پاکستانی سیاست کے امراض

fahid_asif

Senator (1k+ posts)
Image_Haroon_ur_Rasheed_78.jpg
سینٹ میں ایسے لوگوں کی اکثریت کیوں ہے جو کسی اہلیت کے حامل نہیں اور عام انتخابات میں جیت نہیں سکتے۔رحمٰن ملک ، فاروق نائیک، بابر اعوان، چوہدری شجاعت، پرویز رشید، ظفر الحق ، چانڈیو ، عاشق ڈار، جاوید شاہ اور دوسرے۔یہ ایک بہت دلچسپ سوال ہے ۔ اس کے اورچھور پر غور کر لیا جائے تو بہت آسانی سے ہم پاکستانی سیاست کے امراض کو سمجھ سکتے ہیں ۔ راجہ ظفر الحق کو لیجئے۔ ان کی عمر اب غالباً 80برس کے قریب ہوگی۔ دس برس پہلے کسی نے حساب لگایا تھا ، کونسلر سے لے کر قومی اسمبلی تک انہوں نے 17الیکشن لڑے اور سب کے سب ہار دئیے۔ 1985ئ کے غیر جماعتی انتخابات میں اس طرح وہ میدان میں اترے تھے کہ سرکاری اور غیر سرکاری، پورا میڈیا ان کے ساتھ تھا۔پاکستان ٹیلی ویژن تو ظاہر ہے کہ ان کی جیب میں پڑا تھا اور سرکاری اخبارات بھی۔ آزاد اخبارات کا حال بھی یہ تھا کہ راجہ صاحب کی خبر چار کالمی اور ان کے حریف بلیو ائیر والے شاہد خاقان عباسی کے مرحوم والد خاقان عباسی کی سنگل کالمی ۔ ہر روز درجنوں نہیں ، سینکڑوں معززین ان کی حمایت کا اعلان کرتے ۔ راجہ ظفر الحق نے ، جو پڑھے لکھے اور ایمان دار آدمی سمجھے جاتے ہیں مگر سیاست میں ہر ایک حربے کو روا سمجھتے ہیں ، اخبارات اور مولویوں کے ذریعے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش بھی کی کہ خاقان عباسی قادیانی ہیں اور ووٹ خرید کر الیکشن جیتنے کے آرزومند۔ یہ سو فیصد غلط تھا۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور ووٹ خریدنے والے ہرگزنہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خاقان عباسی کو راجہ ظفر الحق کے سرپرست جنرل محمد ضیا ئ الحق ذاتی طور پر جانتے اور ان کی عزت کرتے تھے۔اس کے باوجود کردار کشی کی مہم ان کے خلاف جاری رہی۔ جس طرح میاں شہباز شریف سے ذاتی مراسم کے باوجود ان کی وزارتِ اطلاعات اور احسن اقبال کی ویب سائٹ نے دو برس سے میرے خلاف برپا کر رکھی ہے ۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنی بیگم کلثوم نواز سے ، مشرف مارشل لا کے بعد جب وہ میدان میں نکلی تو یہ کہا تھا : سیاست میں ایک سے ایک ایسا منافق آپ دیکھیں گی کہ دنگ رہ جائیں گی۔ نواز شریف سے زیادہ کون جانتا ہے کہ سیاست میں منافقت کیا ہوتی ہے ۔ وہ جنرل ضیا ئ الحق کی پیداوار تھے ۔ انہی کے جانشین بن کر ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئے اور ہر سال ان کی برسی پر اعلان کیا کرتے کہ وہ ضیا ئ الحق کا مشن پورا کر کے رہیں گے۔اب وہ ان کا نام تک نہیں لیتے۔ راجہ محمد ظفر الحق کو ضیا ئ الحق کا اوپننگ بیٹسمین کہا جاتا تھا لیکن کیا مجال کہ اب وہ ان کا ذکر بھی کریں۔ مکہ مکرمہ سے البتہ ایک خط میں انہوں نے نواز شریف کو یہ ضرور لکھا تھا کہ وہ ان کی درازی ئ عمر اور درازیئ اقتدار کے لیے دعا گو ہیں۔

