ٹماٹر نہرمیں پھینکنے والے شخص پر تنقید کرنیوالوں کو کلاسرا کا جواب

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
veteran-journalist-rauf-klasra-parts-away-from-public-news-1615816939-6555.jpg


بعض دفعہ ایسی ویڈیوز واٹس ایپ گروپس میں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ایک لمحے کے لیے آپ کا دل رک سا جاتا ہے۔ اسی طرح کی ایک مختصر دورانیے کی ویڈیو دیکھنے کو ملی جس کے بارے میں یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ ظاہر پیر کے رہائشی جام زبیر کی ہے۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ جام زبیر ایک کسان ہے جو اپنے بچوں کے ساتھ منڈی میں ٹماٹر بیچنے گیا تھا۔ ریڑھی پر ٹماٹر کے شاپر بھرے رکھے تھے لیکن منڈی میں سارا دن گزارنے کے باوجود وہ ٹماٹر نہیں بیچ سکا تھا۔ پانچ کلو کا ٹماٹروں سے بھرا ایک شاپر وہ بیس روپے بیچنا چاہ رہا تھا لیکن نہ بکا۔ پتہ نہیں اسے کیا سوجھی کہ وہ واپس گھر جاتے ہوئے نہر کے کنارے رکا۔ اس کا چھوٹا چھ سات سال کا بیٹا ایک سائیڈ پر بیٹھا ہے اور دو چھوٹے بچے ریڑھی کے آگے ہیں۔ باپ فرسٹریشن میں سارے شاپر اس چھوٹی نہر میں پھینک رہا ہے اور ساتھ منہ ہی منہ میں کچھ بول بھی رہا ہے۔

مجھے اس باپ کے دکھ سے زیادہ اس بچے کا کرب بھرا چہرہ ہانٹ کررہا ہے کہ صبح سویرے ماں باپ نے اٹھ کر کھیت سے وہ ٹماٹر چنے ہوں گے۔ انہیں صاف ستھرے شاپرز میں تول کر ڈالا ہوگا اور پھر منڈی کی طرف جاتے وقت اس چھوٹے سے بیٹے نے ضد کی ہوگی کہ اسے بھی باپ کے ساتھ شہر جانا ہے۔ باپ نے بیٹے کی ضد دیکھ کر اسے بھی ساتھ بٹھا لیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے سوچا ہو کہ ٹماٹر بک گئے تو وہ بچے کو بھی کچھ خرید دے گا‘ جو ممکن ہے اپنے ماں باپ کے ساتھ کھیت سے ٹماٹر اکٹھے کرتا رہا ہو۔ ممکن ہے بیوی نے بھی کوئی فرمائش کی ہوکہ اگر ٹماٹروں کا اچھا ریٹ مل جائے تو کچھ اس کے لیے بھی لیتے آنا۔ شاید جلیبیاں۔

وہ منڈی میں صبح سے دوپہر تک ٹماٹر بیچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن کوئی گاہک نہ ملا۔ ٹماٹروں کا ریٹ گر چکا تھا اور اب ٹکے ٹوکری بھی کوئی خریدنے کو تیار نہ تھا۔ اب ایک کسان کو ذہن میں لائیں جس نے یہ سوچ کر ٹماٹر کاشت کیا تھاکہ چند ماہ پہلے ٹماٹروں کی قلت ہونے سے اس کی قیمت تین سو روپے کلو سے بھی اوپر چلی گئی تھی‘ چنانچہ اب اسے اچھا ریٹ ملے گا۔ کسان اکثر یہی کرتے ہیں۔ جب ایک سال فصل کم ہوتی ہے اور ریٹ اوپر چلا جاتا ہے تو کیش کراپ کے چکر میں سب کسان وہی فصل کاشت کرنے لگ جاتے ہیں۔ اچانک فصل اترتی ہے تو پتہ چلتا ہے سب نے وہی کاشت کی ہے اور فصل بمپر ہوئی ہے‘ یوں سپلائی بڑھ جانے سے قیمت گر جاتی ہے۔

