پاکستان کا سسٹم برا نہیں جو کنٹرول کرتا ہے وہ برائی کی جڑ ہے

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
جی بلکل، جہاد کسی تحریک کی برائی کا مظہر نہیں، لیکن اس لفظ کا غلط استعمال۔

خیر، صرف طالبان ہی نہیں، اور بھی طالبان کی طرح کھل کر اعلان جنگ کر چکے ہیں۔ جیسے طالبان کابل اور اسی طرح دیگر شہروں میں بم دھماکے کروا دیتے ہیں، اور بھی تحاریک ایسے اقدام کرتی رہتی ہیں۔
یہ ہر جگہہ کی جنگ اور اس کے حالات پر منحصر ہے کہ کونسی حکمتِ عملی بہتر رہتی ہے۔

لیکن ہمارا بنیادی نقطہ بحث یہاں پر کچھ اور ہے۔

آپ اس بات سے تو انکار نہیں کر رہے کہ ہر طرف نعرہٗ جہاد ہی بلند کیا جارہا ہے، لیکن ہر جگہہ اس لفظ کا درست استعمال نہیں، اغراض و مقاصد دین کی ترویج یا دفاع نہیں۔ مسئلہ ان لوگوں کا ہے۔

پاکستان کے اپنے اندر ہی اس لفظ کے استعمال کی وجہ سے کہاں کہاں شر انگیزی کی گئی اور کی جا رہی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سسٹم کی مظبوطی کے معنیٰ یہ نہیں کہ دشمن اپنا پینترا بدل کر آپ سے کھل کر سامنے آ کر جنگ کرے گا۔
دشمن اپنا ہر حربہ آزمائے گا۔ غدّاروں کو خریدے گا، شب خون مارے گا، آپ دعوت دیتے رہیں میدانِ جنگ میں آنے کی، لیکن دشمن آپ کے طابع نہیں، نہ ہی آپ کے اصولِ جنگ اس پر لاگو ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ کہ جیسے باقی بہت سے اسلامی ممالک میں حکومتیں دم توڑ چکی ہیں، الحمداللہ پاکستان ابھی تک قائم ہے۔ ہاں دشمن کی طرف سے کچوکے بہت لگائے گئے ہیں، اور اس سے بڑا ظلم یہ کہ دشمن بھی اپنے گھر کے اندر زیادہ بیٹھے ہیں۔
جہاد، وار، یدھ، حریم، کروسیڈ. ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں. یہودی عربوں کے خلاف نسلی اور مذہبی حریم کریں کوئی بدنامی نہیں. بھارت کشمیری مسلمانوں کے خلاف یدھ کرے کوئی تذکرہ نہیں. سفید فام عیسائی جمہوریت کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے کروسیڈ کرتے پھریں کوئی پوچھنے والا نہیں

مسلمان افغانستان میں روس اور امریکا کی جارحیت دفاع کریں تو جہاد بدنام ہوتا ہے. ہندو افواج کا مقابلہ کرتے کشمیری دہشت گرد ہیں. پاکستان میں متحرک مختلف گروہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد نمودار ہوئے اور ماند پڑتی امریکی جنگ کے ساتھ ہی ماند پر گئے. داعش عراق پر امریکی حملے اور قبضے کے بعد منظر عام پر آئی

بھارت اور مکتی باہنی کا تعلق سب جانتے ہیں نام کوئی نہیں لیتا. روس افغانستان پر حملہ نا کرتا تو اس کے خلاف جنگ/جہاد کرنے کے لیے مجاہدین اکٹھے کرنے اور مغرب کو انھے اسلحہ دینے کی ضرورت نا پڑتی. طالبان افغانستان اس کی امریکی اور پاکستانی حکومت کی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں

پہلے تو ہمیں اپنی ذہنیت اور روش بدلنی ہو گی. غیر تو غیر اپنے بھی کیچڑ اچھالنے کے لیے غیروں کے ساتھ مل جاتے ہیں. یہ روش بدلیں اور غیروں کو بتانا ہو گا کے تم نا صرف شریک جرم ہو بلکہ وجہ جرم ہو​
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
میں اسے براہ راست کہوں گا۔ اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو فوج کو سیاستدانوں کو راستہ دینا ہوگا اور ان سے جوڑ توڑ بند کرنا ہوگا۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ مداخلت بند نہ کرے تب تک ہم ترقی نہیں کرسکتے اور جمہوریت کے ثمرات حاصل نہیں کرسکتے۔ براہ کرم فاطمہ جناح اور شیخ مجیب الرحمن کا معاملہ یاد رکھیں۔ وہ دیانت دار سیاست دان تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مفادات کے لئے انھیں بدنام کیا۔ اور پھر ہمیں نواز اور فضل الرحمان جیسے سیاستدان عطا کردیئے ۔آصف زرداری نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے دوستی کی وجہ سے اپنی صدارت کی مدت پوری کی۔ اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان کے مفادات متوازی نہیں بلکہ متضاد ہیں۔ میں کچھ دوسری تحریروں میں اس کی وضاحت کروں گا کہ ایسا کیوں ہے۔
جی دراصل میری رائے اس سلسلے میں ہے تو ایسے ہی لیکن زاویہ تھوڑا مختلف رکھتی ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق فوج کو سیاسی گٹھ جوڑ چھوڑنے کی بجائے سیاسی پارٹیوں کو فوج سے گٹھ جوڑ بند کرنا چاہیئے۔

دراصل مسئلہ یہ نہیں کہ فوج سیاست پر کیوں ہاوی ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدانوں نے انھیں ہاوی ہونے کیسے دیا؟
اور جب ان سیاست دانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو، تب انھیں اس کا مداوا کرنا چاہیئے۔

پھر دوسرا یہ کہ فوج اور جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں، بظاہر ایک ہی لگتے ہیں، لیکن ایسا ہے نہیں۔ بیوروکریسی، عدلیہ اور فوج، یہ تین علیحدہ پارٹیاں ہیں۔

اور اس ضمن میں آخری بات یہ کہ صرف دیانتداری ہی کافی نہیں حکمرانی کے لیئے۔ دیگر صلاحیتیں بھی ہونا ضروری ہیں۔
سازشوں سے بچنا اور اپنی قوم کو بچانا، یہ ایک ناگزیر فن ہے جس میں اگر کوئی یکتا نہیں ہوتا، تو حکمرانی کی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
اگر وہ جمہوریت اور قومی ریاست کے تصور کو پسند نہیں کرتے ہیں تو پھر وہ اپنی مہم جوئی جاری رکھنے کی خواہش کو پورا کرسکتے ہیں۔ صرف یہ ہوگا کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس دور میں جدید دنیا اور معاشی نظام صرف استحکام کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کے پاس جمہوریت سے بہتر نظریہ ہیں تو وہ ان کا خواب پورا کرسکتے ہیں۔ ہم واقعی یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے اور کیا نظریات ہیں اور وہ کتنے عملی ہیں
.............
بطور قومی ریاست پاکستان بنگلدیش کے ساتھ موازنہ کرسکتا ہے اور اگر وہ ہندوستان کو پسند نہیں کرتا ہے تو اس سے سبق حاصل کرسکتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت زیادہ تر مارشل لاء کے ہی ادوار میں بہترین رہی ہے۔
لیکن جب بھی کسی جنگ میں جھونکے گئے ہیں تو وہ بھی فوجی دورِ حکومت میں ہی ہوا ہے۔
۱۹۶۵، ۱۹۷۱، ۱۹۷۹ اور پھر ۲۰۰۴۔ یہ تمام ادوار فوجی حکومتوں کے ہی رہے ہیں۔

اور جیسا آپ نے پہلے کہا کہ یہ نظام نہیں بدلنا چاہتے، کیونکہ کرپٹ عناصر، چاہے سرمایہ دار ہوں، جاگیردار، فوج ہو یا اسٹیبلشمنٹ، ان سب کو یہی نظام راس آتا ہے۔

ہاں لیکن کچھ لوگ ہیں جو اس حلقے کی سیاست اور اس پارلیمنٹ کی جوڑ توڑ کی وجہ سے اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔
اس پارلیمنٹری طرز جمہوریت نے ہمیں ہمیشہ ایسے لوگوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رکھا ہے جنھیں ایک شریف آدمی عام حالات میں سلام کرنا پسند نہ کرے۔ عمران خان کو بھی الیکٹیبلز کی سیاست کھیلنی پڑی۔
لوگوں نے تو عمران خان کو ہی ووٹ دیا، لیکن اس حلقے کی سیاست نے عمران خان کو بھی مجبور کر ہی دیا کہ ان لوگوں سے ملائے جو شائد چہڑاسی لگنے کے بھی قابل نہیں، لیکن چونکہ اپنے حلقے میں اثر دار ہیں، لہٰذا ان کو ساتھ ملائے بغیر چارہ بھی کوئی نہیں۔

