پتھر کے بت کی پوجا کرنا بمقابلہ پتھر کے شیطان کو کنکرمارنا

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
ایک ہندو(وکرم) اور مسلمان (عبداللہ) کے درمیان مکالمہ

عبداللہ: یار وکرم تم اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی ہو، دلیل کے قائل ہو، ذرا ایک بات تو بتاؤ، تم ہندو لوگ پتھر کے بنے ہوئے بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہو، تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ تم نے خود ان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوتا ہے، اس کے باوجود بھی تم سمجھتے ہو کہ وہ تمہاری دعا سنتے ہیں اور تمہاری مدد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا یہ خلافِ عقل نہیں۔۔؟

وکرم (تھوڑا سا مسکرایا اور بولا): تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ پتھر کے بنے ہوئے بت کچھ سن بول اور محسوس نہیں کرسکتے۔۔؟؟

عبداللہ: بالکل ، میرا کیا، کسی بھی ذی شعور شخص کا یہی خیال بلکہ یقین ہوگا۔۔

وکرم: اگر تمہارے خیال میں پتھر کچھ بھی محسوس نہیں کرسکتا، تو ذرا اس بات کی وضاحت تو کرنا کہ تم مسلمان جو پتھر کے بنے ہوئے شیطان کو کنکریاں مارتے ہو، وہ کس قدر لاجیکل ہے؟ جب پتھر کچھ محسوس ہی نہیں کرسکتا تو اس کو کنکریاں مارنے کی کیا تک۔۔۔؟؟

عبداللہ: (تھوڑی دیر سوچنے کے بعد)۔ میرے خیال میں ہم محض علامتاً اس پتھر کے شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں، نہ کہ یہ سمجھ کر کہ اس سے پتھر کے شیطان کو کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ شیطان سے نفرت کا ایک علامتی اظہار ہے۔

وکرم: (ہوں۔۔۔۔ لمبی سی ہوں کرکے بولا)۔ تو گویا اگر تم لوگ پتھر کو کنکریاں مارو تو یہ علامتی اظہار ہے اور تمہارے نزدیک خلافِ عقل نہیں ، جبکہ اگر ہم پتھر کے بت کو بطور علامت اور شبیہہ کے سامنے رکھیں تو یہ تمہارے خیال میں خلافِ عقل ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔؟۔پتھر کے بت کو تو ہم بطور شبیہہ استعمال کرتے ہیں کہ انسان کی نظر خوگرِ پیکرِ محسوس ہے، وگرنہ اس سے ہماری مراد تو بھگوان کے وہ اوتار ہیں جو انسانی روپ لے کر اس دنیا میں آئے، ہم پتھر سے نہیں مانگتے، اس اوتار سے مانگتے ہیں جس کو ہم پتھر کی شکل بنا کر اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ کیا تم لوگ پتھر کے گھر (کعبے) کے گرد چکر نہیں لگاتے، کیا تم لوگ پتھر کے گھر کے سامنے بیٹھ کر دعائیں اور التجائیں نہیں کرتے، کیا تم لوگ پتھر کے گھر کے سامنے سجدے نہیں کرتے، کیا تم لوگ ایک پتھر حجرِ اسود کو مقدس مان کر نہیں چومتے۔۔؟ پتھروں کے معاملے میں ہم اور تم ایک برابر ہیں، نہ میں تم پر اعتراض کرسکتا ہوں نہ تم مجھ پر۔۔

عبداللہ (قدرے لاجواب ہوگیا، کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا)۔۔ تمہارے مذہب میں گنگا جل جو کہ محض دریا کا پانی ہے، اس کو بھی مقدس مانا جاتا ہے، بھلا اس کی کوئی تُک بنتی ہے؟ پانی کو مقدس ماننے اور اس کا احترام کرنے میں کیا لاجک ہے۔۔؟

وکرم( پھر زیرِ لب مسکرایا اور بولا)۔۔۔ تو آبِ زم زم کیا ہے۔۔؟؟

عبداللہ (پھر لاجوب ہوگیا، تھوڑی دیر سوچتا رہا، مگر کچھ نہ سوجھا۔۔ پھر بولا): میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ بے شمار چیزوں کی عبادت کرتے ہو، جن کو تم بھگوان کہتے ہو، کوئی بھگوان کرشن ہے، تو کوئی بھگوان رام ہے، کوئی بھگوان ہنومان ہے تو کوئی ماں کالی ماتا ہے، غرضیکہ ہزاروں قسم کے بھگوان ہیں جن کو تم خدا کا درجہ دیتے ہو اور ان سے التجائیں کرتے ہو، کیا تمہارے یہ ہزاروں لاکھوں بھگوان مل کر صرف ایک دن کیلئے سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال سکتے ہیں۔۔؟؟ ۔(یہ پوچھتے ہوئے عبداللہ کے ذہن میں حضرت ابراہیم کا نمرود سے کیا گیا سوال تھا، حضرت ابراہیم نے نمرود کو یہی چیلنج کیا تھا جس پر نمرود لاجواب ہوگیا تھا)۔

وکرم نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال داغ دیا: تم کس کی عبادت کرتے ہو، کس کو خدا مانتے ہو۔۔

عبداللہ: ہم تو صرف ایک ہی ذاتِ پاک صفات کی عبادت کرتے ہیں، جس کو ہم اللہ کہتے ہیں۔۔

وکرم: تو اگر میں کہوں کہ تم اپنے اللہ سے کہو کہ ایک دن کیلئے سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال کر دکھادے، تو کیا وہ ایسا کرسکتا ہے۔۔؟؟

عبداللہ ایک بار پھر لاجواب ہوگیا۔۔ تھوڑی دیر کمرے میں سکوت چھایا رہا۔۔۔ پھر وکرم بولا: دیکھو عبداللہ: میرے اور تمہارے مذہب میں کوئی زیادہ انتر نہیں ہے، میرے لئے میرا دھرم سچا ہے اور تمہارے لئے تمہارا۔ اس میں کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔۔ مگر عبداللہ سوچ رہا تھا۔۔