یہی دیکھ لیں جو ٹماٹر تین سو روپے فی کلو تک پہنچ گیا تھا وہ اب بیس روپے بھی کوئی نہیں خرید رہا تھا۔ اب اس فصل کی تیاری میں کسان اور اس کی بیوی نے جو محنت کی ہے، اس کو کھاد اور پانی دیا ہے، اس فصل کے ساتھ امیدیں باندھ لی ہیں کہ پیداوار سے کچھ پیسے ملیں گے‘ لیکن فصل پکنے کے بعد وہی کسان اپنے بچوں کے سامنے پیداوار نہر میں بہا رہا تھا۔

اس بچے کی بے بسی آنکھوں میں بس سی گئی ہے کہ وہ کچھ حیران ہے کہ باپ کیا کررہا ہے۔ وہ چھوٹی عمر میں یہ سب کچھ نہیں سمجھ پا رہا۔ وہ خوشی سے باپ کے ساتھ مارکیٹ گیا تھا‘ لیکن وہ خوشی ایک غم اور اداسی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ مجھے بتائیں یہ کسان کیا کرے گا؟ اس کا ایمان اب زراعت اور فصل سے اٹھ چکا ہے۔ وہ یا تو مزدوری کرنے شہر جائے گا تاکہ بچوں کو زندہ رکھ سکے یا اگر موقع ملا تو وہ زمین کسی ہائوسنگ سوسائٹی کو بیچ دے گا۔ اب سمجھ آ جانی چاہئے کہ آموں کے باغات ملتان میں کیوں کاٹ دیے گئے یا ان علاقوں میں زرعی زمینیں ہائوسنگ سوسائٹیز کو کیوں بیچ دی گئیں۔

اب کسان کیوں زمین کے ساتھ چھ ماہ جنگ لڑے، مہنگی کھاد، تیل خریدے، ہل جوتے اور پھر ایک طویل انتظار بعد فصل پک جائے تو بیچ نہ سکے اور نہر میں بہا دے؟ وہ کیوں نہ اس زمین کو ہی بیچ دے جس پر کوئی سرمایہ دار ہائوسنگ سوسائٹی کھڑی کرکے انہی شہریوں کو لاکھوں روپوں کی فی کنال بیچ دے‘ جو کسان سے بیس روپے کے ٹماٹر خریدنے کو تیار نہیں۔
پاکستانی کسانوں کو نقصان اس لیے اٹھانا پڑتا ہے کہ یہاں ان کی پروڈکٹس کو محفوظ رکھنے کا کوئی نظام نہیں بنایا گیا۔ کولڈ سٹوریجز پر کام نہیں کیا گیا۔ مجھے یاد ہے بیس سال پہلے جنرل مشرف دور میں چین نے پاکستان کو ماڈل فارمز اور کولڈ سٹوریجز بنانے کی پیشکش کی تھی تاکہ کسانوں کی ایسی پروڈکٹس جیسے پھل فروٹ، سبزیاں جو موسم کی وجہ سے جلد خراب ہوجاتی ہیں اور کسان کا نقصان ہوتا ہے‘ کو بچایا جا سکے۔ کچھ دن اس سکیم کا چرچا رہا اور اب بیس برس بعد مجھے بھی اس وقت یاد آیا جب میں نے یہ ویڈیو دیکھی۔

