی کے پیغام کو آگے لے کر چلتے ہیں جب کسی مذہب کا بانی آتا ہے تو ایک لحاظ سے آسمان اور زمین مل جاتے ہیں یہ کوئی عام صورتحال نہیں ہوتی روحانیت کے چندآثارہماری دنیا پر وا ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ کے ساتھ ان کے حواری تھے جو کرداروہ عیسائیت میں ادا کرتے ہیں وہی کردار بدھ مت کے ابتدائی پیروکار بدھ مت میں ادا کرتے ہیں۔

اسی طرح دیگر بھی،اسلام میں بھی یہ سب سادہ لوح صحرائی عرب تھے یہ وہ لوگ تھے جن کا دل اتنا پاکیزہ تھا کہ اسلام کے پیغام نے اسے یکسر بدل دیا اور وہ اس کے لئے سب کچھ دینے کو تیار ہوگئے وہ کوئی بہت بڑے دانشور نہیں تھے چند لوگ ایسے تھے جیساکہ سلمان الفارسی یا بلال وغیرہ جو دوسری تہذیبوں سے آئے جن کا دوسری تہذیبوں سے کچھ واسطہ تھا لیکن زیادہ تر سادہ لوح مقامی عرب تھے۔ لیکن اللہ نے انہیں ایک کام کیلئے منتخب کیا اور انہوں نے اپنی فطرت کو اس قابل بنایا کہ وہ نبی ﷺ کے پیغام کو اپنے اندر سمو سکیں۔

ہم اکیسویں صدی کے مسلمان یہ تصور نہیں کر سکتے کہ اس کا کیا مطلب ہے اور پہلی بار قرآن کی کوئی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سننے کا مطلب کیا ہو گا یہ ہمارے لیے ناقابل تصور ہے۔ لیکن ان لوگوں کی قسمت میں ایسا سننا لکھاتھا لہٰذا نہ صرف مدنی دور، جس کا تذکرہ عزت مآب آپ نے کچھ لمحہ پہلے کیا ہے بلکہ مکی دور بھی انتہائی اہم ہے۔ حالانکہ وہ صرف ایک چھوٹا ساگروہ تھا ۔ یہی وہ نوزائیدہ طبقہ تھا جو اس کے بعد مدینہ میں پھلاپھولا۔

نبی ﷺ کی زندگی کے دونوں ادوار میں نبی ﷺنے جو کچھ کیا جو بہت اہم تھا وہ یہ تھا کہ نہ صرف وہ خدا کا پیغام پیش کرنے کے قابل ہوئے بلکہ انہیں ایسےسامعین بھی ملے جو ان کی جانب کھنچے چلے آئے جو اس کا پیغام کو سمجھ سکے جو اس کے لیے اپنی جانیں دیتے تھے۔جنہوں نے اپنی سوچ اس پیغام کے حوالے کردی جنہوں نے اپنا اندازِ تکلم بدلا اپنا طرزِ فکر بدلا، جنہوں نے دنیاویر عیش و عشرت میں غرق اس معاشرے کے طور طریقوں اورتصورِ زندگی بدل ڈال وہ یکلخت پہلی ملت اسلامیہ کی پہلی نسل بن گئی نبیﷺ نے فرمایا کہ یہ میری امت کی بہترین نسل ہےاور یقیناً ہم ہمیشہ ان کی مثالیں دیتے ہیں۔

لہٰذا، ہمیں جو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اس وقت کی صورتِ حال کو سمجھنا ہے ایک ایسی صورتِ حال جس میں وہ ہمارے ساتھ موجود نہیں ہیں۔ کیونکہ اللہ نے ہمیں چودہ سو سال بعد آپکو پاکستان میں اور مجھے ایران میں اور دوسروں کو چودہ سو سال بعددیگر جگہوں پر پیدا ہونے کے لیے چنا ہے لیکن جس حقیقت سےہم رجوع کر سکتے ہیں وہ تاریخ کے کسی خاص لمحے میں اللہ کی موجودگی ہے جو ایسے واقعات کو تخلیق کرتی ہے جوابدی ہوتے ہیں۔

اس لیے جس طرح سے نبیﷺ گھر میں داخل ہوتے تھے توپہلے دایاں پاؤں رکھتے تھے یا جب کسی کمرے میں داخل ہوتےتو السلام علیکم کہتے تھے جو ہم آج بھی کرتے ہیں پر جو ہمارے کردار کی تشکیل کرتا ہےجو ہماری سوچ کارخ متعین کرتا ہے، جو ہمارےذہن کو وسعت دیتا ہے جو ہمارا طرزِ عمل ہوتا ہے سب سے اہم یہ کہ ہم اپنے خالق کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اپنے اللہ، اپنی تخلیق،انسانیت،باقی دنیا کے بارے میں، فطرت کے متعلق ہمارا طرزِ عمل کیا ہے یہ سب کچھ انسانی تاریخ کے کسی خاص لمحے میں اللہ کے پیغمبر نے طے کردیا تھا جو ہمارے لیے اسلامی وحی سے شروع ہوتا ہے اور خاص طور پر مدینہ کی تکمیل سے عروج پاتا ہے۔ اس لیے کہ مکہ میں آپ کے پیروکاروں کی تعداد بہت کم تھی۔

مدینہ وہ پہلا اسلامی معاشرہ ہےجہاں پہلی بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، جو آج تک جاری ہیں،کو سانچے میں ڈھالا گیا ۔ وہ ہمیشہ ایک آئیڈیل رہے ہیں۔ اگرچہ بہت حوالوں سےکمی کوتاہی رہی ہے تاہم آئیڈیل ہمیشہ موجود ہے اور اس کی تاریخ مدینہ کے ابتدائی معاشرے تک جاتی ہے۔ یہ اسلام کا سنہری دورہے نہ کہ گیارہویں صدی کا اسلام،عظیم دانشوروں ابن سینا اور البیرونی کادور جسے اسلام کا سنہری دور کہا جاتا ہے ایسانہیں ہے۔

اسلام کا سنہرا دور پیغمبر کے ارد گرد مدینہ میں وہ پہلا گروہ ہے جس کا آج آپ نے ابھی ذکر کیاجہاں پہلا اسلامی معاشرہ قائم ہوا تھااور جب تک اسلام موجود ہے،جو دنیا کے خاتمے تک موجود رہےگا، وہی دور ہمارے لیے مثالی رہے گاہمیں اُسی سے سیکھنا ہے اور ہمیں اس سے ان معاملات میں نہیں سیکھنا جو بدل چکے جیسا کہ بس یا ٹرین میں کیسے چڑھا جاتا ہے بلکہ ہمیں روحانی،اخلاقی رویوں اور فکری علم کی بابت سیکھنا ہے جو درحقیقت فطرت کی سچائی کے بارے میں ہمارے نظریے کا تعین کرتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ارتقاء اور جدیدیت کی نشوونما میں فروغ کے بارے میں جو باتیں ہم کرتے ہیں وہ سب سطحی ہیں۔دو اور دو اب بھی وہی چار ہیں شکریہ ۔

ڈاکٹر حمزہ یوسف میں آج آپ سے ایک مخصوص سوال پوچھتاچاہوں گامسلم ممالک میں ایسے ملک ہیں جو سب سے زیادہ کرپٹ سمجھے جاتے ہیں ہم نبی پاک ﷺؑکے پیروکار ہیں۔ چھ سو بائیس عیسوی سے لیکر چھ سو بتیس عیسوی کےعرصے میں کیا نبیﷺ نے اس معاشرے کی اخلاقیات اور معاملات کے معیاریات کی سطح کو بلند کیاجس کے بعد وہ یہ عظیم قوم بنے اور کیا یہ ممکن ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک خاص معیار کے اخلاقیات موجود نہیں توکیامعاشرہ انصاف کو فروغ دے سکتا ہے۔ کیونکہ عالمی سیاست کےاپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ انصاف اور قانون کی حکمرانی، ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ہے۔

ڈاکٹر حمزہ

اخلاق یا معاشرے کی اخلاقیات کے لحاظ سے میں کہوں گا کہ یہ کسی خلائ میں نمودار نہیں ہوتے اسلام سے پہلے،عرب اخلاقیات کے بہت اعلیٰ تصورات کے مالک تھے۔بعض شعبوں میں ان کا اخلاقی کردار بہت بلند تھا مثال کے طور پر سچائی ان کے لیے بہت اہم تھی۔ سخاوت ان کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی دیانتداری ایک ایسا وصف تھاجس پر عرب بہت فخر کرتے تھے وہ جھوٹ برداشت نہیں کرتے تھے۔

نبیﷺ نے فرمایا، مجھے فقط اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہےیہ سوچ موجودتھی کہ کردارکا وجود ضروری ہے لیکن ان کا کرداربگڑچکا تھا

وہ متکبر ہوچکے تھے وہ مغرور تھے، ان میں کردار کی خامیاں تھیں یہ وہ شعبے ہیں جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ مرکوز کی

جیسےایک طبیب اپنے پاس آئے مریض کی بیماریوں پر توجہ دے گا۔ نبی ﷺ درحقیقت دلوں کے طبیب تھےایک کام جو انہوں نے کیا جو بہت اہم تھا ۔

قرآن کہتا ہے کہ نبیﷺ آپ ہی میں سے تھے،تمہارا مشقت میں پڑنا نبی ﷺ کے لیےگراں ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں میرے لیے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کے اردگرد کے لوگ اصحاب کہلاتے ہیں، انہیں صحابہ کہتے ہیں۔ وہ شاگرد نہیں کہلاتے۔انہیں پیروکار نہیں کہا جاتا۔ وہ صحابہ کہلاتے ہیں قرآن نے اخوت کا یہ تصور دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے اور حقیقت میں ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہر ثقافت اور معاشرہ حتیٰ کہ جن معاشروں میں بعض شعبوں میں بدعنوانی ہے انکے دوسرے پہلو بہت اچھے ہیں مثال کے طور پر کچھ بدعنوان مسلم ممالک میں اب بھی بہت مضبوط خاندانی اقدار موجودہیں ان میں عفت جیسے معاملات کے حوالے سے کافی فکرمندی پائی جاتی ہے خاندان میں ضرورت مندوں کا خیال رکھے جانے جیسی چیزیں اچھی ہیں یہ تمام چیزیں ہیں جن پر توجہ مرکوزکرنا اور زور دیا جانا چاہئے،جب آپ کسی معاشرے کو دیکھتے ہیں،تو آپ کو ان چیزوں کو دیکھنا ہوگا جو کام کر رہی ہیں اور وہ صحت مند ہیں۔ اور پھر آپ کو ان چیزوں کو دیکھنا ہوگا ۔جو کام نہیں کر رہی ہیں اور ان کا ویسے ہی علاج کرنا ہوگا جیسا کہ آپ ایک بیماری کا کرتے ہیں۔

میرے خیال میں بہت سارے جدت پسندمسلمانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ انجینئرز کی طرح سوچنے کا رجحان رکھتے ہیں، وہ مسائل اور ان کےفوری حل کی سوچ رکھتے ہیں وہ چیزوں کویوں دیکھتے ہیں جیساکہ آپ کوئی مسئلہ درپیش ہے آپ اس کی نشاندہی کرتے ہیں اور پھر آپ اس مسئلے کا حل نکالتےہیں جبکہ میرے خیال میں اس کو دیکھنے کا ایک زیادہ مفید اورمؤثر طریقہ قرآنی طریقہ ہے۔ جس میں بیماریوں کا تصور موجود ہے،بیماری اورپھر اسکے علاج کا کیونکہ بیماریوں اور علاج کے بارے میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس میں وقت لگتا ہے۔

