وزیراعظم پرجادو ٹونے کےالزامات،عاصمہ شیرازی اور ایمان مزاری تنقید کی زد میں

Goldfinger

MPA (400+ posts)

_121148058_gettyimages-457740060.jpg

عاصمہ شیرازی کی کالم پر ٹرولنگ: پاکستان میں خصوصاً خاتون صحافیوں پر سوشل میڈیا پر بڑھتے ذاتی حملوں کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان میں صحافیوں کے کام پر تنقید اور سوشل میڈیا پر ان کی ٹرولنگ کوئی نئی بات نہیں لیکن جب بات آتی ہے خاص طور پر خواتین صحافیوں کی تو یہ تنقید صرف ان کے کام تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان کی ذات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی کے ساتھ بھی ہوا جب منگل کے روز ان کا ایک کالم بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔
اس کالم کے شائع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں شامل وفاقی کابینہ کے چند ارکان اور وزیراعظم عمران خان کے مشیروں اور معاونین کی جانب سے ان کے کالم کا ایک مخصوص حصہ اٹھا کر اس پر سخت تنقید کی۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے عاصمہ شیرازی کے ماضی میں کیے گئے کام کی ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ٹیلیفونک انٹرویو کرتی سنائی دیتی ہیں۔
اسی طرح پی ٹی آئی آفیشل اکاؤنٹ سے عاصمہ شیرازی کے ماضی میں کام سے متعلق متعدد ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی شائع کی گئیں جن میں ان پر سیاسی جانب داری کا الزام عائد کیا گیا۔
لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب صحافی عاصمہ شیرازی کو پی ٹی آئی حامی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے قبل جون میں بھی انھیں انڈیا سے چلنے والی ایک ویب سائٹ سے منسلک کر کے ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان پر الزام عائد کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس اگست میں پاکستان کی کچھ معروف خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراسانی کے بارے میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی وجہ سے آزادی اظہار شدید خطرے میں ہے اور ان کے لیے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو گیا ہے

’کسی کی ساکھ متاثر ہو گی تو آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ لوگ آپ پر پھول ڈالیں گے‘

بی بی سی نے صحافی عاصمہ شیرازی کے خلاف حکمران جماعت کی جانب سے جاری اس تنقید پر جب پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل عامر محمود کیانی سے رابطہ کیا تو وہ اپنی پارٹی مبمران کے اس رویے کا دفاع کرتے نظر آئے۔
انھوں نے کہا ’یہ نہیں ہو سکتا کہ بندہ صحافی ہو اور صرف اس کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ لوگوں کی تذلیل کرے، وہ شریف اور گھر بیھٹی خواتین، جن کا کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔۔ یہ کوئی تھانے دار تو نہیں نا۔۔۔ اصول کی بات کرنی چاہیے، جب آپ ایسی بات کریں گے جس سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی، ان کی ساکھ متاثر ہو گی تو آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ لوگ آپ پر پھول ڈالیں گے۔‘
عامر محمود کیانی نے مزید کہا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ سب کی عزت کی جائے لیکن اگر آپ خود کسی ایسی چیز کی ابتدا کریں گے جسے لوگ مسترد کریں گے، تو آپ کو کیا لگتا ہے لوگ خاموش رہیں گے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ وہ (عاصمہ شیرازی) ایسا باقاعدگی سے کرتی آئی ہیں اور وہ ہمیشہ خاندان پر حملہ کرتی ہیں۔ یہ سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‘