اگر اس کسان کے پاس بھی سٹوریج کی سہولت ہوتی تو وہ ٹماٹر ایسے اداسی اور بے بسی کے ساتھ نہر میں نہ بہا دیتا اور اس کا بیٹا معصوم آنکھوں سے باپ کی دولت لٹتے نہ دیکھتا۔
یہ کام حکومتوں کے کرنے کے تھے کہ وہ زرعی علاقوں میں کسانوں کیلئے جدید پیمانے پر کولڈ سٹوریجز کی سہولتوں پر کام کرتی۔ ان چھوٹے کسانوں کو مالی طور پر تباہ ہونے سے بچاتی تاکہ وہ یہ کیش کراپس اگر ایک دن نہ بیچ سکیں تو فرسٹریشن میں اسے نہر میں پھینکنے کے بجائے سٹور کر سکیں۔ یا ان ٹماٹروں کا کیچ اپ بنا کر بیچنے میں کسانوں کو مدد دیتی۔ یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی فصل خود خرید لے تاکہ چھوٹا کسان بالکل کرش نہ ہو جائے اور وہ سڑک پر نہ آجائے یا شہر میں مزدوری ڈھونڈنے نہ نکل جائے یا کل کلاں اپنی زمین کسی ہائوسنگ پروجیکٹ کو نہ بیچ دے۔ حکومتیں جب مہنگے ٹماٹر اور پیاز بھارت سے منگواتی ہیں تو اس پر بھی وافر تعداد میں ڈالرز خرچ کرتی ہیں۔ وہی پیسہ ان کسانوں پر لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے حکمران اور بیوروکریٹس اب تک سپلائی اور ڈیمانڈ میں کوئی توازن پیدا نہیں کرسکے۔ بیچارے ان پڑھ کسان کو کوئی گائیڈ کرنے کو تیار نہیں کہ اسے کونسی فصل کتنی کاشت کرنی چاہئے تاکہ اتنی زیادہ پیدا نہ ہو کہ قیمت ہی کریش کر جائے ۔

لیکن اس سے بڑا دکھ مجھے اس وقت ہوا جب وہ ویڈیو میں نے اپنے فیس بک اکائونٹس اور ٹویٹر پر شیئر کی تو لوگوں نے الٹا اس غریب کسان پر تبرا پڑھنا شروع کر دیا کہ اس نے کیوں ٹماٹر نہر میں پھینک دیے۔ اس نے مفت وہ ٹماٹر کیوں نہ بانٹ دیے، گلی گلی جا کر فروخت کیوں نہیں کیے۔ زرق کی بے حرمتی کیوں کی؟یہ کمنٹس کرنے والے بے حس لوگوں نے نہ کسان کی سی زندگی گزاری ہے اور نہ وہ اس تکلیف سے گزرے ہیں جس نے اس بے چارے کو مجبور کر دیا کہ وہ فرسٹریشن میں سب کچھ پانی میں بہا دے۔ کس کا دل چاہے گا کہ جس فصل کو اس نے بچوں کی طرح پالا پوسا وہ اسے اپنے بچوں کے سامنے ہی نہر میں بہا دے؟

کیا مفت لینے والوں کو علم نہیں کہ اس نے جو اس فصل پر خرچ کیا وہ کہاں سے کمائے اور اپنے بچوں اور خاندان کو کھلائے اور اگلی فصل کے لیے بیج‘ تیل کا بندوبست کرے۔ وہ کس در پر جائے اور دہائی دے کہ اس کی ساری جمع پونچی لٹ گئی ہے۔ چند ہمدردی کے الفاظ چھوڑیں الٹا ہم شہری بابو اس پر تنقید کررہے ہیں۔ جب ٹماٹر کی قیمت بڑھی تو یہی شہری بابو سنبھالے نہیں جارہے تھے کہ ٹماٹر بھی مہنگا ہوگیا۔ اب ٹماٹر سستا ہوگیا ہے تو خریدنے کے بجائے فرماتے ہیں کہ اگر اسے خریدار نہیں مل رہا تو لوگوں میں ٹماٹر مفت کیوں نہیں بانٹ دیے؟

حیرانی سے زیادہ ایسے انسانوں پر افسوس ہے جو اس کسان اور اس کے بچوں کا دکھ نہ سمجھ سکیں‘ ان کی بے بسی کو نہ دیکھ سکیں۔ مجھے نہیں پتہ اس کسان نے گھر جا کر بیوی کو کیا بتایا ہوگا کہ ریڑھی اگر ٹماٹروں سے خالی تھی تو مطلب سب بک گئے تھے تو پیسے کدھر گئے؟ اور اگر صدمے اور فرسٹریشن کے شکار جام زبیر کی زبان لڑکھڑا گئی ہوگی تو ان چھوٹے بچوں نے‘ جن کے سامنے وہ ٹماٹروں والے شاپرز نہر میں پھینک دیے گئے تھے، اپنی توتلی زبان میں ماں کو خوف زدہ اور دکھی آواز میں وہ سارا کرب کیسے بیان کیا ہوگاکہ ٹماٹروں سے بھری ریڑھی کے ساتھ بابا نے کیا حشر کیا تھا۔

 

miafridi

Prime Minister (20k+ posts)
Ghalat kaam par tanqeed hona bilkul sahi hota hai.

