پاکستان میں صدارتی نظام،سپریم کورٹ نے درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا

1.jpg

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں صدارتی نظام لانے کی تمام درخواستوں پر اپنے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواستیں خارج کر دیں۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ 1962 کے صدارتی نظام کے دوران ہی ملک ٹوٹا تھا۔

درخواست گزار احمد رضا قصوری نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ ملک میں صدارتی نظام لانے کیلئے وزیراعظم کو ریفرنڈم کروانے کی ہدایت کی جائے، قوم کا پیسہ چوری ہو رہا ہے اور مہنگائی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں مضبوط سیاسی جماعتیں، ادارے اور نظام کی موجودگی میں انفرادی طور پر آنے والے کس طرح متاثرہ فریق ہو سکتے ہیں؟


عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ ممکن ہے کوئی سیاسی جماعت آتی تو کیس بنتا، ملک میں جب بھی جس بھی طریقے سے صدارتی نظام آیا اس کا نقصان ہوا، ہم 1958 جیسے حالات کو دہرانا نہیں چاہتے ، اگر درخواست گزاروں نے تحریک چلانی ہے تو سیاسی تحریک چلائیں، ایک نظام کو ختم کرکے دوسرا نظام لانے کا اور سیاسی نظام بدلنے کا ہمارے پاس اختیار نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں شعر پڑھا،
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

انہوں نے کہا ہم سب اسی دیدہ ور کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جواب میں درخواست گزار نے کہا کہ ہمیں خلفائے راشدین جیسی جمہوریت ملنی چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ خلفائے راشدین جیسی قیادت سب کی خواہش ہے مگر دیکھیں کہ قائد اعظم نے بھی ملک بنانے کے بعد جمہوریت کی بات کی تھی۔

عدالت نے مزید ریمارکس میں کہا کہ ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ اب خلفائے راشدین جیسی قیادت ملنا ناممکن ہے۔