مردار خور گِدھ
نوشتہٕ دیوار واضح ہے اور اس بات میں کسی احمق کو بھی شبہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کی سیاست اور میڈیا پہ مردہ خور اور مکروہ چہرہ انسان نما گٍدھوں کا قبضہ ہے۔ایک طویل عرصے سے ٹیلیویژن سکرینز پہ ایسے لوگوں کا جبری قبضہ ہے جن میں شرم حیا،انسانی اقدار اور بنیادی اخلاقیات نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ان خواتین و حضرات کو جھوٹی خبریں اور رپورٹیں دینے کے بعد شرمسار ہونا تو بہت دور کی بات ہے،احساس دلانے پہ بھی شرم نہیں محسوس ہوتا کہ یہ ہر روز اپنے ہی چہرے پہ جھوٹ ،حسد ،کینہ اور موقع پرستی کی کالک مل کے اٹھتے ہیں اور کالک کی بدبودار ندی میں غوطہ لگا کے ہی سوتے ہیں۔
عمران خان کی سادگی کہیں یا ان ،"صحافی نما گدھوں" پہ ضرورت سے زیادہ بھروسہ کہہ لیں کہ انہوں نے اقتدار میں ۔٘ا تے ہی ان لوگوں کی رائے کو نہ صرف اہمیت دی بلکہ غیر معمولی توجہ سے ان کی "بونگیاں" بھی سنیں کیونکہ ان تمام میں سے کسی کا بھی ریاستی امور تو درکنار کسی بقالے کو چلانے کا بھی عملی تجربی نہیں تھا۔مگر جب ہر دوسرے صحافی کی تان کسی فرمائش پہ ٹوٹنے لگی تو عمران خان نے مزید وقت ضائع کیے بغیر ان صحافی نما مردہ خوروں سے مشورے لینا چھوڑ دیا۔یہیں سے "حکومتی نااہلی" اور دیگر بہت ساری چیزوں پہ بات کرنے میں شدت آگئی اور جب حکومت نے اہمیت نہ دی تو ان مردہ خور گدھوں نے ہر وہ بکواس کرنی شروع کردی جس سے عمران خان یا ریاست کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہوں۔کبھی جہانگیر ترین سے لڑوانے کی کوشش کی گئی تو کبھی زلفی بخآری کے بارے میں بے سروپا الزامات لگائے گئے۔جب جہانگیر ترین خان کے قریب ترین افراد میں شامل تھا تو الزام یہ ہوتا تھا کہ عمران نے چینی مافیا کو تحفظ دیا ہوا ہے۔مگر جب شوگر کمیشن کی رپورٹ ٓائی اور جہانگیر ترین کے خلاف کاروائی کا عندیہ دیا جانے لگا تو اچانک اسی جہانگیر ترین کو سب لوگ مظلوم بنا کر پیش کرنے لگ گئے۔زلفی بخآری اور علی زیدی کو باقاعدہ بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ صحافی تو کسی اخلاق اور ضابطے کے ماتحت ہوتے نہیں ہیں اس لیے تمام خبریں جھوٹی ثابت ہونے پہ بھی شرم سار نہیں ہوئے اور نہ ہی معافی مانگی گئی۔
بظاہر خود کو جمہوریت پسند اور لبرل کہنے والے یہی سب لوگ ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کی امید لے کر ملا ڈیزل کے جلسوں میں گئے تو کبھی ن لیگ اور زرداری لیگ کے تلوے چاٹتے نظر آئے۔مگر جب سارا کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تو وزیر اعظم کی اہلیہ پہ ذاتی نوعیت کے حملوں کا ایک پورا سلسلہ بے شرمی کے ساتھ شروع کردیا گیا۔حکومت سیاستدانوں کے حملے برداشت کرتی رہی مگر وہی حملے جب سلسلہ وار انداز سے سارے لفافہ خوروں نے شروع کردیے تو تمام مردار خور اکٹھے ہوکر چلانے لگ گئے کہ "ابو ابو یہ ہمیں مارتے ہیں".اخلاقی پستی اور نیچ پنے کی انتہا یہ ہے کہ خود خاتون ہونے کا کارڈ بھی کھیلنے سے باز نہیں آتیں اور پردہ دار خواتین پہ جادو جیسے غیر شرعی فعل کے الزام بھی لگاتی ہیں۔کوئی کچھ کہے تو وہی پرانا آزادی صحافت کا گھسا پٹا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔بے شرمی اور گھٹیا پن کی انتہا تب دیکھنے کو ملی کہ جب آئی ایس آئی کے سربراہ کی نوٹیفیکیشن جیسے حساس معاملے پہ بھی یہ افواہیں پھیلائی جانے لگیں کہ شاید مارشل لاء نافذ ہونے والا ہے۔