Warna yahi logic toh phir suicide karnay walay k baaray main bhi diya ja sakta hai k woh janta tah k woh kia kar raha hai aur kis qurb say guzar raha hai isi liye oska yeh amal thek tah.

And same logic can be given about government performance. Then why Rauf Kalasra criticize the government every now and then? Kia Govt k baaray main bhi phir yahi nhi kaha ja sakta k woh janti hai k woh jab bura perform karti hai toh unhay kitni gaaliya parhti hai, isi liye un par tanqeed nhi karni hai, hai na?
 
Last edited:

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
Or is tamatar walay bhai ko paya hona chahyay ksi bhai store kesay kartay hain. Kahan sell karna hai. Pulp bana kai save kar sakta tha.
If he goes around of streets in near city he could sold it in half day with good price.

But we hv a different approach in our business community if ur product is going cheap price destroy it by will so it get short in market and u can sell it on higher rate.

Rate should not be broke due to more supply.
 

Saifulpak

Senator (1k+ posts)
بے حسی کا تو یہ حال ہے کلاسرہ صاحب کہ آپ سال میں کم ازکم ایک کروڑ کماتے ہوگے۔ ایک لاکھ میں غریب کو کاروبار کرا دیتے اور سوشل میڈیا کے منہ پر تھپڑ رسید کرتے۔ لیکن آپ نے بھی تو کالم لکھ کر غریب کی غریبی پہ پیسہ ہی تو بنایا ہے۔
 

Young_Blood

Minister (2k+ posts)
If he goes around of streets in near city he could sold it in half day with good price.

But we hv a different approach in our business community if ur product is going cheap price destroy it by will so it get short in market and u can sell it on higher rate.

Rate should not be broke due to more supply.
Iss kisan bhai ne b shayed asaan raasta talaash keeya, mandi jaao aur sara maal aik saath bech do, but mein shirtiya kehta hoo k ye agar gali gali muhalla muhalla ja k sale karta to mandi se jo isse sare maal ka pesa milna tha uss se 15% se 20% ziada he milta.
Bhai ye business hai aur business mein nuqsan aur faieda dono hotey hein, jab tomato 300 per kg tha to iss kisan ne b khoob pesa kamaya ho ga. kabhi khushi kabhi gham, yehi hein zindagi k rung,,
 

