پاکستانی ڈرامے: دو لاکھ روپے تنخواہ، گزارا کیسے ہو گا؟

asad.kiyani

Senator (1k+ posts)
پاکستانی ڈرامے: دو لاکھ روپے تنخواہ، گزارا کیسے ہو گا؟

ایک زمانہ تھا کہ ٹی وی ڈراما لگتے ہی گلیاں ویران ہو جاتی تھیں۔ اب لگتا ہے ڈراما نگاروں کے ذہن سنسان ہو گئے ہیں۔


95401-1319571352.jpg


’میں تم سے نکاح نہیں کر سکتی، کیونکہ میں چاہتی ہوں تم لائف میں تھوڑا سیٹل ہو جاؤ۔ ‘

’سیٹل؟اچھا خاصا سیٹل ہوں۔ اچھی جاب ہے میرے پاس۔ ‘

’دو لاکھ سیلری ہے تمہاری، دو لاکھ میں کیا ہوتا ہے؟“

یہ مکالمے ہیں اے آر وائی کے ڈرامے ’جلن‘ کے، جس میں لڑکی اپنی بہن کی شان و شوکت سے متاثر ہو کر غربت کا رونا روتی نظر آتی ہے۔

ابو بتاتے ہیں کہ پی ٹی وی پر جب ڈرامے کا آغاز ہوتا تھا تو کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ خدا کی بستی، وارث، دھوپ کنارے، تنہائیاں، ان کہی، آنچ، دھواں، ایسے چند یادگار ڈرامے ہیں۔ الف نون، ففٹی ففٹی، عینک والا جن، آنگن ٹیڑھا کو دیکھنے والے آج بھی نہیں بھولے۔

کبھی یوٹیوب پر پرانی موجود ریکارڈنگ دیکھیں تو ایک مقناطیسی کشش محسوس ہوتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے ہمارے استاد ڈاکٹر محمود غزنوی بتاتے تھے کہ لوگ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کو دیکھ کر اپنا تلفظ درست کرتے تھے کیونکہ ریکارڈنگ سے پہلے باقاعدہ ریہرسل ہوتی تھی اور اس میں غلطی کی گنجائش نہیں تھی۔

ہم نے سٹار پلس کو سکرین پر جلوہ گر ہوتے دیکھا۔ اس کے ڈرامے پاکستانی ناظرین میں مقبول ہوئے۔ کُم کُم کے جھمکے اور تلسی کی بندیا بازاروں میں ملنے لگیں۔ مگران ڈراموں نے عروج سے زوال کا سفر بڑی تیزی سے طے کیا کیونکہ ان میں دور دور تک حقیقت کا شائبہ نہیں تھا۔ لوگ اپنی زندگی کا عکس ان ڈراموں میں نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ امیر ترین کوٹھیوں میں فارغ بیٹھے لوگ ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔


پھر یہ ڈرامے محض مذاق اڑانے کے لیے یاد کیے جانے لگے۔ لوگوں کو پھر اپنے ہی ڈرامے یاد آئے۔ وہی پرانا پی ٹی وی کا دور، اگلی قسط دیکھنے کے لیے بے چین عوام اور سنسان سڑکیں پھر سے لوگوں کو ماضی میں لے جانے لگیں۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں نے یہ کمی پوری کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اچھے ڈرامے تخلیق کرنے کی کوشش کی اور کسی حد تک ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔

ان میں سے کئی منتخب ڈرامے بھارت میں زندگی ٹی وی پر بھی دکھائے گئے۔ مگر آج کل جب میں کسی پاکستانی ڈرامے کا کوئی سین دیکھتی ہوں تو سٹار پلس کے ڈرامے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ ساس بہو کے جھگڑوں، دوسری عورتوں کے خلاف سازشوں، زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے علاوہ ان ڈراموں کے کرداروں کا کوئی اور مقصد حیات نظر نہیں آتا۔ عالیشان محلوں میں رہنے والے یہ کردار کام وام کیے بغیر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔

بالخصوص خواتین کا کردار انتہائی دلچسپ ہے، کوئی ڈراما دیکھ لیں۔ اس میں ہر لڑکی کی زندگی کا اولین مقصد کسی دولت مند شخص کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ پھر اس کے لیے کتنی ہی تگ و دو کیوں نہ کرنی پڑے۔ بقیہ پورا ڈراما اسی ننھی خواہش کے گرد گھومتا نظرآتا ہے۔ مثلاَ ڈراما ’جلن‘ میں لڑکی اپنے رئیس بہنوئی کی دولت سے متاثر ہے اور اس کے حصول کے لیے بہن کی جگہ لینے کی خواہش مند ہے۔