دراصل نظام کوئی بھی بلکل ٹھیک یا بلکل غلط نہیں ہوتا۔ جہاں دنیا میں پارلیمنٹری جمہوریت نے ترقی کی ہے، وہیں صدارتی نظام حکومت نے بھی اپنا سِکہّ منوایا ہے، اور تیسری طرف کمیونزم نے بھی روس اور چین جیسے ریاستوں کی تخلیق کی ہے۔

نظام کوئی بھی ہو، لیکن اگر صحیح طور چلایا جائے تو ہی اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
پہلے تو ہمیں اپنی ذہنیت اور روش بدلنی ہو گی. غیر تو غیر اپنے بھی کیچڑ اچھالنے کے لیے غیروں کے ساتھ مل جاتے ہیں. یہ روش بدلیں اور غیروں کو بتانا ہو گا کے تم نا صرف شریک جرم ہو بلکہ وجہ جرم ہو​
???
 

hammy_lucky

MPA (400+ posts)
جی دراصل میری رائے اس سلسلے میں ہے تو ایسے ہی لیکن زاویہ تھوڑا مختلف رکھتی ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق فوج کو سیاسی گٹھ جوڑ چھوڑنے کی بجائے سیاسی پارٹیوں کو فوج سے گٹھ جوڑ بند کرنا چاہیئے۔

دراصل مسئلہ یہ نہیں کہ فوج سیاست پر کیوں ہاوی ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدانوں نے انھیں ہاوی ہونے کیسے دیا؟
اور جب ان سیاست دانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو، تب انھیں اس کا مداوا کرنا چاہیئے۔

پھر دوسرا یہ کہ فوج اور جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں، بظاہر ایک ہی لگتے ہیں، لیکن ایسا ہے نہیں۔ بیوروکریسی، عدلیہ اور فوج، یہ تین علیحدہ پارٹیاں ہیں۔

اور اس ضمن میں آخری بات یہ کہ صرف دیانتداری ہی کافی نہیں حکمرانی کے لیئے۔ دیگر صلاحیتیں بھی ہونا ضروری ہیں۔
سازشوں سے بچنا اور اپنی قوم کو بچانا، یہ ایک ناگزیر فن ہے جس میں اگر کوئی یکتا نہیں ہوتا، تو حکمرانی کی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔
میرے خیال میں ہمارے ملک میں فوج کے بہت سے دوسرے مفادات ہیں جیسے معاشی مفادات۔ ان کے پاس کارپوریشنز ہیں جو مقابلہ کی اجازت نہیں دیتی ہیں۔ ان کے پاس زمین اور جائداد غیر منقولہ کاروبار ہے۔ یہ سب سویلین بالادستی اور آزاد بازار کی معیشت میں براہ راست رکاوٹ ہیں۔ وہ ہر سیاستدانوں ، ججوں اور بیوروکریٹس پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ان سب کے خلاف فائلیں ہیں اور وہ اپنی خواہشات اور ضروریات کے مطابق ڈور کھینچتے ہیں۔ سیاستدان صرف بقا اور رقم کمانے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاستدانوں کو فوج سے ہاتھ ملانا نہیں چاہئے لیکن وہ فرشتہ نہیں ہیں۔ میری نظر میں پوری دنیا کے سیاست دانوں کو ہر چیز اور خاص طور پر معاشیات کا زیادہ علم ہوتا ہے ۔ انہیں عوام سے بھی ملامت اور لعنت ملتی ہے۔ وہ حکمرانی میں زیادہ تجربہ کار ہوجاتے ہیں۔ میں نے آپ کو فاطمہ جناح کی مثال دی۔ میں آپ کو اصغر خان کی ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ کیوں وہ اچھے سیاستدانوں کو کام کرنے نہیں دیتے؟ کیونکہ فوج غیر محفوظ ہوجاتی ہے۔ وہ مضبوط سول قیادت کو قبول نہیں کرسکتے ہیں۔ اس سے ان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔
آپ کسی شہری یا سیاستدان سے بندوق کا مقابلہ کرنے کی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟ فوجیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک چلانے کے اہل نہیں ہیں اور ان کے کاروبار اور مفادات اس طرح ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہ سکتے ہیں
 