tahirmajid

Chief Minister (5k+ posts)
sara din Mandi mein guzarney ki bijay kisi rush wali jagha pe khara ho jata or 50 ka shopper sale kar daita to araam se sale ho jaatey, aam bazar mein 15-20 kay kilo hain, ye 10 mein sale kar daita to kia burai thi, har cheez Mandi mein sale karna zarori to nahi. Insaan ko thora dimagh ka istamaal bhi karna chahiey, bijaey dosro ko ilzaam deney kay
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
روف کلاسرا کی بات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے کیوں کہ خود پسند شخص کبھی اپنے ارد گرد سے باہر نہیں نکل سکتا اس کو ہمیشہ اپنی برادری اپنا علاقہ اپنی اقرباپروری میری سوچ میں کیا چاہتا ہوں ہم نے کیا کہہ دیا ہم تو کمال کے لوگ ہیں کی پڑی رہتی ہے جس میں یہ شخص بڑی طرح مبتلا نظر آتا ہے ویسے بھی اس کو کسی درویش کی بدعا ہے کہ نا تمہیں سیدھی بات سمجھ آئے نہ تم سیدھی بات کر سکو ہمیشہ کسی بھٹکی روح کی طرح بھٹکتے رہو لیکن تم اپنے آ پ کو شاہین سمجھو اقبال کا نہیں لیہ مظفر گڑھ کا ان کی مشہور بات ہم نے بھی تو اپنا منجن بیچنا ہے لہذا بات وکھی سے نکال کر کرنی پڑتی ہے اس میں سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہیں کہ یہ تو منجن فروش گھٹیا سوچ کا مالک ہے شاید کبھی یہ کسی دانشور کی مثال دے زیادہ تو اس کے حوالے یہ انڈیا کی فلم یا کسی تھرے باز کے ہوں گیں اس زیادہ اس کی سوچ نہیں یہ ڈرامے باز کسی مداری کی طرح بات سناتا ہے اورمجمع مٹھی میں لینے کے لیے جو مرضی اول فول بکتا چلا جاتا ہے
ہی داستان گو کی طرح ایک نئی آسمان کی بلندیوں کو چھوتی جہاز بھری کہانی سنا دی اس کی ساری زندگی گیلانیوں کی جوتیوں میں گزری کون نہیں جانتا ایک دفعہ الیکشن کی لائیو ٹرانسمیشن میں عارف نظامی نے اسے کہا کہ تمھارے یوسف رضا گیلانی کے ساتھ تعلقات پر راز کھلوں تو اسے دندل پر گئی این بایں شائیں کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حال ہی میں اس نے پیسے نہ ملنے پر ایک ٹی وی چینل چھوڑا تو سی وی لے کر اور چینلوں کے پاس گیا تو اس میں اس نے لکھا میری ایکسپرٹیز میں کہانی گھڑنا بھی شامل ہے میں ایسی کہانی بناتا ہوں کہ جس کی کہانی ہوتی ہے وہ بھی حیران رہ جاتا ہے کہ مجھ سے زیادہ تو اس کو میرے حالات پتا ہیں ۔ اس کی دانشوری کا اندازا اس بات سے لگا لیں



جس کو مریم کی شکل میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نظر آتی ہو سوچیے اس کے دماغ کا علاج ہو نا چاہیے یا آنکھوں کا یا

وگرے تگرو کا پیر چھتڑ
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
jab apni zindagiyun ko ghalat nizaamen zindagi ke mutaabiq hi guzaaro ge to phir shikaayat kis baat ki?

haraami logoon ka yahee anjaam hai jo asal deene islam ko jaanane ki koshish to kia ehaasa tak hi nahin kerte. aaj aik ki baari hai to kal doosre ki.

logoon ke paas kaaghaz ke itne safhe gande kerne ka aur her tarah ke video banaane aur dekhne ka time to hai magar asal deene islam ko samajhne ka time bilkul hi nahin hai.

jaise taaqatwar log apna haraami pan khud zahir kerte hen apne kertootun se waise hi kamzor log bhi bhi apna haraami pan zahir kerte hen apni kertootun se halaan keh aqal khudaa ne dono ko di hai baatun ko sochne aur samajhne ki. For better understanding of deen of islam from the quran see HERE, HERE, HERE and HERE.

asal baat ye hai keh aik taraf ham ishtaraaki nizaam ko liye baithe hen to doosri taraf sarmayadaari nizaam ko aur teesri taraf ham socialist nizaam ko liye baithe hen jo dono ki aik mixture hai. nizaam sab hi drust hen insaanu ke nazriyaat ke mutaabiq. jo log taaqatwar hen woh chahte hen log apni zaat ke liye kaam karen jisse agar doosrun ko kuchh faida ho sakta hai to ho jaaye warna hamaari balaa se.

doosri tarah kamzor log kehte hen agar hamaare liye kuchh nahin hai to phir tumaare liye bhi kuchh nahin chhoren ge. teesri taraf ke log aik doosre ko behlaa phislaa ker apna apna ulloo seedha kerne ki koshish main lage rehte hen. issi liye koi aik nizaam bhi duniya bhar se ghareebi ko poori tarah se nahin hataa saka magar kashmakash jaari hai.

