چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا جھوٹ پکڑا گیا

Nain

MPA (400+ posts)
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور کو انٹرویو دینے پر نوٹس جاری کیا اور کہا عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جھوٹ بولا، شریف فیملی روزانہ کی بنیاد پر ججوں کی تضحیک کر رہی ہے اور گالیاں دیتی ہے لیکن لاہور ہائیکورٹ ان کو نوٹس بھیجنے کی ہمت نہیں کرتی۔
گذشتہ روز بھی لاڑکانہ میں مریم نے ججز کو گالیاں دی لیکن ان کو کوئی توہین عدالت کا نوٹس نہیں صرف سی سی پی او لاہور کو ۔

لاہور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عمر شیخ کے تمام انٹرویوز کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائیکورٹ میں شہری کو سی سی پی او لاہور کی جانب سے ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ سی سی پی او کہتے کہ پولیس ملزم پکڑتی ہے اور عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، یہ بیان توہین عدالت کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو سی سی پی او کے تمام انٹرویوز کا جائزہ لینے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ جہاں جہاں توہین عدالت ہوئی ایڈووکیٹ جنرل درخواستیں دائر کریں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ سی سی پی او کو پتہ ہے کہ عدلیہ نے خاموش رہنا ہے، اس لیے یہ جو چاہتے ہیں انٹرویو دے دیتے ہیں، عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ پولیس افسر خواہ وہ کسی بڑے کی کٹھ پتلی ہی کیوں نہ ہو، عدالت کے خلاف نہیں بول سکتا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سرکاری وکیل سے کہا کہ سی سی پی او کو کہہ دیں جو کہتا ہے کہ عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، اُس افسر کے کان میں ڈال دیں، عدالتیں پولیس کے ماتحت نہیں، قانون کے مطابق ضمانت لیتی ہیں، پولیس کی اپنی نالائقی ہے کہ ملزم بری ہو جاتے ہیں اور ذمہ داری عدالتوں پر ڈال دی جاتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سی سی پی او تو کہتے تھے تین ماہ میں سب ٹھیک ہو جائے گا، کچھ ٹھیک نہیں ہوا، ڈکیتیوں اور چوریوں میں اضافہ ہوا۔ عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور اور ڈپٹی کمشنر سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔

Source
 

<ChOuDhArY>

Chief Minister (5k+ posts)
Jo taazi taazi galiyan PDM roozana dete ha wo in corrupt judges ke liye aik Aizaz ha

Looking at the trolling of Nani force and Media it seems that this CCPO is a good officer
but still
He should only focus on his work and should stay away from media specially Legend of Layya.
 
Last edited:

Bubber Shair

Chief Minister (5k+ posts)
اگر پولیس افسر چودہ دن میں ڈکیٹیاں چوریاں ختم کروا سکتا ہے تو ججز بھی چودہ دن میں انصاف کی فراہمی یقینی بنا سکتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ممتاز قادری کی چومیاں لینے کی صلے میں یہاں جج بناے جارہے ہیں جنہیں سواے حکم دینے کے اور کوی کام نہیں، پہلے یہ جج بتاے کہ اس نے عدلیہ کے اندر موجود بدانتظامی، انصاف کیلئے دھکے کھاتی عوام اور قیدیوں کے بچوں کی رہای اور خواتین کی جیلوں میں ان سے حیوانوں جیسا سلوک کرنے اور انہیں عصمت فروشی پر مجبور کرنے والوں کے خلاف کیا حکم دیا ہے؟
ایک خاتون جس کے تین چار چھوٹے بچے ہوتے ہیں اسے آپ بائیس سال کے لئے جیل بھیج دیتے ہو اس کے بچے پیچھے بھکاری بن جاتے ہین اور ماں کے بغیر وہ تڑپتے ہیں ،تمہیں شرم اور خوف خدا نہیں؟ کیا عورت کو گھر میں قید نہیں دی جاسکتی تھی؟ لاتعداد مثالیں ہیں ججز کی حماقت اور بے حسی کی انہیں درست کرنے کی کوشش کریں حالانکہ ان ججز کو درست کرنا ممکن نہیں
 

Zulfi 364

New Member
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور کو انٹرویو دینے پر نوٹس جاری کیا اور کہا عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جھوٹ بولا، شریف فیملی روزانہ کی بنیاد پر ججوں کی تضحیک کر رہی ہے اور گالیاں دیتی ہے لیکن لاہور ہائیکورٹ ان کو نوٹس بھیجنے کی ہمت نہیں کرتی۔
گذشتہ روز بھی لاڑکانہ میں مریم نے ججز کو گالیاں دی لیکن ان کو کوئی توہین عدالت کا نوٹس نہیں صرف سی سی پی او لاہور کو ۔

