پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانون کیوں ضروری ہے؟

pdm121.jpg


پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کیوں ضروری ہے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے میں چند واقعات کی طرف آتا ہوں۔

آج سے تقریبا 9 ، 10 سال پہلے جب تحریک انصاف کی اٹھان شروع ہوئی، تب جنگ گروپ کے ایک صحافی احمد نورانی نے ایک خبر دی کہ بیکن ہاؤس سکول جو تحریک انصاف کی سابق رہنما فوزیہ قصوری کی فیملی کا سکول ہے، وہاں ہم جنس پرستی کے موضوع پر ایک سمینار ہورہا ہے۔فوزیہ قصوری نے اس خبر کی تردید کی لیکن احمد نورانی اپنی خبر پر بضد رہے۔

پھر وہ تاریخ آئی جس دن سیمینار ہونا تھا، سیمینار تو نہیں ہوا لیکن یہ خبر فوزیہ قصوری اور تحریک انصاف کیلئے بدنامی کا باعث بنی۔اس خبر کا تحریک انصاف کو نقصان لیکن مسلم لیگ ن کو فائدہ ہوا، ن لیگ نے اس خبر کو خوب اچھالا، یہ خبر جھوٹی ثابت ہوئی لیکن جسے فائدہ ہونا تھا وہ ہوگیا۔

اسی طرح انہی دنوں یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ عمران خان کی کوئی قابل اعتراض لیک ویڈیو آرہی ہے، وہ ویڈیو بھی نہیں آئی، اسی طرح عمران خان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنایا جاتا رہا اور سچی جھوٹی خبریں دی جاتی رہیں جس کا عمران خان اور تحریک انصاف کو نقصان پہنچا۔

کچھ عرصہ پہلے عارف حمید بھٹی نے زلفی بخاری سے متعلق خبردی تھی کہ زلفی بخاری فرار ہوچکا ہے ۔ ابھی پی ڈی ایم کے جلسے شروع نہیں ھوئے اور ای سی ایل میں نام آنے کی وجہ سے زلفی بخاری بھاگ چکا ہے۔

عارف حمید بھٹی نے دعویٰ کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ 2 مشیروں کے بھی جلد ملک چھوڑنے کی اطلاعات ہیں ایک وفاقی وزیر نے اپنی ساری فیملی کو ملک سے باہر بھیج دیا ہےابھی حالات نے صرف کروٹ لی ہے، پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکنا شروع ہو گئی ہے۔

زلفی بخاری جو اس وقت وزیراعظم کے معاون خصوصی تھے، وطن واپس آگئے اور کہا کہ میں فیملی کے ساتھ 10 دن کے وقفے کے بعد واپس اسلام آباد آگیا ہوں ،جس سے چند افراد کو مایوسی ہوئی۔

زلفی بخاری نے مزید کہا کہ اب جو لوگ نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر جعلی خبریں پھیلاتے ہیں کہ میں فرار ہوگیا ہوں ، کیا وہ اپنے صریح جھوٹ کا اعتراف کریں گے یا کیا وہ اپنے آپکو اور اپنے قابل احترام پیشے کو پامال کرتے رہیں گے؟

صرف یہی نہیں میڈیا پر یہ خبریں چلیں کہ اسلام آباد میں اسرائیلی طیارہ لینڈ ہوا ہے، آسیہ بی بی جو اس وقت پاکستان میں ہی تھیں، بی بی سی کے ذریعے خبرچلائی گئی کہ حکومت نے آسیہ بی بی کو بیرون ملک روانہ کردیا ہے حالانکہ آسیہ بی بی اس وقت پاکستان میں ہی تھی۔

اسی طرح کئی من گھڑت خبریں پھیلائی گئیں، کبھی کسی نے یہ پیشنگوئی شروع کردی کہ ڈالر 200 کا ہوجائے گا تو کسی نے حکومت جانے کی خبریں دینا شروع کردیں، کسی نے کہا کہ فوج اور عمران خان کی لڑائی شروع ہوگئی ہے تو کسی نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے متعلق مہم چلائے رکھی۔

حکومت جانے کی خبریں چلانے والے 2018 سے آج تک یہی خبر تھوڑی رودوبدل کیساتھ دے رہےہیں کہ اگلے ماہ، فلاں دن حکومت جارہی ہے، فلاں وزیراعظم ہوگا، عمران خان مائنس ہوجائیں گے لیکن یہ خبر آج تک سچ ثابت نہیں ہوئی۔ایسی خبریں دینے والوں کا مرکزومحور پی ڈی ایم تھا اور ان میں سے بعض صحافی پی ڈی ایم جلسوں میں شریک بھی ہوتے رہے اور مولانا کی حمایت میں پروگرام بھی کرتے رہے۔

ان جعلی خبروں سے حکومت سے زیادہ ملک کو نقصان پہنچا، ملک میں غیریقینی کی صورتحال رہی، کاروباری طبقہ پریشان رہا۔۔ اسرائیلی طیارے یا اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسی خبروں نے بھی ملک کو عالمی سطح پر نقصان پہنچایا۔

اب آتے ہیں کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کیوں ضروری ہے؟ یہ 2 وجوہات کی بنیاد پر ضروری ہے۔ پہلی وجہ فیک نیوز اور دوسری وجہ میڈیا ورکرز کا تحفظ