Last edited:

hammy_lucky

MPA (400+ posts)
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت زیادہ تر مارشل لاء کے ہی ادوار میں بہترین رہی ہے۔
لیکن جب بھی کسی جنگ میں جھونکے گئے ہیں تو وہ بھی فوجی دورِ حکومت میں ہی ہوا ہے۔
۱۹۶۵، ۱۹۷۱، ۱۹۷۹ اور پھر ۲۰۰۴۔ یہ تمام ادوار فوجی حکومتوں کے ہی رہے ہیں۔

اور جیسا آپ نے پہلے کہا کہ یہ نظام نہیں بدلنا چاہتے، کیونکہ کرپٹ عناصر، چاہے سرمایہ دار ہوں، جاگیردار، فوج ہو یا اسٹیبلشمنٹ، ان سب کو یہی نظام راس آتا ہے۔

ہاں لیکن کچھ لوگ ہیں جو اس حلقے کی سیاست اور اس پارلیمنٹ کی جوڑ توڑ کی وجہ سے اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔
اس پارلیمنٹری طرز جمہوریت نے ہمیں ہمیشہ ایسے لوگوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رکھا ہے جنھیں ایک شریف آدمی عام حالات میں سلام کرنا پسند نہ کرے۔ عمران خان کو بھی الیکٹیبلز کی سیاست کھیلنی پڑی۔
لوگوں نے تو عمران خان کو ہی ووٹ دیا، لیکن اس حلقے کی سیاست نے عمران خان کو بھی مجبور کر ہی دیا کہ ان لوگوں سے ملائے جو شائد چہڑاسی لگنے کے بھی قابل نہیں، لیکن چونکہ اپنے حلقے میں اثر دار ہیں، لہٰذا ان کو ساتھ ملائے بغیر چارہ بھی کوئی نہیں۔

دراصل نظام کوئی بھی بلکل ٹھیک یا بلکل غلط نہیں ہوتا۔ جہاں دنیا میں پارلیمنٹری جمہوریت نے ترقی کی ہے، وہیں صدارتی نظام حکومت نے بھی اپنا سِکہّ منوایا ہے، اور تیسری طرف کمیونزم نے بھی روس اور چین جیسے ریاستوں کی تخلیق کی ہے۔

نظام کوئی بھی ہو، لیکن اگر صحیح طور چلایا جائے تو ہی اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
فوجی حکومتوں میں بہتر معاشی کارکردگی کی وجہ محض امریکہ اور سعودیہ کی حمایت ہے۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو میں یہ کہوں کہ ہماری فوج ہر وقت کرایہ پر لگی ہے
میں آپ کو اس فورم میں دوسروں سے بہتر دانشور سمجھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس کی وضاحت
کے لئے اس حد تک جا رہا ہوں
?
 
Last edited:

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
میرے خیال میں ہمارے ملک میں فوج کے بہت سے دوسرے مفادات ہیں جیسے معاشی مفادات۔ ان کے پاس کارپوریشنز ہیں جو مقابلہ کی اجازت نہیں دیتی ہیں۔ ان کے پاس زمین اور جائداد غیر منقولہ کاروبار ہے۔ یہ سب سویلین بالادستی اور آزاد بازار کی معیشت میں براہ راست رکاوٹ ہیں۔ وہ ہر سیاستدانوں ، ججوں اور بیوروکریٹس پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ان سب کے خلاف فائلیں ہیں اور وہ اپنی خواہشات اور ضروریات کے مطابق ڈور کھینچتے ہیں۔ سیاستدان صرف بقا اور رقم کمانے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاستدانوں کو فوج سے ہاتھ ملانا نہیں چاہئے لیکن وہ فرشتہ نہیں ہیں۔ میری نظر میں پوری دنیا کے سیاست دانوں کو ہر چیز اور خاص طور پر معاشیات کا زیادہ علم ہوتا ہے ۔ انہیں عوام سے بھی ملامت اور لعنت ملتی ہے۔ وہ حکمرانی میں زیادہ تجربہ کار ہوجاتے ہیں۔ میں نے آپ کو فاطمہ جناح کی مثال دی۔ میں آپ کو اصغر خان کی ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ کیوں وہ اچھے سیاستدانوں کو کام کرنے نہیں دیتے؟ کیونکہ فوج غیر محفوظ ہوجاتی ہے۔ وہ مضبوط سول قیادت کو قبول نہیں کرسکتے ہیں۔ اس سے ان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔
آپ کسی شہری یا سیاستدان سے بندوق کا مقابلہ کرنے کی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟ فوجیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک چلانے کے اہل نہیں ہیں اور ان کے کاروبار اور مفادات اس طرح ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہ سکتے ہیں
نہیں ایسا نہیں کہ فوجی کارپوریشنز مقابلے کی اجازت نہیں دیتی، لیکن یہ ایک ثانوی بات ہے۔
بات یہاں طاقت کے ارتکاز کی ہے، جس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری فوج سیاستدانوں پر بھاری ہے۔

میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ فوج کے حاوی ہونے کی وجوہات سیاستدانوں کی اپنی کمزوریاں ہیں۔ جہاں بھی خلاء پیدا ہوتا ہے، آس پاس کا پانی فوراً اسے پُر کرتا ہے۔ اسی طرح جب سیاسی میدان میں یا دیگر سرکاری محکموں میں اس طرح کے خلاء ابھرتے ہیں تو فوج کو اس خلاء کو پُر کرنا پڑتا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں، زلزلے اور سیلاب سے لے کر پولیو کے قطرے پلانے اور مردم شماری کروانے کے لیئے بھی ہمارے پاس فوج کے علاوہ اور کوئی ادارہ ہے ہی نہیں۔ کیا یہ سب بھی فوج کا کام ہے؟ فوج کا ایک بینک ہے، پرائیویٹ سیکٹر میں بیسیوں بینک بیٹھے ہوئے ہیں، فوج کی دو سیمنٹ کپمنیاں ہیں، پرائیویٹ سیکٹر میں بے تحاشہ ہیں، اسی طرح باقی کاروباروں میں بھی فوجی کارپوریشنز اسی طرح ہیں اور بھی کسی ایسے ادارے کی بات کریں گے تو صورتحال ایسی ہی ہے۔

لیکن کیا بجلی چوری روکنا فوج کا کام ہے؟ کیا ہم کبھی پوچھیں گے واپڈا اور کے الیکٹرک سے کہ یہ کام تو اّن کا تھا۔ کیا کراچی بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورتحال پر قابو پانا فوج کا کام تھا؟ بلدیہ کیا کر رہی تھی اور اب تک کیا کرتی آ رہی ہے؟ واپڈا والے رشوت لے کر کسی کو بھی کنڈیاں لگانے دیتے ہیں اور بلدیہ والے کنٹریکٹر سے مل کر ملا کر سب کچھ کھا پی جاتے ہیں اور کاغذوں میں کام پورا کر دیتے ہیں۔

لیکن جب سوال ابھرتا ہے ان کی کارکردگی کا تو پھر انھیں فوج کو ہی بلوانا پڑتا ہے۔ اس طرح اس خلاء کو فوج پُر کرتی ہے۔ اور پھر اس کے نتیجے میں فوج کا اپنا خانہ ان اداروں میں کھل جاتا ہے۔ تو کیا اس میں قصوروار فوج ہوئی یا وہ ادارے جنھوں نے پہلے اپنا کام درست نہ کیا اور پھر جب فوج ان پر قابض ہوگئی تو سوِل سپریمیسی کا راگ الاپنے لگے۔
جناب سپریمیسی ہوتی ہے کام سے۔ یہ اپنا کام تو پہلے درست کریں۔ فوج کی پھر کیا مجال ہے کہ اداروں پر مسلط ہو سکے؟

دوسری بات یہ کہ یہ انتہائی خام خیالی ہے کہ فوج صرف بندوق کے زور پر حکومت کرتی ہے۔ اگر ایسا واقعی ہوتا تو اس وقت ہر ملک کی فوج اس پر حکومت کر رہی ہوتی۔ طاقت کا صرف ایک فلسفہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پھیلانا چاہتی ہے۔
لیکن دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، یہ نہیں کہ وہاں فوج کا دِل نہیں کرتا حکمرانی میں آنے کا، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ فوج کو کوئی راستہ نہیں دیتا حکمرانی کی عمارت میں نقب لگانے کا۔ ترکی کی صورتحال واضع تھی جب لوگ اردگان کے لیئے فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے۔

دراصل میں بہت سے فوجی اور سرکاری محکمے اندر سے دیکھ چکا ہوں۔ فوجی محکمے میں ایک بات ضرور ہوتی ہے کہ صبح اپنے ٹائم سے زیادہ تر لوگ اپنی نشست پر موجود ہوتے ہیں۔ پھر چاہے حرامخوری ہی کر لیں، لیکن دن میں چار فائلیں تو نکالتے ہیں۔ اس کے برعکس سویلین محکموں میں یہ حال ہے کہ لوگ کبھی زندگی میں نوکری پر حاضر نہیں ہوئے اور ان کی تنخواہ خزانے سے جاتی رہتی ہے۔

میرا کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ فوج فرشتہ آفاقی ہے، جس کی وجہ سے ہم ہمیشہ مصائب سے بچے رہتے ہیں، فوج اپنی جگہہ بے تحاشہ نقائص کی جڑ ہے، جس سے اگنے والے کانٹے دار اشجار مثلاً پییپلز پارٹی، نون لیگ، ق لیگ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم وغیرہ ہماری دیوارِ مسکن پر سایہ فگن رہتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ محترمہ فاطمہ جناح ہوں یا شیخ مجیب یا اصغر خان، پاکستان کو صرف مخلص اور ایماندار سیاسی قیادت کی ہی نہیں، بلکہ ایک ایسی زِیرک قسم کی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو تھیلے سے باہر نکلی ہوئی بِلّی کو تھیلے میں واپس ڈالنے کا ہنر جانتی ہو۔ بد قسمتی سے ایسی قیادت ابھی تک سامنے نہ آ سکی۔

یہ سارے سیاستدان اپنی جگہہ مخلص، محنتی اور دیانتدار ضرور ہیں یا تھے۔ لیکن ان میں سے ایک بھی ایسا زِیرک، معامہ فہم اور ہوشیار نہیں تھا جو فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی چالوں سے خود کو بچا سکے۔ لہٰذا یہ سب لیڈر پاکستانی سیاست کی تاریخ کا ایک تاریک ماضی ہی ہیں۔
 

hammy_lucky

MPA (400+ posts)
نہیں ایسا نہیں کہ فوجی کارپوریشنز مقابلے کی اجازت نہیں دیتی، لیکن یہ ایک ثانوی بات ہے۔
بات یہاں طاقت کے ارتکاز کی ہے، جس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری فوج سیاستدانوں پر بھاری ہے۔

میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ فوج کے حاوی ہونے کی وجوہات سیاستدانوں کی اپنی کمزوریاں ہیں۔ جہاں بھی خلاء پیدا ہوتا ہے، آس پاس کا پانی فوراً اسے پُر کرتا ہے۔ اسی طرح جب سیاسی میدان میں یا دیگر سرکاری محکموں میں اس طرح کے خلاء ابھرتے ہیں تو فوج کو اس خلاء کو پُر کرنا پڑتا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں، زلزلے اور سیلاب سے لے کر پولیو کے قطرے پلانے اور مردم شماری کروانے کے لیئے بھی ہمارے پاس فوج کے علاوہ اور کوئی ادارہ ہے ہی نہیں۔ کیا یہ سب بھی فوج کا کام ہے؟ فوج کا ایک بینک ہے، پرائیویٹ سیکٹر میں بیسیوں بینک بیٹھے ہوئے ہیں، فوج کی دو سیمنٹ کپمنیاں ہیں، پرائیویٹ سیکٹر میں بے تحاشہ ہیں، اسی طرح باقی کاروباروں میں بھی فوجی کارپوریشنز اسی طرح ہیں اور بھی کسی ایسے ادارے کی بات کریں گے تو صورتحال ایسی ہی ہے۔

لیکن کیا بجلی چوری روکنا فوج کا کام ہے؟ کیا ہم کبھی پوچھیں گے واپڈا اور کے الیکٹرک سے کہ یہ کام تو اّن کا تھا۔ کیا کراچی بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورتحال پر قابو پانا فوج کا کام تھا؟ بلدیہ کیا کر رہی تھی اور اب تک کیا کرتی آ رہی ہے؟ واپڈا والے رشوت لے کر کسی کو بھی کنڈیاں لگانے دیتے ہیں اور بلدیہ والے کنٹریکٹر سے مل کر ملا کر سب کچھ کھا پی جاتے ہیں اور کاغذوں میں کام پورا کر دیتے ہیں۔

