پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اگلے بیل آؤٹ پیکج کیلئے مذاکرات ناکام

imf1121.jpg


بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھانے کے باووجود پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اگلے بیل آؤٹ پیکج کیلئے مذاکرات ناکام

ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف ایک بار پھر معیاری فریم ورک پر اختلافات اور معیشت کے مستقبل کے روڈ میپ پر غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے مقررہ وقت پر سٹاف سطح پر معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح ایک ارب ڈالر کے قرض کی اگلی قسط جاری کرنے اور بہتر معاشی صورتحال کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے 4 سے 15 اکتوبر تک مذاکرات کا نیا دور بے نتیجہ رہا۔

پاکستان کی جانب سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی پیشگی شرط قبول کی جانے کے باوجود مذاکرات ناکام ہوئے۔ تاہم فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے، مذاکرات کے مثبت خاتمے کی کوششوں میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جارجیوا اور امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ڈونلڈ لو سے الگ الگ ملاقات کی۔

ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ملاقاتیں بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ یہ دوسری بار ہوا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف "چھٹے جائزے کی تکمیل کی بنیاد" تک نہیں پہنچ سکے،جون میں بھی یہ کوشش بے سود رہی تھی،پاکستان اور آئی ایم ایف اب تک معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) پر متفق ہونے میں ناکام رہے ہیں۔

ایکسپریس نیوز نے مزید بتایا ہے کہ پاکستانی حکومت اور آئی ایم ایف نے تاحال حتمی میکرو اکنامک پوزیشنوں کا تبادلہ نہیں کیا، جسے 8 اکتوبر تک مکمل ہونا چاہیے تھا، آئی ایم ایف مذاکرات بارے غیر یقینی صورتحال اسٹاک مارکیٹوں کو متاثر کر سکتی ہے اور روپے اور ڈالر کی قدر کو مزید دباؤ میں لا سکتی ہے۔

ایکسپریس نیوز کا دعویٰ ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف اضافی ٹیکس کے ہدف اور پاور سیکٹر کے مالی استحکام کے روڈ میپ پر متفق نہیں ہو سکے، گیس کی قیمتوں میں اضافے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے پر بھی مسائل سامنے آئے۔ مذاکرات 4 اکتوبر کو اسلام آباد میں شروع ہوئے تھے ،شوکت ترین چاہتے تھے کہ مذاکرات 15 اکتوبر کو واشنگٹن میں اختتام پذیر ہوں۔

یاد رہے کہ عام طور پر پالیسی سطح کے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ان اعداد وشمار پر اتفاق کر لیا جاتا ہے۔ تاہم فریقین نے بجٹ سے متعلق اہم اعدادو شمار کا تبادلہ اس لئے نہیں کیا کیونکہ ان دونوں طرف بہت زیادہ فرق پایا جا رہا تھا۔ آئی ایم ایف نے جی ڈی پی کے کم از کم 1 فیصد یا 525 ارب روپے سے زائد کے اضافی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن حکومت 300 ارب روپے کے ٹیکس پر آمادہ ہے۔

اضافی ٹیکس کے ہدف پر بات چیت کا دور بھی نتیجہ خیز نہ رہا،رواں سال ایف بی آر 5.8 ٹریلین روپے کا ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرے گا، آئندہ مالی سال میں ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب جی ڈی پی کا 13.75 فیصد ہو جائے گا۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب صرف 11.1 فیصد تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ نیویارک میں ہونگے تاہم ضرورت پڑی تو آن لائن مذاکرات میں شرکت کر کے معاملات کو نمٹائیں گے۔