’جمہوری اقدار فاشسٹ حکومت کی ضد بن جاتے ہیں‘

عاصمہ شیرازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنے خلاف گذشتہ روز سے جاری سوشل میڈیا ٹرولنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح سے رکن پارلیمان، معاونین اور کابینہ کے اراکین کی جانب سے منظم انداز میں ٹرولنگ کی جا رہی ہے یہ دراصل گالم گلوچ کے ذریعے آواز دبانے کی کوشش ہے جو اس حکومت کا کام رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے لیے پراپیگینڈا اور جھوٹی خبروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔۔۔ اور پھر دیہاڑی دار سوشل میڈیا مزدوروں کو اس کام پر لگا دیا جاتا ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں خاتون صحافیوں کو اتنی بری طرح نشانہ بنانے کی وجہ کیا ہے، عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’اس لیے کہ خواتین کو نشانہ بنانا آسان ہے۔ یہاں مرد صحافیوں کو بھی ٹرول کیا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں لیکن خاتون صحافیوں کی ذاتیات پر بات کی جاتی ہے، ان پر جنسی نوعیت کے تبصرے کیے جاتے ہیں اور اس طرح سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’خواتین پر ذاتی حملوں کے ذریعے انھیں کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تسلسل کب ٹوٹے گا اور اس کا حل کیا ہے تو عاصمہ نے کہا کہ ’اس کا کوئی حل نہیں۔ جب ایک فاشسٹ حکومت برسرِ اقتدار ہو تو جمہوریت اور جمہوری اقدار اس کی ضد بن جاتے ہیں۔‘
’پچھلی حکومتوں پر بھی تنقید کی جاتی تھی، مشرف دور میں میرا پروگرام چار مہینے بند رہا، پیپلز پارٹی کے دور میں بھی تنقید کی،اور ن لیگ پر بھی تنقید کی لیکن اس حکومت کو اس کی پرفارمنس دکھائی جائے تو جواب میں گالی سننے کو ملتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’جس طرح سے تنقید کا اثر اس حکومت پر ہوتا ہے، وہ بہت ہی برا ہوتا ہے اور اس کے ردِ عمل میں جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، ذاتی حملے کیے جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کا حل یہی ہے کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے افراد اس رویے کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں کیونکہ ’صحافیوں کی آوازیں تو کسی صورت بھی دبائی نہیں جا سکتیں۔‘

خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ کا مقصد کیا ہے؟

ملک میں صحافیوں اور خصوصاً خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ پر بات کرتے ہوئے صحافی محمل سرفراز کا کہنا تھا کہ جس طرح سے حکومتی جماعت کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ اور وفاقی کابینہ کے وزرا کی جانب سے ٹویٹ کا سلسلہ شروع ہوا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ’ایک منظم، سوچی سمجھی مہم کا حصہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب کوئی وزیر یا پارٹی کا آفیشل اکاؤنٹ اس قسم کی ٹویٹ کرتا ہے تو اس سے دیگر حامی صارفین کو بھی ٹرولنگ کے لیے بڑھاوا ملتا ہے۔‘
محمل کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا سیلز بنائے ہی اس کام کے لیے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر صرف ایک بیانیے کی تشکیل کرنا اور حکومتی کاموں کی تشہیر کرنا مقصود ہوتا تو یہ حکومتی اداروں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ حکومت اور اس کے حامی کسی آزاد، خود مختار خاتون صحافی کو ’برداشت نہیں کرتی جو ان کے نظریات سے اختلاف کریں۔‘
ان کا کہنا تھا اب صحافیوں کو یہ سمجھ آ چکی ہے کہ ان کے الفاظ اثر رکھتے ہیں اور ان سے حکومتی اقدامات پر اثر پڑتا ہے اس لیے انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
محمل سرفراز کا کہنا تھا کہ خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ صرف ان پر ذاتی حملوں یا پیشہ وارانہ امور پر تنقید تک نہیں ہوتی بلکہ انھیں صنف کی بنیاد پر ہدف تنقید بھی بنایا جاتا ہے، ان کی ذاتی و پیشہ وارانہ زندگی کی ساکھ کو متاثر کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سمجھداری سے کام لے مگر اگر حکمران جماعت کے آفشیل اکاؤنٹ سے ہی ایسی مہم شروع کی جائے تو یہ افسوسناک ہے۔‘
صحافی عنبر شمسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہے نہ ہی آخری مرتبہ ہے کہ عاصمہ شیرازی کو ان کے ایک کالم کے حوالے سے پی ٹی آئی کے کچھ ٹرولز کی جانب سے جان بوجھ کر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق اس بار فرق یہ ہے کہ اس میں وفاقی کابینہ کے ارکان اور حکمران جماعت کا آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تنقید اپنی جگہ لیکن جب ایک ٹارگٹڈ مہم شروع کی گئی ہو تو اس سے یہ عنصر نظر آتا ہے کہ حکومت مخالف آوازوں کو دبایا جا سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ خواتین صحافیوں کو صرف کام کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ ان کی صنف، کردار اور شکل و صورت کے متعلق بھی ہراساں اور ٹرول کیا جاتا ہے۔
_100911773_71ebf3ec-027f-4a4c-91d9-b7e387c94749.jpg

عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس خواتین صحافیوں نے قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی ایک کمیٹی جس کے سربراہ پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو ہیں کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا اور اس کمیٹی میں اس حوالے سے متعدد ثبوت بھی فراہم کیے گئے تاکہ اس پر کارروائی کا معاملہ آگے بڑھے تاکہ ملک میں خواتین صحافیوں کو آزادی اظہار رائے مل سکے مگر تاحال اس پر معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دیگر سیاسی جماعتوں کے ترجمان اور حامی صارفین بھی سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ میں شامل ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ برس کے اجلاس میں خواتین صحافیوں نے مطالبہ کیا تھا کہ سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیں تاکہ اس کلچر کو روکا جا سکے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ ’اس ٹرولنگ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکمران جماعت اپنی کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے صحافیوں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے تاکہ بحث کا رخ تبدیل ہو جائے۔‘

سوشل میڈیا پر وزرا کے عاصمہ شیرازی کو نون لیگ میں شامل ہونے کے ’مشورے‘

وفاقی وزیرِ برائے توانائی حماد اظہر نے بی بی سی اردو پر عاصمہ شیرازی کے کالم کو جگہ دینے پر تنقید کی اور پھر عاصمہ شیرازی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’عاصمہ بہن، آپ کو باقاعدہ ن لیگ میں شامل ہو جانا چاہیے۔ میں یہ ہر گز طنز نہیں کر رہا۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’اگر پسند یا ناپسند یا وابستگی ایک حد سے گزر جائے تو اس کا سیاسی اعلان کر دینا چاہیے۔‘
اسی طرح وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے بھی عاصمہ شیرازی کے کالم کو بنیاد بنا کر ان پر تنقید کی۔
انھوں نے لکھا کہ ’رویہ عام طور پر کردار اور سوچ کا عکاس ہوتا ہے۔ جو افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے آپ کا آپ کی ٹویٹ اور کالم سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ شرمناک ہے اور اس سے بہتر لفظ میرے پاس نہیں۔‘
_121149902_hammad.jpg

وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی مواصلات شہباز گل نے لکھا کہ ’آپ کے کالم کا عنوان ہونا چاہیے مریم کی کہانی عاصمہ کی زبانی۔ آپ کے اس طرح کے ذاتی حملوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیوںکہ دو ہی تو مہارتیں ہیں ن لیگ کی۔ سرکاری مال کھانا اور ذاتی کردار کشی کرنا۔‘
ایسے میں جب تحریک انصاف کی حکومت کے وفاقی کابینہ کے ارکان اور پارٹی کا اپنا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کسی خاتون صحافی کو ہدف تنقید بنا رہا ہو ایسے میں پی ٹی آئی کی حمایتی صارفین کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔
_121149906_alihaider.jpg

پاکستان کی صحافی برادری کا عاصمہ شیرازی سے اظہار یکجہتی
گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر عاصمہ شیرازی کی ٹرولنگ پر پاکستان کے متعدد صحافیوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے ان سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔
سینیئر صحافی فہد حسین نے عاصمہ شیرازی کے حق میں ٹویٹ کرتے ہوئے ان سے اظہار یکجہتی کیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’ایوارڈ جیتنے والی صحافی قابلِ احترام صحافی عاصمہ شیرازی کی حکمران جماعت کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے ٹرولنگ قابل مذمت ہے۔ جماعت کے رہنماؤں کو اس کو فوری طور پر روکنے کی کوشش کرنی ہو گی۔
_121149900_reema.jpg

_121151419_untitled.png

_121149899_umarcheema.jpg

صحافی خرم حسین نے لکھا کہ ’ایک مرتبہ پھر پاکستان کی برسرِ اقتدار جماعت کا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ انفرادی صحافیوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ویڈیو میں صحافی سابق وزیر اعظم کو یہ بتا رہی ہیں کہ انھیں جو انٹرویو ان سے کیا وہ کیوں نشر نہیں ہو سکا۔‘
وکیل ریما عمر کا کہنا تھا کہ ’یہ مزید ثبوت ہے کہ پی ٹی آئی کیسے ایک منظم مہم چلاتا ہے بہترین صحافیوں کی تضحیک کرنے کے لیے۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت سے سوال کرنا یا نتقید کرنا ان کی نوکری کا حصہ ہے اور اس کا مقصد اپوزیشن یا کسی اور کی طرف داری کرنا نہیں ہوتا۔‘
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے لکھا کہ بطور صحافی عاصمہ شیرازی کو موجودہ سیاسی صورتحال پر رپورٹ کرنے اور اس پر تجزیہ کرنے کا پورا حق ہے۔ ’جو ان سے اتفاق نہیں کرتے وہ اپنے تجزیے اور حقائق لا سکتے ہیں لیکن اس کا جواب گالیوں کی مہم سے کرنے سے جمہوریت مخالف ذہنیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔‘
ایسے میں صحافی مبشر زیدی عاصہ شیرازی کی تحریر سے اختلاف کرتے دکھائی دیے۔ انھوں نے لکھا کہ ’بصد احترام عاصمہ درج ذیل الفاظ صحافت کے زمرے میں نہیں آتے۔ حیران ہوں بی بی سی اردو نے کیسے اس تحریر کو چھپنے دیا۔
_121149868_mubashir.jpg

سورس
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)

عاصمہ شیرازی کی کالم پر ٹرولنگ: پاکستان میں خصوصاً خاتون صحافیوں پر سوشل میڈیا پر بڑھتے ذاتی حملوں کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان

عوام نے آئینہ دکھایا تو اب رونے دھونے پر آ گئی
صحافیوں پر بڑھتے ہوئے ذاتی حملے ان کی جانب سے کئے گئے ذاتی حملوں کا جواب ہوتے ہیں۔ جنہیں یہ ڈنگر لفافے حراساں کرنا کہتے ہیں۔ اور عالمی اداروں کو پاکستان کیخلاف اکسانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔​
 

Wakeel

MPA (400+ posts)

_121148058_gettyimages-457740060.jpg

عاصمہ شیرازی کی کالم پر ٹرولنگ: پاکستان میں خصوصاً خاتون صحافیوں پر سوشل میڈیا پر بڑھتے ذاتی حملوں کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان میں صحافیوں کے کام پر تنقید اور سوشل میڈیا پر ان کی ٹرولنگ کوئی نئی بات نہیں لیکن جب بات آتی ہے خاص طور پر خواتین صحافیوں کی تو یہ تنقید صرف ان کے کام تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان کی ذات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی کے ساتھ بھی ہوا جب منگل کے روز ان کا ایک کالم بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔
اس کالم کے شائع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں شامل وفاقی کابینہ کے چند ارکان اور وزیراعظم عمران خان کے مشیروں اور معاونین کی جانب سے ان کے کالم کا ایک مخصوص حصہ اٹھا کر اس پر سخت تنقید کی۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے عاصمہ شیرازی کے ماضی میں کیے گئے کام کی ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ٹیلیفونک انٹرویو کرتی سنائی دیتی ہیں۔
اسی طرح پی ٹی آئی آفیشل اکاؤنٹ سے عاصمہ شیرازی کے ماضی میں کام سے متعلق متعدد ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی شائع کی گئیں جن میں ان پر سیاسی جانب داری کا الزام عائد کیا گیا۔
لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب صحافی عاصمہ شیرازی کو پی ٹی آئی حامی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے قبل جون میں بھی انھیں انڈیا سے چلنے والی ایک ویب سائٹ سے منسلک کر کے ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان پر الزام عائد کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس اگست میں پاکستان کی کچھ معروف خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراسانی کے بارے میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی وجہ سے آزادی اظہار شدید خطرے میں ہے اور ان کے لیے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو گیا ہے

’کسی کی ساکھ متاثر ہو گی تو آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ لوگ آپ پر پھول ڈالیں گے‘