کچھ دیر بعد عبداللہ بولا۔۔ نہیں وکرم: میرے لئے میرا مذہب بہت اہمیت رکھتا ہے، تمہاری باتوں نے مجھے شک میں ڈال دیا ہے، میرے ذہن میں ایک شخصیت کا نام آیا ہے جو ہمارے علاقے کی جانی مانی گیانی شخصیت ہیں ، ان کا نام مہاراج زندہ رود ہے، کیوں نہ ہم ان کے پاس چلیں، اپنے اپنے دلائل ان کے سامنے رکھیں، وہ فیصلہ کریں گے کہ ہم میں سے سچا مذہب کس کا ہے۔۔ وکرم بخوشی مان گیا۔۔۔

تھوڑی دیر بعد دونوں مہاگیانی، مہاودھوان، مہاراج زندہ رود کے دربار میں ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ مہاراج زندہ رود ایک اونچے سے تخت پر براجمان گول تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے ہاتھ میں جام پکڑے بنتِ انگور کے گھونٹ پہ گھونٹ بھررہے تھے۔ دونوں نے اپنی اپنی بپتا مہاراج زندہ رود کے سامنے رکھی ، پوری کہانی سننے کے بعد مہاراج زندہ رود یوں گویا ہوئے۔۔

عبداللہ! ذرا یہ بتاؤ تمہیں کس نے بتایا کہ تمہارا ہی مذہب سچا ہے۔۔؟؟

عبداللہ: جی میرے والدین نے:۔۔

اور وکرم تمہیں کس نے بتایا۔؟۔

وکرم: جی میرے والدین نے۔۔ کیونکہ میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا۔۔


مہاراج زندہ رود بولے: تو گویا تم دونوں اپنے اپنے والدین کے مذہب پر چل رہے ہو، تم دونوں کی اپنی ذاتی سوچ کوئی نہیں، جو والدین نے آباؤ اجداد نے بتادیا بس اسی کو سچا مان لیا، تم میں سے عبداللہ اگر وکرم کے گھر میں پیدا ہوتا تو آج مسلمان کی بجائے ہندو ہوتا اور وکرم عبداللہ کے گھر پیدا ہوتا تو ہندو کی بجائے مسلمان ہوتا ۔۔ تم دونوں سے بڑا مورکھ کوئی نہیں، تم بغیر دماغ خرچ کئے، بغیر اپنی ذاتی سوچ کو پروان چڑھائے، صرف تقلید کی راہ پر چل کر سچ تک پہنچنا چاہتے ہو، اس سے بڑی بیوقوفی اور کیا ہوگی۔ اگر تمہیں واقعی سچ کی تلاش ہے، خدا کی تلاش ہے، اگر تم واقعی خدا تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمہیں سب سے پہلے اپنے اپنے گھروالوں کی طرف سے پہنائے گئے مذہب کے طوق گلے سے اتار پھینکنے ہوں گے۔کیونکہ یہ طوق تمہاری سوچ کو باندھے ہوئے ہیں، یہ پرانے زمانوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں، جن میں کوئی لاجک نہیں، کوئی عقل کی بات نہیں، جن میں کوئی علم کی بات نہیں، محض قدیم زمانے کے لوگوں کے لگائے ہوئے تیرتکے اور قیاس ہیں، آج کے دور میں انسان علمی اعتبار سے ماضی کے انسان سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور تم ابھی تک فرسودہ زمانوں کے بوسیدہ افکار کا بوجھ اٹھائے پھررہے ہو، اتار پھینکو اس بوجھ کو، اپنی سوچ کو استعمال کرنا سیکھو، خدا تمہیں ملے گا یا نہیں ملے گا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، ہاں مگر یہ جان لو کہ تمہارے پورے وجود میں صرف دماغ ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں باقی تمام مخلوقات سے منفرد بناتی ہے، اسی دماغ کو استعمال کرکے تم اپنے سوالوں کے جواب خود ہی ڈھونڈ سکتے ہو۔۔

یہ کہہ کر مہاراج زندہ رود نے جام سے ایک بڑا گھونٹ بھرا اور سرود و کیف کی حالت میں تخلیہ کا حکم جاری کردیا۔ وکرم اور عبداللہ جب مہاراج زندہ رود کے دربار سے باہر نکلے تو بہت ہلکے پھلکے ہوچکے تھے، انہوں نے اپنےگلوں کے طوق اتار پھینکے تھے۔۔۔
 
Last edited:

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
ایک ہندو(وکرم) اور مسلمان (عبداللہ) کے درمیان مکالمہ

عبداللہ: یار وکرم تم اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی ہو، دلیل کے قائل ہو، ذرا ایک بات تو بتاؤ، تم ہندو لوگ پتھر کے بنے ہوئے بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہو، تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ تم نے خود ان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوتا ہے، اس کے باوجود بھی تم سمجھتے ہو کہ وہ تمہاری دعا سنتے ہیں اور تمہاری مدد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا یہ خلافِ عقل نہیں۔۔؟

وکرم (تھوڑا سا مسکرایا اور بولا): تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ پتھر کے بنے ہوئے بت کچھ سن بول اور محسوس نہیں کرسکتے۔۔؟؟

عبداللہ: بالکل ، میرا کیا، کسی بھی ذی شعور شخص کا یہی خیال بلکہ یقین ہوگا۔۔

وکرم: اگر تمہارے خیال میں پتھر کچھ بھی محسوس نہیں کرسکتا، تو ذرا اس بات کی وضاحت تو کرنا کہ تم مسلمان جو پتھر کے بنے ہوئے شیطان کو کنکریاں مارتے ہو، وہ کس قدر لاجیکل ہے؟ جب پتھر کچھ محسوس ہی نہیں کرسکتا تو اس کو کنکریاں مارنے کی کیا تک۔۔۔؟؟

عبداللہ: (تھوڑی دیر سوچنے کے بعد)۔ میرے خیال میں ہم محض علامتاً اس پتھر کے شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں، نہ کہ یہ سمجھ کر کہ اس سے پتھر کے شیطان کو کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ شیطان سے نفرت کا ایک علامتی اظہار ہے۔