’عشقیہ‘ میں بہنوئی بڑی فرصت سے اپنی سالی کو تنگ کر کے اسے بلیک میل کرتا ہے۔ ’دیوانگی‘ میں ایک مالک اپنے ماتحت کی بیوی کو جبکہ ’میں نہ جانوں‘ میں لڑکا اپنی کزن کو تنگ کیے ہوئے ہے۔ اتفاق سے ان کے آس پاس کے کردار یہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ زندگی عذاب بنا لو مگر خبردار جو اپنے شوہر کو اعتماد میں لے کر یہ بات اس سے شیئر کرنے کی کوشش کی تو۔

دونوں خواتین شوہروں کا تعاون حاصل ہونے کے باوجود مٹی کی مادھو بنی بیٹھی ہیں اور آرام سے ڈرامے کے اختتام تک بلیک میل ہوتی رہیں۔ ڈراما ’پیارکے صدقے‘ میں اچھے خاصے گھرانے کی اکلوتی لڑکی ہیرو کے رشتے سے انکار کرتے ہوئے اپنی پسند سے شادی کرتی ہے مگر دوسرے دن ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ تو غلط ہو گیا۔ اب بقیہ ڈراموں کی طرح حسب معمول اس کی زندگی کا محور بھی’ہیرو‘ کا حصول ہے۔

55029d1143725.jpg


اسی طرح ایک ڈرامے میں سسر کے انتقال پر داماد کے یہ کہنے پر کہ اگر ہمیں بیماری کا بتایا ہوتا تو ہم کوئی مدد کر دیتے، لڑکی کی ساس کہتی نظر آتی ہیں کہ انھوں نے وہی کیا جو ایک لڑکی کے باپ کو کرنا چاہیے، انھوں نے مرنا تو گوارا کیا مگر اپنی بیٹی پر بوجھ بننا نہیں۔ یعنی یہ دقیانوسی معاشرتی روایات ایک انسان کی جان سے بھی زیادہ قیمتی ہیں اور اس جدید دور میں بھی اس سوچ کو فروغ دے رہے ہیں کہ مشکل کے وقت اپنے عزیز و اقارب سے شیئر کرنے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیں۔

یہ تو محض چند ایک مثالیں ہیں، کوئی ڈراما دیکھ لیں۔ اس میں موجود ایک کردار ایسا ضرور ہو گا جومحض دوسروں کی زندگیوں کی بربادی کا بیڑا اٹھائے ہوئے انہیں تباہ کرنے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کرتا نظر آئے گا۔ عموماً یہ کردار خواتین کو ہی دیے جاتے ہیں۔

برنس روڈ کی نیلوفر، محمود آباد کی ملکائیں، رومانس آف رنچھوڑ لائن جیسے ڈراموں کے مصنفوں اور ہدایت کاروں نے ڈرامے بناتے ہوئے علاقوں کا نام سن کر ہی اندازہ لگا لیا کہ وہاں کی خواتین کن معاملات میں دلچسپی رکھتی ہوں گی اور ان کا طرز زندگی کیسا ہو گا۔

کوئی انہیں بتائے کہ اب ان ڈراموں میں سٹار پلس کا عکس نظرآتا ہے جس کا ہماری زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں اور ہاں آس پاس نظر دوڑایے، بہت سے ایسے موضوعات ملیں گے جن پر ڈرامے بنانے کی زیادہ گنجائش ہے اور یہ چورن نہ بیچیں کہ لوگ جو دیکھنا چاہیں گے، وہی بنانا مجبوری ہے۔ یقین مانیں، اس ٹریش کو دیکھنے میں کسی کو بھی دلچسپی نہیں۔


 

Pnauman Elvy

Politcal Worker (100+ posts)
In the sociology circles this has been called democratisation of media. You may consider it bastardisation of media. In 70's, 80's selection for producers, directors were done by panel of professors, bureaucrats and intellectuals . It was akin to FPSC or CSS selection. The idea was education, information and entertainment.
Mairasion aur randion ko ada-kaar naheen kaha jata tha us waqt. The bottom line is 'profit' now. Sex sells, no effort required.
No wonder all the dramas are based on lust and incest nowadays.
 

maheen khan

New Member
as per my point of view They will give you some real-life lessons: You will end up learning so many lessons and you'll find that watching a serial was actually quality time.
 