اگر آپ کسی معاملے کو مسئلہ کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ سوچ ہو کہ اس کا فوری طور پر کچھ ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ اسے ایک بیماری کے طور پر دیکھتے ہیں تو پھر اس بیماری کی تشخیص اور پھر بیماری سے نمٹنے میں وقت لگتا ہے یہ بہت اہم ہے۔ لیکن آپ کو جس ایک اہم چیز کی ضرورت ہےوہ یہ کہ آپ کو طبیبوں کی ضرورت ہے۔

اخلاقیات کے اصول اور اچھا طرزِ عمل معاشرے کےلئے طبیب ہیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جوسب سے پہلے مجسم اخلاق ہوں ایک چیز جسے زمانہ جدید سے قبل کے لوگ واقعی سمجھتے تھے وہ یہ ہے کہ طاقت کے حامل لوگ،اقتدار میں رہنے والے لوگ نیز معاشرے کی رہنمائی کرنے والےدانشوروں کو زبردست ذاتی نظم و ضبط کا حامل ہونا چاہیے۔

اگروہ ان طور طریقوں کو نہیں اپناتے جو وہ دوسروں میں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر بات بنتی نہیں اس لئے میرے خیال میں جہاں تک اخلاقیات کی بات ہے معاشروں میں ہمیشہ اخلاقی بنیادیں ہوتی ہیں کیونکہ انسان بہرحال انسان ہے اخلاق ہماری فطرت کا حصہ ہےعربی میں اخلاق کیلئے لفظ خُلُق لفظ خلق سے نکلا ہے تو یہ ہمارے کردار کا حصہ ہے۔

سب سےپہلے،میں آپ کے خیالات جو بہت اہم ہیں جاننا چاہتا ہوں ،کیونکہ چھ سو بائیس عیسوی اور چھ سو بتیس عیسوی کے درمیان جو تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہوئی تھی اور میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان یہ سمجھیں کہ،اصل میں ہمارے نبی ﷺ نےایسا کیا کِیا کہ انہوں نے ان کے کردار بدل ڈالے۔ میرے لیے یہ بہت اہم ہے اور میں اسے آپ کے پاس لایا ہوں۔

ڈاکٹر عبدالحکیم میں آپ سے ایک سادہ سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں مجھ پر یہ عقدہ کھلا ہے کہ میرے معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے تحاشا محبت کرتے ہیں اوران کےلئے جان دے دیں گے ہمارے معاشرے میں کچھ خصلتیں نظر آتی ہیں جیسےکہ پاکستان کے لوگ سب سے زیادہ سخی ہیں میں ہسپتالوں اور خیراتی کام کیلئے اس ملک میں شاید کسی سے بھی زیادہ رقم جمع کرتا ہوں

لیکن کسی نہ کسی طرح معاشرہ ناکام ہو اہے عمومی اخلاقیات کے معاملے میں، لوگوں کو بدعنوانی سےروکنے میں رشوت لینے سے روکنے میں ناکام ہوا ہے۔

کیونکہ وہ نبیﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ ہم نبی ﷺ کی زندگی کومعاشرے میں اخلاقیات اور طرزِ عمل کامعیاربلند کرنے کے لیے کیسے استعمال کریں۔ ڈاکٹر عبدالحکیم آپ کی طرف آتے ہیں۔

یہ ایک اچھا سوال اور اہم سوال ہے اور یہ ایک بہت اچھی علامت ہے یہ سوال اسلام کے ظہور سے ہونے والے غیر معمول معجزے کے سیاق و سباق کے تناظر میں پوچھا جا رہا ہے مجھے یاد ہے کہ میں پہلی بار القدس میں تھا اور قبتہ الصخریٰ کا دورہ کیا جس کے بارے میں فنِ تعمیر کے عظیم تاریخ دان کی کتاب میں پڑھتا رہا تھا جو مسلمان نہیں ہے اس نے کہا تھا کہ یہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارت ہے۔ اس کو دیکھتےاور اس میں داخل ہوتے ہوئے میں اس بات پر قائل ہوگیا کہ اسلام کی ابتداءاخلاقیات کے کسی تبلیغی احیائ کا نتیجہ نہیں تھا۔

اگرچہ اخلاقیات کا احیاء غیر معمولی تھا،تاہم ایک نئے قسم کا روحانی انقلاب وقوع پذیر کیا گیا دروازے کے عین قریب قبتہ الصخریٰ کے بالکل ساتھ،چند جیّد صحابہ مدفون ہیں شداد بن اوس، عبید بن سمط یہ وہ لوگ جو حدیث کے راوی کے طور پرمشہور ہیں اورجو سوال میں اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا اور یہ واقعی میری زندگی کے سب تحیرکن لمحات میں سے ایک تھا وہ یہ کہ ان لوگوں نے اپنی سوچ کو کیسے بدلا کہ ایک نسل کے اندر وہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارت تعمیر کرنے کے قابل ہوگئے وہ کونسی روحانی نسخہِ کیمیا تھا جس سےحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے تصورات میں تبدیلی لے آئے تھے جس نے انہیں ایک پختہ اور قائل کردینے والی ایک نئی تہذیب قائم کرنے کےقابل بنایا۔

اس سب میں ایک پر اسراریت کا عنصر ہے اور سیرت کی یقیناً ایک پراسرار جہت ہے ہم نے محسوس کیا ہے کہ نئے مسلمانوں کو سکھانےکےلیے کیمبرج یونیورسٹی کے اسلام قبول کرنے والے گروہوں میں نئے مسلمانوں کو سکھانے کیلئے سب سےمؤثرتحریرسیرۃ النبی ﷺ ہے وہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی سیکھ رہے ہیں لیکن سیرۃﷺ کی کہانیاں ہر ہفتے غیر معمولی انداز میں انہیں تبدیل کرتی اور غیر معمولی انداز میں ان کی توجہ حاصل کرتی ہیں مجھے یاد ہے کہ الازہر یونیورسٹی میں میری کلاس میں وہ اکثر کہتے ہیں کہ سرہم سیرۃ ﷺکی کلاس کو کسی بھی دوسری کلاس پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں میں پہلے بھی یہ واقعات سنا چکا ہوتا ہوں لیکن وہ ہمیشہ تازہ دم ہوتےتھے میرے تجربےکیمطابق بہترین خطبہ ہمیشہ وہی ہوتا ہےجو حضور ﷺ کی زندگی کے واقعات بیان کرتا ہے یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ مسجد میں اپنےفون رکھ کر حقیقتاً احترام سے سنتے ہیں۔یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔

اس لئے آپ کا سوال تاریخی اہمیت کا حامل ہے ہم طاقت کے اس تاریخی منبع کو تبدیلی کیلئے کیسے لاگو کریں کم از کم مجھے یہ قبتہ الصخریٰ بتاتا دکھائی دیتا ہے کہ صرف اخلاقی بہتری کافی نہیں ہے بلکہ لوگوں کی روحوں اورضمیرمیں اسی نسخہِ کیمیا جیسی تبدیلی کی ضرورت ہے یہ ایسی چیز ہے کہ جب ہم حضورﷺ کی طرف دیکھیں تو بھی ایک حدیث ہے کہ درگزر ہی ایسا وصف ہےجو لوگوں کو بدل دیتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ دوبارہ یکسو ہونے یارابطہ ختم ہونے کی اس بیماری کا علاج کرنے کا ایک طریقہ جہاں ایک طرف تو مسجد میں سب ایک دوسرے کے لیے دعا کر رہے ہوتے ہیں اور پھر باہر گلیوں میں ایک دوسرے کو شکار کررہے ہوتے ہیں ۔

کچھ مسلم شہروں میں یہ گندا رواج پنپ رہا ہے میں کچھ سال مسلم شہروں میں رہا ہوں اور اس تضادسے لڑنے کی کوشش کرتا رہا ہوں یہی نہیں کہ وہ جنت اور جہنم کے بارے میں خطبے سنتے ہیں جس سے وہ سوچتے ہیں کہ اگلے سال میں توبہ کروں گا۔ اگلے سال کے بارے میں کون جانتا ہے اس کے بجائے حضور نبی اکرم ﷺ کےساتھ گہرا روحانی لگاؤ یہ روحانی لگاؤ الفاظ میں یا شاعری میں ڈھالنا کتنامشکل بھی ہو اسلامی ادب کے سبھی عظیم شاہکاروں میں نبی کریم ﷺ کی محبت ہمارے لئے طاقت کا ذریعہ ہے ۔

ہمارے شاعروں میں سے کوئی بھی اس کی تہہ تک نہیں پہنچا۔ کیونکہ اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔یہ ایک معجزہ ہے، تو کوئی راستہ توہونا چاہیے۔ جس کے توسط سےمجھے ایسا لگتا ہے کہ لوگ صرف روبوٹ کی طرح سنت پر عمل نہیں کر رہے یا منبر سے انہیں ایسا کرنے کو نہیں کہا جا رہے ہیں بلکہ محسوس کر یں کہ ان کے دل اُس غیر معمولی منفرد انسان کی محبت میں پگھل رہے ہیں اور اس محبت کے ذریعےوہ دیگرانسانوں کی محبت حاصل کریں۔خاندان کی محبت حاصل کریں نیکی کی محبت حاصل کریں،صالحین کی محبت حاصل کریں اور اس محبت کے ذریعے،انسانی جذبات کی شکلوں میں سے سب سے پیارے جذبے، محبت کے ذریعے باقی بنی آدم کے ساتھ معاملہ کریں معروف و منکر کی بنیاد پر نہیں۔

اگرچہ معروف و منکر ہمارے لئے اہم ہیں بلکہ ان چیزوں کے بارے میں دلیل کے احساس کی وجہ سے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے اس لیے واپس تشریف لائےتھے کہ وہ واقعی لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے، یہی ان کا مشن تھا۔ وہ ہماری مدد کرنا چاہتا تھے

اور ہمارے مسائل حل کرنا چاہتے تھے اور یہ سب محبت کے باعث تھے تو میں سمجھتا ہوں کہ سیرۃﷺ پڑھتے وقت وہ اصول غائب ہے اور جب ہم سنت کے بارے میں سوچتے ہیں کہ اس کا بنیادی مقصد اللہ کا بندہ بننا ہے اور باہمی بھائی چارہ ہےاور اصول محبت کے بغیر کوئی بھائی چارہ نہیں ہے تو مجھےیہ لگتا ہے کہ یہی ہمارے کیمیاوی حساب میں گمشدہ عنصر ہے ہم نے محبت کے اس اصول کو کھو دیا ہے۔ہم نے اسے ایک لگی لپٹی چیز میں تبدیل کر دیا ہے ۔جسے دیکھ کر ہم نے نعرے لگائے لیکن ایک دوسرے کے ساتھ وہ کیا جن کا حقیقت سے تعلق نہیں۔

ڈاکٹر چندرا میں یہ محسوس کرتا ہوں ہمارے پیغمبرﷺ کا فرمان بھی ہے کہ تم سے قبل کئی اقوام تباہ کردی گئیں کیونکہ ان کے طاقتور کے لئے الگ قانون تھا اور کمزور کیلئے الگ قانون تھا اور یہ کہ اگر ان کی بیٹی کسی جرم کی مرتکب ہوئی تو اس کو بھی سزا دی جائے گی دوسرے لفظوں میں ان کا زور قانون کی حکمرانی پر تھا جس پر ریاستِ مدینہ میں سختی سے عمل ہوتا تھا میں دوبارہ کہوں گاکہ میرا دنیا کے حوالے سے تجربہ یہ ہے کہ صرف وہی معاشرے پھلتے پھولتے ہیں جہاں قانون کی حاکمیت ہو اور میں یہ بھی محسوس کرتا ہو کہ چونکہ حضورﷺ رحمت اللعالمین ہیں اس لئے جو بھی انسانی معاشرہ ان کی سیرۃ اور کردار کی پیروی کرے گا تو وہ پھلے پھولے گا جیساکہ مدینہ کی ریاست کچھ بھی نہ تھی اور دنیا کی عظیم تہذیبوں میں سے ایک کا مرکز بن گئی اس لئے میرا یہ سوال ہے کہ اس میں کوئی ربط ہے کہ اگر کسی معاشرے میں مخصوص اخلاقی معیارات اورضابطہِ اخلاق نہ ہو تو کیا وہ معاشرہ انصاف فراہم کر سکتا ہے۔

آپ نے بہت اہم سوال اٹھایا ہے۔ قانون کی حاکمیت کا سوال اگر موجودہ دنیا پر نظر ڈالیں تو یہ ایک بڑا چیلنج نظر آتا ہے مسلم معاشروں کے ناقدین اکثر متعدد مسلم معاشروں میں صحیح یا غلط طور پر انصاف فرہم کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں قانون کی حاکمیت لاگو کرنے کی صلاحیت نہ ہونا اس انداز میں کہ انسانی وقار کے مطابق اںصاف کی عملداری ہو یہی عدمِ قابلیت مسلم معاشرے کی کمزوری قرار دی جارہی ہے آپ نے اس چیلنج کی درست نشاندہی کی ہے جس کا ہمیں سامنا ہے یہ مجھے مجبور کرتا ہےجنابِ والیٰ کہ میں اس مسئلے پر غور کروں جسے میرے خیال میں ہم حل نہیں کر سکے ہیں اور وہ مسئلہ کیا ہے؟

ڈاکٹر عبدالحکیم نےجو کہا اوران سے قبل ڈاکٹر سیّد نے انسانی میں روحانی تبدیلی لانے کی بابت جو کہابالکل درست ہے معاشرے کی روحانی جہت کے بارے میں جسے بہت کم وقت میں وہ اس پیغام کی گہرائی کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے بہت گہرا پیغام تھاجسے سمجھنے میں وہ کامیاب ہوئےاور باہمی تعلقات میں اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہوئے تاہم وہی معاشرہ جیسا کہ آپ نے یہی کہاجب ہمارے پیغمبر ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے اسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

معاشرے کے ایک طالبعلم کے طور پر میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا ایسا کیوں ہے کہ ڈھانچہ بدلنے کی ضرورت ہے، ایسا کیوں کہ اس بابت پختہ عزم کے بجائے وسائل کے تناظر میں ڈھانچے کی تبدیلی یہ اتنا مشکل چیلنج کیوں ہے۔شاید اس لئے کہ ذاتی مفادات ہمیشہ سے ہی بہت طاقتور رہے ہیں اور آپ کو نبی کریمﷺ کی مثالیں دینے سے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے اپنے دور میں تو وہ اس تبدیلی کو دیکھ پائے ایسا کیوں ہے کہ نسل در نسل اخلاقی ارادوں کو پائیدار رکھنا ایک مسئلہ کیوں ہے میں اپنے ملک کی ایک چھوٹی سے مثال کو دیکھ رہا ہوں میں دیکھتا ہوں کہ پہلے تیس یا چالیس سال تک اپنےکردار کے حوالےسے لوگ انفرادی طور پربہت زبردست تھے ۔ وہ اسے کافی عرصے تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ایک بار جب ان کا کردار کمزور ہونا شروع ہوا کسی حد تک گرد وپیش کی وجہ سے،اپنے ماحول کی وجہ سے دولت زیادہ آسانی سے دستیاب تھی،آسائشیں عام ہوگئیں۔

ہم دیکھتے تھے کہ جن لوگوں کی بہت مضبوط سوچ تھی وہ بھی زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی چند نسلوں کے بعد تبدیلی ہونا شروع ہوگئی، اور جو سوال آپ نے ہمارے سامنے رکھا ہے اس کے ذریعے آپ نے اسی مسئلے کی طرف توجہ دلائی یعنی دانشوروں اور استاتذہ کا کردارکیا ہونا چاہیے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کاتسلسل رکھنا ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمیں گہری توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے تعلیم کو کیسے اس انداز میں ڈھالا جائے کہ ہم مخصوس اقدار کا تسلسل کیسے برقرار رکھیں ۔جو ڈھانچے پر اثرانداز ہوں اور اسے بدل کے رکھ دیں۔

ڈاکٹر عثمان باقر آپ کی طرف آتے ہیں۔قبل اس کے کہ میں آپ کی طرف آؤں میں آپ کو ایک قصہ سنانا چاہوں گا جو مجھے پاکستان کے ایک عظیم ترین دانشورڈاکٹر اشفاق احمد نے سنایا وہ کہتے ہیں کہ وہ پچاس کی دہائی میں چئیرمین ماؤ سے ملے وہ ان سے کافی متاثر تھے، پرانے غلام ممالک ان رہنماؤں کی طرف دیکھتے تھے۔ جنہوں نےاپنے ملکوں کی آزادی کی جنگیں لڑیں جب چئیرمین ماؤ کی ان سے ملاقات ہوئی تو چئیرمین ماؤ نے انہیں کہا کہ پاکستان ایک عظیم ملک ہے انہوں نے وضاحت کی کہ کیوں پاکستان ایک عظیم ملک ہے انہوں نے بتایا کہ چین کے پاکستان میں سفیر کا برج کھیلنے والا ساتھی تھا ایک دن وہ برج کھیلنے والا ساتھی گرمی سے پسینے میں شرابور تھا وہ اپنے سر پر پانی ڈالتا اور پھر برج کھیلتا، تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا مسئلہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں روزے سے ہوں، تو اس نے پوچھا کہ تم پانی کا ایک گھونٹ کیوں نہیں پی سکتے، تو اس نے بتایا کہ جو جواب اس پاکستانی نے چین کے سفیر کو دیا اس سے میں نے یہ نتیجہ نکال کہ یہ ایک عظیم ملک ہے ان لوگوں کا جو کسی بالاتر قوت کو جوابدہ ہیں۔

تو ایسے لوگ ہمیشہ ایمانداربھی ہوں گے، اپنے ٹیکس بھی دیتے ہوں گے ایسا معاشرہ بہت طاقتور ہوگا دوبارہ میں کہوں گا واضح طور پرمدینہ میں ہوایہ کہ لوگوں کا کردار بلند کیا گیا نیز ظاہر ہے کہ روحانی کایا بھی پلٹی مگر اس کے ذریعے سے ان کے کردار بدلے گئے اور اسی چیز نےانہیں ایک غیر اہم لوگوں سے اٹھا کے عالمی رہنماؤں کے منصب پر پہنچادیا آپ اس دور کو کیسے دیکھتے ہیں۔

جب یہ ساری کایا پلٹ وقوع پذیر ہوئی یہ نکتہ دہرائے جانے کے قابل ہے کہ شہرِ مدینہ میں جو زبردست تبدیلی وقوع پذیر ہورہی تھی درحقیقت یہ قبل ازیں وقوع پذیر ہونے والی ایک تبدیلی کا نتیجہ تھی یہ بہت اہم ہے کہ ہم اس کو یاد کریں کہ جو کچھ مدینہ میں ہوا اس کی بنیاد تیرا سال تک مکہ میں رکھی گئی ہم نے مکہ میں روحانی، ذہنی،اخلاقی اور اصولِ اخلاق میں بہت بڑی تبدیلی وہاں دیکھی جس کی وجہ پیغمبرﷺ کی شخصیت بنی ہماری نسل کیلئے ضروری ہے کہ وہ فرد کی اس تربیت کو سراہے کہ پیغمبرﷺ نے کیسے اپنے پیروکاروں، اپنے اصحاب کی کیسی تربیت کی کہ وہ بعدازاں اعلیٰ ترین فرد بنے اور اتنے اعلیٰ کہ وہ اپنی ذات میں عالمی رہنما بن گئے۔

جب پیغمبرﷺاورآپ کے اصحاب بطورِ مہاجر مدینہ تشریف لائے تو ایسا نہیں کہ اس زبردست تبدیلی جو وقوع پذیر ہوئےکے پہلے مرحلے کا آغاز ہواہو ہم مدینہ میں اس کا مشاہدہ کرنے کے قابل نہ ہوسکتے اگرآج ہم جسے افرادی قوت کہتے ہیں اس لفظ کی حقیقی تعبیر کے مطابق مکہ میں تیار نہ کیا جاتا تو پہلا مرحلہ مکہ میں ہوا جس کی بدولت مہاجرین اور انصار کااحساس اتحاد،بھائی چارہ ہم نے مدینہ میں دیکھا ہم نے اپنی کشش پیدا کی جو کہ بہت اہم ہے جس قسم کا معاشرہ مدینہ میں ابھر کر سامنے آیا وہ سبھی کو شامل کرنےکا نتیجہ تھا۔

اس کے بعد سے پیغمبرﷺ نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں شامل کیا اہم یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ مدینہ میں ہو کیا رہاتھا پیغمبرﷺ کوشش کررہے تھے سارے خطے کے رہنما بننے، ایک تہذیب کے رہبر بننے کی بنیاد رکھ رہے تھے اخلاقی اور سیاسی نظام کی بنیاد رکھ رہے تھے، روحانی اور اخلاقی نظام کے ساتھ اسلامی تہذیب کی بنیادرکھنے کے ساتھ ساتھ،مستقبل کی اسلامی تہذیب مستقبل کی اسلامی تہذیب کی بنیاد مدینہ میں رکھی گئی تھی۔ پیغمبرﷺ نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں وہ بنیاد رکھی جس نےمدینہ میں کامیابی درکامیابی کی ضمانت دی اہم سوال ہمارے سامنے اس وقت یہ ہے کہ پیغمبرﷺ نے اپنے صحابہ کو اپنے پیروکاروں کو اور بعدازاں مدینہ میں کس قسم کی تعلیم و تربیت دی آج بھی ہمارے لئے ممکن ہے کہ کسی حد تک بحالی کیلئے ہم ویسی ہی تعلیم و تربیت یعنی انہی اصولوں پر تعلیم و تربیت فراہم کرسکتے ہیں۔

جیسا کہ مجھ سے پہلے متعدد شرکائ نے کہا کہ اس کی ازلی کنجی پیغمبرﷺ کی زندگی کا نمونہ ہے سیرۃ النبی پیغمبرﷺ ہمارے نظام تعلیم کیلئے کوڈ آف کنڈکٹ ہونا چاہیے آج ہمارے نظام تعلیم میں جو غلط ہو رہا وہ یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہم چاہتے کیا ہیں تعلیم کے میدان میں سنت کے تصور کی مثال لیتے ہیں۔ بہت سے مسلمان سنّت کے ظاہری پہلوؤں پر تو توجہ مرکوزکرتے ہیں تاہم سنّت پیغمبرﷺ کے دونوں پہلو ہیں ظاہری اور باطنی جب ہم سنّت کے باطنی پہلوؤں کی بات کرتے ہیں توصرف نیکیوں سوال ہی کاتو نہیں ہے ںاں اخلاقی خوبیاں، روحانی خواص کے اس پہلو جس پر توجہ نہیں دی جاتی میرے خیال میں جو پہلو غائب ہے وہ یہ کہ ان دونوں کو یکجا کیسے کیا جائے ایسی یکجان قسم کی تعلیم جس میں پیغمبرﷺ کی ذاتی زندگی کے اہم پہلو ہماری نوجوان نسل کے سامنے رکھے جائیں۔

میرے خیال ہم مدینے کے معاشرے کے خواص کو مختصراًبیان کریں تو وہ علم کی بنیاد پر تشکیل کردہ معاشرہ تھا،یہ روشن خیال معاشرہ تھا پیغمبرﷺ کی روشن خیال اور درمندسربراہی میں قائم کیا گیا ایک معاشرہ میرے خیال میں ہمیں روشن خیال رہنماؤں اور روشن خیال پیروکاروں کی ضرورت ہے یہیں ہمیں پیغمبرﷺ کی سنّت اپنانے کی ضرورت ہے اور اس گہرے احساس کی کہ ہم ایک مشترکہ معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں پیغمبرﷺ کے پیروکاروں میں اعتماد کایہ احساس کہ وہ ایک مشترکہ معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔

شریعہ کے تعریف شدہ قانون کی بدولت جو کہتا کہ وہ ایک مشترکہ عالمی معاشرے کا حصہ ہیں یکجان امت کا تصور اور جیسا کہ ڈاکٹر نصر نے کہا کہ ان کابہترین معاشرےکا تصور انہوں نے اس تصور کو اپنایاانہیں احساس تھا کہ بہترین معاشرے کا تصوروراثتی نہیں بلکہ مگرروحانی اہلیت کی بنیاد پر قائم تھا جو بہت اہم ہے کس چیز نے مدینہ میں اس بڑی تبدیلی کو مذکورہ شکل میں ڈھالا۔ان میں سے چند بیان کرتا ہوں۔ یقیناً پیغمبرﷺ رول ماڈل تھے تاہم ہمیں موجودہ زبانوں میں سیرۃ پیغمبرﷺ کی تشریح کی ضرورت ہے۔

اور پھرسب کیلئے ہر طرح کی تعلیم کا تصور، پیغمبرﷺ نے اپنے پیروکاروں کو ہرطرح کا علم سبھی کیلئےکا تصور دیا عمومی اور خصوصی دونوں اصطلاحوں میں،عمومی لحاظ سےگود سے لیکے گور تک تعلیم کااور خصوصی لحاظ سے، علم حاصل کروچاہے چین جتنی دور سرزمین سے ملےاور پھرکردارسازی، عدل و انصاف اور اخلاق ہماری تعلیم کا اہم جزو ہونا چاہیےسب سے اہم ایمان اور علم کا اکٹھا ہوناہےجیسا کہ پرانے دور کے مسلمان ایمان اور علم کو ساتھ لے کر چلتے تھےآج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں کو یکجا کیسے کریںاور اس امہ کا احیا کیسے ہو کہ سنتِ رسولﷺ کی مظرہو۔

ڈاکٹر رجب شنترک، آپ کی طرف آتے ہیں کس چیز نے یہ کایا پلٹی آپ مجھے ابنِ خلدون کے دائرۃالسیاسۃ کی یاد دلاتے ہیں ابنِ خلدون نے سیاسی دائرہ کھینچا تھا میں آپ کے ساتھ سیاسی دائرے کی تصویرکشی کروں گا اور اس میں ابنِ خلدون کہتے ہیں کہ ریاست ایک طاقت ہے اور سنّت اسی طاقت کے تابع زندہ رہتی ہے پیغمبرﷺ کی سنّت ریاست کی طاقت کی بدولت ہی زندہ رہتی ہےاس لئےریاست کا مقصد یہ ہے کہ وہ سنّت پیغمبرﷺ کو زندہ رکھنا یقینی بنائے کیونکہ پیغمبرﷺ کی سنّت کسی ایک ذات کیلئے نہیں تھی بلکہ معاشرے کیلئے تھی یہ سنّت بیک وقت بہت زیادہ انفرادی شخصیت کیلئےبھی تھی معاشرے کی سطح کیلئے بھی ریاست کی سطح کیلئے بھی اور ساری دنیا کیلئے بھی، یہی کچھ پیغمبرﷺنے اپنی سنت کے ذریعے کیا۔

ہم سنّت کی بسا اوقات غلط تعبیر کرتے ہیں کہ یہ ہر انفرادی شخص کیلئے تھی مگر ابنِ خلدون کہتے ہیں کہ ریاست کے پاس طاقت ہوتی ہے اور یہ طاقت سنّت کومعاشرے میں کیلئے رائج کرنےکیلئے استعمال کی جانی چاہیے تاکہ سنّت پیغمبرﷺ قائم رہے اور پھر وہ سنّت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سنّت سیاست ہے سنّت گوورننس ہے، سنّت سیاسی انتظام و انصرام ہے، سیاسی نظام ہے اس لئے ابنِ خلدون کے نزدیک یہ بہت منفرد ہے جس طریقے سے وہ سنّت کی بطورِ سیاست تشریح کرتے ہیں کیونکہ پیغمبرﷺ کوئی راہب نہیں تھے جو کسی خانقاہ میں رہے ہوں بلکہ وہ لوگوں کے درمیان شہرمیں رہ رہے تھے اور ایک ریاست کا انتظام و انصرام سنبھالے ہوئے تھے ابنِ خلدون نے بطورِ ماہرِ سیاسیات، بطورِ ماہرِ عمرانیات آپ جو بھی انہیں کہیں ایک عالم کے طور پر انہوں نے سنّت کو سنّت السیاست کے طور بیان کیا ہے۔

یہ ہمارے لئے بہت اہم ہے کہ ہم آج اس کی جانب رجوع کریں وہ کہتے ہیں کہ ریاست اس سنّت کی پیروی کرتی ہے یہ ہمارے لئے بہت اہم سبق ہے اس لئے ہماری آج کی اس گفتگو میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ابنِ خلدون کو بلکہ نہ صرف ابنِ خلدون کیلئے بلکہ عمرانیات کے تمام ماہرین کے نزدیک ضروری ہے کہ سماجی نظام اخلاقی قدروں پر مشتمل ہونا چاہیے پیغمبرﷺ نے اخلاقیات کا نظام تشکیل دیا اور اس اخلاقیاتی نظام پر انہوں نے ایک سیاسی اورسماجی نظام قائم کیا آج اس اخلاقیاتی نظام میں دراڑیں پڑ چکی ہیں جن کی مرمت کرنے کی ضرورت ہے۔

میں شیخ حمزہ کی اس بات سے متفق ہوں کہ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہمارے پاس اخلاقیات کا ایک مضبوط نظام موجود ہے لیکن اس میں دراڑیں ہیں کچھ مسائل ہیں کچھ بیماریاں ہیں اور سنّتِ پیغمبرﷺ سے ہمارے پاس اس کی دوائی بھی موجود ہے میں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہوں گا کہ ہم سنّت کے ساتھ معاملہ کیسے کریں ہم سنّت کو تاریخ دانوں کی نظر سے نہیں دیکھیں گے کیونکہ ہم سنت یاسیرۃ پیغمبرﷺ کو بطورِ تاریخ نہیں پڑھتے بلکہ اسے اپنے وجود کے ہونے کی بابت پڑھتے ہیںہمارا سیرۃ کے ساتھ تعلق ہمارے وجود کا ہے

ہم اسے دنیا کی کسی دوسرے عظیم شخصیت کی تاریخ کے طور پر نہیں پڑھتے قرآن اور سنّت نہ صرف ہمارے لئے علم کا ایک ذریعہ ہیں بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ ہمارے لئے ہمارے وجود کا ذریعہ ہیں۔

پیغمبرﷺ نے مدینہ میں جو کیا اس کا جواب ہمیں قرآن میں ملتا ہے اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ وہ انہیں تعلیم اور تزکیہ دیتے ہیں وہ انہیں دنیاوی معاملات میں منطقی علم فراہم کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی انہیں روحانی اور اخلاقی پاکیزگی بھی عطا کرتے ہیں یہی وہ چیز ہے جسے آج ہمیں دوبارہ اپنے اندر لانے کی ضرورت ہے تعلیم فراہمی میں ہمارا پورادھیان صرف تعلیم دینے پر ہے کتابی تعلیم، پیشہ ورانہ تعلیم، یہ مغربیت کا نتیجہ ہے ہم نے اپنے نظامِ تعلیم میں سے تزکیہ کوچھوڑ دیا روحانی اور اخلاقی تربیت والا حصہ ہم نے چھوڑدیا یہ وہ سبق ہے جو ہمیں پیغمبرﷺ کی مدینہ کی زندگی سے سیکھنا ہو گا مدینہ میں یہی ہوا،تعلیم اور تزکیہ کے ذریعے ایک نیا معاشرہ پروان چڑھایا گیا ہمیں اپنے نظامِ تعلیم اور تزکیہ کو دوبارہ جوڑنے، پھر سے یکجا کرنے کی ضرورت ہے ۔

یہ بھی کہ پیغمبرﷺ نے مدینہ میں ایک مستقبل کا عالمی تصور دیا مستقبل کا وہ عالمی تصور ابھی حقیقت بننا ہے اسی لئے اسلام ایک کھلی تہذیب ہے آنے والے وقتوں میں یومِ قیامت سے پہلے پیغمبرﷺ کا تصورِ عالم پایہ تکمیل کو پہنچے گا ہمارے معاشروں میں آج اسی چیز کی کمی ہے،ہمارے نوجوانوں کے پاس مستقبل کا کوئی تصور نہیں چین کے پاس مستقبل کا ایک تصور ہے، امریکہ کے پاس مستقبل کا ایک تصور ہے یورپیوں کے پاس مستقبل کا ایک تصور ہے، رشیا کے پاس مستقبل کا ایک تصور موجود ہے۔مسلمانوں کے پاس مستقبل کا کیا تصور ہے،ہمیں اپنے نوجوانوں کو مستقبل کا ایک تصور دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کیلئے کام کرسکیں، کارل مان ہائیم جو ایک مشہور ماہرِ عمرانیات ہے وہ کہتا ہےکہ تبدیلی یوٹوپیا سے ہی آتی ہے یعنی مستقبل کے تصور سے اگر ہم مستقبل کا کوئی تصور طے کرلیں تو ہمارے نوجوانوں کیلئےیہ تحریک کا ایک ذریعہ ہوگا۔

پیغمبرﷺ نے جو کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے نظامِ عالم پیش کیا نظامِ عالم کیلئے ایک تصور ایک نیا ورلڈ آرڈر، جو سارے عالم کیلئے تھا یہ صرف مسلموں کیلئے نہیں تھا یہ غیر مسلموں کیلئے بھی تھا، یاد رکھیں کہ مدینہ میں یہودی،عیسائی،مشرکین شامل تھے مختلف مذاہب سے کئی طرح کے لوگ تھے، خلفائے راشدین کے دور میں بھی ایسا ہی تھا شہریوں میں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے، پیغمبرﷺ کی بصیرت صرف مسلمانوں کیلئے نہ تھی یہ ساری دنیا کیلئے تھی بشمول غیر مسلوں کے، یہی مدینہ میں ہوا تھا۔اسی چیز کو دوبارہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔

میں ڈاکٹر عبداللہ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ بہت سی تبدیلی آئی جیسا کہ اخلاقی، روحانی، یونیورسل سوچ اور انصاف، کیا آپ ڈاکٹر عبداللہ سے پوچھیں گے کہ وہ اس تبدیلی کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

شیخ عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ دعوت دینے پر آپ کے بے حد مشکور ہیں اور انگریزی میں بات نہ کرنے پر معذرت خواہ ہیں۔

سوال بڑا سادہ ہے کی شیخ عبداللہ کے خیال میں مدینہ میں کیسے تبدیلی آئی، لوگ اور ان کا کردار کیسے تبدیل ہوئے، حضورﷺ نے ان کے کردار اور سوچ میں اس تبدیلی کے حوالے سے کیا کیا کہ وہ عالمی پائے کے لیڈر بن گئے۔

شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ سب سے اہم ترین چیز وحی تھی، اور وحی کے ذریعے لوگوں کو حقائق کا پتہ چلا اور قرآن کریم نازل ہوا۔ حضورﷺ قرآن پاک کی تعلیمات کا عملی نمونہ تھے، آپﷺ نے لوگوں تک قرآن پاک کا پیغام پہنچایا، اور انہیں نئی قدروں سے روشناس کرایا جن کے بارے انہیں معلوم نہ تھا اور پیغمبرﷺ ان قدروں کا عملی نمونہ تھے، ان کی اپنی زندگی، ان کا اٹھنا بیٹھنا، ان کی گفتگو ان نئی قدروں کا عملی اظہار تھے جن سے لوگوں کو متعارف کرایا گیا تھا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے حضورﷺ کے کردار کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ کا کردار قرآن پاک کا عکس تھا، ہم صرف دو چیزوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں یعنی لوگوں کا ایمان اور طمانیت کا تصور، حضورﷺ نے لوگوں کے رویے اور پیشے تبدیل نہیں کیے، اگر کوئی تاجر تھا تو وہ بھی تاجر تھے، اگر کوئی کسان تھا تو وہ بھی کسان تھے، پیغمبرﷺ نے اس پہلو کو تبدیل نہیں کیا بلکہ انہوں نے لوگوں کی سوچ تبدیل کی، چاہے ان کا کوئی بھی کام تھا آپﷺ اس میں بڑے تبدیلی لے کر آئے، اور دور جہالت کے قبائلی رسم و رواج کو بھی ختم کر دیا، انہوں نے مختلف قبائل کے لوگوں کو اکٹھا کر کے بھائی چارہ قائم کیا اور ان کو بھائی بھائی بنا دیا۔

انہوں نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا اور اس طرح یہ بھائی چارہ اس معاشرے کی بنیاد تھا اور اسی وجہ سے وہاں پرامن تبدیلی آئی، دوسرا پہلو یہ ہے کہ خود حضورﷺ علم کا خزانہ تھے اور ایک درس گاہ کی طرح علم بانٹ رہے تھے حتی کہ اگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی غیر حاضر ہوتا وہ حاضر لوگوں سے کہتے کہ ان لوگوں کو بتائیں کہ حضورﷺ نے آج کیا پڑھایا ہے، یہ تعلیم پھیلانے کا مسلسل عمل تھا، یہ روزانہ علم بانٹنے کا سلسلہ تھا، وہ اس مسلسل عمل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ علم حاصل کر رہے تھے، اس طرح حضورﷺ لوگوں کی زندگیوں کو پر سکون بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے بھائی چارے کے ذریعے لوگوں کے طرز عمل کو انتہائی پر خلوص بنانا چاہ رہے تھے، اس طرح ان کے طرز عمل کے پس منظر میں مخلص تحریک کار فرام تھی، اس سب کے باعث مدینہ کے ماحول میں یہ تبدیلی آئی۔

اس طرح ایمان مدینہ کے معاشرے کی بنیاد کا اہم ستون تھا اور لوگوں کے لیے معاشرے کے اہداف بہت واضح تھے، یہ وہ کوششیں تھیں جو حضورﷺ کر رہے تھے اور جن کے نتیجے میں سب لوگ متحد ہو رہے تھے اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ اچھائیاں اور خصوصیات کیسے واپس لائیں اور ایک بات جس کو ذہن نشین رکھنا بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں، ان کو مکمل طور پر محفوظ کیا گیا ہے اور ان چیزوں تک رسائی بہت واضح ہے اور ہمارے لیے محفوظ کی گئی ہیں، ان کو واپس لانے کا ایک راستہ حکمرانوں اور دانشوروں کے درمیان تعلق قائم کرنا ہے، یعنی انتظامی معاملات کے انچارج لوگوں اور استدلال رکھنے والے افراد کے درمیان تعلق قائم کیا جائے جو یہ امور سر انجام دینے میں مدد کریں۔

ہمارے پاس جو پیغام ہے وہ اخلاق کا پیغام ہے، حضورﷺ نے لوگوں کے پیشے تبدیل نہیں کیے بلکہ ان کے کردار میں تبدیلی لے آئے جس کا اظہار ان کے پیشوں کے ذریعے ہوا، اس لیے ہمارا اخلاقی پیغام ہے، روحانی پیغام اور یہی مرکزی پیغام ہے، حضوررﷺ لوگوں میں یہی تبدیلی لے کر آئے۔

لیکن اس حوالے سے معاشرہ وہی رہا، ان کے پیشوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس کے علاوہ ایک اور بنیادی اصول فرمانبرداری کا اصول تھا، دراصل لوگ حضورﷺ کے احکامات پر عمل کرتے تھے، ایسے بھی واقعات سامنے آئے کہ لوگ روایتی طور پر بیٹھ کر شراب پی رہے ہوتے تھے، اور کوئی انہیں آ کر یہ بتاتا تھا کہ شراب کی ممانعت کا حکم آ گیا ہے تو وہ اسی لمحے شراب کے برتن توڑ دیتے تھے، اس لیے فرمانبرداری کا اصول انتہائی اہم ہے کہ معاشرے کو قوانین پر عمل کرنا ہوتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو پیغمبرﷺ کی اطاعت کرو تو اللہ تعالی بھی تم سے محبت کرے گا، یہ اللہ تعالی اور رسول پاکﷺ سے محبت کے وہ راز ہیں جن کا اظہار آپﷺ کی ہدایات کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ جڑے رہنے سے ہوتا ہے۔

میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنے سے پہلے ایک مختصر سوال کرنا چاہتا ہوں اور آپ مختصراً اس کا جواب دیں، آپ کا آج کے مسلمان نوجوانوں کے لیے کیا پیغام ہوگا مدینہ کے معاشرے میں ہونیوالی تبدیلی کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے۔ ڈاکٹر سید حسین نصر میں آپ سے آغاز کرتا ہوں آپ مسلمان نوجوانوں کے لیے کیا پیغام دیں گے؟ جہاں موجودہ تناظر میں مسلمان نوجوانوں کو بہت سے دباؤ اور مختلف اثرات کا چیلنج درپیش ہے؟ڈاکٹر سید حسین نصر اس صورتحال میں آپ کا کیا مشورہ ہوگا؟

ہم اپنے نوجوانوں کے بارے میں فکر مند ہیں جو آج انتہائی مشکل دور سے گذر رہے ہیں ایک طرف آپ کو جدیدیت کا حل ڈھونڈنا ہے جس کا طویل مدت سے دنیا پر غلبہ ہے اور اس کے ساتھ وہ روایات جو جدیدیت کے ان رحجانات کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول کی تباہی، نوجوانوں میں ان سب کے بارے ہم سب سے زیادہ حساسیت ہے آج ایک دس سال کے بچے کو یہ یقین نہیں ہے کہ وہ سولہ سال کی عمر تک زندہ رہے گا یا نہیں دنیا کیسی ہوگی اور اس کے سانس لینے کے لیے آکسیجن ہوگی یا نہیں انسانی وجود کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اولین کام جو ہم اپنے نوجوانوں کے لیے کر سکتے ہیں وہ یہ ہے ہم اپنے نوجوانوں کے لیے اس لغو اور خوفناک دنیا کا مثبت تجزیہ کریں دنیا ایک فریب ہے اور روح ایک حقیقت ہے۔

انسانوں اور زندگی کے روحانی پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالی پر ایمان اور دوسری جانب یہ ایک آسان بات بھی ہے کیونکہ دنیا ایک غیر یقینی اور خوفناک مقام بن گئی ہے جبکہ ماضی بعید میں ایسا نہیں تھا، اس کی کشش میں بہت زیادہ کمی آ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے نوجوانوں کو کچھ سجھائی نہیں دیتا اور اگر وہ مذہب کی طرف نہ بھی آئیں تو ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے مجھے یقین ہے کہ ہمارا کام آج اسلامی تعلیمات کو اس انداز میں پیش کرنا ہے کہ وہ معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ معقول بھی نظر آئیں۔

میں جدیدیت کے خلاف ہوں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں ایک روایتی مسلمان ہوں میں نے ساٹھ سال تک اس کے خلاف لکھا ہے، لیکن میں جدید دنیا کو جانتا ہوںہیں میں ایک روایتی مسلمان ہوں میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے، اس لیے تھوڑا پریشان ہوں ہمیں اسلام کو اسی رسی کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے جو طوفان میں حفاظت کے کام آتی ہے، لیکن ایک معتبر انداز میں آج کے فیشن جو ایک دن کی طرح آتے ہیں اور بدل جاتے ہیں اور جن سے بہت سے نوجوان متاثر ہوتے ہیں وہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔

ہمیں صیحیح معنوں میں انہیں تربیت دینا ہوگی، ایک یہ کہ آج کے رحجانات کی اصل حقیقت کیا ہے جو نوجوانوں کے لیے پر کشش ہیں یہ ہماری روح اور ہمارے بچوں کے لیے کتنے پر فریب ہیں دوسری جانب اسلام پر عمل پیرا ہونے کی وہ حقیقت ہے جو ہمیشہ سے موجود ہے۔

جس کا پیغمبرﷺ نے صیحیح معنوں میں عملی نمونہ پیش کیا مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ غیر سنجیدہ لوگ مسلمانوں کی اچھائیوں پر عمل کیے بغیر اسلام کی بات کرتے ہیں یہ مارکسزم سے بھی زیادہ بھیانک ہے جو ایک لحاظ سے مذہب پر حملہ کرتا ہے مذہب پر حملہ آور ہونا اس سے بہتر ہے کہ مذہب کی خاکوں کے ذریعے تضحیک کی جائے اس کا حلیہ بگاڑتے ہوئے اس کا نام، شہرت اور اہمیت استعمال کرنا ،لیکن ہم ایسی ہی دنیا میں رہتے ہیں ہمیں گفتگو سے زیادہ عمل کرنے اور اپنی موجودگی کی حقیقت جاننے کی ضرورت ہے۔

ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کو ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکے کھلاڑیوں سے لیکر دانشوروں تک، ادیبوں سے لیکر مؤجدین تک، ہمیں ہر شعبے میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو مثال بن سکیں، جو مسلمانوں کو اسلام اور پیغمبرﷺ کے لیے وقف اداروں کی جانب راغب کریں اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے معاشرے اور اپنے ساتھی مرد و خواتین اور اپنی فطرت سے محبت کریں اور ان کو یہ بھی فکر ہو کہ نوجوانوں کے کیا تحفظات ہیں۔