وکرم: (ہوں۔۔۔۔ لمبی سی ہوں کرکے بولا)۔ تو گویا اگر تم لوگ پتھر کو کنکریاں مارو تو یہ علامتی اظہار ہے اور تمہارے نزدیک خلافِ عقل نہیں ، جبکہ اگر ہم پتھر کے بت کو بطور علامت اور شبیہہ کے سامنے رکھیں تو یہ تمہارے خیال میں خلافِ عقل ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔؟۔پتھر کے بت کو تو ہم بطور شبیہہ استعمال کرتے ہیں کہ انسان کی نظر خوگرِ پیکرِ محسوس ہے، وگرنہ اس سے ہماری مراد تو بھگوان کے وہ اوتار ہیں جو انسانی روپ لے کر اس دنیا میں آئے، ہم پتھر سے نہیں مانگتے، اس اوتار سے مانگتے ہیں جس کو ہم پتھر کی شکل بنا کر اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ کیا تم لوگ پتھر کے گھر (کعبے) کے گرد چکر نہیں لگاتے، کیا تم لوگ پتھر کے گھر کے سامنے بیٹھ کر دعائیں اور التجائیں نہیں کرتے، کیا تم لوگ پتھر کے گھر کے سامنے سجدے نہیں کرتے، کیا تم لوگ ایک پتھر حجرِ اسود کو مقدس مان کر نہیں چومتے۔۔؟ پتھروں کے معاملے میں ہم اور تم ایک برابر ہیں، نہ میں تم پر اعتراض کرسکتا ہوں نہ تم مجھ پر۔۔

عبداللہ (قدرے لاجواب ہوگیا، کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا)۔۔ تمہارے مذہب میں گنگا جل جو کہ محض دریا کا پانی ہے، اس کو بھی مقدس مانا جاتا ہے، بھلا اس کی کوئی تُک بنتی ہے؟ پانی کو مقدس ماننے اور اس کا احترام کرنے میں کیا لاجک ہے۔۔؟

وکرم( پھر زیرِ لب مسکرایا اور بولا)۔۔۔ تو آبِ زم زم کیا ہے۔۔؟؟

عبداللہ (پھر لاجوب ہوگیا، تھوڑی دیر سوچتا رہا، مگر کچھ نہ سوجھا۔۔ پھر بولا): میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ بے شمار چیزوں کی عبادت کرتے ہو، جن کو تم بھگوان کہتے ہو، کوئی بھگوان کرشن ہے، تو کوئی بھگوان رام ہے، کوئی بھگوان ہنومان ہے تو کوئی ماں کالی ماتا ہے، غرضیکہ ہزاروں قسم کے بھگوان ہیں جن کو تم خدا کا درجہ دیتے ہو اور ان سے التجائیں کرتے ہو، کیا تمہارے یہ ہزاروں لاکھوں بھگوان مل کر صرف ایک دن کیلئے سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال سکتے ہیں۔۔؟؟ ۔(یہ پوچھتے ہوئے عبداللہ کے ذہن میں حضرت ابراہیم کا نمرود سے کیا گیا سوال تھا، حضرت ابراہیم نے نمرود کو یہی چیلنج کیا تھا جس پر نمرود لاجواب ہوگیا تھا)۔

وکرم نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال داغ دیا: تم کس کی عبادت کرتے ہو، کس کو خدا مانتے ہو۔۔

عبداللہ: ہم تو صرف ایک ہی ذاتِ پاک صفات کی عبادت کرتے ہیں، جس کو ہم اللہ کہتے ہیں۔۔

وکرم: تو اگر میں کہوں کہ تم اپنے اللہ سے کہو کہ ایک دن کیلئے سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال کر دکھادے، تو کیا وہ ایسا کرسکتا ہے۔۔؟؟

عبداللہ ایک بار پھر لاجواب ہوگیا۔۔ تھوڑی دیر کمرے میں سکوت چھایا رہا۔۔۔ پھر وکرم بولا: دیکھو عبداللہ: میرے اور تمہارے مذہب میں کوئی زیادہ انتر نہیں ہے، میرے لئے میرا دھرم سچا ہے اور تمہارے لئے تمہارا۔ اس میں کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔۔ مگر عبداللہ سوچ رہا تھا۔۔

کچھ دیر بعد عبداللہ بولا۔۔ نہیں وکرم: میرے لئے میرا مذہب بہت اہمیت رکھتا ہے، تمہاری باتوں نے مجھے شک میں ڈال دیا ہے، میرے ذہن میں ایک شخصیت کا نام آیا ہے جو ہمارے علاقے کی جانی مانی گیانی شخصیت ہیں ، ان کا نام مہاراج زندہ رود ہے، کیوں نہ ہم ان کے پاس چلیں، اپنے اپنے دلائل ان کے سامنے رکھیں، وہ فیصلہ کریں گے کہ ہم میں سے سچا مذہب کس کا ہے۔۔ وکرم بخوشی مان گیا۔۔۔

تھوڑی دیر بعد دونوں مہاگیانی، مہاودھوان، مہاراج زندہ رود کے دربار میں ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ مہاراج زندہ رود ایک اونچے سے تخت پر براجمان گول تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے ہاتھ میں جام پکڑے بنتِ انگور کے گھونٹ پہ گھونٹ بھررہے تھے۔ دونوں نے اپنی اپنی بپتا مہاراج زندہ رود کے سامنے رکھی ، پوری کہانی سننے کے بعد مہاراج زندہ رود یوں گویا ہوئے۔۔

عبداللہ! ذرا یہ بتاؤ تمہیں کس نے بتایا کہ تمہارا ہی مذہب سچا ہے۔۔؟؟

عبداللہ: جی میرے والدین نے:۔۔

اور وکرم تمہیں کس نے بتایا۔؟۔

وکرم: جی میرے والدین نے۔۔ کیونکہ میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا۔۔