یہ سب گھٹیا پن اس لیے کیونکہ عمران خان کسی صحافی کو سرکاری عہدہ دینے کے حق میں ہے اور نہ ہی نیم خواندہ قسم کے بلیک میلرز کو لفافے دینے کی قبیح روایت پہ عمل کرتا ہے۔یہی سب سے بڑا جھگڑا ہے اور یہی سب سے بڑی شامی ہے عمران خان میں۔یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر کل کلاں کو حکومت انہی مردہ خوروں میں سے کسی ایک کو سرکاری عہدہ دے دیتی ہے تو ایک ہی ساعت میں عمران خان قائد اعظم ثانی بن جائے گا اور دودھ کی نہریں بہتی نظر آئیں گی۔مگر کیا اس حکومت کو ایسا کرنا چاہیے؟پاکستان کے باشعور لوگ جو۔ بین الاقوامی بد معاشوں کے مقابلے میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں تو ان بدمعاشوں کے مقابلے میں بھی کھڑے ہوسکتے ہیں۔حکومت نے ہر معاملے میں ان مردار خوروں کو ڈھیل دینے کی کوشش کی ہے مگر اب عمل کا وقت ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کے خلاف سرگرم عمل ہر مردار خور کو نشان عبرت بنایا جائے اور اس کے لیے ہر دباءو کا اسی طرح مقابلہ کیا جائے جیسے باقی پریشرز کا کیا جارہا ہے۔ایسا ہوگیا تو یہ معاشرے کی تشکیل ِ نو کا سبب بنے گا اور اگر ان لوگوں کو مزید ڈھیل دی گئی تو پھر یہ معاشرے کسی باغیرت شخص کو اقتدار سونپنے کے قابل نہیں رہے گا۔
نوشتہٕ دیوار واضح ہے اور اس بات میں کسی احمق کو بھی شبہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کی سیاست اور میڈیا پہ مردہ خور اور مکروہ چہرہ انسان نما گٍدھوں کا قبضہ ہے۔ایک طویل عرصے سے ٹیلیویژن سکرینز پہ ایسے لوگوں کا جبری قبضہ ہے جن میں شرم حیا،انسانی اقدار اور بنیادی اخلاقیات نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ان خواتین و حضرات کو جھوٹی خبریں اور رپورٹیں دینے کے بعد شرمسار ہونا تو بہت دور کی بات ہے،احساس دلانے پہ بھی شرم نہیں محسوس ہوتا کہ یہ ہر روز اپنے ہی چہرے پہ جھوٹ ،حسد ،کینہ اور موقع پرستی کی کالک مل کے اٹھتے ہیں اور کالک کی بدبودار ندی میں غوطہ لگا کے ہی سوتے ہیں۔
عمران خان کی سادگی کہیں یا ان ،"صحافی نما گدھوں" پہ ضرورت سے زیادہ بھروسہ کہہ لیں کہ انہوں نے اقتدار میں ۔٘ا تے ہی ان لوگوں کی رائے کو نہ صرف اہمیت دی بلکہ غیر معمولی توجہ سے ان کی "بونگیاں" بھی سنیں کیونکہ ان تمام میں سے کسی کا بھی ریاستی امور تو درکنار کسی بقالے کو چلانے کا بھی عملی تجربی نہیں تھا۔مگر جب ہر دوسرے صحافی کی تان کسی فرمائش پہ ٹوٹنے لگی تو عمران خان نے مزید وقت ضائع کیے بغیر ان صحافی نما مردہ خوروں سے مشورے لینا چھوڑ دیا۔یہیں سے "حکومتی نااہلی" اور دیگر بہت ساری چیزوں پہ بات کرنے میں شدت آگئی اور جب حکومت نے اہمیت نہ دی تو ان مردہ خور گدھوں نے ہر وہ بکواس کرنی شروع کردی جس سے عمران خان یا ریاست کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہوں۔