میں ہمیشہ فطرت کا رخ کرتا ہوں میں پہلا شخص ہوں جس نے بہت پہلے ساٹھ کی دہائی میں اس بارے میں لکھا کہ اسے بحران کا سامنا ہے ڈاکٹر بقر یہاں موجود ہیں میں نے ان کے ساتھ اس حوالے سے کام کیا ہے یہ معاملہ نوجوانوں کی زندگیوں کے حوالے سے بہت اہم ہے یہ معاملہ نوجوانوں کی زندگیوں کے حوالے سے بہت اہم ہے اللہ اپنی مخلوق کا تحفظ کرے گا، ہم اس زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں اور اللہ نے اپنی مخلوق کے تحفظ کا فریضہ ہمیں سونپا ہے آپ مغرب میں بھی کتنے ایسے خاندانوں کو جانتے ہیں جہاں دس سال کا بچہ فطرت کے بارے میں اپنے پچاس سال کے باپ کے مقابلے میں بہتر علم رکھتا ہے اپنے ماں باپ کو اس عدم توجہی پر تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔

آج ہم اس صورتحال میں رہ رہے ہیں اسلامی دنیا کی گراں قدر روایات ہیںبہت سے نوجوان مسلمانوں کو اسلام کی دوسرے پہلوؤں کی جانب متوجہ کیا جا سکتا ہے جو الحمدللہ آج بھی باقی ہیں جیسا کہ مقررین نے واضح کیا ہے اور انہیں بتایا جائے کہ اسلام دورِ حاضر کے فوری نوعیت کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں سوچتے ایسے سوالات کہ وہ مستقبل میں سانس کیسے لیں گے، انہیں پینے کیلئے کیسا پانی دستیاب ہوگا، اور اس طرح کی ہر عملی چیز، ہمارے پاس بے پناہ وسائل موجود ہیں ان کو استعمال میں لانا انتہائی ذمہ داری کا کام ہے۔

عزت مآب، مجھے معلوم ہے کہ پاکستان میں آپ اسی مسئلے کے بارے میں متفکر ہیں باقی چیزوں کے بارے میں لکھا بھی جاتا ہے اور کہیں نہ کہیں بات ہوتی رہتی ہے لیکن بد قسمتی سے سب کے بارے میں نہیں، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جو میرے اپنے ملک کی طرح ہے، اگر ہم نے ان مسائل کو حل نہ کیا تو آئندہ نسل کے لیے رہنا مشکل ہو جائے گا میرے ملک ایران کا بھی یہی مسئلہ ہے،یا کسی بھی دیگر ملک کا،میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان ہی واحد ایسا ملک ہے لیکن بد قسمتی سے سب کے بارے میں نہیں، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جو میرے اپنے ملک کی طرح ہے، اگر ہم نے ان مسائل کو حل نہ کیا تو آئندہ نسل کے لیے رہنا مشکل ہو جائے گا۔

میرے ملک ایران کا بھی یہی مسئلہ ہے،یا کسی بھی دیگر ملک کا،میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان ہی واحد ایسا ملک ہے ہم اس تہذیب کے وارث ہیں جس کی بنیاد اللہ تعالی اور دنیا کے ساتھ ہم آہنگی پر ہے، آسمانوں اور زمین کے ساتھ ہم آہنگی پر ہے اسلام میں شہروں کی ساری منصوبہ بندی، فن تعمیر اور ہر چیز مذہب کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں یہ ماحولیاتی حوالے سے انتہائی متوازن تھے ، ہم نےاس کے ساتھ کیا کیا، ہمیں ان کو واپس لانا ہوگا ہمیں ان کو اپنے ایمان کی بنیاد پر واپس لانا ہوگا، اگر آپ ان چیزوں کو نوجوانوں کے ذریعے محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو وہ اس پر دھیان دیں گے میرا اپنے ملک، ایران، مغربی ممالک اور دوسرے اسلامی ممالک میں تدریس کا ساٹھ سال تجربہ ہے۔

مجھے معلوم ہے جب اس انداز سے مسائل پر بات کرتے ہیں جن کا دور حاضرسے تعلق ہےاور جو قابل فہم ہو لوگ سنیں گے، لوگ اس وقت دلچسپی نہیں لیتے جب انہیں قانون کے پانچ نکات یاد کرنا ہوتے ہیں جو قاہرہ میں طالب علموں کو پڑھنا پڑتے ہیں یقینناً یہ اہم ہیں۔ ہمیں ان مسائل کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے، عزت مآب میں نہیں چاہتا کہ آپ صرف پاکستان کی ہی بات کریں کیونکہ آپ ان چند مسلمان رہنماؤں میں سے ایک ہیں جن کو ان مسائل کی آگاہی ہے آپ پاکستان کو ایسی جگہ کیوں نہیں بناتے جہاں ایسے اجلاس باقاعدگی سے منعقد کیے جائیں جہاں نوجوانوں کو گفتگو کے لیے مدعو کیا جائے اور یہ سلسلہ چل نکلے گا کیونکہ اسلامی دنیا میں اور کوئی ایسی جگہ نہیں ہے اور انشا اللہ بتدریج اس بارے میں آگاہی پیدا ہوگی ۔

بعض مقررین نے کہا کہ ان مسائل کا چوبیس گھنٹے میں کوئی حل پیش نہیں کیا جاسکتا اس کے لیے زیادہ وقت درکار ہے، میں اس بات پر اختتام کرتا ہوں یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی ملک کا موجودہ وزیراعظم عام طور پر یہ کہتا ہے کہ کل صورت حال معمول پر آ جائے گی لیکن اب وہ یہ بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوگا یہ بہت اچھی علامت ہے اور آئیں ہم اس پر عمل پیرا ہوں، انشا اللہ۔

ڈاکٹر حمزہ یوسف، پاکستان میں ہم جن مسائل سے دوچار ہیں اور میرے خیال میں زیادہ تر مسلمان ملکوں میں بھی یہی مسائل درپیش ہیں معاشرے کو دو قسم کے جرائم کا سامنا ہے، ایک کرپشن ہے اور دوسرا جنسی جرائم ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جنسی جرائم میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بدقسمتی سے صرف ایک فیصد جنسی جرائم رپورٹ ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک فیصد جرائم کے ساتھ نمٹتے ہیں میرے خیال میں دوسرے ننانوے فیصد جرائم کے ساتھ معاشرے کو نمٹناہوگا اور یہی معاملہ کرپشن کا ہے، ممکن ہے کہ آپ کسی سطح پر کرپشن سے نبرد آزما ہو سکیں، لیکن نچلی سطح پر جب سرکاری افسران رشوت لیتے رہیں گے یہاں بھی میرے خیال میں معاشرے کو کرپشن کرنے کو ناممکن بنانا ہو گا اور بدقسمتی سے اگر آپ پر طویل عرصے ایک بد عنوان قیادت ہی براجمان رہی ہو وہ کرپشن کو قابل قبول بنا دیتی ہے یہ پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے، شاید زیادہ تر مسلمان ملکوں اور ترقی یافتہ ملکوں کا بھی یہ مسئلہ ہے۔

شیخ حمزہ یوسف آپ کیا کہتے ہیں میرے خیال میں دونوں مسئلے سنگین ہیں اور ان کا تعلق خواہشات کے ساتھ ہے انسانوں میں شہوت کا پایا جانا ایک بنیادی فطری تقاضا ہے لیکن ان خواہشات پر بری سوچ غالب آ جاتی ہے دولت کی خواہش فطری ہے کیونکہ ہمیں دولت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب یہ خواہش حد سے تجاوز کر جاتی ہے اور لالچ کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ہم معاشرے کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں تو اس کے پس منظر میں کوئی سنگین غلطی ہوئی ہوتی ہے امریکہ سمیت بہت سے معاشروں کو یہ سنگین مسئلہ درپیش ہے، کوئی بھی ملک اس سے مبرا نہیں ہے کرپشن کی مثال ایک سیب جیسی ہے آپ سیب کا خراب حصہ کاٹ دیتے ہیں تو باقی سیب ٹھیک ہوتا ہے لیکن جب پورا سیب خراب ہو جاتا ہے تو آپ اس کو پھینک دیتے ہیں، یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مجھے معلوم ہے کہ آپ اس کے خلاف سرگرم ہیں، لیکن ایک بات جسے لوگوں کو سمجھنا ہوگا ایک فرد کی خود غرضی بالآخر اس کو بھی نقصان پہنچاتی ہے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ تمہاری کرپشن تمہارے ہی خلاف ہے یہ تمہیں نقصان پہنچاتی ہے، حد سے تجاوز کرنے کی خواہش۔

جہاں تک جنسی معاملے کا تعلق ہے اس کی وجہ شعور، فتاوی اور ان خصوصیات سے دوری ہے جو باوقار مرد حضرات میں پائی جاتی ہیں مرد حضرات کے لیے یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں خواتین اور بچوں کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی ہوئی ہے اگر آپ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ زمین پر چند چیزوں کو چھوڑ کر ہر چیز مردوں کی بنائی ہوئی ہے انسان سڑکیں بناتے ہیں، گھر بناتے ہیں، وہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرتے ہیں، وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ وہ یہ خواتین اور بچوں کے لیے کرتا ہے، انسان میں یہ بنیادی تحریک پائی جاتی ہے

ہمیں اپنے نوجوانوں میں خاص کر خواتین کے احترام کی سوچ پیدا کرنا ہوگی رسول پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صرف نیک لوگ ہی خواتین کی عزت کرتے ہیں اور صرف برے لوگ خواتین کی تذلیل کرتے ہیں یہ بات بہت اہم ہے کہ مائیں اپنے بیٹوں کی تربیت کے دوران ان میں اس وصف کی نزاکت کا احساس پیدا کریں لیکن اس سلسلے میں باپ کو بھی مثال قائم کرنی چاہیے یہ بہت اہم ہے اور بہت بڑا مسئلہ ہے، اور آپ ان مسائل پر بات کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے معاشروں میں جہاں شرم و حیا کا ایک مقام ہے اکثر ایسے معاملات پر گفتگو نہیں کی جاتی، لیکن یہ ایک حقیقت ہے ، آپ نے یہ معاملہ اٹھایا ہے اور یہ بہت اہم ہے کیونکہ اس سے لوگ مضبوط ہوں گے لیکن ہمیں پیغمبرﷺ کی سنت پر عمل بھی کرنا ہوگا کیونکہ آج کی دنیا میں بہت سی خواتین یہ محسوس کرتی ہیں انہیں محرم یا ولی کی ضرورت نہیں ہے، وہ خواتین کے تحفظ کے خیال سے اتفاق نہیں کرتیں ہماری روایات خواتین کا تحفظ کرتی ہیں ،اگر ایسانہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ روایت موجود نہیں ہے۔

خواتین کے لیے یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ان چیزوں پر کیوں زور دیا ہے جیسا کہ محرم، ایسی جگہوں پر نہ جائیں جہاں آپ کو نہیں جانا چاہیے اس کی اولین ذمہ داری مرد کی ہے، ہم متاثرہ افراد کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے، یہ انتہائی ناانصافی ہو گی لیکن خواتین کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ وہاں بھیڑیے موجود ہیں وہ حقیقت میں بھیڑیے ہیں، اس لیے یہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کے تحفظ اور ولی کی ذمہ داری لیں، خاص طور پر نوجوان خواتین اور بچوں کی کیونکہ میرے خیال میں یہ لوگوں کے خلاف سب سے زیادہ خوفناک جرائم میں سےہیں۔