مہاراج زندہ رود بولے: تو گویا تم دونوں اپنے اپنے والدین کے مذہب پر چل رہے ہو، تم دونوں کی اپنی ذاتی سوچ کوئی نہیں، جو والدین نے آباؤ اجداد نے بتادیا بس اسی کو سچا مان لیا، تم میں سے عبداللہ اگر وکرم کے گھر میں پیدا ہوتا تو آج مسلمان کی بجائے ہندو ہوتا اور وکرم عبداللہ کے گھر پیدا ہوتا تو ہندو کی بجائے مسلمان ہوتا ۔۔ تم دونوں سے بڑا مورکھ کوئی نہیں، تم بغیر دماغ خرچ کئے، بغیر اپنی ذاتی سوچ کو پروان چڑھائے، صرف تقلید کی راہ پر چل کر سچ تک پہنچنا چاہتے ہو، اس سے بڑی بیوقوفی اور کیا ہوگی۔ اگر تمہیں واقعی سچ کی تلاش ہے، خدا کی تلاش ہے، اگر تم واقعی خدا تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمہیں سب سے پہلے اپنے اپنے گھروالوں کی طرف سے پہنائے گئے مذہب کے طوق گلے سے اتار پھینکنے ہوں گے۔کیونکہ یہ طوق تمہاری سوچ کو باندھے ہوئے ہیں، یہ پرانے زمانوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں، جن میں کوئی لاجک نہیں، کوئی عقل کی بات نہیں، جن میں کوئی علم کی بات نہیں، محض قدیم زمانے کے لوگوں کے لگائے ہوئے تیرتکے اور قیاس ہیں، آج کے دور میں انسان علمی اعتبار سے ماضی کے انسان سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور تم ابھی تک فرسودہ زمانوں کے بوسیدہ افکار کا بوجھ اٹھائے پھررہے ہو، اتار پھینکو اس بوجھ کو، اپنی سوچ کو استعمال کرنا سیکھو، خدا تمہیں ملے گا یا نہیں ملے گا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، ہاں مگر یہ جان لو کہ تمہارے پورے وجود میں صرف دماغ ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں باقی تمام مخلوقات سے منفرد بناتی ہے، اسی دماغ کو استعمال کرکے تم اپنے سوالوں کے جواب خود ہی ڈھونڈ سکتے ہو۔۔

یہ کہہ کر مہاراج زندہ رود نے جام سے ایک بڑا گھونٹ بھرا اور سرود و کیف کی حالت میں تخلیہ کا حکم جاری کردیا۔ وکرم اور عبداللہ جب مہاراج زندہ رود کے دربار سے باہر نکلے تو بہت ہلکے پھلکے ہوچکے تھے، انہوں نے اپنےگلوں کے طوق اتار پھینکے تھے۔۔۔
Can I ask. What is your personal belief?
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
!انسان پہلے بندر تھا یہ مشاہدہ خود کیا یا کسی سے سنائی بات ہے
 

A.jokhio

Minister (2k+ posts)
ایک ہندو(وکرم) اور مسلمان (عبداللہ) کے درمیان مکالمہ

عبداللہ: یار وکرم تم اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی ہو، دلیل کے قائل ہو، ذرا ایک بات تو بتاؤ، تم ہندو لوگ پتھر کے بنے ہوئے بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہو، تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ تم نے خود ان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوتا ہے، اس کے باوجود بھی تم سمجھتے ہو کہ وہ تمہاری دعا سنتے ہیں اور تمہاری مدد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا یہ خلافِ عقل نہیں۔۔؟

وکرم (تھوڑا سا مسکرایا اور بولا): تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ پتھر کے بنے ہوئے بت کچھ سن بول اور محسوس نہیں کرسکتے۔۔؟؟

عبداللہ: بالکل ، میرا کیا، کسی بھی ذی شعور شخص کا یہی خیال بلکہ یقین ہوگا۔۔

وکرم: اگر تمہارے خیال میں پتھر کچھ بھی محسوس نہیں کرسکتا، تو ذرا اس بات کی وضاحت تو کرنا کہ تم مسلمان جو پتھر کے بنے ہوئے شیطان کو کنکریاں مارتے ہو، وہ کس قدر لاجیکل ہے؟ جب پتھر کچھ محسوس ہی نہیں کرسکتا تو اس کو کنکریاں مارنے کی کیا تک۔۔۔؟؟

عبداللہ: (تھوڑی دیر سوچنے کے بعد)۔ میرے خیال میں ہم محض علامتاً اس پتھر کے شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں، نہ کہ یہ سمجھ کر کہ اس سے پتھر کے شیطان کو کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ شیطان سے نفرت کا ایک علامتی اظہار ہے۔

وکرم: (ہوں۔۔۔۔ لمبی سی ہوں کرکے بولا)۔ تو گویا اگر تم لوگ پتھر کو کنکریاں مارو تو یہ علامتی اظہار ہے اور تمہارے نزدیک خلافِ عقل نہیں ، جبکہ اگر ہم پتھر کے بت کو بطور علامت اور شبیہہ کے سامنے رکھیں تو یہ تمہارے خیال میں خلافِ عقل ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔؟۔پتھر کے بت کو تو ہم بطور شبیہہ استعمال کرتے ہیں کہ انسان کی نظر خوگرِ پیکرِ محسوس ہے، وگرنہ اس سے ہماری مراد تو بھگوان کے وہ اوتار ہیں جو انسانی روپ لے کر اس دنیا میں آئے، ہم پتھر سے نہیں مانگتے، اس اوتار سے مانگتے ہیں جس کو ہم پتھر کی شکل بنا کر اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ کیا تم لوگ پتھر کے گھر (کعبے) کے گرد چکر نہیں لگاتے، کیا تم لوگ پتھر کے گھر کے سامنے بیٹھ کر دعائیں اور التجائیں نہیں کرتے، کیا تم لوگ پتھر کے گھر کے سامنے سجدے نہیں کرتے، کیا تم لوگ ایک پتھر حجرِ اسود کو مقدس مان کر نہیں چومتے۔۔؟ پتھروں کے معاملے میں ہم اور تم ایک برابر ہیں، نہ میں تم پر اعتراض کرسکتا ہوں نہ تم مجھ پر۔۔

عبداللہ (قدرے لاجواب ہوگیا، کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا)۔۔ تمہارے مذہب میں گنگا جل جو کہ محض دریا کا پانی ہے، اس کو بھی مقدس مانا جاتا ہے، بھلا اس کی کوئی تُک بنتی ہے؟ پانی کو مقدس ماننے اور اس کا احترام کرنے میں کیا لاجک ہے۔۔؟

وکرم( پھر زیرِ لب مسکرایا اور بولا)۔۔۔ تو آبِ زم زم کیا ہے۔۔؟؟

عبداللہ (پھر لاجوب ہوگیا، تھوڑی دیر سوچتا رہا، مگر کچھ نہ سوجھا۔۔ پھر بولا): میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ بے شمار چیزوں کی عبادت کرتے ہو، جن کو تم بھگوان کہتے ہو، کوئی بھگوان کرشن ہے، تو کوئی بھگوان رام ہے، کوئی بھگوان ہنومان ہے تو کوئی ماں کالی ماتا ہے، غرضیکہ ہزاروں قسم کے بھگوان ہیں جن کو تم خدا کا درجہ دیتے ہو اور ان سے التجائیں کرتے ہو، کیا تمہارے یہ ہزاروں لاکھوں بھگوان مل کر صرف ایک دن کیلئے سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال سکتے ہیں۔۔؟؟ ۔(یہ پوچھتے ہوئے عبداللہ کے ذہن میں حضرت ابراہیم کا نمرود سے کیا گیا سوال تھا، حضرت ابراہیم نے نمرود کو یہی چیلنج کیا تھا جس پر نمرود لاجواب ہوگیا تھا)۔

وکرم نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال داغ دیا: تم کس کی عبادت کرتے ہو، کس کو خدا مانتے ہو۔۔

عبداللہ: ہم تو صرف ایک ہی ذاتِ پاک صفات کی عبادت کرتے ہیں، جس کو ہم اللہ کہتے ہیں۔۔

وکرم: تو اگر میں کہوں کہ تم اپنے اللہ سے کہو کہ ایک دن کیلئے سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال کر دکھادے، تو کیا وہ ایسا کرسکتا ہے۔۔؟؟

عبداللہ ایک بار پھر لاجواب ہوگیا۔۔ تھوڑی دیر کمرے میں سکوت چھایا رہا۔۔۔ پھر وکرم بولا: دیکھو عبداللہ: میرے اور تمہارے مذہب میں کوئی زیادہ انتر نہیں ہے، میرے لئے میرا دھرم سچا ہے اور تمہارے لئے تمہارا۔ اس میں کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔۔ مگر عبداللہ سوچ رہا تھا۔۔

کچھ دیر بعد عبداللہ بولا۔۔ نہیں وکرم: میرے لئے میرا مذہب بہت اہمیت رکھتا ہے، تمہاری باتوں نے مجھے شک میں ڈال دیا ہے، میرے ذہن میں ایک شخصیت کا نام آیا ہے جو ہمارے علاقے کی جانی مانی گیانی شخصیت ہیں ، ان کا نام مہاراج زندہ رود ہے، کیوں نہ ہم ان کے پاس چلیں، اپنے اپنے دلائل ان کے سامنے رکھیں، وہ فیصلہ کریں گے کہ ہم میں سے سچا مذہب کس کا ہے۔۔ وکرم بخوشی مان گیا۔۔۔

تھوڑی دیر بعد دونوں مہاگیانی، مہاودھوان، مہاراج زندہ رود کے دربار میں ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ مہاراج زندہ رود ایک اونچے سے تخت پر براجمان گول تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے ہاتھ میں جام پکڑے بنتِ انگور کے گھونٹ پہ گھونٹ بھررہے تھے۔ دونوں نے اپنی اپنی بپتا مہاراج زندہ رود کے سامنے رکھی ، پوری کہانی سننے کے بعد مہاراج زندہ رود یوں گویا ہوئے۔۔

عبداللہ! ذرا یہ بتاؤ تمہیں کس نے بتایا کہ تمہارا ہی مذہب سچا ہے۔۔؟؟

عبداللہ: جی میرے والدین نے:۔۔

اور وکرم تمہیں کس نے بتایا۔؟۔

وکرم: جی میرے والدین نے۔۔ کیونکہ میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا۔۔


مہاراج زندہ رود بولے: تو گویا تم دونوں اپنے اپنے والدین کے مذہب پر چل رہے ہو، تم دونوں کی اپنی ذاتی سوچ کوئی نہیں، جو والدین نے آباؤ اجداد نے بتادیا بس اسی کو سچا مان لیا، تم میں سے عبداللہ اگر وکرم کے گھر میں پیدا ہوتا تو آج مسلمان کی بجائے ہندو ہوتا اور وکرم عبداللہ کے گھر پیدا ہوتا تو ہندو کی بجائے مسلمان ہوتا ۔۔ تم دونوں سے بڑا مورکھ کوئی نہیں، تم بغیر دماغ خرچ کئے، بغیر اپنی ذاتی سوچ کو پروان چڑھائے، صرف تقلید کی راہ پر چل کر سچ تک پہنچنا چاہتے ہو، اس سے بڑی بیوقوفی اور کیا ہوگی۔ اگر تمہیں واقعی سچ کی تلاش ہے، خدا کی تلاش ہے، اگر تم واقعی خدا تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمہیں سب سے پہلے اپنے اپنے گھروالوں کی طرف سے پہنائے گئے مذہب کے طوق گلے سے اتار پھینکنے ہوں گے۔کیونکہ یہ طوق تمہاری سوچ کو باندھے ہوئے ہیں، یہ پرانے زمانوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں، جن میں کوئی لاجک نہیں، کوئی عقل کی بات نہیں، جن میں کوئی علم کی بات نہیں، محض قدیم زمانے کے لوگوں کے لگائے ہوئے تیرتکے اور قیاس ہیں، آج کے دور میں انسان علمی اعتبار سے ماضی کے انسان سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور تم ابھی تک فرسودہ زمانوں کے بوسیدہ افکار کا بوجھ اٹھائے پھررہے ہو، اتار پھینکو اس بوجھ کو، اپنی سوچ کو استعمال کرنا سیکھو، خدا تمہیں ملے گا یا نہیں ملے گا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، ہاں مگر یہ جان لو کہ تمہارے پورے وجود میں صرف دماغ ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں باقی تمام مخلوقات سے منفرد بناتی ہے، اسی دماغ کو استعمال کرکے تم اپنے سوالوں کے جواب خود ہی ڈھونڈ سکتے ہو۔۔

یہ کہہ کر مہاراج زندہ رود نے جام سے ایک بڑا گھونٹ بھرا اور سرود و کیف کی حالت میں تخلیہ کا حکم جاری کردیا۔ وکرم اور عبداللہ جب مہاراج زندہ رود کے دربار سے باہر نکلے تو بہت ہلکے پھلکے ہوچکے تھے، انہوں نے اپنےگلوں کے طوق اتار پھینکے تھے۔۔۔
hahahaha....every passing day, you express how ignorant and illiterate you are, as far as knowledge of religion and God is concern...you dont even bother about common sense...Jamraat (place of stoning devil) and Kaaba both are "Maqaams"/destinations, not idols (as against, in hindusism, that symbolize God with shape "surat" which is Kufr)..
 

Eigoroll

MPA (400+ posts)
ایک ہندو(وکرم) اور مسلمان (عبداللہ) کے درمیان مکالمہ

عبداللہ: یار وکرم تم اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی ہو، دلیل کے قائل ہو، ذرا ایک بات تو بتاؤ، تم ہندو لوگ پتھر کے بنے ہوئے بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہو، تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ تم نے خود ان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوتا ہے، اس کے باوجود بھی تم سمجھتے ہو کہ وہ تمہاری دعا سنتے ہیں اور تمہاری مدد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا یہ خلافِ عقل نہیں۔۔؟

وکرم (تھوڑا سا مسکرایا اور بولا): تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ پتھر کے بنے ہوئے بت کچھ سن بول اور محسوس نہیں کرسکتے۔۔؟؟

عبداللہ: بالکل ، میرا کیا، کسی بھی ذی شعور شخص کا یہی خیال بلکہ یقین ہوگا۔۔

وکرم: اگر تمہارے خیال میں پتھر کچھ بھی محسوس نہیں کرسکتا، تو ذرا اس بات کی وضاحت تو کرنا کہ تم مسلمان جو پتھر کے بنے ہوئے شیطان کو کنکریاں مارتے ہو، وہ کس قدر لاجیکل ہے؟ جب پتھر کچھ محسوس ہی نہیں کرسکتا تو اس کو کنکریاں مارنے کی کیا تک۔۔۔؟؟

عبداللہ: (تھوڑی دیر سوچنے کے بعد)۔ میرے خیال میں ہم محض علامتاً اس پتھر کے شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں، نہ کہ یہ سمجھ کر کہ اس سے پتھر کے شیطان کو کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ شیطان سے نفرت کا ایک علامتی اظہار ہے۔

وکرم: (ہوں۔۔۔۔ لمبی سی ہوں کرکے بولا)۔ تو گویا اگر تم لوگ پتھر کو کنکریاں مارو تو یہ علامتی اظہار ہے اور تمہارے نزدیک خلافِ عقل نہیں ، جبکہ اگر ہم پتھر کے بت کو بطور علامت اور شبیہہ کے سامنے رکھیں تو یہ تمہارے خیال میں خلافِ عقل ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔؟۔پتھر کے بت کو تو ہم بطور شبیہہ استعمال کرتے ہیں کہ انسان کی نظر خوگرِ پیکرِ محسوس ہے، وگرنہ اس سے ہماری مراد تو بھگوان کے وہ اوتار ہیں جو انسانی روپ لے کر اس دنیا میں آئے، ہم پتھر سے نہیں مانگتے، اس اوتار سے مانگتے ہیں جس کو ہم پتھر کی شکل بنا کر اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ کیا تم لوگ پتھر کے گھر (کعبے) کے گرد چکر نہیں لگاتے، کیا تم لوگ پتھر کے گھر کے سامنے بیٹھ کر دعائیں اور التجائیں نہیں کرتے، کیا تم لوگ پتھر کے گھر کے سامنے سجدے نہیں کرتے، کیا تم لوگ ایک پتھر حجرِ اسود کو مقدس مان کر نہیں چومتے۔۔؟ پتھروں کے معاملے میں ہم اور تم ایک برابر ہیں، نہ میں تم پر اعتراض کرسکتا ہوں نہ تم مجھ پر۔۔

عبداللہ (قدرے لاجواب ہوگیا، کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا)۔۔ تمہارے مذہب میں گنگا جل جو کہ محض دریا کا پانی ہے، اس کو بھی مقدس مانا جاتا ہے، بھلا اس کی کوئی تُک بنتی ہے؟ پانی کو مقدس ماننے اور اس کا احترام کرنے میں کیا لاجک ہے۔۔؟

وکرم( پھر زیرِ لب مسکرایا اور بولا)۔۔۔ تو آبِ زم زم کیا ہے۔۔؟؟

عبداللہ (پھر لاجوب ہوگیا، تھوڑی دیر سوچتا رہا، مگر کچھ نہ سوجھا۔۔ پھر بولا): میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ بے شمار چیزوں کی عبادت کرتے ہو، جن کو تم بھگوان کہتے ہو، کوئی بھگوان کرشن ہے، تو کوئی بھگوان رام ہے، کوئی بھگوان ہنومان ہے تو کوئی ماں کالی ماتا ہے، غرضیکہ ہزاروں قسم کے بھگوان ہیں جن کو تم خدا کا درجہ دیتے ہو اور ان سے التجائیں کرتے ہو، کیا تمہارے یہ ہزاروں لاکھوں بھگوان مل کر صرف ایک دن کیلئے سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال سکتے ہیں۔۔؟؟ ۔(یہ پوچھتے ہوئے عبداللہ کے ذہن میں حضرت ابراہیم کا نمرود سے کیا گیا سوال تھا، حضرت ابراہیم نے نمرود کو یہی چیلنج کیا تھا جس پر نمرود لاجواب ہوگیا تھا)۔

وکرم نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال داغ دیا: تم کس کی عبادت کرتے ہو، کس کو خدا مانتے ہو۔۔

عبداللہ: ہم تو صرف ایک ہی ذاتِ پاک صفات کی عبادت کرتے ہیں، جس کو ہم اللہ کہتے ہیں۔۔

وکرم: تو اگر میں کہوں کہ تم اپنے اللہ سے کہو کہ ایک دن کیلئے سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال کر دکھادے، تو کیا وہ ایسا کرسکتا ہے۔۔؟؟

عبداللہ ایک بار پھر لاجواب ہوگیا۔۔ تھوڑی دیر کمرے میں سکوت چھایا رہا۔۔۔ پھر وکرم بولا: دیکھو عبداللہ: میرے اور تمہارے مذہب میں کوئی زیادہ انتر نہیں ہے، میرے لئے میرا دھرم سچا ہے اور تمہارے لئے تمہارا۔ اس میں کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔۔ مگر عبداللہ سوچ رہا تھا۔۔

کچھ دیر بعد عبداللہ بولا۔۔ نہیں وکرم: میرے لئے میرا مذہب بہت اہمیت رکھتا ہے، تمہاری باتوں نے مجھے شک میں ڈال دیا ہے، میرے ذہن میں ایک شخصیت کا نام آیا ہے جو ہمارے علاقے کی جانی مانی گیانی شخصیت ہیں ، ان کا نام مہاراج زندہ رود ہے، کیوں نہ ہم ان کے پاس چلیں، اپنے اپنے دلائل ان کے سامنے رکھیں، وہ فیصلہ کریں گے کہ ہم میں سے سچا مذہب کس کا ہے۔۔ وکرم بخوشی مان گیا۔۔۔

تھوڑی دیر بعد دونوں مہاگیانی، مہاودھوان، مہاراج زندہ رود کے دربار میں ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ مہاراج زندہ رود ایک اونچے سے تخت پر براجمان گول تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے ہاتھ میں جام پکڑے بنتِ انگور کے گھونٹ پہ گھونٹ بھررہے تھے۔ دونوں نے اپنی اپنی بپتا مہاراج زندہ رود کے سامنے رکھی ، پوری کہانی سننے کے بعد مہاراج زندہ رود یوں گویا ہوئے۔۔

عبداللہ! ذرا یہ بتاؤ تمہیں کس نے بتایا کہ تمہارا ہی مذہب سچا ہے۔۔؟؟

عبداللہ: جی میرے والدین نے:۔۔

اور وکرم تمہیں کس نے بتایا۔؟۔

وکرم: جی میرے والدین نے۔۔ کیونکہ میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا۔۔


مہاراج زندہ رود بولے: تو گویا تم دونوں اپنے اپنے والدین کے مذہب پر چل رہے ہو، تم دونوں کی اپنی ذاتی سوچ کوئی نہیں، جو والدین نے آباؤ اجداد نے بتادیا بس اسی کو سچا مان لیا، تم میں سے عبداللہ اگر وکرم کے گھر میں پیدا ہوتا تو آج مسلمان کی بجائے ہندو ہوتا اور وکرم عبداللہ کے گھر پیدا ہوتا تو ہندو کی بجائے مسلمان ہوتا ۔۔ تم دونوں سے بڑا مورکھ کوئی نہیں، تم بغیر دماغ خرچ کئے، بغیر اپنی ذاتی سوچ کو پروان چڑھائے، صرف تقلید کی راہ پر چل کر سچ تک پہنچنا چاہتے ہو، اس سے بڑی بیوقوفی اور کیا ہوگی۔ اگر تمہیں واقعی سچ کی تلاش ہے، خدا کی تلاش ہے، اگر تم واقعی خدا تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمہیں سب سے پہلے اپنے اپنے گھروالوں کی طرف سے پہنائے گئے مذہب کے طوق گلے سے اتار پھینکنے ہوں گے۔کیونکہ یہ طوق تمہاری سوچ کو باندھے ہوئے ہیں، یہ پرانے زمانوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں، جن میں کوئی لاجک نہیں، کوئی عقل کی بات نہیں، جن میں کوئی علم کی بات نہیں، محض قدیم زمانے کے لوگوں کے لگائے ہوئے تیرتکے اور قیاس ہیں، آج کے دور میں انسان علمی اعتبار سے ماضی کے انسان سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور تم ابھی تک فرسودہ زمانوں کے بوسیدہ افکار کا بوجھ اٹھائے پھررہے ہو، اتار پھینکو اس بوجھ کو، اپنی سوچ کو استعمال کرنا سیکھو، خدا تمہیں ملے گا یا نہیں ملے گا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، ہاں مگر یہ جان لو کہ تمہارے پورے وجود میں صرف دماغ ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں باقی تمام مخلوقات سے منفرد بناتی ہے، اسی دماغ کو استعمال کرکے تم اپنے سوالوں کے جواب خود ہی ڈھونڈ سکتے ہو۔۔

یہ کہہ کر مہاراج زندہ رود نے جام سے ایک بڑا گھونٹ بھرا اور سرود و کیف کی حالت میں تخلیہ کا حکم جاری کردیا۔ وکرم اور عبداللہ جب مہاراج زندہ رود کے دربار سے باہر نکلے تو بہت ہلکے پھلکے ہوچکے تھے، انہوں نے اپنےگلوں کے طوق اتار پھینکے تھے۔۔۔
I once fixed you before over your nonsense on the issue of befriending Jews and Christians. You ran away with your tail between your legs. Since I am seeing you shitting on this forum more often now, I have decided to shove your bullshit back into your throat. So here it is:

We do not throw stones at a "stone devil". You can remove that stone marker at any time yet it wouldn't make a difference and the ritual will go on. Just the way you can remove Ka'aba, yet people will continue to worship towards that direction. We don't worship the structures. They only symbolize direction and unity. Similarly the stone marker at Jamarat only symbolizes the location and nothing more.

But, you already know all this. Your Islamophobia is the product of your psychological and emotional derangement, not your rationality.
 