akinternational

Minister (2k+ posts)
دو لاکھ سیلری میں کچھ نہیں ہوتا تو پھر چوری ڈاکے اور سمگلنگ کے علاوہ اور کیا آپشن ہے ؟
ismat faroshi!!! ya agar Allah per yaqeen hai to sadgi aur pardah....
waahid hal inqelab e islami ke zarye sharia't ka nifaz.... haq ke liye jiddojohad, sabr aur Allah per tawakkal.... FIRQBAZI HARAM HAI MUSLIM BANO
 

Oldwish

Senator (1k+ posts)
پاکستانی ڈرامے: دو لاکھ روپے تنخواہ، گزارا کیسے ہو گا؟

ایک زمانہ تھا کہ ٹی وی ڈراما لگتے ہی گلیاں ویران ہو جاتی تھیں۔ اب لگتا ہے ڈراما نگاروں کے ذہن سنسان ہو گئے ہیں۔


95401-1319571352.jpg


’میں تم سے نکاح نہیں کر سکتی، کیونکہ میں چاہتی ہوں تم لائف میں تھوڑا سیٹل ہو جاؤ۔ ‘

’سیٹل؟اچھا خاصا سیٹل ہوں۔ اچھی جاب ہے میرے پاس۔ ‘

’دو لاکھ سیلری ہے تمہاری، دو لاکھ میں کیا ہوتا ہے؟“

یہ مکالمے ہیں اے آر وائی کے ڈرامے ’جلن‘ کے، جس میں لڑکی اپنی بہن کی شان و شوکت سے متاثر ہو کر غربت کا رونا روتی نظر آتی ہے۔

ابو بتاتے ہیں کہ پی ٹی وی پر جب ڈرامے کا آغاز ہوتا تھا تو کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ خدا کی بستی، وارث، دھوپ کنارے، تنہائیاں، ان کہی، آنچ، دھواں، ایسے چند یادگار ڈرامے ہیں۔ الف نون، ففٹی ففٹی، عینک والا جن، آنگن ٹیڑھا کو دیکھنے والے آج بھی نہیں بھولے۔

کبھی یوٹیوب پر پرانی موجود ریکارڈنگ دیکھیں تو ایک مقناطیسی کشش محسوس ہوتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے ہمارے استاد ڈاکٹر محمود غزنوی بتاتے تھے کہ لوگ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کو دیکھ کر اپنا تلفظ درست کرتے تھے کیونکہ ریکارڈنگ سے پہلے باقاعدہ ریہرسل ہوتی تھی اور اس میں غلطی کی گنجائش نہیں تھی۔

ہم نے سٹار پلس کو سکرین پر جلوہ گر ہوتے دیکھا۔ اس کے ڈرامے پاکستانی ناظرین میں مقبول ہوئے۔ کُم کُم کے جھمکے اور تلسی کی بندیا بازاروں میں ملنے لگیں۔ مگران ڈراموں نے عروج سے زوال کا سفر بڑی تیزی سے طے کیا کیونکہ ان میں دور دور تک حقیقت کا شائبہ نہیں تھا۔ لوگ اپنی زندگی کا عکس ان ڈراموں میں نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ امیر ترین کوٹھیوں میں فارغ بیٹھے لوگ ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔


پھر یہ ڈرامے محض مذاق اڑانے کے لیے یاد کیے جانے لگے۔ لوگوں کو پھر اپنے ہی ڈرامے یاد آئے۔ وہی پرانا پی ٹی وی کا دور، اگلی قسط دیکھنے کے لیے بے چین عوام اور سنسان سڑکیں پھر سے لوگوں کو ماضی میں لے جانے لگیں۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں نے یہ کمی پوری کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اچھے ڈرامے تخلیق کرنے کی کوشش کی اور کسی حد تک ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔

ان میں سے کئی منتخب ڈرامے بھارت میں زندگی ٹی وی پر بھی دکھائے گئے۔ مگر آج کل جب میں کسی پاکستانی ڈرامے کا کوئی سین دیکھتی ہوں تو سٹار پلس کے ڈرامے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ ساس بہو کے جھگڑوں، دوسری عورتوں کے خلاف سازشوں، زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے علاوہ ان ڈراموں کے کرداروں کا کوئی اور مقصد حیات نظر نہیں آتا۔ عالیشان محلوں میں رہنے والے یہ کردار کام وام کیے بغیر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔

بالخصوص خواتین کا کردار انتہائی دلچسپ ہے، کوئی ڈراما دیکھ لیں۔ اس میں ہر لڑکی کی زندگی کا اولین مقصد کسی دولت مند شخص کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ پھر اس کے لیے کتنی ہی تگ و دو کیوں نہ کرنی پڑے۔ بقیہ پورا ڈراما اسی ننھی خواہش کے گرد گھومتا نظرآتا ہے۔ مثلاَ ڈراما ’جلن‘ میں لڑکی اپنے رئیس بہنوئی کی دولت سے متاثر ہے اور اس کے حصول کے لیے بہن کی جگہ لینے کی خواہش مند ہے۔

’عشقیہ‘ میں بہنوئی بڑی فرصت سے اپنی سالی کو تنگ کر کے اسے بلیک میل کرتا ہے۔ ’دیوانگی‘ میں ایک مالک اپنے ماتحت کی بیوی کو جبکہ ’میں نہ جانوں‘ میں لڑکا اپنی کزن کو تنگ کیے ہوئے ہے۔ اتفاق سے ان کے آس پاس کے کردار یہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ زندگی عذاب بنا لو مگر خبردار جو اپنے شوہر کو اعتماد میں لے کر یہ بات اس سے شیئر کرنے کی کوشش کی تو۔

دونوں خواتین شوہروں کا تعاون حاصل ہونے کے باوجود مٹی کی مادھو بنی بیٹھی ہیں اور آرام سے ڈرامے کے اختتام تک بلیک میل ہوتی رہیں۔ ڈراما ’پیارکے صدقے‘ میں اچھے خاصے گھرانے کی اکلوتی لڑکی ہیرو کے رشتے سے انکار کرتے ہوئے اپنی پسند سے شادی کرتی ہے مگر دوسرے دن ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ تو غلط ہو گیا۔ اب بقیہ ڈراموں کی طرح حسب معمول اس کی زندگی کا محور بھی’ہیرو‘ کا حصول ہے۔

55029d1143725.jpg


اسی طرح ایک ڈرامے میں سسر کے انتقال پر داماد کے یہ کہنے پر کہ اگر ہمیں بیماری کا بتایا ہوتا تو ہم کوئی مدد کر دیتے، لڑکی کی ساس کہتی نظر آتی ہیں کہ انھوں نے وہی کیا جو ایک لڑکی کے باپ کو کرنا چاہیے، انھوں نے مرنا تو گوارا کیا مگر اپنی بیٹی پر بوجھ بننا نہیں۔ یعنی یہ دقیانوسی معاشرتی روایات ایک انسان کی جان سے بھی زیادہ قیمتی ہیں اور اس جدید دور میں بھی اس سوچ کو فروغ دے رہے ہیں کہ مشکل کے وقت اپنے عزیز و اقارب سے شیئر کرنے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیں۔

یہ تو محض چند ایک مثالیں ہیں، کوئی ڈراما دیکھ لیں۔ اس میں موجود ایک کردار ایسا ضرور ہو گا جومحض دوسروں کی زندگیوں کی بربادی کا بیڑا اٹھائے ہوئے انہیں تباہ کرنے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کرتا نظر آئے گا۔ عموماً یہ کردار خواتین کو ہی دیے جاتے ہیں۔

برنس روڈ کی نیلوفر، محمود آباد کی ملکائیں، رومانس آف رنچھوڑ لائن جیسے ڈراموں کے مصنفوں اور ہدایت کاروں نے ڈرامے بناتے ہوئے علاقوں کا نام سن کر ہی اندازہ لگا لیا کہ وہاں کی خواتین کن معاملات میں دلچسپی رکھتی ہوں گی اور ان کا طرز زندگی کیسا ہو گا۔

کوئی انہیں بتائے کہ اب ان ڈراموں میں سٹار پلس کا عکس نظرآتا ہے جس کا ہماری زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں اور ہاں آس پاس نظر دوڑایے، بہت سے ایسے موضوعات ملیں گے جن پر ڈرامے بنانے کی زیادہ گنجائش ہے اور یہ چورن نہ بیچیں کہ لوگ جو دیکھنا چاہیں گے، وہی بنانا مجبوری ہے۔ یقین مانیں، اس ٹریش کو دیکھنے میں کسی کو بھی دلچسپی نہیں۔


MP ka 2.5 main guraza nahi hota to is main kon si bari baat hy. Woh bhi bhi to bas aik actor hi hy na
 

Ex-Terminator

Politcal Worker (100+ posts)
پاکستانی ڈرامے: دو لاکھ روپے تنخواہ، گزارا کیسے ہو گا؟