رحمٰن ملک کا قصہ یہ ہے کہ وہ ایف آئی اے میں نچلے درجے کے ایک اہل کار تھے۔ خوشامد کے بل پر ترقی کرتے ہوئے ایک ذمہ دار عہدے تک جا پہنچے۔ وہ کسی کے وفادار تھے نہ بے وفا لیکن حادثہ یہ ہوا کہ ملک سے انہیں بھاگنا پڑا اور بے نظیر بھٹو کو ان کی ضرورت آپڑی۔ ایک بہت محنتی اور بہت خوشامدی آدمی ، جو کسی بھی وقت اپنی وفاداریاں تبدیل کر سکتا ہے ۔ بابر اعوان کی طرح انہیں مسٹر اپروول کہا جاتا ہے ۔ یعنی اگر حکومت بدل گئی تو صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کے خلاف وہ وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں۔ دونوں کا ماضی یہی ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر انہوں نے مٹھائی بانٹی تھی۔ ایک بات جو لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ ضیائ الحق کی موت کے بعد وہ اعجاز الحق کے نائب بننے کے لیے بے تاب تھے۔ اعجاز الحق مگر اپنے لیے کچھ نہ کر سکے تو ان کے لیے کیا کرتے۔ سینیٹر حضرات کی وہ قسم ، جس سے بابر اعوان اور فاروق نائیک کا تعلق ہے ، سیاست کے ایک اور سیاہ رخ کی نشان دہی کرتی ہے ۔ یہ مفت کے وکیل ہیں ، جو ابتلا کے دور میں سیاسی لیڈروں کی بلا معاوضہ وکالت کرتے ہیں ، بعد میں انہیں لائسنس جاری کر دیا جاتا ہے کہ وہ قوم سے اپنی خدمات کا معاوضہ قبول کر لیں۔ رحمٰن ملک ، فاروق نائیک یا بابر اعوان ۔۔۔ پرویز رشید یا راجہ ظفر الحق ، لیڈروںکو ان کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ کبھی ان سے اختلاف نہیں کرتے اور ان کے اشارہ ئ ابرو پر گھریلو خادموں کی طرح حرکت میں آتے ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف نے ایک بار اپنے بھائی شہباز شریف سے کہا تھا کہ انہیں اختلاف گوارا ہے لیکن اگر تنہائی میں ادب و احترام کے ساتھ کیا جائے۔ یہ کیا کہ برسرِ بزم کوئی منہ پھاڑ کر بات کرنا شروع کردے۔ تضادات کے مارے ہوئے ذہنی مریض ، جو خوشامد کے جوہڑ ہی میں آسودہ رہ سکتے ہیں ۔ اب نواز شریف اگر پرویز رشید اور صدر زرداری ، رحمٰن ملک کا انتخاب نہ کریں تو اور کیا کریں ۔

ہزاروں برس سے ملوکیت کے مارے معاشرے کو ادراک ہی نہیں کہ سیاست ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے ۔ اسے محض گنتی کے چند لیڈروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سیاسی جماعت وہ ہوتی ہے ، جس میں نچلی سطح تک الیکشن ہوں تاکہ ہر موضوع پر قومی امنگوں کا ادراک کیا جائے۔ اس ادراک کے نتیجے میں قومی پالیسیاں تشکیل دی جائیں اور ملک سرخرو ہو ۔ سیاسی لیڈر مگر اس سارے معاملے کو ایک کاروبار کی طرح دیکھتے ہیں اور کیوںنہ دیکھیں کہ دراصل وہ کاروباری لوگ ہی تو ہیں۔ پوری سنجیدگی سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ فوج نہیں ، بلکہ پیشہ ور سیاسی لیڈر ہیں ۔ صدر آصف علی زرداری ، نواز شریف ، اسفند یار ولی خان ، الطاف حسین اور فضل الرحمٰن۔ نا صرف یہ کہ دولت کے انبار انہوں نے جمع کر لیے ہیں بلکہ بیرون ملک منتقل بھی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان سے ان کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے اور وہ اپنا مستقبل ملک سے باہر دیکھتے ہیں ۔فوج کا کردار بھی اگرچہ بحیثیتِ مجموعی شرمناک ہی رہا لیکن اگر وہ نہ ہوتی تو اب تک یہ لوگ ملک کو بیچ کر کھا چکے ہوتے ۔ پاکستان کو ئی استثنیٰ نہیں ہے۔ اس کے مسائل کا حل بھی ایسے جمہوری اداروں کی تشکیل میں پوشیدہ ہے ، جو بتدریج باقی دنیا میں کارفرما ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہوتے گئے۔ مارشل لا کسی مسئلے کا حل نہیں ، جتنے مسئلے یہ حل کرتا ہے ، اس سے زیادہ پیدا کر ڈالتا ہے ۔ سول سوسائٹی اور پڑھے لکھے لوگوں کو سیاست میں بروئے کار آنا
ہوگا وگرنہ سیاست دانوںکا حال تو یہ ہے

بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف یا برادر ہووے