لیکن جب سوال ابھرتا ہے ان کی کارکردگی کا تو پھر انھیں فوج کو ہی بلوانا پڑتا ہے۔ اس طرح اس خلاء کو فوج پُر کرتی ہے۔ اور پھر اس کے نتیجے میں فوج کا اپنا خانہ ان اداروں میں کھل جاتا ہے۔ تو کیا اس میں قصوروار فوج ہوئی یا وہ ادارے جنھوں نے پہلے اپنا کام درست نہ کیا اور پھر جب فوج ان پر قابض ہوگئی تو سوِل سپریمیسی کا راگ الاپنے لگے۔
جناب سپریمیسی ہوتی ہے کام سے۔ یہ اپنا کام تو پہلے درست کریں۔ فوج کی پھر کیا مجال ہے کہ اداروں پر مسلط ہو سکے؟

دوسری بات یہ کہ یہ انتہائی خام خیالی ہے کہ فوج صرف بندوق کے زور پر حکومت کرتی ہے۔ اگر ایسا واقعی ہوتا تو اس وقت ہر ملک کی فوج اس پر حکومت کر رہی ہوتی۔ طاقت کا صرف ایک فلسفہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پھیلانا چاہتی ہے۔
لیکن دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، یہ نہیں کہ وہاں فوج کا دِل نہیں کرتا حکمرانی میں آنے کا، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ فوج کو کوئی راستہ نہیں دیتا حکمرانی کی عمارت میں نقب لگانے کا۔ ترکی کی صورتحال واضع تھی جب لوگ اردگان کے لیئے فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے۔

دراصل میں بہت سے فوجی اور سرکاری محکمے اندر سے دیکھ چکا ہوں۔ فوجی محکمے میں ایک بات ضرور ہوتی ہے کہ صبح اپنے ٹائم سے زیادہ تر لوگ اپنی نشست پر موجود ہوتے ہیں۔ پھر چاہے حرامخوری ہی کر لیں، لیکن دن میں چار فائلیں تو نکالتے ہیں۔ اس کے برعکس سویلین محکموں میں یہ حال ہے کہ لوگ کبھی زندگی میں نوکری پر حاضر نہیں ہوئے اور ان کی تنخواہ خزانے سے جاتی رہتی ہے۔

میرا کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ فوج فرشتہ آفاقی ہے، جس کی وجہ سے ہم ہمیشہ مصائب سے بچے رہتے ہیں، فوج اپنی جگہہ بے تحاشہ نقائص کی جڑ ہے، جس سے اگنے والے کانٹے دار اشجار مثلاً پییپلز پارٹی، نون لیگ، ق لیگ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم وغیرہ ہماری دیوارِ مسکن پر سایہ فگن رہتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ محترمہ فاطمہ جناح ہوں یا شیخ مجیب یا اصغر خان، پاکستان کو صرف مخلص اور ایماندار سیاسی قیادت کی ہی نہیں، بلکہ ایک ایسی زِیرک قسم کی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو تھیلے سے باہر نکلی ہوئی بِلّی کو تھیلے میں واپس ڈالنے کا ہنر جانتی ہو۔ بد قسمتی سے ایسی قیادت ابھی تک سامنے نہ آ سکی۔

یہ سارے سیاستدان اپنی جگہہ مخلص، محنتی اور دیانتدار ضرور ہیں یا تھے۔ لیکن ان میں سے ایک بھی ایسا زِیرک، معامہ فہم اور ہوشیار نہیں تھا جو فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی چالوں سے خود کو بچا سکے۔ لہٰذا یہ سب لیڈر پاکستانی سیاست کی تاریخ کا ایک تاریک ماضی ہی ہیں۔
جناب ہم دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ اور بھی بہت سارے عوامل ہیں جن پر ہم پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کے بارے میں تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔ میں یہ کہنا اور دعا کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز ہوش میں آجائیں اور ماحول فراہم کریں جہاں ہم ہنر مند قیادت پیدا کرسکیں کیونکہ پاکستان میں ساری چیزیں زوال پزیر ہیں۔