ایک زمانہ تھا کہ ٹی وی ڈراما لگتے ہی گلیاں ویران ہو جاتی تھیں۔ اب لگتا ہے ڈراما نگاروں کے ذہن سنسان ہو گئے ہیں۔


95401-1319571352.jpg


’میں تم سے نکاح نہیں کر سکتی، کیونکہ میں چاہتی ہوں تم لائف میں تھوڑا سیٹل ہو جاؤ۔ ‘

’سیٹل؟اچھا خاصا سیٹل ہوں۔ اچھی جاب ہے میرے پاس۔ ‘

’دو لاکھ سیلری ہے تمہاری، دو لاکھ میں کیا ہوتا ہے؟“

یہ مکالمے ہیں اے آر وائی کے ڈرامے ’جلن‘ کے، جس میں لڑکی اپنی بہن کی شان و شوکت سے متاثر ہو کر غربت کا رونا روتی نظر آتی ہے۔

ابو بتاتے ہیں کہ پی ٹی وی پر جب ڈرامے کا آغاز ہوتا تھا تو کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ خدا کی بستی، وارث، دھوپ کنارے، تنہائیاں، ان کہی، آنچ، دھواں، ایسے چند یادگار ڈرامے ہیں۔ الف نون، ففٹی ففٹی، عینک والا جن، آنگن ٹیڑھا کو دیکھنے والے آج بھی نہیں بھولے۔

کبھی یوٹیوب پر پرانی موجود ریکارڈنگ دیکھیں تو ایک مقناطیسی کشش محسوس ہوتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے ہمارے استاد ڈاکٹر محمود غزنوی بتاتے تھے کہ لوگ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کو دیکھ کر اپنا تلفظ درست کرتے تھے کیونکہ ریکارڈنگ سے پہلے باقاعدہ ریہرسل ہوتی تھی اور اس میں غلطی کی گنجائش نہیں تھی۔

ہم نے سٹار پلس کو سکرین پر جلوہ گر ہوتے دیکھا۔ اس کے ڈرامے پاکستانی ناظرین میں مقبول ہوئے۔ کُم کُم کے جھمکے اور تلسی کی بندیا بازاروں میں ملنے لگیں۔ مگران ڈراموں نے عروج سے زوال کا سفر بڑی تیزی سے طے کیا کیونکہ ان میں دور دور تک حقیقت کا شائبہ نہیں تھا۔ لوگ اپنی زندگی کا عکس ان ڈراموں میں نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ امیر ترین کوٹھیوں میں فارغ بیٹھے لوگ ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔


پھر یہ ڈرامے محض مذاق اڑانے کے لیے یاد کیے جانے لگے۔ لوگوں کو پھر اپنے ہی ڈرامے یاد آئے۔ وہی پرانا پی ٹی وی کا دور، اگلی قسط دیکھنے کے لیے بے چین عوام اور سنسان سڑکیں پھر سے لوگوں کو ماضی میں لے جانے لگیں۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں نے یہ کمی پوری کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اچھے ڈرامے تخلیق کرنے کی کوشش کی اور کسی حد تک ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔

ان میں سے کئی منتخب ڈرامے بھارت میں زندگی ٹی وی پر بھی دکھائے گئے۔ مگر آج کل جب میں کسی پاکستانی ڈرامے کا کوئی سین دیکھتی ہوں تو سٹار پلس کے ڈرامے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ ساس بہو کے جھگڑوں، دوسری عورتوں کے خلاف سازشوں، زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے علاوہ ان ڈراموں کے کرداروں کا کوئی اور مقصد حیات نظر نہیں آتا۔ عالیشان محلوں میں رہنے والے یہ کردار کام وام کیے بغیر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔

بالخصوص خواتین کا کردار انتہائی دلچسپ ہے، کوئی ڈراما دیکھ لیں۔ اس میں ہر لڑکی کی زندگی کا اولین مقصد کسی دولت مند شخص کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ پھر اس کے لیے کتنی ہی تگ و دو کیوں نہ کرنی پڑے۔ بقیہ پورا ڈراما اسی ننھی خواہش کے گرد گھومتا نظرآتا ہے۔ مثلاَ ڈراما ’جلن‘ میں لڑکی اپنے رئیس بہنوئی کی دولت سے متاثر ہے اور اس کے حصول کے لیے بہن کی جگہ لینے کی خواہش مند ہے۔