Hunter_

MPA (400+ posts)
there is no comparison, this is called "out of context", there is no comparison between the two, asking from stone or statues is Shirk, this is as simple as that, whereas stoning the pillar is just a ritual just like circling Kabah.

you spend time writing all that in Urdu and then posting here for what ,?
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
Totally agree with this

مہاراج زندہ رود بولے: تو گویا تم دونوں اپنے اپنے والدین کے مذہب پر چل رہے ہو، تم دونوں کی اپنی ذاتی سوچ کوئی نہیں، جو والدین نے آباؤ اجداد نے بتادیا بس اسی کو سچا مان لیا، تم میں سے عبداللہ اگر وکرم کے گھر میں پیدا ہوتا تو آج مسلمان کی بجائے ہندو ہوتا اور وکرم عبداللہ کے گھر پیدا ہوتا تو ہندو کی بجائے مسلمان ہوتا ۔۔ تم دونوں سے بڑا مورکھ کوئی نہیں، تم بغیر دماغ خرچ کئے، بغیر اپنی ذاتی سوچ کو پروان چڑھائے، صرف تقلید کی راہ پر چل کر سچ تک پہنچنا چاہتے ہو، اس سے بڑی بیوقوفی اور کیا ہوگی۔ اگر تمہیں واقعی سچ کی تلاش ہے، خدا کی تلاش ہے، اگر تم واقعی خدا تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمہیں سب سے پہلے اپنے اپنے گھروالوں کی طرف سے پہنائے گئے مذہب کے طوق گلے سے اتار پھینکنے ہوں گے۔کیونکہ یہ طوق تمہاری سوچ کو باندھے ہوئے ہیں، یہ پرانے زمانوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں، جن میں کوئی لاجک نہیں، کوئی عقل کی بات نہیں، جن میں کوئی علم کی بات نہیں، محض قدیم زمانے کے لوگوں کے لگائے ہوئے تیرتکے اور قیاس ہیں، آج کے دور میں انسان علمی اعتبار سے ماضی کے انسان سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور تم ابھی تک فرسودہ زمانوں کے بوسیدہ افکار کا بوجھ اٹھائے پھررہے ہو، اتار پھینکو اس بوجھ کو، اپنی سوچ کو استعمال کرنا سیکھو، خدا تمہیں ملے گا یا نہیں ملے گا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، ہاں مگر یہ جان لو کہ تمہارے پورے وجود میں صرف دماغ ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں باقی تمام مخلوقات سے منفرد بناتی ہے، اسی دماغ کو استعمال کرکے تم اپنے سوالوں کے جواب خود ہی ڈھونڈ سکتے ہو۔۔

. . . . . . . . .
. . . ..
. . . .
. .
.

 

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
Totally agree with this

مہاراج زندہ رود بولے: تو گویا تم دونوں اپنے اپنے والدین کے مذہب پر چل رہے ہو، تم دونوں کی اپنی ذاتی سوچ کوئی نہیں، جو والدین نے آباؤ اجداد نے بتادیا بس اسی کو سچا مان لیا، تم میں سے عبداللہ اگر وکرم کے گھر میں پیدا ہوتا تو آج مسلمان کی بجائے ہندو ہوتا اور وکرم عبداللہ کے گھر پیدا ہوتا تو ہندو کی بجائے مسلمان ہوتا ۔۔ تم دونوں سے بڑا مورکھ کوئی نہیں، تم بغیر دماغ خرچ کئے، بغیر اپنی ذاتی سوچ کو پروان چڑھائے، صرف تقلید کی راہ پر چل کر سچ تک پہنچنا چاہتے ہو، اس سے بڑی بیوقوفی اور کیا ہوگی۔ اگر تمہیں واقعی سچ کی تلاش ہے، خدا کی تلاش ہے، اگر تم واقعی خدا تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمہیں سب سے پہلے اپنے اپنے گھروالوں کی طرف سے پہنائے گئے مذہب کے طوق گلے سے اتار پھینکنے ہوں گے۔کیونکہ یہ طوق تمہاری سوچ کو باندھے ہوئے ہیں، یہ پرانے زمانوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں، جن میں کوئی لاجک نہیں، کوئی عقل کی بات نہیں، جن میں کوئی علم کی بات نہیں، محض قدیم زمانے کے لوگوں کے لگائے ہوئے تیرتکے اور قیاس ہیں، آج کے دور میں انسان علمی اعتبار سے ماضی کے انسان سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور تم ابھی تک فرسودہ زمانوں کے بوسیدہ افکار کا بوجھ اٹھائے پھررہے ہو، اتار پھینکو اس بوجھ کو، اپنی سوچ کو استعمال کرنا سیکھو، خدا تمہیں ملے گا یا نہیں ملے گا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، ہاں مگر یہ جان لو کہ تمہارے پورے وجود میں صرف دماغ ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں باقی تمام مخلوقات سے منفرد بناتی ہے، اسی دماغ کو استعمال کرکے تم اپنے سوالوں کے جواب خود ہی ڈھونڈ سکتے ہو۔۔

. . . . . . . . .
. . . ..
. . . .
. .
.



ویسے یہ صورتحال تو آپ پر بھی اپلائی ہوتی ہے، آپ بھی موروثی / تقلیدی مسلمان ہیں۔۔
 

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
!انسان پہلے بندر تھا یہ مشاہدہ خود کیا یا کسی سے سنائی بات ہے

مولوی صاحب۔۔ انسان پہلے بندرتھا یہ آپ کو غالباً آپ کے مدرسے کے کسی اباجہل مولوی نے بتایا ہوگا۔۔ یا شاید پھر آپ کے سرکے تاج مولوی اسرار جاہلیہ نے بتایا ہوگا، بہرحال جس نے بھی بتایا ہے غلط بتایا ہے۔۔
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
مولوی صاحب۔۔ انسان پہلے بندرتھا یہ آپ کو غالباً آپ کے مدرسے کے کسی اباجہل مولوی نے بتایا ہوگا۔۔ یا شاید پھر آپ کے سرکے تاج مولوی اسرار جاہلیہ نے بتایا ہوگا، بہرحال جس نے بھی بتایا ہے غلط بتایا ہے۔۔
بن مانس/ گوریلا تھا! مسٹر بروان جی
 

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
بن مانس/ گوریلا تھا! مسٹر بروان جی

مولوی صاحب۔۔۔ اب آپ بندر سے بن مانس پر پہنچ گئے، میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ مدرسے کے جہلا ملا سے علم حاصل کریں گے تو ایسے ہی خفت اٹھانا پڑے گی۔۔ یہ بھی لازماً کسی اباجہل ملا نے ہی آپ کو بتایا ہوگا کہ انسان پہلے بن مانس یا گوریلا تھا۔۔۔