بی بی سی نے صحافی عاصمہ شیرازی کے خلاف حکمران جماعت کی جانب سے جاری اس تنقید پر جب پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل عامر محمود کیانی سے رابطہ کیا تو وہ اپنی پارٹی مبمران کے اس رویے کا دفاع کرتے نظر آئے۔
انھوں نے کہا ’یہ نہیں ہو سکتا کہ بندہ صحافی ہو اور صرف اس کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ لوگوں کی تذلیل کرے، وہ شریف اور گھر بیھٹی خواتین، جن کا کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔۔ یہ کوئی تھانے دار تو نہیں نا۔۔۔ اصول کی بات کرنی چاہیے، جب آپ ایسی بات کریں گے جس سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی، ان کی ساکھ متاثر ہو گی تو آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ لوگ آپ پر پھول ڈالیں گے۔‘
عامر محمود کیانی نے مزید کہا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ سب کی عزت کی جائے لیکن اگر آپ خود کسی ایسی چیز کی ابتدا کریں گے جسے لوگ مسترد کریں گے، تو آپ کو کیا لگتا ہے لوگ خاموش رہیں گے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ وہ (عاصمہ شیرازی) ایسا باقاعدگی سے کرتی آئی ہیں اور وہ ہمیشہ خاندان پر حملہ کرتی ہیں۔ یہ سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‘

’جمہوری اقدار فاشسٹ حکومت کی ضد بن جاتے ہیں‘

عاصمہ شیرازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنے خلاف گذشتہ روز سے جاری سوشل میڈیا ٹرولنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح سے رکن پارلیمان، معاونین اور کابینہ کے اراکین کی جانب سے منظم انداز میں ٹرولنگ کی جا رہی ہے یہ دراصل گالم گلوچ کے ذریعے آواز دبانے کی کوشش ہے جو اس حکومت کا کام رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے لیے پراپیگینڈا اور جھوٹی خبروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔۔۔ اور پھر دیہاڑی دار سوشل میڈیا مزدوروں کو اس کام پر لگا دیا جاتا ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں خاتون صحافیوں کو اتنی بری طرح نشانہ بنانے کی وجہ کیا ہے، عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’اس لیے کہ خواتین کو نشانہ بنانا آسان ہے۔ یہاں مرد صحافیوں کو بھی ٹرول کیا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں لیکن خاتون صحافیوں کی ذاتیات پر بات کی جاتی ہے، ان پر جنسی نوعیت کے تبصرے کیے جاتے ہیں اور اس طرح سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’خواتین پر ذاتی حملوں کے ذریعے انھیں کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تسلسل کب ٹوٹے گا اور اس کا حل کیا ہے تو عاصمہ نے کہا کہ ’اس کا کوئی حل نہیں۔ جب ایک فاشسٹ حکومت برسرِ اقتدار ہو تو جمہوریت اور جمہوری اقدار اس کی ضد بن جاتے ہیں۔‘
’پچھلی حکومتوں پر بھی تنقید کی جاتی تھی، مشرف دور میں میرا پروگرام چار مہینے بند رہا، پیپلز پارٹی کے دور میں بھی تنقید کی،اور ن لیگ پر بھی تنقید کی لیکن اس حکومت کو اس کی پرفارمنس دکھائی جائے تو جواب میں گالی سننے کو ملتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’جس طرح سے تنقید کا اثر اس حکومت پر ہوتا ہے، وہ بہت ہی برا ہوتا ہے اور اس کے ردِ عمل میں جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، ذاتی حملے کیے جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کا حل یہی ہے کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے افراد اس رویے کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں کیونکہ ’صحافیوں کی آوازیں تو کسی صورت بھی دبائی نہیں جا سکتیں۔‘

خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ کا مقصد کیا ہے؟

ملک میں صحافیوں اور خصوصاً خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ پر بات کرتے ہوئے صحافی محمل سرفراز کا کہنا تھا کہ جس طرح سے حکومتی جماعت کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ اور وفاقی کابینہ کے وزرا کی جانب سے ٹویٹ کا سلسلہ شروع ہوا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ’ایک منظم، سوچی سمجھی مہم کا حصہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب کوئی وزیر یا پارٹی کا آفیشل اکاؤنٹ اس قسم کی ٹویٹ کرتا ہے تو اس سے دیگر حامی صارفین کو بھی ٹرولنگ کے لیے بڑھاوا ملتا ہے۔‘
محمل کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا سیلز بنائے ہی اس کام کے لیے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر صرف ایک بیانیے کی تشکیل کرنا اور حکومتی کاموں کی تشہیر کرنا مقصود ہوتا تو یہ حکومتی اداروں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ حکومت اور اس کے حامی کسی آزاد، خود مختار خاتون صحافی کو ’برداشت نہیں کرتی جو ان کے نظریات سے اختلاف کریں۔‘
ان کا کہنا تھا اب صحافیوں کو یہ سمجھ آ چکی ہے کہ ان کے الفاظ اثر رکھتے ہیں اور ان سے حکومتی اقدامات پر اثر پڑتا ہے اس لیے انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
محمل سرفراز کا کہنا تھا کہ خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ صرف ان پر ذاتی حملوں یا پیشہ وارانہ امور پر تنقید تک نہیں ہوتی بلکہ انھیں صنف کی بنیاد پر ہدف تنقید بھی بنایا جاتا ہے، ان کی ذاتی و پیشہ وارانہ زندگی کی ساکھ کو متاثر کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سمجھداری سے کام لے مگر اگر حکمران جماعت کے آفشیل اکاؤنٹ سے ہی ایسی مہم شروع کی جائے تو یہ افسوسناک ہے۔‘
صحافی عنبر شمسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہے نہ ہی آخری مرتبہ ہے کہ عاصمہ شیرازی کو ان کے ایک کالم کے حوالے سے پی ٹی آئی کے کچھ ٹرولز کی جانب سے جان بوجھ کر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق اس بار فرق یہ ہے کہ اس میں وفاقی کابینہ کے ارکان اور حکمران جماعت کا آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تنقید اپنی جگہ لیکن جب ایک ٹارگٹڈ مہم شروع کی گئی ہو تو اس سے یہ عنصر نظر آتا ہے کہ حکومت مخالف آوازوں کو دبایا جا سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ خواتین صحافیوں کو صرف کام کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ ان کی صنف، کردار اور شکل و صورت کے متعلق بھی ہراساں اور ٹرول کیا جاتا ہے۔
_100911773_71ebf3ec-027f-4a4c-91d9-b7e387c94749.jpg

عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس خواتین صحافیوں نے قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی ایک کمیٹی جس کے سربراہ پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو ہیں کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا اور اس کمیٹی میں اس حوالے سے متعدد ثبوت بھی فراہم کیے گئے تاکہ اس پر کارروائی کا معاملہ آگے بڑھے تاکہ ملک میں خواتین صحافیوں کو آزادی اظہار رائے مل سکے مگر تاحال اس پر معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دیگر سیاسی جماعتوں کے ترجمان اور حامی صارفین بھی سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ میں شامل ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ برس کے اجلاس میں خواتین صحافیوں نے مطالبہ کیا تھا کہ سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیں تاکہ اس کلچر کو روکا جا سکے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ ’اس ٹرولنگ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکمران جماعت اپنی کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے صحافیوں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے تاکہ بحث کا رخ تبدیل ہو جائے۔‘

سوشل میڈیا پر وزرا کے عاصمہ شیرازی کو نون لیگ میں شامل ہونے کے ’مشورے‘

وفاقی وزیرِ برائے توانائی حماد اظہر نے بی بی سی اردو پر عاصمہ شیرازی کے کالم کو جگہ دینے پر تنقید کی اور پھر عاصمہ شیرازی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’عاصمہ بہن، آپ کو باقاعدہ ن لیگ میں شامل ہو جانا چاہیے۔ میں یہ ہر گز طنز نہیں کر رہا۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’اگر پسند یا ناپسند یا وابستگی ایک حد سے گزر جائے تو اس کا سیاسی اعلان کر دینا چاہیے۔‘
اسی طرح وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے بھی عاصمہ شیرازی کے کالم کو بنیاد بنا کر ان پر تنقید کی۔
انھوں نے لکھا کہ ’رویہ عام طور پر کردار اور سوچ کا عکاس ہوتا ہے۔ جو افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے آپ کا آپ کی ٹویٹ اور کالم سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ شرمناک ہے اور اس سے بہتر لفظ میرے پاس نہیں۔‘
_121149902_hammad.jpg

وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی مواصلات شہباز گل نے لکھا کہ ’آپ کے کالم کا عنوان ہونا چاہیے مریم کی کہانی عاصمہ کی زبانی۔ آپ کے اس طرح کے ذاتی حملوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیوںکہ دو ہی تو مہارتیں ہیں ن لیگ کی۔ سرکاری مال کھانا اور ذاتی کردار کشی کرنا۔‘
ایسے میں جب تحریک انصاف کی حکومت کے وفاقی کابینہ کے ارکان اور پارٹی کا اپنا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کسی خاتون صحافی کو ہدف تنقید بنا رہا ہو ایسے میں پی ٹی آئی کی حمایتی صارفین کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔
_121149906_alihaider.jpg

پاکستان کی صحافی برادری کا عاصمہ شیرازی سے اظہار یکجہتی
گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر عاصمہ شیرازی کی ٹرولنگ پر پاکستان کے متعدد صحافیوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے ان سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔
سینیئر صحافی فہد حسین نے عاصمہ شیرازی کے حق میں ٹویٹ کرتے ہوئے ان سے اظہار یکجہتی کیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’ایوارڈ جیتنے والی صحافی قابلِ احترام صحافی عاصمہ شیرازی کی حکمران جماعت کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے ٹرولنگ قابل مذمت ہے۔ جماعت کے رہنماؤں کو اس کو فوری طور پر روکنے کی کوشش کرنی ہو گی۔
_121149900_reema.jpg

_121151419_untitled.png

_121149899_umarcheema.jpg

صحافی خرم حسین نے لکھا کہ ’ایک مرتبہ پھر پاکستان کی برسرِ اقتدار جماعت کا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ انفرادی صحافیوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ویڈیو میں صحافی سابق وزیر اعظم کو یہ بتا رہی ہیں کہ انھیں جو انٹرویو ان سے کیا وہ کیوں نشر نہیں ہو سکا۔‘
وکیل ریما عمر کا کہنا تھا کہ ’یہ مزید ثبوت ہے کہ پی ٹی آئی کیسے ایک منظم مہم چلاتا ہے بہترین صحافیوں کی تضحیک کرنے کے لیے۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت سے سوال کرنا یا نتقید کرنا ان کی نوکری کا حصہ ہے اور اس کا مقصد اپوزیشن یا کسی اور کی طرف داری کرنا نہیں ہوتا۔‘
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے لکھا کہ بطور صحافی عاصمہ شیرازی کو موجودہ سیاسی صورتحال پر رپورٹ کرنے اور اس پر تجزیہ کرنے کا پورا حق ہے۔ ’جو ان سے اتفاق نہیں کرتے وہ اپنے تجزیے اور حقائق لا سکتے ہیں لیکن اس کا جواب گالیوں کی مہم سے کرنے سے جمہوریت مخالف ذہنیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔‘
ایسے میں صحافی مبشر زیدی عاصہ شیرازی کی تحریر سے اختلاف کرتے دکھائی دیے۔ انھوں نے لکھا کہ ’بصد احترام عاصمہ درج ذیل الفاظ صحافت کے زمرے میں نہیں آتے۔ حیران ہوں بی بی سی اردو نے کیسے اس تحریر کو چھپنے دیا۔
_121149868_mubashir.jpg

سورس

اور جب اس گھٹیا عورت کو اس کی اصل صورت دیکھائی جائے تو برا مان جاتی ہے
 

ranaji

President (40k+ posts)
اس امرتسری کنجر دلے ہاراں ولد نامعلوم گاہک والے کی اولاد نوازشریف بٹ مریم نواز شریف بٹ کا تو آغاز ہی امرتسر رام گلی کی اس گلی سے ہوا جہاں حرام کو ہی اصل حلال سمجھا جاتا ہے جس ٹبر کا آغاز ہی حرام سے ہوا ہو
 

Talisman

MPA (400+ posts)
Sakari Hajjan is a Saha FEE? or the employee of plmn RAW Nawaz Lohaar's mouth piece? Or even better bund piece?
She is a first cousin of harami serial pervert Saad Rafik, the paragon Dakoo.
Used to live in a two room flat with no toilet.fact. Ghusteee.
 

akbar41

Senator (1k+ posts)
Begaret randi apna scarf utar you are not able for this, we all know intact all Pakistani know in the world you are bitch and rakheel of ganjoo family choor family. Shut your mouth sahafi my foot, you are bitch not sahafi.