ڈاکٹر عبدالحکیم مراد، آپ سے بھی وہی سوال لیکن آپ کو معلوم ہے موبائل فون وغیرہ کی وجہ سے جو مسئلہ ہمیں درپیش ہے نوجوانوں اور بچوں کیلئے جس قسم کی معلومات دستیاب ہیں ان کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی میری مراد معلوماتی مواد کے ساتھ ساتھ فحش مواد کی دستیابی سے ہے میرے خیال میں ہمارے ہاں اچانک بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کی ایک وجہ جو نہ صرف خواتین بلکہ بچوں کے ساتھ بھی ہو رہے ہیں ،میرے خیال میں زیادہ تر معاشرے اس صورتحال سے نبرد آزما ہیں۔

ڈاکٹر مراد آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں میں نے چالیس سال قبل جس سکول سے تعلیم حاصل کی میرے وہاں تعلیم حاصل کرنے کے دنوں میں وہاں پہلی بار لڑکیوں کے لیے تعلیم کی اجازت دی گئی میں نے وہاں اپنے پانچ سال کے دوران کبھی بھی لڑکیوں کے ساتھ کوئی ناشائستگی کا مظاہرہ نہیں دیکھا تھا سب ان کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آتے تھے، روایتی انگریز معاشرے میں اشرافیہ کی طرح خواتین کے لیے دروازہ کھولنا اور ان کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا اور عوامی ماحول کے تقاضوں کا احترام کیا جاتا تھا۔

گذشتہ سال اس سکول کے حوالے سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں شرمناک کہانیاں منظرعام پر آئیں لڑکیوں کو تنگ اور حراساں کرنے سمیت انہیں کس طرح کے مختلف جرائم وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ بدقسمتی سے ہماری ثقافت میں رچ بس گیا ہے کیونکہ آزاد خیال لوگ کسی چیز کو سنسر نہیں کرنا چاہتے لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کی اہم وجہ جیسا کہ آپ نے واضح کیا ہے کہ چھوٹے بچوں کوبھی ایسی چیزوں کی بھرپور تصاویر کی دستیابی ہے، جن کو محدود ہونا چاہیے نہ کہ یہ تفریح طبع کیلئے لوگوں کو دستیاب ہ

وں آج کے عالمی بحران کی یہ بھی ایک وجہ ہے، انٹرنیٹ عالمگیریت کے حوالے سے ان چند مظاہر میں سے ایک ہے جس پر ریاستوں کا کوئی اختیار نہیں ہے، اس لیے اقوام ماضی کے مقابلے میں بتدریج کم با اختیار ہوتی گئی ہیں آج کے بڑے بڑے مسائل جیسا کہ بٹ کوائنز، انٹرنیٹ اور موسمیاتی تبدیلی وغیرہ کو انفرادی ملک کے طور پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے اس صورتحال کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ انگلینڈ میں جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں جن کے ساتھ میں نے کام کیا ہے، ان میں زیادہ خواتین ہیں ان میں سے زیادہ تر روایتی حد بندی یعنی حجاب کو ایک طرح کی آزادی سمجھتی ہیں وہ جنگل کے قانون اور ایسی دنیا میں زندگی گزارنا نہیں چاہتیں جہاں زیادتی، حراسگی، جنسی جرائم اور آن لائن ڈیٹنگ وغیرہ کے امکانات ہوں بلکہ وہ بہتر صورتحال کی متلاشی ہوتی ہیں۔

اگرچہ یہ ایک بحرانی کیفیت ہے لیکن مذہب اس کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ جدیدیت ہے جہاں تک سید حسین نصر سے آپ کے سوال کا تعلق ہے نوجوانوں کو متوجہ کرنے کیلئے ہمیں جدیدیت کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سارے سوالوں کو صرف جواب ہی نہیں دینا ہوگا بلکہ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ جدیدیت کی وجہ سے پیدا ہونے والا بحران ہمیشہ سے جاری ہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا ہے، موسمیاتی تبدیلی اس کا ایک پہلو ہے بحران، صنفی زیادتی اور اصناف کے درمیان غیر مناسب رویے اور امریکہ میں می ٹو تحریک کے عالمی سطح پر بڑے اثرات ہیں صرف اسلامی دنیا میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہے۔

اسلام کو جنسی اور صنفی مساوات کے حوالے سے باقاعدہ تعلقات اور حجاب کے حوالے سے متوازن خیالات کا حامل مذہب تصور کیا جاتا ہے جو حقیقت میں ایک شاندار حل پیش کرتا ہے یہی وجہ کہ بہت سے نوجوان اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ انہیں اپنے مسائل کا حل مل گیا ہے میرے خیال میں انہیں متوجہ کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے اسلام کو محض وراثت میں حاصل شدہ یا کوئی قدیم شے تصور نہیں کرنا چاہیے جس کو صیحیح ثابت کرنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ ایک آسمانی صحیفہ ہے جس میں دنیا میں بے قابو ہونے والے بحرانون کا حل تجویز کیا گیا ہے

ڈاکٹر رجب شنترک، کیا آپ ان مسائل کی وضاحت کریں گے، کیا ترکی میں بھی ایسے ہی مسائل درپیش ہیں۔

ہاں، عزت مآب، دنیا بھر کو یہ مسائل درپیش ہیں، نہ صرف برطانیہ، امریکہ، پاکستان اور ترکی بلکہ ہر جگہ ہمیں ان مسائل کا سامنا ہے کیونکہ ہم عالمگیریت کے اثرات کے تابع ہیں اور میں اس دور میں اپنے نوجوانوں کو یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ فتاوی اخلاقیات پر عمل کریں جوحضرت محمدﷺ کی سنت سے اخذ کی گئی ہیں جن کو نوجوانوں کیلئے کتابچوں کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے، انہوں نے یہ حاصل کیے اور ان پر عمل پیرا ہوئے، آج ہمیں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

اگرچہ فتاوی کے نظریہ کو پاکستان، ایران، ترکی اور عرب دنیا کے ساتھ ساتھ ساتھ ہر جگہ تمام مسلمان معاشروں میں عام کیا گیا تھا،آج ہمیں یہ چیز کہیں دکھائی نہیں دیتی اور آج ہم پر انتہائی جدید، آزاد خیال، انفرادی، داخلی اور تند و تیز خیالات کا خطرہ منڈ لا رہا ہے اور ہمارے نوجوانوں کو ہر سمت سے مشتہر پر فریب اصراف کی صورت میں خطرات لاحق ہیں، یہ ان کے علاوہ ہیں جن کا پروفیسر نصر اور شیخ عبدالحکیم مراد نے ذکر کیا ہے۔

میرے خیال میں آج ہمیں سب سے سنگین خطرہ انتہائی جدید دنیا کے خیالات اور اطوار سے ہے ہمارے نوجوان ان انتہائی طاقتور رحجانات کے خلاف مزاحمت فتاوی اخلاقیات پر عمل پیرا ہو کرہی کر سکتے ہیں ،جن کوحضرت محمدﷺ کی سنت سے اخذ کیا گیا ہے اس مقصد کے لیے ہمیں اپنے ماضی کے ساتھ رشتوں کو بحال کرنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ یقیننا ہم ماضی کو مکمل طور پر لاگو نہیں کر سکتے، لیکن ہمیں اپنے ماضی کو محفوظ بنانا ہوگا اور اس کی بحالی کی حکمت عملی اپنانا ہو گی، ہمارے نوجوانون کو نہ تو کوئی رد عمل دینا چاہیے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی شرمندگی ہونی چاہیے، انہیں پر اعتماد محسوس کرنا چاہیے اور اپنے ماضی کی بحالی پر اپنی تہذیب، مذہب اور تاریخ پر انہیں فخر ہونا چاہیے اور انہیں آج کی انتہائی جدید دنیا کی ثقافت کی اجارہ داری سے آزادی کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور ہمیں اپنے نوجوانوں کو تعلیم کے ذریعے اجارہ داری کی ثقافت اور عالمگیریت کے اثرات سے شعوری آزادی کے حصول کی جانب مائل کرنا چاہیے تاکہ وہ حضرت محمدﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہو کر اپنی فکر کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے نوجوانوں کو ان سوالات کا حل ڈھونڈنا چاہیے، ایک، میں دنیا کے لیے کیا کر سکتا ہوں، ہمیں ان کے کام کے مسائل حل کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔

صرف مسلمانوں کے مسائل کے حل کیلئے ہی نہیں کیونکہ رحمت اللعالمین کا تصور یہی ہے، ہمیں افریقیوں، لاطینی امریکیوں، روسی، چینی،ہندوؤں اور ہر ایک کے لئے باعث رحمت ہونا چاہیے اس کے لیے ہمیں مذہب، رنگ، نسل اور شہریت سے بالا تر ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی فتاوی اخلاقیات کا درس ہے کہ ہم حضرت محمدﷺ کی خصوصیات کے علمبردار ہوں جو کہ رحمت اللعالمین ہیں اور سب سے اہم سنت رحمت اللعالمین کی خصوصیات پر عمل پیرا ہونا ہے، یہ میرا مختصر جواب ہے، بہت شکریہ۔

ڈاکٹر چندرہ، آپ ہمیں ملائیشیا اورملائیشیا کے نوجوانوں کے بارے میں کیا بتانا چاہیں گے۔

عزت مآب شکریہ، میں اب تک کی گفتگو کے حوالے سے بات کروں گا اور یہ کہ ہماری بحث کا لب لباب کیا ہے اور میں اس کو ایک خاص تناظر میں پیش کروں گا، اور یہ تناظر کیا ہے، عزت مآب، یہ بہت اچھا خیال ہے کہ نوجوان خود اس پر بات کریں اس لیے آئندہ ہونے والے اجلاس میں ہمارے جیسے ساٹھ اور ستر سال کی عمر کے افراد کی اکثریت نہ ہو بلکہ بیس اور تیس سال کے نوجوان لوگوں کی موجودگی بھی ہونی چاہیے جن کا جذبہ آپ نے سکاٹ لینڈ میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے دوران دیکھا ہے۔ انہیں کیا کہنا تھا، شاید انہوں نے جو کچھ کہا وہ زیادہ تر تنقید پر مبنی تھا کیونکہ ان کو غصہ تھا جو کہ جائز تھا لیکن ان کی طرف سے کچھ اچھی باتیں بھی سامنے آئیں، میں سمجھتا ہوں اگر ہم ان کو تین مقاصد کے لیے ایک پلیٹ فارم پر لے آئیں جو کہ یہ ہیں، نمبر ایک، وہ صاف صاف بتائیں کہ ان کے خیال میں دنیا میں کیا کچھ غلط ہو رہا ہے اور وہ کیوں ایسا سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کے فوری حل کی ضرورت ہے، اس سے انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع ملے گا۔

ہم جنسی جرائم، کرپشن اور دیگر مسائل کی بات کریں گے، کیا وہ بھی ان کو حقیقی مسائل سمجھتے ہیں، میرا شبہ ہے کہ شاید وہ بھی ایسا ہی سمجھتے ہوں، لیکن ان کے کوئی اور بھی پہلو ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم نہ ہو، نمبر ایک، یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ نمبر دو، میرے خیال میں نوجوانوں کے حوالے سے رحمت اللعالمین کا تصور، وہ ہماری روایات، اقدار اور ہماری عظیم دانش کی سچائی میں مضمر اصولوں کو رحمت اللعالمین کے طور پر کیسے دیکھتے ہیں، شاید وہ اس کو اہم سمجھتے ہیں، میں نے نوجوانوں سے بات کی ہے، میں نے بعض اوقات محسوس کیا ہے کہ ان کے ہاں انسان کی عظمت کا واضح تصور موجود ہے اور وہ اس عظمت کو روحانی اقدار اوراخلاقی معیارات کی بلندی تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ ان سے شیئر کرنا بہتر ہوگا کہ وہ بتائیں کہ ان کی پوزیشن کیا ہے کیونکہ یہ پوری انسانیت کے لیے باعث رحمت ہو گا۔ اگر ہم ان سے یہ مسئلہ حل کرنے کو کہیں، یہ دوسرا بڑا چیلنج ہوگا۔ تیسرا، یہ وہ شعبہ ہے جس میں ہم ناکام ہو گئے ہیں۔

مضبوط روحانی اوصاف رکھنے کے باوجود لوگوں کی نسلیں کسی وجہ سے ناکام ہو گئیں، یہ روحانی وراثت مشترکہ ورثہ ہے، یہ ہم میں سے کسی کے لیے مخصوص نہیں ہے، مثال کے طور پر یہ مسلمانوں کیلئے بھی مخصوص نہیں ہے موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے بارے میں تمام بڑے ثبوت تمام مذاہب نے مشترکہ طور پر شیئر کیے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ پروفیسر سید حسین نصر کی ایک کتاب میں اس کے حوالے موجود ہیں، یہ ان اولین کتابوں میں سے ایک ہے جس میں کثیرالجہت روحانی پہلو سے اس چیلنج سے نمٹنے کی بات کی گئی ہے، اور میرے خیال میں لوگوں کو اس حوالے سے بات کرنا چاہیے، ہمارے کچھ دوستوں نے سکاٹ لینڈ میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی جہاں کچھ نوجوان اس کتاب کا حوالہ دے سکتے تھے کیونکہ یہ وہ کتاب ہے جس نے نوجوانی کے دور میں مجھے بھی متاثر کیا تھا، دہائیوں قبل لیکن انہوں نےاس کا حوالہ نہیں دیا، یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کیونکہ یہ وہ کتاب ہے جو آج لوگوں کو دنیا کے درپیش بحران سے لے کر مشترکہ روحانی پہلو پہ متحد کرتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ثقافت اور فاصلوں سے بالاتر ہو کر نوجوان لوگوں کو ایک ساتھ لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اچھی بات ہوگی اور ہم ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔

بد قسمتی سے دوسرے عقائد کے حامل دوست اسلام کو اس پہلو سے نہیں دیکھتے لیکن اس کے باوجود اسلام کے ساتھ گہرا تعلق ہے حتی کہ اس وقت بھی اس کا اسلام کے ساتھ تعلق تھا جب رسول پاکﷺ نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا انہوں نے مختلف طبقہ فکر کے لوگوں اور تہذیبوں کو یکجا کیا، اور ان کو بتایا کہ وہ ایک مشترک تعلق کے باعث ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، میرے خیال میں آج بھی ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے تاریخ کے اس مرحلے پر موسمیاتی تبدیلی، نیوکلیئر اور کرونا بحرانوں پر نظر دوڑائیں، ہر بحران کے کثیرالجہت پہلو ہیں جو تمام انسانوں کو متاثر کرتا ہے، یہ ہمارے مشترکہ چیلنجز اور مشترکہ بوجھ ہیں اور اس کے لیے ہمیں مشترکہ پیغام دینے کی ضرورت ہے جو اسلام نے صدیوں قبل خوبصورت انداز میں پیش کیا تھا، ہمیں اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت ہے، شکریہ۔

ڈاکٹر عثمان بقر، میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں، خاص طور پر ملائیشیا کے نوجوانوں کے بارے میں آپ کےکیا خیالات ہیں، ان میں کس انداز سے آپ تبدیلی آتے ہوئے دیکھ رہے ہیں آپ دنیا بھر کے مسلمانوں اور خاص کر ملائیشیا کے مسلمانوں کیلئے کیا سفارش کریں گے۔

عزت مآب میں اس بات کو آگے بڑھاؤں گا جس کا تذکرہ ڈاکٹر چندرا نے کیا ہے، انہوں نے ہمیں ملائیشیا کے اہم پہلو کے بارے میں بتایا ہے، مجھے زیادہ تر یونیوسٹی اور کالجوں کے طلباء سے یہ معلومات ملی ہیں، یہ بڑی دلچسپ اور حوصلہ افز پیش رفت ہے اس کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں مذہب کے بارے میں مختلف انداز سے جاننے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کو ایک طرح سے محدود کر دیا گیا ہے، اسلام کی یہ شکل اس اسلام کے مقابلے میں کچھ زیادہ خراب نہیں جس پر قدیم نسلیں عمل پیرا رہی ہیں، یہ اسلام کی وہ قسم نہیں ہے جس میں انہیں کوئی دلچسپی ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں کسی جذبے یا محرک کی کمی ہے مثال کے طور پر یہ کہ وہ روحانی روایات کے بارے میں جانیں۔

یہ وہ شعبہ ہے جس کے ساتھ میں ذاتی طور پر طویل عرصے تک وابستہ رہا ہوں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے دوسرے الفاظ میں پرانی نسل کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جنہوں نے مذہب کے حوالے سے اپنا کافی حصہ ڈالاہے وہ مذہب کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں خاص طور پر ملائیشیا جو کہ ایک کثیرالمذاہب ملک ہے اور بہت سی ثقافتوں کا مرکز ہے جہاں چالیس فیصد سے زائد آبادی غیر مسلم افراد پر مشتمل ہے مثال کے طور پر میں ڈائیلاگ کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کروں گا میں واقعتاً یہ محسوس کرتا ہوں اور جیسا کہ ڈاکٹر چندرا نے مجھ سے پہلے بات کی ہے کہ زیادہ تر بین المذاہب اور بین الثقافتی مذاکرات میں جو سوچ کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ یہ ملائیشیا کے مستقبل کے لیے بے حد اہم ہے وہاں استحکام قائم ہو، اس کے مستقبل کے لئے وہاں بین المذاہب ہم آہنگی کا ہونا لازمی ہے اور یہ تھوڑی نئی چیز ہے جس سے نئی نسل لاتعلق ہے لیکن نوجوان نسل کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس طرف آرہے ہیں کہ اسلام کا بین المذاہب تعلقات کے حوالے سے کیا پیغام ہے۔

یقیناً ملائیشیا کےحوالے سے میں یہ سمجھتا ہوں کیونکہ جب ہم بین الاسلامی تعلقات کی بات کرتے ہیں پاکستان کے مقابلے میں کافی مختلف ہے کیونکہ بطورِ ملائشیائی شہری ہم ایک ہی مکتبہِ فکر سے ہیں اس کے باوجود ہمیں بین الاسلام اتحاد کے معاملے سے نمٹنا ہے، لیکن اس وقت اصل مقابلہ روایتی اور جدید تعلیم یافتہ حلقوں کے درمیان ہے میرے خیال میں دو متوازی پیش رفت ہو رہی ہوتی ہیں ایک پیش رفت جدیدیت اور اس کی نئی اقسام کے نوجوانوں پر اثرات ہیں ایک پیش رفت جدیدیت اور اس کی نئی اقسام کے نوجوانوں پر اثرات ہیں جبکہ دوسری جانب وہی سہولتیں، مثال کے طور پر سائبر سپیس کو نوجوانوں کا ایک گروپ مذہب اور معاشرے کے فائدے کے لیے استعمال کر رہا ہے شیخ عبداللہ کیا آپ ان نوجوانوں کے لیے کوئی پیغام دیں گے جو آپ کو سن رہے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ ان کو پیغام دیں، موجودہ دور کے اثرات ، سوشل میڈیا اور معلومات کی بھر مار کے پیش نظرآپ ان کو کیا پیغام دیں گے جو پہلے بچوں اور نوجوانوں کو دستیاب نہیں تھیں۔ نوجوانوں کے لیے آپ کی کیا نصیحت ہوگی۔

اگر ہم نے آج کے عالمگیریت کے دور میں نوجوانوں کے مسائل کے حوالے سے کسی ایک ملک کے نوجوانوں سے بات کی تو یہ غلط بات ہوگی۔ جیسا کہ عزت مآب وزیراعظم نے ذکر کیا انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور دیگر کے نوجوانوں پر بے پناہ اثرات مرتب ہوئے ہیں تو ’سکینہ‘ کے تصور کا حوالہ ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوں جو کہ قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے، جس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ اس نے تم کو سکون اور امن کی نعمت عطا کی ہے۔

یہ روح کی وہ حالت ہے جو انسان کو متاثر کرتی ہے اور احتجاجی کیفیت کو زائل کر دیتی ہے، یہ ایک قسم ہے جو روح کا ایک جزو ہے کیونکہ ہمیں جن نوجوانوں کا تصور ہے وہ رد عمل کے حامل نوجوان ہیں، وہ اس رد عمل کا اظہار غصے، مایوسی اور خود غرضی کی صورت میں کرتے ہیں، انہیں اس رد عمل کو استدلال اور مذہب پر مبنی ایکشن کی صورت میں ظاہر کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ایک ایسی یونیورسٹی ہونی چاہیے جہاں اخلاقیات اور اقدار کی ترویج ہو، مثال کے طور پر ہماری یونیوسٹی میں انجینئرنگ کی برانچیں ہیں، لیکن روحانی انجینئرنک کی بھی شاخیں ہونی چاہئییں کہ ہم روح اور اخلاقیات کی تربیت کا اہتمام کر سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں فلسلفے اورتصوف کی جانب لوٹ کر آنا ہوگا، اور ہمارے لیے یہ بھی اہم ہے اور ہمارے پاس وسائل بھی موجود ہیں۔

پاکستان میں لوگوں کو علامہ اقبال جیسی شخصیات اور ان کے نکتہ نظر کے بارے میں زیادہ معلوم ہونا چاہیے اور یہ کہ ان کا کیا کردار تھا، کیونکہ یہ اس ثقافت کا حصہ ہے۔ نوجوانوں کو اس معیار پر پورا اترنا چاہیے اور پرعزم ہونا چاہیے، اور وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کر سکیں کیونکہ یہ ان کے لئے انتہائی اہم بات ہے کہ وہ ساتھی گروپوں پر دھیان دیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عالمگیریت ایک نیا مظہر ہے لیکن اب یہ ناگذیر ہے، اب ہمیں اس کا سامنا کرنا ہوگا اور اس سے نمٹنا ہوگا، اور ہم اس کی سمجھ بوجھ اور رسول پاکﷺ کی سنت اور قرآن پاک سے جڑے ہوئے کامل فلسفے اور تصوف کے ساتھ ہی اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ہمیں ان چیزوں کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر میں جناب عزت مآب وزیراعظم کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے یہ اہم اقدام اٹھایا ہے اور مجھے شرکت کا موقع فراہم کیا۔
 
Last edited:

sthdpk

New Member
ان کی کوشش قابل داد ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ساڑھے تین سال بعد اب بھی حکومت کے ذمہ داران اور اہلکاران ریاست مدینہ کے حکمرانوں کی طرز زندگی پر عمل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ آخر وجہ کیا ہے ؟میرے خیال میں آغاز اور نمونہ یہیں سے شروع ہونا ہے اور قوم کے لئے عمل کرنے کی مثال بنے گی اور قوم کی تقدیر بدلے گی ۔​