الطاف حسین، سندھی قوم پرستوں کے بعد آفاق احمد بھی اپنی سیاست چمکانے کیلئے لسانیت کو ہوا دینے لگے۔
حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آفاق احمد نے کہا کہ حیدرآباد کے لوگو! آج یہ وعدہ کرو کہ پٹھانوں کے ہوٹل پہ چائے پی کر اپنی جیبوں سے پیسہ انکی جیبوں میں منتقل نہیں کرو گے۔
آفاق احمد کا مزید کہنا تھا کہ کوئی ایک پٹھان کا ہوٹل بتادو جو ماچس کی ایک تیلی بھی کسی مہاجر کی دکان سے خریدتا ہو۔آپکو احساس ہونا چاہئے کہ جو شخص آپ سے کاروبار نہیں کررہا، آپ اس سے کاروبار نہیں کروگے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایک پٹھان ماچس کی تیلی خریدنے کیلئے دوسرےپٹھان کی دکان پہ جاتا ہے تو تمہاری سوچ میں بھی یہ تبدیلی آنی چاہئے۔تم ماچس خریدو، کپڑا خریدو یا مسور کی دال تم خریدو گے تو اپنی قوم کے بندے کی دکان سے
تحریک انصاف کے ایم این اے فہیم خان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آفاق احمد کی حیدرآباد میں اپنے خطاب میں لسانیت کی آگ بھڑکانے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتا ہوں، اپنے خطاب میں پشتونوں کے کاروبار کے بائیکاٹ کی کال دے کر نسلی نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کی، نفرت انگیز تقریر، نفرت انگیز جرائم کی طرف لے جاتی ہے اور آفاق احمد بالکل یہی کام کر رہے ہیں۔
حسن مسرور نے تبصرہ کیا کہ افسوس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ ایسے لوگوں نے کراچی پر حکمرانی کی۔ آفاق احمد کہتے ہیں پٹھانوں کے ہوٹل پر چائے نہیں پینا۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہم کس کے ہوٹل پر ہیں یہ شہر سب کا ہے لسانیت کی اتنی چھوٹی اور بیہودہ مثال کہیں نہیں ملے گی۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ آفاق احمد تم بھی بہت کم ظرف نکلے۔میسج تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ جس طرح پٹھان محنت کرتا ہے تم بھی محنت کرو۔چائے کے ہوٹل کھولو چوکیداری کرو ڈرائیوری کرو دیگر تمام محنت والے کام کرو۔لیکن تم تو لسانیت کو فروغ دے رہے ہو اپنی گندی سیاہ ست کے لئے
صحافی فیض اللہ سواتی نے لکھا کہ آفاق احمد سے صرف ایک سوال ہے کہ جب الطاف حسین کے خوف سے کوئی انکے کارکنوں کو گھر و دفتر دینے پہ تیار نہ تھا تب آدھی پارٹی اعلی قیادت کیساتھ پشتون اکثریتی شیر پاؤ کالونی میں رھتے ہوئے چائے اور ماچس کی تیلی خریدنے کہاں جاتے تھے ؟
ناشناس کا کہنا تھا کہ آفاق احمد اردو بولنے والا "علی وزیر" ہے۔ دونوں نفرت کا نسلی چورن فروخت کرتے ہیں۔ اپنی نسل کو برتر اور دوسروں کو قابل نفرت کہتے ہیں
ریحان نے لکھا کہ یہ گھٹیا خود کو مہاجروں کا لیڈر کہنے والا آفاق احمد خود ملیر کینٹ جیسے محفوظ ایریا میں رہتا ہے اور کراچی کے پسماندہ علاقوں میں رہنے والے پٹھان مہاجروں میں نفرت پھیلا رہا ہے. اس آگ سے نقصان غریب کراچی والوں کا ہوگا. اگر کسی پٹھان کا ہوٹل جلا تو زمہ دار اسے آزاد کرنے والے ہونگے.
علی رضا نے کہا کہ آفاق احمد کو پہلے ہی اردو بولنے والوں اور پختون کے درمیان حیدرآباد میں فساد کرانا تھا- اب وہ یہی کام ٹنڈوالہیار میں کرانے کی کوشش کرے گا- کچھ ہمارے یوتھ ونگ کے دوست بھی جذبات کے رو میں بہہ گئے ہیں- رہی سہی کسر علی پلھ نے تعزیت پر جانے کے بجائے امن ریلی نکال کر پوری کردی ہے
سلطان سالارزئی نے تبصرہ کیا کہ آفاق احمد ایم کیو ایم نے مہاجرقوم کوپشتونوں کےہوٹل کےبائیکاٹ کرنےکااعلان کیاہےجوانتہائی افسوس ناک ہے۔زبان اور قوم کےنام پہ تقسیم یہی نہیں رکےگی۔کل آپکی قوم میں الہ آبادی،دکنی،بہاری تقسیم بھی آئےگی۔منافرت سےکبھی قوم کابھلانہیں ہوا۔سیاسی مقاصدکےلیےعوام کولڑانامکروہ عمل ہے۔
صحافی طارق متین نے اقاق احمد کی باتوں کوبکواس قرار دیا
خرم علی کا کہنا تھا کہ آفاق احمد کو پھر نفرت کی دوکان لگانے کا حکم نامہ مل گیا ہے۔ مہاجروں کا استحصال پٹھان کی چائے سے نہیں بلکہ ان اداروں کے کاروباروں سے ہو رہا جو مافیا بن کر کراچی پر راج کر رہے ہیں اور آدھے سے زیادہ شہر کو کنٹونمنٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