کبھی جہانگیر ترین سے لڑوانے کی کوشش کی گئی تو کبھی زلفی بخآری کے بارے میں بے سروپا الزامات لگائے گئے۔جب جہانگیر ترین خان کے قریب ترین افراد میں شامل تھا تو الزام یہ ہوتا تھا کہ عمران نے چینی مافیا کو تحفظ دیا ہوا ہے۔مگر جب شوگر کمیشن کی رپورٹ ٓائی اور جہانگیر ترین کے خلاف کاروائی کا عندیہ دیا جانے لگا تو اچانک اسی جہانگیر ترین کو سب لوگ مظلوم بنا کر پیش کرنے لگ گئے۔زلفی بخآری اور علی زیدی کو باقاعدہ بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ صحافی تو کسی اخلاق اور ضابطے کے ماتحت ہوتے نہیں ہیں اس لیے تمام خبریں جھوٹی ثابت ہونے پہ بھی شرم سار نہیں ہوئے اور نہ ہی معافی مانگی گئی۔
بظاہر خود کو جمہوریت پسند اور لبرل کہنے والے یہی سب لوگ ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کی امید لے کر ملا ڈیزل کے جلسوں میں گئے تو کبھی ن لیگ اور زرداری لیگ کے تلوے چاٹتے نظر آئے۔مگر جب سارا کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تو وزیر اعظم کی اہلیہ پہ ذاتی نوعیت کے حملوں کا ایک پورا سلسلہ بے شرمی کے ساتھ شروع کردیا گیا۔حکومت سیاستدانوں کے حملے برداشت کرتی رہی مگر وہی حملے جب سلسلہ وار انداز سے سارے لفافہ خوروں نے شروع کردیے تو تمام مردار خور اکٹھے ہوکر چلانے لگ گئے کہ "ابو ابو یہ ہمیں مارتے ہیں".اخلاقی پستی اور نیچ پنے کی انتہا یہ ہے کہ خود خاتون ہونے کا کارڈ بھی کھیلنے سے باز نہیں آتیں اور پردہ دار خواتین پہ جادو جیسے غیر شرعی فعل کے الزام بھی لگاتی ہیں۔کوئی کچھ کہے تو وہی پرانا آزادی صحافت کا گھسا پٹا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔بے شرمی اور گھٹیا پن کی انتہا تب دیکھنے کو ملی کہ جب آئی ایس آئی کے سربراہ کی نوٹیفیکیشن جیسے حساس معاملے پہ بھی یہ افواہیں پھیلائی جانے لگیں کہ شاید مارشل لاء نافذ ہونے والا ہے۔
یہ سب گھٹیا پن اس لیے کیونکہ عمران خان کسی صحافی کو سرکاری عہدہ دینے کے حق میں ہے اور نہ ہی نیم خواندہ قسم کے بلیک میلرز کو لفافے دینے کی قبیح روایت پہ عمل کرتا ہے۔یہی سب سے بڑا جھگڑا ہے اور یہی سب سے بڑی شامی ہے عمران خان میں۔یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر کل کلاں کو حکومت انہی مردہ خوروں میں سے کسی ایک کو سرکاری عہدہ دے دیتی ہے تو ایک ہی ساعت میں عمران خان قائد اعظم ثانی بن جائے گا اور دودھ کی نہریں بہتی نظر آئیں گی۔مگر کیا اس حکومت کو ایسا کرنا چاہیے؟پاکستان کے باشعور لوگ جو۔ بین الاقوامی بد معاشوں کے مقابلے میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں تو ان بدمعاشوں کے مقابلے میں بھی کھڑے ہوسکتے ہیں۔حکومت نے ہر معاملے میں ان مردار خوروں کو ڈھیل دینے کی کوشش کی ہے مگر اب عمل کا وقت ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کے خلاف سرگرم عمل ہر مردار خور کو نشان عبرت بنایا جائے اور اس کے لیے ہر دباءو کا اسی طرح مقابلہ کیا جائے جیسے باقی پریشرز کا کیا جارہا ہے۔ایسا ہوگیا تو یہ معاشرے کی تشکیل ِ نو کا سبب بنے گا اور اگر ان لوگوں کو مزید ڈھیل دی گئی تو پھر یہ معاشرے کسی باغیرت شخص کو اقتدار سونپنے کے قابل نہیں رہے گا۔