’عشقیہ‘ میں بہنوئی بڑی فرصت سے اپنی سالی کو تنگ کر کے اسے بلیک میل کرتا ہے۔ ’دیوانگی‘ میں ایک مالک اپنے ماتحت کی بیوی کو جبکہ ’میں نہ جانوں‘ میں لڑکا اپنی کزن کو تنگ کیے ہوئے ہے۔ اتفاق سے ان کے آس پاس کے کردار یہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ زندگی عذاب بنا لو مگر خبردار جو اپنے شوہر کو اعتماد میں لے کر یہ بات اس سے شیئر کرنے کی کوشش کی تو۔

دونوں خواتین شوہروں کا تعاون حاصل ہونے کے باوجود مٹی کی مادھو بنی بیٹھی ہیں اور آرام سے ڈرامے کے اختتام تک بلیک میل ہوتی رہیں۔ ڈراما ’پیارکے صدقے‘ میں اچھے خاصے گھرانے کی اکلوتی لڑکی ہیرو کے رشتے سے انکار کرتے ہوئے اپنی پسند سے شادی کرتی ہے مگر دوسرے دن ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ تو غلط ہو گیا۔ اب بقیہ ڈراموں کی طرح حسب معمول اس کی زندگی کا محور بھی’ہیرو‘ کا حصول ہے۔

55029d1143725.jpg


اسی طرح ایک ڈرامے میں سسر کے انتقال پر داماد کے یہ کہنے پر کہ اگر ہمیں بیماری کا بتایا ہوتا تو ہم کوئی مدد کر دیتے، لڑکی کی ساس کہتی نظر آتی ہیں کہ انھوں نے وہی کیا جو ایک لڑکی کے باپ کو کرنا چاہیے، انھوں نے مرنا تو گوارا کیا مگر اپنی بیٹی پر بوجھ بننا نہیں۔ یعنی یہ دقیانوسی معاشرتی روایات ایک انسان کی جان سے بھی زیادہ قیمتی ہیں اور اس جدید دور میں بھی اس سوچ کو فروغ دے رہے ہیں کہ مشکل کے وقت اپنے عزیز و اقارب سے شیئر کرنے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیں۔

یہ تو محض چند ایک مثالیں ہیں، کوئی ڈراما دیکھ لیں۔ اس میں موجود ایک کردار ایسا ضرور ہو گا جومحض دوسروں کی زندگیوں کی بربادی کا بیڑا اٹھائے ہوئے انہیں تباہ کرنے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کرتا نظر آئے گا۔ عموماً یہ کردار خواتین کو ہی دیے جاتے ہیں۔

برنس روڈ کی نیلوفر، محمود آباد کی ملکائیں، رومانس آف رنچھوڑ لائن جیسے ڈراموں کے مصنفوں اور ہدایت کاروں نے ڈرامے بناتے ہوئے علاقوں کا نام سن کر ہی اندازہ لگا لیا کہ وہاں کی خواتین کن معاملات میں دلچسپی رکھتی ہوں گی اور ان کا طرز زندگی کیسا ہو گا۔

کوئی انہیں بتائے کہ اب ان ڈراموں میں سٹار پلس کا عکس نظرآتا ہے جس کا ہماری زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں اور ہاں آس پاس نظر دوڑایے، بہت سے ایسے موضوعات ملیں گے جن پر ڈرامے بنانے کی زیادہ گنجائش ہے اور یہ چورن نہ بیچیں کہ لوگ جو دیکھنا چاہیں گے، وہی بنانا مجبوری ہے۔ یقین مانیں، اس ٹریش کو دیکھنے میں کسی کو بھی دلچسپی نہیں۔


جیسے نجی نیوز چینلز پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکے ہیں، بالکل
اَسی طرح پاکستانی نجی ڈرامہ چینلز پاکستان میں اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں مصروف ہیں

جن میں پاکیزہ رشتوں کو گناہ آلود راستے پر چلنے کی "شہہ" دی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔
 
Last edited:

Ex-Terminator

Politcal Worker (100+ posts)
دو لاکھ سیلری میں کچھ نہیں ہوتا تو پھر چوری ڈاکے اور سمگلنگ کے علاوہ اور کیا آپشن ہے ؟
نجی ٹی وی چینلز پر ڈرامہ پروڈکشن میں مصروف "موم بتّی مافیا" رابیل کینڈی
، اور اُسکے غریب ڈرائیور باپ جیسے موضوعات کیوں نہیں اُٹھاتے ؟؟؟