کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان میں جو اسلام کا قلعہ ہے، اس میں بھی مساجد کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور کوئ روکنے والا ہی نہیں
کفار جو کر رہیں ہیں تو اس سے تو اللہ اور اسکے بندے حساب لے لیں گے مگر جو نام نہاد علماء مساجد میں مدرسوں میں بچوں سے زیادتی میں ملوث پاۓ جاتے ہیں اس پر بطور قوم ہمارا خون کیوں نہیں کھولتا؟
درحقیقت یہ مسجد کو شہید کر دینے سے بھی قبیح فعل ہے اور اس سے زیادہ سزا کا مستحق ہے. مگر اس قوم میں عوام سے خواص اس مسئلے پرنا کوئ جلوس نکالتے ہیں نا ہی دھرنا دیتے ہیں، کیوں؟
تجویز
اب وقت آچکا ہے کہ مدرسوں میں بچوں پر تشدد پر مکمل پابندی لگنی چاہیے. اس مار کی آڑ میں بچوں کو اتنا ہراساں کیا جاتا ہے ظلم عظیم پر بھی خوف اور شرمندگی سے خاموش رہتے ہیں. حکومتی نمائندہ، ٹائگر فورس یا این جی اوز کو حقوق حاصل ہوں کہ جب چاہی بچوں کو اعتماد میں لے کر ان سے اندر کی حالت گاہے بگاہے دریافت کرتے رہیں. جب تشدد کو روک لیا جاۓ گا تو جنسی زیادتی کے واقعات خود بخود رک جائیں گے. اور جب ہم اپنے ملک میں مساجد کی عزت بحال کر پائیں گے تب ہی اللہ ہمیں وطن سے باہر بھی عزت دے گا، ورنہ یقین رکھیۓ یہ ذلت کا عزاب ہم پر قائم رہے گا اور شائد بڑھتا جاۓ.
میڈیا کو بھی چاہیے بازاری زبان والے سیاستدانوں کو لڑائی کروا کر ریٹنگ لینے کی بجائے ان معاشرتی مسائل کو پرائم ٹائم میں ڈسکس کریں. ہم میں جس کو ابھی سعادت نہیں ملی جب وہ بھی والدین کا منصب سنبھالیں گے تو احساس ہو گا اس معاشرے کے گند سے معصوموں کو بچانا کتنا بڑا کام ہے. مہنگائی کا تعلق ایمان سے نہی مگر اس بنیادی اخلاقی معاملہ کو حل کرنے میں کسی کو کوئی عار نہیں اور نا ہی کوئی مجبوری وجہ بن سکتی ہے کہ اس مسئلے کو حل نا کیا جا سکے.
آپ سب سے درخواست ہے اس معاملے پر زیادہ سے زیادہ بات کریں کہ اسرائیل اور کشمیر میں بھی وہ نہی ہو رہا جو ہمارا مولوی ہمارے بچوں سے کر رہا ہے.
بے شک اس میں سکول کے ٹیچر ہوں یا ایمرجنسی میں آپریشن کے دوران ریپ یا ماہر نفسیات اپنے مریضوں کا استحصال کر رہا ہو یا جج اپنے روم میں لے جا کر زیادتی کر دے. دکان دار ٹافی لینے والے بچوں پر اور امراء کے بچے کام کرنے والی پر گندی نظر رکھتے ہی.
حدیث پاک ہے جس میں حیا نہیں اس می ایمان نہیں. تو کہاں کا مومن اور کیسی نمازیں؟
بے شک آوے کا آوا بگڑ چکا ہے، مگر کم از کم مساجد سے ہی آغاز کریں اور بے حیائی سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور کیوں نا پم سب اک مہم چلائیں؟
کفار جو کر رہیں ہیں تو اس سے تو اللہ اور اسکے بندے حساب لے لیں گے مگر جو نام نہاد علماء مساجد میں مدرسوں میں بچوں سے زیادتی میں ملوث پاۓ جاتے ہیں اس پر بطور قوم ہمارا خون کیوں نہیں کھولتا؟
درحقیقت یہ مسجد کو شہید کر دینے سے بھی قبیح فعل ہے اور اس سے زیادہ سزا کا مستحق ہے. مگر اس قوم میں عوام سے خواص اس مسئلے پرنا کوئ جلوس نکالتے ہیں نا ہی دھرنا دیتے ہیں، کیوں؟
تجویز
اب وقت آچکا ہے کہ مدرسوں میں بچوں پر تشدد پر مکمل پابندی لگنی چاہیے. اس مار کی آڑ میں بچوں کو اتنا ہراساں کیا جاتا ہے ظلم عظیم پر بھی خوف اور شرمندگی سے خاموش رہتے ہیں. حکومتی نمائندہ، ٹائگر فورس یا این جی اوز کو حقوق حاصل ہوں کہ جب چاہی بچوں کو اعتماد میں لے کر ان سے اندر کی حالت گاہے بگاہے دریافت کرتے رہیں. جب تشدد کو روک لیا جاۓ گا تو جنسی زیادتی کے واقعات خود بخود رک جائیں گے. اور جب ہم اپنے ملک میں مساجد کی عزت بحال کر پائیں گے تب ہی اللہ ہمیں وطن سے باہر بھی عزت دے گا، ورنہ یقین رکھیۓ یہ ذلت کا عزاب ہم پر قائم رہے گا اور شائد بڑھتا جاۓ.
میڈیا کو بھی چاہیے بازاری زبان والے سیاستدانوں کو لڑائی کروا کر ریٹنگ لینے کی بجائے ان معاشرتی مسائل کو پرائم ٹائم میں ڈسکس کریں. ہم میں جس کو ابھی سعادت نہیں ملی جب وہ بھی والدین کا منصب سنبھالیں گے تو احساس ہو گا اس معاشرے کے گند سے معصوموں کو بچانا کتنا بڑا کام ہے. مہنگائی کا تعلق ایمان سے نہی مگر اس بنیادی اخلاقی معاملہ کو حل کرنے میں کسی کو کوئی عار نہیں اور نا ہی کوئی مجبوری وجہ بن سکتی ہے کہ اس مسئلے کو حل نا کیا جا سکے.
آپ سب سے درخواست ہے اس معاملے پر زیادہ سے زیادہ بات کریں کہ اسرائیل اور کشمیر میں بھی وہ نہی ہو رہا جو ہمارا مولوی ہمارے بچوں سے کر رہا ہے.
بے شک اس میں سکول کے ٹیچر ہوں یا ایمرجنسی میں آپریشن کے دوران ریپ یا ماہر نفسیات اپنے مریضوں کا استحصال کر رہا ہو یا جج اپنے روم میں لے جا کر زیادتی کر دے. دکان دار ٹافی لینے والے بچوں پر اور امراء کے بچے کام کرنے والی پر گندی نظر رکھتے ہی.
حدیث پاک ہے جس میں حیا نہیں اس می ایمان نہیں. تو کہاں کا مومن اور کیسی نمازیں؟
بے شک آوے کا آوا بگڑ چکا ہے، مگر کم از کم مساجد سے ہی آغاز کریں اور بے حیائی سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور کیوں نا پم سب اک مہم چلائیں؟