in sab nizaamun per hamesha se ijaaradaari mazhab ki rahee hai kyunkeh mazhab insaanu ki sab se pehli nazriyaati ijaad hai. mazhab ka zor tordne ke liye nizaame sarmayadaari ko laaya gayaa tha. is liye keh mullaan ne logoon ko ye aqeeda bataaya huwa tha keh sab kuchh khudaa ke ikhtiyaar main hai woh jisse chahta hai bahot deta hai aur jisse chata hai kuchh bhi nahin deta. yaani ameeri aur ghareebi khuda ne peda ki hai insaanu ne nahin.

nizaamen sarmaayadaari ne mullaam ke is aqeede ko poori tarah se ghalat saabit ker diya hai. kyunkeh nizaame sarmayadaari main jo jitna kaam kare ga us ko utna hi mile ga. issi liye aaj ka ghareeb kal ka ameer tareen insaan ban sakta hai.

doosri taraf ishtraaki nizaam ne ye manwaaya keh agar insaan mil jul ker kaam karen ge to un ko taraqi mile gi bahesiyate aik qowm. is nizaam ne bhi mazhabi aqeede ko poori tarah se naga ker ke rakh diya. yani agar log aik ho ker mehnat karen ge aur jo mile ga aapas main baant len ge to sab ka faaida ho ga. lihaaza ye kehna keh ameer aur ghareen khudaa banaata hia bilkul hi ghalat aqeeda sabit ho gayaa.

lihaaza agar log in nizaamun ko theek tarah se samajhna chahte hen to ye un ko samajhne ka saheeh context hai. lihaaza dono nizaam hi insaanu ko mazhab se nikaalne main kaafi had tak kaamyaab rahe.

problem kahaan peda hui? problem wahaan peda huwa jab logoon ne mullaan ke haraami pan per sawalaat uthaa diye ya khade ker diye. jisse log khudaa ko hi beech main se nikaal dene per tul ge. yahee wajah hai aaj na sarmaayadaari nizaam ke mutaabiq rehne waale log khudaa ko maante hen aur na hi ishtaraaki nizaam ke teht rehne waale log. woh ye samajh baithe hen keh jo mullaan kehte hen khudaa ke baare main wohee sach hai. magar haqeeqat main aisa her giz nahin hai.

mullaan to haraami hen keh in logoon ne khudaa ke asal paighaam ko kabhi drust tareeqe se samajhne ki koshish hi nahin ki hai. bas kuchh apni taraf se in logoon ne bebyunyaad aqeede ghard liye aur logoon ko bewaqoof banaana shuroo ker diya. aaj ye log poori tarah expose yaani nange ho chuke hen. yahee wajah hai logoon ki aksriyat ab socialist nizaam ki taraf badh rahee hai. albataa ye nizaam bhi insaanu ke asal masaail ka hal nahin hai.

in sab nizaamun ke fail hone ki badi wajah yahee hai keh in main khudaa ka drust tasawur mojood hi nahin hai jo sirf aur sirf quraan main hai. jis ko aakhari paighambre deene islam ne aakhari martaba riyaasate madina ki shakal main mutashakkil ker ke dikhaaya tha.

asal baat ye hai keh jab logoon ke dilon main koi kaam kerne ke liye koi motivation hi nahin hoti to phir woh koi bhi kaam ker hi nahin sakte. motivation ki bahot hi badi ehmiyat hoti hai jis ko samajhne ki zaroorat hai. na sirf ye balkeh agar koi ghalat motivation ho gi to log ghalat kaam ker guzren ge. issi liye sirf motivation laazmi nahin hai balkeh drust motivation laazmi hai ta keh log drust kaam kerne ke liye motivate hun ya ho saken ya kiye jaa saken. quraan insaaniyat ko ye pakki bunyaad fraham kerta hai. yahee quraan ke kitaabe khudaa hone ka pakka saboot hai. yahee wajah hai aik din sab logoon ko ye baat manani hi pade gi.
 
Last edited: