پاکستان میں توہین رسالت پر مبنی میسج بھیجنے کا الزام خاتون کو سزائے موت

London Bridge

Senator (1k+ posts)

_122884470_gettyimages-685007437.jpg.webp

پاکستان میں توہین رسالت پر مبنی میسج بھیجنے کا الزام خاتون کو سزائے موت
  • شہزاد ملک
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ایف آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے توہین رسالت پر مبنی پیغام بھیجنے کے جرم میں انیقہ عتیق نامی شہری کو موت کی سزا سنائی ہے۔

ان کے خلاف یہ مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ راولپنڈی میں سنہ 2020 میں حسنات فاروق نامی شخص کی مدعیت میں درج کروایا گیا تھا۔
مقدمے میں توہین رسالت، توہین مذہب اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی متعلقہ دفعات درج تھیں۔

مجرمہ کو آئین کی دفعہ 295/سی کے تحت سزائے موت اور 50 ہزار روپے جرمانہ، 295 اے کے تحت 10 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ، 298 اے کے تحت تین سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ اور سائبر کرائم کے پیکا ایکٹ کے سیکشن 11 کے تحت سات سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرمہ کو مزید چھ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔

واضح رہے کہ جب اس مقدمے میں مجرمہ پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی تو انھوں نے اس جرم کے ارتکاب سے انکار کیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ان تمام سزاؤں پر عمل درآمد ایک ہی وقت میں شروع ہو گا۔

واقعے کی تفصیلات

اس مقدمے سے منسلک ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ مجرمہ انیقہ عتیق اسلام آباد کی رہائشی ہیں اور ان کا روالپنڈی کے رہائشی حسنات فاروق کے ساتھ تعلق تھا۔
انھوں نے بتایا کہ کسی معاملے پر ان دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا جس پر غصے میں آ کر مجرمہ نے توہین آمیز الفاظ لکھ کر حسنات فاروق کو واٹس ایپ کیے تھے۔

اہلکار کے مطابق حسنات فاروق نے جس کی مدعیت میں یہ مقدمہ درج کیا گیا ہے مجرمہ کو ایسے توہین آمیز الفاظ کو ڈیلیٹ کرنے اور اس پر معذرت کرنے کے بارے میں کہا جس پر ایف آئی اے کے اہلکار کے بقول مجرمہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا۔

ایف آئی اے کے اہلکار کا کہنا تھا کہ انیقہ عتیق ایک نجی ادارے میں کام کرتی تھیں اور جب انھوں نے مدعی مقدمہ کی درخواست پر عمل درآمد نہ کیا تو حسنات فاروق یہ معاملہ لے کر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ آئے۔
انھوں نے کہا کہ مذکورہ شخص کی درخواست پر مئی سنہ 2020 میں مقدمہ درج کر کے ملزمہ کو حراست میں لیا گیا اور ان کے زیر استعمال موبائل کا فرانزک بھی کروایا گیا جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ توہین آمیز پیغامات ملزمہ کے موبائل سے ہی بھیجے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ توہین آمیز پیغامات بھیجنے میں ملزمہ خود ہی ملوث ہیں اور انھیں ایسا کرنے پر کسی کے اکسانے سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔
اہلکار کے مطابق مجرمہ اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں اور فیصلہ سنانے کے لیے انھیں سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا تھا اور فیصلے سنانے کے بعد مجرمہ کو سخت سکیورٹی کے حصار میں واپس اڈیالہ جیل لے جایا گیا۔


SOURCE
 
Last edited by a moderator:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
دہشت گردی کا الزام ہوتا تو ڈرون بھیج کر اس کے ساتھ ساتھ اس کے اہل خانہ کو بھی سزائے موت دی جا چکی ہوتی ہے
 

alis

MPA (400+ posts)
It is completely unIslamic.
Punishment is only sensible if someone is doing blasphemy on a public scale, then the law of 'fasad fil ard' rule may apply. A death sentence for a private conversation is unislamic.
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
4:140 ‏وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلْكِتَبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ ءَايَتِ ٱللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا۟ مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا۟ فِى حَدِيثٍ غَيْرِهِۦٓ ۚ إِنَّكُمْ إِذًۭا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ جَامِعُ ٱلْمُنَفِقِينَ وَٱلْكَفِرِينَ فِى جَهَنَّمَ جَمِيعًا ‎

4:140 And it has already come down to you in the Book that when you hear the verses of Allah [recited], they are denied [by them] and ridiculed; so do not sit with them until they enter into another conversation. Indeed, you would then be like them. Indeed Allah will gather the hypocrites and disbelievers in Hell all together
 

Complete Sense

Minister (2k+ posts)
What relationship the woman has with man? Is this man is rich? Is he a married man? Why suddenly message on WhatsApp has been given to FIA? What punishment will man recieve? It is one sided story... I am confuse, why death sentence?
 

A.jokhio

Minister (2k+ posts)

_122884470_gettyimages-685007437.jpg.webp

پاکستان میں توہین رسالت پر مبنی میسج بھیجنے کا الزام خاتون کو سزائے موت
  • شہزاد ملک
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ایف آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے توہین رسالت پر مبنی پیغام بھیجنے کے جرم میں انیقہ عتیق نامی شہری کو موت کی سزا سنائی ہے۔
ان کے خلاف یہ مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ راولپنڈی میں سنہ 2020 میں حسنات فاروق نامی شخص کی مدعیت میں درج کروایا گیا تھا۔
مقدمے میں توہین رسالت، توہین مذہب اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی متعلقہ دفعات درج تھیں۔
مجرمہ کو آئین کی دفعہ 295/سی کے تحت سزائے موت اور 50 ہزار روپے جرمانہ، 295 اے کے تحت 10 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ، 298 اے کے تحت تین سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ اور سائبر کرائم کے پیکا ایکٹ کے سیکشن 11 کے تحت سات سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرمہ کو مزید چھ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔
واضح رہے کہ جب اس مقدمے میں مجرمہ پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی تو انھوں نے اس جرم کے ارتکاب سے انکار کیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ان تمام سزاؤں پر عمل درآمد ایک ہی وقت میں شروع ہو گا۔

واقعے کی تفصیلات

اس مقدمے سے منسلک ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ مجرمہ انیقہ عتیق اسلام آباد کی رہائشی ہیں اور ان کا روالپنڈی کے رہائشی حسنات فاروق کے ساتھ تعلق تھا۔
انھوں نے بتایا کہ کسی معاملے پر ان دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا جس پر غصے میں آ کر مجرمہ نے توہین آمیز الفاظ لکھ کر حسنات فاروق کو واٹس ایپ کیے تھے۔
اہلکار کے مطابق حسنات فاروق نے جس کی مدعیت میں یہ مقدمہ درج کیا گیا ہے مجرمہ کو ایسے توہین آمیز الفاظ کو ڈیلیٹ کرنے اور اس پر معذرت کرنے کے بارے میں کہا جس پر ایف آئی اے کے اہلکار کے بقول مجرمہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا۔
ایف آئی اے کے اہلکار کا کہنا تھا کہ انیقہ عتیق ایک نجی ادارے میں کام کرتی تھیں اور جب انھوں نے مدعی مقدمہ کی درخواست پر عمل درآمد نہ کیا تو حسنات فاروق یہ معاملہ لے کر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ آئے۔
انھوں نے کہا کہ مذکورہ شخص کی درخواست پر مئی سنہ 2020 میں مقدمہ درج کر کے ملزمہ کو حراست میں لیا گیا اور ان کے زیر استعمال موبائل کا فرانزک بھی کروایا گیا جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ توہین آمیز پیغامات ملزمہ کے موبائل سے ہی بھیجے گئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ توہین آمیز پیغامات بھیجنے میں ملزمہ خود ہی ملوث ہیں اور انھیں ایسا کرنے پر کسی کے اکسانے سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔
اہلکار کے مطابق مجرمہ اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں اور فیصلہ سنانے کے لیے انھیں سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا تھا اور فیصلے سنانے کے بعد مجرمہ کو سخت سکیورٹی کے حصار میں واپس اڈیالہ جیل لے جایا گیا۔

SOURCE
Catch that FIA officer, which is leaking information to BBC...
 

Sean

Politcal Worker (100+ posts)
برصغیر کے مسلمان ایسی مخلوق ہیں کہ اگر آج پیغمبر اکرم ص بھی زندہ ہوتے تو یہ ان پر بھی
توہین خدا لگا دیتے۔