پُراسرار امریکی خاتون۔ چند سوال

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
Saleem-Safi-Aawaz.Still002.jpg


پاکستان بیک وقت تین وبائوں کی زد میں ہے۔ تبدیلی کی وبا جو معیشت، سیاست اور معاشرت کو تباہ کررہی ہے۔ دوسرا کورونا کی وبا جو انسانیت کو کھا رہی ہے اور تیسرا ٹڈی دَل کی وبا جو فصلوں کو اُجاڑ رہی ہے۔

ان کے ہوتے ہوئے کسی اور ایشو کو موضوع بحث بنانا، مناسب نہیں۔ تین چار ماہ سے یہی دہائی دے رہا ہوں کہ وزیراعظم سے لے کر مجھ جیسے عام شہری تک ہر بندے کو صرف اور صرف ان وبائوں کے بارے میں سوچنا اور اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے لیکن بدقسمتی سے نئے پاکستان میں مسائل کو حل کرنے کے بجائے نئے تنازعات نکال کر اور مخالفین کو نشانہ بنا کر عوام کی توجہ دوسری طرف مبذول کرانا ہی ہر مسئلے کاحل سمجھا جاتا ہے۔

چنانچہ ایک مشکوک امریکی خاتون کو میدان میں اُتارا گیا۔ انہوں نے اہم تنظیموں اور شخصیات کے بارے میں پاکستان کے ساتھ غداری سے لے کر ریپ تک جیسے سنگین الزامات لگائے۔ پھر ماشاٗء اللہ ہمارا میڈیا بھی اصل ایشوز سے اعراض کا ماہر ہے اور ان کے الزامات کو قومی سطح پر سیاست و صحافت کا موضوع بنا دیا اور اب تو وہ عدالت کا بھی ایشو بن گیا۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اس مشکوک امریکی خاتون کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ شاید وہ پورے پاکستان کو رسوا کرکے نکل جائے اور پھر امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کو مزید رسوا کرنے کے لئے لکھنا اور بولنا شروع کردے۔ یوں میں اس حوالے سے یہ چند سوالات اور گزارشات اس ملک کے حاکموں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اس خاتون کا پیشہ کیا ہے؟ وہ اگر جرنلسٹ ہیں تو پھر اُنہوں نے ایک وفاقی وزیرکی صاحبزادی کی ہیلتھ سے متعلق این جی او کے ساتھ کام سے آغاز کیوں کیا؟ جرنلسٹ کسی پارٹی کا میڈیا منیجر نہیں بنتا تاہم وہ خود کہتی ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کی میڈیا ٹیم کا حصہ تھیں لیکن لوگوں کی رقابت کی وجہ سے اُنہیں اس کام سے الگ ہونا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈاکومینٹری میکر ہیں تو پچھلے چار برسوں میں وہ کس ڈاکومنٹری پر کام کررہی ہیں اور وہ کہاں ہے؟

جب آپ کا پیشہ اور سرگرمیاں واضح نہیں تو کیا اس سے خود بخود یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کا اصل کام کچھ اور ہے اور آپ کسی خاص مشن پر ہیں؟ لاکھوں پاکستانی روزگار کے لئے امریکہ گئے ہیں۔ کروڑوں وہاں جانے کے متمنی ہیں لیکن کوئی امریکی تب تک پاکستان نہیں آتا، جب تک ان کی حکومت یا آرگنائزیشن، جن کے وہ ملازم ہوں، پاکستان آنے کے لئے مجبور نہ کرے۔ بظاہر اس خاتون کو کسی ادارے نے ڈیوٹی کے لئے پاکستان نہیں بھیجا۔ وہ ازخود پاکستان آئی ہیں۔ آنے سے قبل ان کا کسی پاکستانی ادارے کے ساتھ کوئی کنٹریکٹ نہیں ہوا تھا۔ اب اگر انہوں نے روزگار کے لئے پاکستان آنا تھا تو اس کے مواقع تو امریکہ میں پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ پھر اگر وہ صرف گھومنے پھرنے آئی تھیں تو اپنا شوق پورا کرکے واپس کیوں نہیں گئیں؟

یہ مشکوک خاتون خود بتاتی ہیں کہ وہ ایبٹ آباد آپریشن کے فوراً بعد پاکستان آئیں۔ یہ وہ دن تھے کہ جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نہایت خراب ہو گئے تھے۔ اس وقت امریکیوں نے پاکستان سے متعلق اپنے شہریوں کو ٹریول ایڈوائزری جاری کی تھی۔ یہاں وہ القاعدہ اور طالبان کے نشانے پر تھے جبکہ پاکستانی ایجنسیوں نے بھی غیرملکیوں کی سخت نگرانی شروع کی تھی۔ اس دوران پاکستانی ایجنسیوں نے یہاں پر کام کرنے والی غیرملکی این جی اوز کو بھی کام سے روک دیا

یا پھر ان کی نگرانی سخت کردی کیونکہ امریکیوں نے اسامہ کو ڈھونڈنے کے لئے ایک بین الاقوامی این جی او کو استعمال کیا تھا۔ پہلے تو اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ اس نازک وقت میں ایک مشکوک امریکی خاتون کو پاکستان آنے کی اجازت کس نے اور کیوں دی؟ اس سے پہلے پیپلز پارٹی نے سینکڑوں امریکیوں کو خلاف ضابطہ دبئی سے ویزے جاری کیے تھے۔ اس وقت دبئی میں مقیم پاکستانی سفارتکار امجد شیر نے اپنی حکومت سے اس پر احتجاج بھی کیا تھا تاہم یہ ایبٹ آباد آپریشن سے پہلے کی بات تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس مشکوک خاتون نے اس وقت زندگی کا رسک لے کر پاکستان آنا کیوں ضروری سمجھا؟

جب وہ باقاعدہ جرنلسٹ نہیں اور کسی ادارے کے ساتھ مستقل کام نہیں کر رہیں تو پھر کس لئے پیپلز پارٹی کی حکومت ہو تو وہ اس کے کرتا دھرتائوں تک پہنچ جاتی ہیں، مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہو تو اس کے رہنمائوں تک رسائی کی کوشش کرتی ہیں اور پی ٹی آئی کی تو نہ صرف میڈیا ٹیم کا حصہ بن جاتی ہیں بلکہ الیکشن سے پہلے اس کے اقتدار کی پیشگوئیاں بھی کرتی ہیں۔

اسی طرح حساس اور سیکورٹی اداروں میں گھسنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں اور کچھ مہربانوں کی مہربانی سے انہیں وزیرستان، گوادر اور گلگت بلتستان جیسے حساس مقامات تک بھی رسائی مل جاتی ہے۔ رحمٰن ملک اور دیگر کی تصاویر کا ریکارڈ رکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس خاتون نے جو کچھ دیکھا اور کیا ہے، ان میں سے ہر چیز کا ریکارڈ بھی سنبھال رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ امریکہ واپس جاکر سب کے بارے میں اسی طرح کے انکشافات شروع کردیں جو اب وہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے بارے میں کررہی ہیں تو پھر کیا ہوگا؟

یہ مشکوک امریکی خاتون پاکستان اور حب الوطنی کے بعض ٹھیکیداروں کی برکت سے پاکستانیوں کے بارے میں غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹس بانٹ رہی ہیں لیکن وہ بزنس ویزے پر ہیں اور ابھی تک پاکستان کی شہری نہیں بنیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کس حیثیت میں پاکستانی سیاست کے اندر مداخلت کررہی ہیں؟ یہ مشکوک امریکی خاتون دعویٰ کررہی ہیں کہ وہ پی ٹی ایم اور پیپلز پارٹی پر ریسرچ کررہی ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ریسرچ ٹویٹر پر نہیں ہو سکتی بلکہ جس گروہ پر آپ نے ریسرچ کرنی ہو اس کے ساتھ آپ کو ربط ضبط بڑھانا پڑتا اور ان کے لوگوں کے ساتھ براہِ راست مکالمہ کرنا پڑتا ہے۔

اب یہ کیسی ریسرچ ہے کہ جس میں وہ ایک عرصے سے ان دونوں تنظیموں کے بارے میں گالم گلوچ میں لگی ہیں۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ پی ٹی ایم کو امریکہ سے سپورٹ ملتی ہے تو پھر سلامتی کے اداروں نے خود ایک امریکی خاتون کو پی ٹی ایم پر ریسرچ کی اجازت کیسے دی اور اس کے لئے اسے پاکستان میں قیام کی اجازت اور سب کچھ کرنے کی آزادی کس نے دلوائی ہے؟ یوں ہمیں داخلی طور پر عدالتی سطح پر تحقیقات کرانی چاہئیں کہ کس کس فرد اور کس کس پارٹی نے اس مشکوک خاتون کی سرپرستی کی۔ جب تک یہ تحقیقات نہ ہوں اور عدالتی سطح پر اس خاتون کی ڈی بریفنگ نہ ہو، انہیں پاکستان سے جانے نہیں دینا چاہئے ورنہ شاید پھر سب پچھتائیں گے۔


 
Last edited by a moderator:

INDUS1

MPA (400+ posts)
پاکستان بیک وقت تین وبائوں کی زد میں ہے۔ تبدیلی کی وبا جو معیشت، سیاست اور معاشرت کو تباہ کررہی ہے۔ دوسرا کورونا کی وبا جو انسانیت کو کھا رہی ہے اور تیسرا ٹڈی دَل کی وبا جو فصلوں کو اُجاڑ رہی ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی اور ایشو کو موضوع بحث بنانا، مناسب نہیں۔ تین چار ماہ سے یہی دہائی دے رہا ہوں کہ وزیراعظم سے لے کر مجھ جیسے عام شہری تک ہر بندے کو صرف اور صرف ان وبائوں کے بارے میں سوچنا اور اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے لیکن بدقسمتی سے نئے پاکستان میں مسائل کو حل کرنے کے بجائے نئے تنازعات نکال کر اور مخالفین کو نشانہ بنا کر عوام کی توجہ دوسری طرف مبذول کرانا ہی ہر مسئلے کاحل سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک مشکوک امریکی خاتون کو میدان میں اُتارا گیا۔ انہوں نے اہم تنظیموں اور شخصیات کے بارے میں پاکستان کے ساتھ غداری سے لے کر ریپ تک جیسے سنگین الزامات لگائے۔ پھر ماشاٗء اللہ ہمارا میڈیا بھی اصل ایشوز سے اعراض کا ماہر ہے اور ان کے الزامات کو قومی سطح پر سیاست و صحافت کا موضوع بنا دیا اور اب تو وہ عدالت کا بھی ایشو بن گیا۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اس مشکوک امریکی خاتون کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ شاید وہ پورے پاکستان کو رسوا کرکے نکل جائے اور پھر امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کو مزید رسوا کرنے کے لئے لکھنا اور بولنا شروع کردے۔ یوں میں اس حوالے سے یہ چند سوالات اور گزارشات اس ملک کے حاکموں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اس خاتون کا پیشہ کیا ہے؟ وہ اگر جرنلسٹ ہیں تو پھر اُنہوں نے ایک وفاقی وزیرکی صاحبزادی کی ہیلتھ سے متعلق این جی او کے ساتھ کام سے آغاز کیوں کیا؟ جرنلسٹ کسی پارٹی کا میڈیا منیجر نہیں بنتا تاہم وہ خود کہتی ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کی میڈیا ٹیم کا حصہ تھیں لیکن لوگوں کی رقابت کی وجہ سے اُنہیں اس کام سے الگ ہونا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈاکومینٹری میکر ہیں تو پچھلے چار برسوں میں وہ کس ڈاکومنٹری پر کام کررہی ہیں اور وہ کہاں ہے؟ جب آپ کا پیشہ اور سرگرمیاں واضح نہیں تو کیا اس سے خود بخود یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کا اصل کام کچھ اور ہے اور آپ کسی خاص مشن پر ہیں؟ لاکھوں پاکستانی روزگار کے لئے امریکہ گئے ہیں۔ کروڑوں وہاں جانے کے متمنی ہیں لیکن کوئی امریکی تب تک پاکستان نہیں آتا، جب تک ان کی حکومت یا آرگنائزیشن، جن کے وہ ملازم ہوں، پاکستان آنے کے لئے مجبور نہ کرے۔ بظاہر اس خاتون کو کسی ادارے نے ڈیوٹی کے لئے پاکستان نہیں بھیجا۔ وہ ازخود پاکستان آئی ہیں۔ آنے سے قبل ان کا کسی پاکستانی ادارے کے ساتھ کوئی کنٹریکٹ نہیں ہوا تھا۔ اب اگر انہوں نے روزگار کے لئے پاکستان آنا تھا تو اس کے مواقع تو امریکہ میں پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ پھر اگر وہ صرف گھومنے پھرنے آئی تھیں تو اپنا شوق پورا کرکے واپس کیوں نہیں گئیں؟

یہ مشکوک خاتون خود بتاتی ہیں کہ وہ ایبٹ آباد آپریشن کے فوراً بعد پاکستان آئیں۔ یہ وہ دن تھے کہ جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نہایت خراب ہو گئے تھے۔ اس وقت امریکیوں نے پاکستان سے متعلق اپنے شہریوں کو ٹریول ایڈوائزری جاری کی تھی۔ یہاں وہ القاعدہ اور طالبان کے نشانے پر تھے جبکہ پاکستانی ایجنسیوں نے بھی غیرملکیوں کی سخت نگرانی شروع کی تھی۔ اس دوران پاکستانی ایجنسیوں نے یہاں پر کام کرنے والی غیرملکی این جی اوز کو بھی کام سے روک دیا یا پھر ان کی نگرانی سخت کردی کیونکہ امریکیوں نے اسامہ کو ڈھونڈنے کے لئے ایک بین الاقوامی این جی او کو استعمال کیا تھا۔ پہلے تو اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ اس نازک وقت میں ایک مشکوک امریکی خاتون کو پاکستان آنے کی اجازت کس نے اور کیوں دی؟ اس سے پہلے پیپلز پارٹی نے سینکڑوں امریکیوں کو خلاف ضابطہ دبئی سے ویزے جاری کیے تھے۔ اس وقت دبئی میں مقیم پاکستانی سفارتکار امجد شیر نے اپنی حکومت سے اس پر احتجاج بھی کیا تھا تاہم یہ ایبٹ آباد آپریشن سے پہلے کی بات تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس مشکوک خاتون نے اس وقت زندگی کا رسک لے کر پاکستان آنا کیوں ضروری سمجھا؟

جب وہ باقاعدہ جرنلسٹ نہیں اور کسی ادارے کے ساتھ مستقل کام نہیں کر رہیں تو پھر کس لئے پیپلز پارٹی کی حکومت ہو تو وہ اس کے کرتا دھرتائوں تک پہنچ جاتی ہیں، مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہو تو اس کے رہنمائوں تک رسائی کی کوشش کرتی ہیں اور پی ٹی آئی کی تو نہ صرف میڈیا ٹیم کا حصہ بن جاتی ہیں بلکہ الیکشن سے پہلے اس کے اقتدار کی پیشگوئیاں بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح حساس اور سیکورٹی اداروں میں گھسنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں اور کچھ مہربانوں کی مہربانی سے انہیں وزیرستان، گوادر اور گلگت بلتستان جیسے حساس مقامات تک بھی رسائی مل جاتی ہے۔ رحمٰن ملک اور دیگر کی تصاویر کا ریکارڈ رکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس خاتون نے جو کچھ دیکھا اور کیا ہے، ان میں سے ہر چیز کا ریکارڈ بھی سنبھال رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ امریکہ واپس جاکر سب کے بارے میں اسی طرح کے انکشافات شروع کردیں جو اب وہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے بارے میں کررہی ہیں تو پھر کیا ہوگا؟

یہ مشکوک امریکی خاتون پاکستان اور حب الوطنی کے بعض ٹھیکیداروں کی برکت سے پاکستانیوں کے بارے میں غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹس بانٹ رہی ہیں لیکن وہ بزنس ویزے پر ہیں اور ابھی تک پاکستان کی شہری نہیں بنیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کس حیثیت میں پاکستانی سیاست کے اندر مداخلت کررہی ہیں؟ یہ مشکوک امریکی خاتون دعویٰ کررہی ہیں کہ وہ پی ٹی ایم اور پیپلز پارٹی پر ریسرچ کررہی ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ریسرچ ٹویٹر پر نہیں ہو سکتی بلکہ جس گروہ پر آپ نے ریسرچ کرنی ہو اس کے ساتھ آپ کو ربط ضبط بڑھانا پڑتا اور ان کے لوگوں کے ساتھ براہِ راست مکالمہ کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ کیسی ریسرچ ہے کہ جس میں وہ ایک عرصے سے ان دونوں تنظیموں کے بارے میں گالم گلوچ میں لگی ہیں۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ پی ٹی ایم کو امریکہ سے سپورٹ ملتی ہے تو پھر سلامتی کے اداروں نے خود ایک امریکی خاتون کو پی ٹی ایم پر ریسرچ کی اجازت کیسے دی اور اس کے لئے اسے پاکستان میں قیام کی اجازت اور سب کچھ کرنے کی آزادی کس نے دلوائی ہے؟ یوں ہمیں داخلی طور پر عدالتی سطح پر تحقیقات کرانی چاہئیں کہ کس کس فرد اور کس کس پارٹی نے اس مشکوک خاتون کی سرپرستی کی۔ جب تک یہ تحقیقات نہ ہوں اور عدالتی سطح پر اس خاتون کی ڈی بریفنگ نہ ہو، انہیں پاکستان سے جانے نہیں دینا چاہئے ورنہ شاید پھر سب پچھتائیں گے۔


32_061219_reporter.jpg
Bhai Barood, aap aik shreef aadmi hain, Saleem saafi jaisay bad qamaash logon kay saath uthna baithna chor dain,
 

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
Bhai Barood, aap aik shreef aadmi hain, Saleem saafi jaisay bad qamaash logon kay saath uthna baithna chor dain,
Indus bhai farishta sifat tu ap bhi hain , kia NiAZI coicaine and zaani ke support chori ap ney?
Masoomana sawal
 

Diesel

Chief Minister (5k+ posts)
bilo ne abi tak apne par sangeen ilazamat ka jawab nahi de saki.. iska matlab ilzamat mein sachayi ha.. Baqi bilo ke charche london mein black jamaican community mein bohat amm ha
 

Daanish

Politcal Worker (100+ posts)
Sab se bari waba tum jaisay haram khor hain jo kisi khaarish zada kuttay ki tarah karab main hain... khawnchay bund honay ki wajah se.... laanat bay shumar
 
اپنی مرغی ٹھیک ہو تو دوسرے کے گھر انڈے نہیں دیتی
ہمارے سیاستدانوں کو کیا ضرورت تھی ایک گوری لڑکی سے ملنے کی ایک عام سی لڑکی کو کس لیے اتنی اہمیت دی
 

Syaed

MPA (400+ posts)
Nobody gives a damn to these useless pieces of s***.In Pakistan investigative journalism is a mechanism in which you are allowed to peep into the private space of politicians and others at Will.What achievement do Meer Hamid or Safi or Waraich claim they have so far other then playing the role of “Maasi Museebate”???while in India journalists orchestrate things to claim fake victories while in Pakistan journos claim”Hukumat k liye agla hafta guzarna mushkil nazar aa raha hai Aur yeh baat mere qareebi zarai ne batai hai”.Is this even close to a noble profession like journalism????I think the government must send these pieces of filth to India for enjoying a fully “functional democracy” where Generals are not much influential.I bet either they’ll get beaten every single day or will get lynched by Modi bhakts.
 

surfer

Chief Minister (5k+ posts)
ham bhi yahee hain

Yootiyay bhi yaheen hain

Bootiyay bhi yaheen hain

aur

Cynthia Dickie kay "handlers" bhi yahee hain

akhri warr iss aurat nay apnay "handlers" pay hee karna hay

&
that will be one hell of a Popcorn Show................. ?


why I am so sure?? ......because she is an American and cant be a
"missing person" ?

Ex-Terminator
Diesel
Okara
Pathfinder
Scholar1
Sirif pussy nawaz, senorita, fat amigo, Toni Khan, and a few other are also not here :)

Do you mean popcorn show like you told us diesel dharna would be a popcorn show as well. That was over before your corn even popped! Lol
 

INDUS1

MPA (400+ posts)
Indus bhai farishta sifat tu ap bhi hain , kia NiAZI coicaine and zaani ke support chori ap ney?
Masoomana sawal
Bhai Barood, agar (naooz o billah) main ghaib ka ilm jaanata to yaqeen maniyeey main iss per zaroor comment karta, lakin main nahi janta. Haan main IK ko support karta hon aur agar disagree karnay waali baat ho to uss per disagree bhi karta hon. Main IK ko aik INSAAN samjhta hon. I never praise him blindly, He can make mistakes and he does. But when i compare him with ZARDAARI and SHAREEFS, i can safely say he is an angel . If i see he is still doing or committing ZINNA , i will openly opose him but if he has repented and its past, i will believe him and thats between him and Allah.
 

Farooqiii

Voter (50+ posts)

سلیم صحافی گلگت میں آنے سے پہلے مردان اور چارسدہ میں بھی صحافی تھا لیکن جوتوں کی دکان چلا کر گزارہ کرتا تھا پھر سوچا ایک ہی کام لے سمجھداری کر گیا ورنہ بہت دیر ہو جاتی پھر بھی نہیں کر سکتا تھا