کسی زمانے میں پاکستان میں صرف اخبارات تھے، اسکے بعد نجلی چینلز آئے،انفارمیشن کا فلو اتنا زیادہ نہیں تھا لیکن اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں انفارمیشن کا فلو بہت زیادہ ہے۔ ایک طرف پاکستان میں اخبارات ہیں تو دوسری طرف 100 سے زائد چینلز جبکہ سوشل میڈیا کا ان سب پر غلبہ ہے ۔ سوشل میڈیا پر جو بھی خبر دی جاتی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوجاتی ہے۔ چینلز بھی سوشل میڈیا سے متاثر ہیں، سوشل میڈیا پر اگر کوئی خبر آتی ہے تو چینلز وہ خبراٹھالیتے ہیں اور یہ تصدیق بھی نہیں کرتے کہ خبر سچ ہے یا جھوٹ۔

کسی زمانے میں اخبارات کی خبروں کی تصدیق کیلئے ایڈیٹر کے نیچے پوری ٹیم ہوا کرتی تھی ، جو خبر کا قوما، فل سٹاپ تک چیک کرکے خبر آگے بھیجتے تھے، انکی نظر میں صرف قوما یا فل سٹاپ نہ لگانے سے خبر کا سیاق وسباق بدل جاتا ہے اور یہ خبر کے قوما فل سٹاپ کے بارے میں بھی انتہائی حساس تھے۔

پھر پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا آیا، چینلز نے ایسے لوگوں کو رکھا جو اچھا بول لیتے تھے ، چرب زبانی میں ماہر تھے، شخصیت کے لحاظ سے پر کشش تھے، ان میں بعض تو کوالیفائڈ تھے، بعض سفارش کی بنیاد پر اینکر بنے، بعض نئے آنیوالے وقت کیساتھ ساتھ سیکھ گئے، شروع شروع میں جب پاکستان میں صرف جیو نیوز، اے آروائی تھی تھا، صحافت ٹھیک چل رہی تھی لیکن بعد میں دھڑا دھڑ چینل آئے ، کئی علاقائی اور دوسری زبانوں میں بھی چینل آئے ۔ یہ چینل ریٹنگ کی دوڑ میں لگ گئے اور وہ خبریں تک دے گئے جو قومی سلامتی کے خلاف تھیں، جس سے کسی کی ذاتی زندگی یا ذاتی امیج متاثر ہورہا تھا۔

اسکے بعد رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی، سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے طوفان نے الیکٹرانک میڈیا کو بھی لپیٹ میں لے لیا، الیکٹرانک میڈیا پر کوالیفائڈ صحافیوں کی جگہ رپورٹرز، نیوزکاسٹرز، ڈاکٹڑ اور دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے لے لی جو بغیر سوچے سمجھے خبریں شئیر کرتے رہے، اسکے ساتھ میڈیا پر ایسے لوگ بھی گھس آئے جو پاکستان سے لیکر امریکہ ، برطانیہ تک اندر کی خبر ایسے دیتے تھے جیسے یہ وہاں موجود تھے۔

یوٹیوب پر ایسی ویڈیوز شئیر کی جانیں لگیں جن کا تھمب نیل کچھ ہوتا تھا اور اندر کچھ اور ہوتا تھا، ویوز، سبسکرائبر کی دوڑ میں یوٹیوب پر بھی گند مچ گیا۔تھمب نیل میں ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے کہ لوگ کلک کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

اب آتے ہیں بل کے دوسرے مقصد کی طرف جو میڈیا ورکرز سے متعلق ہے، بہت سے چینلز نے میڈیا ورکرز کو نکالا، رپورٹرز، کیمرہ مین اور دیگر کی کئی کئی ماہ تک کی تنخواہیں روکے رکھیں، میڈیا ورکرز کی نوبت فاقوں، ٹیکسی، رکشہ چلانے، برگرشاپ یا پرچوں کی دکان کھولنے تک آگئی۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو میڈیا اینکر کو 20 لاکھ سے زیادہ وقت پر تنخواہ دیتا ہے ، وہ 25 ہزار روپے لینے والے میڈیا ورکرز کی تنخواہ کیوں نہیں دے پاتا؟ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ میڈیا ڈویلپمنت اتھارٹی بل کے خلاف احتجاج کرنیوالے وہ اینکرز ہیں جو لاکھوں میں تنخواہ لیتے ہیں، میڈیا ورکرز کی بڑی تعداد کیوں حصہ نہیں ؟ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ احتجاج کرنیوالوں میں زیادہ تر اینکرز وہ ہیں جو ن لیگ کے حامی یا فوج کے مخالف ہیں؟

اسی سے ایجنڈا واضح ہوجاتا ہے۔ فیک نیوز اگر قومی سلامتی سے متعلق ہو تو قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے، اگر معیشت سے متعلق ہے تو معاشی غیریقینی پیدا کرتی ہے، اگر کسی سیاسی جماعت سے متعلق ہو تو ملک کو سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار کرتی ہے۔اگر مذہب سے متعلق ہوتو مذہبی فساد اور فرقہ واریت پیدا کرتی ہے، اگر کسی کی ذاتی زندگی سے متعلق ہو تو اس فیملی کی زندگی تباہ کرتی ہے۔

اسی لئے فیک نیوز کو ہر حال میں روکا جانا ضروری ہے ، میڈیا ورکرز کی جاب سیکیورٹی ہونی چاہئے اور اسکے لئے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل انتہائی ضروری ہے
 

shaheenzafar

MPA (400+ posts)
پاکستانی میڈیا اب گٹر میڈیا بن چکا ہے جس کی لگام این جی اووز، کاروباریوں اور بیرون ملکوں سے ہلائی جانے ڈور کے ہاتھ میں ہے ۔ ایک جھوٹ بول کر پروگرام کی ریٹنگ اوپر کرلو کونسا کسی نے عدالت جانا ہے کہ کیس کرنے کے خبر غلط تھی