لاہور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عمر شیخ کے تمام انٹرویوز کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائیکورٹ میں شہری کو سی سی پی او لاہور کی جانب سے ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ سی سی پی او کہتے کہ پولیس ملزم پکڑتی ہے اور عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، یہ بیان توہین عدالت کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو سی سی پی او کے تمام انٹرویوز کا جائزہ لینے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ جہاں جہاں توہین عدالت ہوئی ایڈووکیٹ جنرل درخواستیں دائر کریں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ سی سی پی او کو پتہ ہے کہ عدلیہ نے خاموش رہنا ہے، اس لیے یہ جو چاہتے ہیں انٹرویو دے دیتے ہیں، عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ پولیس افسر خواہ وہ کسی بڑے کی کٹھ پتلی ہی کیوں نہ ہو، عدالت کے خلاف نہیں بول سکتا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سرکاری وکیل سے کہا کہ سی سی پی او کو کہہ دیں جو کہتا ہے کہ عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، اُس افسر کے کان میں ڈال دیں، عدالتیں پولیس کے ماتحت نہیں، قانون کے مطابق ضمانت لیتی ہیں، پولیس کی اپنی نالائقی ہے کہ ملزم بری ہو جاتے ہیں اور ذمہ داری عدالتوں پر ڈال دی جاتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سی سی پی او تو کہتے تھے تین ماہ میں سب ٹھیک ہو جائے گا، کچھ ٹھیک نہیں ہوا، ڈکیتیوں اور چوریوں میں اضافہ ہوا۔ عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور اور ڈپٹی کمشنر سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔

Source
کیا نظام ھے ھمارا جو کوٸی بہتر کرنے کی کوشش کرتا ھے عدالتیں رکاوٹ ڈالتی ھیں
جبکہ جو چور سرعام عدالتوں کو گالیاں دے رھے ھیں انکو کوٸی پوچھنے والا نہیں
لاھور ھاٸی کورٹ تو لگتا ھے شریف خاندان کے خواھش کے مطابق چل رھی ھے
کیسے معاشرے میں سدھار آۓ گا
 

ts_rana

Minister (2k+ posts)
CCPO raised the valid questions. If I am not wrong , some months ago a court bailed a murder case criminal and after getting bail , this man killed about 4-5 people. Who is responsible for these valuable Lives ?? Our justice system is only for Riches and should called injustice system.
 

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور کو انٹرویو دینے پر نوٹس جاری کیا اور کہا عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جھوٹ بولا، شریف فیملی روزانہ کی بنیاد پر ججوں کی تضحیک کر رہی ہے اور گالیاں دیتی ہے لیکن لاہور ہائیکورٹ ان کو نوٹس بھیجنے کی ہمت نہیں کرتی۔
گذشتہ روز بھی لاڑکانہ میں مریم نے ججز کو گالیاں دی لیکن ان کو کوئی توہین عدالت کا نوٹس نہیں صرف سی سی پی او لاہور کو ۔

لاہور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عمر شیخ کے تمام انٹرویوز کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائیکورٹ میں شہری کو سی سی پی او لاہور کی جانب سے ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ سی سی پی او کہتے کہ پولیس ملزم پکڑتی ہے اور عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، یہ بیان توہین عدالت کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو سی سی پی او کے تمام انٹرویوز کا جائزہ لینے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ جہاں جہاں توہین عدالت ہوئی ایڈووکیٹ جنرل درخواستیں دائر کریں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ سی سی پی او کو پتہ ہے کہ عدلیہ نے خاموش رہنا ہے، اس لیے یہ جو چاہتے ہیں انٹرویو دے دیتے ہیں، عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ پولیس افسر خواہ وہ کسی بڑے کی کٹھ پتلی ہی کیوں نہ ہو، عدالت کے خلاف نہیں بول سکتا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سرکاری وکیل سے کہا کہ سی سی پی او کو کہہ دیں جو کہتا ہے کہ عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، اُس افسر کے کان میں ڈال دیں، عدالتیں پولیس کے ماتحت نہیں، قانون کے مطابق ضمانت لیتی ہیں، پولیس کی اپنی نالائقی ہے کہ ملزم بری ہو جاتے ہیں اور ذمہ داری عدالتوں پر ڈال دی جاتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سی سی پی او تو کہتے تھے تین ماہ میں سب ٹھیک ہو جائے گا، کچھ ٹھیک نہیں ہوا، ڈکیتیوں اور چوریوں میں اضافہ ہوا۔ عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور اور ڈپٹی کمشنر سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔

Source
بہت افسوس سے کہنا پڑھ رہا ھے کہ ھمارے اداروں میں موجود عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے والے چند جج صاحبان ملک قیوم کے ساتھی اب بھی موجود ہیں جو پورے تن من دھن سے انصاف کو آپنے ضمیر کے مطابق فروخت کر رھے ھیں اور اداروں کو کرپٹ سیاست دانوں کی لونڈیاں کے طور پر استعمال کروا رھے ھیں ملک آور قوم کی تباہیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں چند دنوں کی زندگی کی خاطر آپنے آخرت کا سودا کر رھے ھیں اللّٰہ سے دعاگو ہیں ان جج صاحبان کو ھدایت نصیب فرمائے جو انصاف کو فروخت کر رھے ھیں بد نیتی پر فیصلے کر رھے ھیں آگر اداروں میں موجود کالی بھیڑیں ھدایت حاصل نہ کرنا چاہیں اور شیطان کے راستے پر چلنا چاہیں تو اللہ سے دعا ھے کہ ان لوگوں کو دنیا اور آخرت میں ذلیل وخوار فرما آمین
 

Ratan

Chief Minister (5k+ posts)
Chief Justice Lahore High Court Qasim Khan...we are watching you.
Your action against CCPO will be compared to your inaction against Nawaz & his family.
People of Pakistan will no more tolerate & authorize "Lifafa Judgment"...mind it.
 

Wakeel

MPA (400+ posts)
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور کو انٹرویو دینے پر نوٹس جاری کیا اور کہا عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جھوٹ بولا، شریف فیملی روزانہ کی بنیاد پر ججوں کی تضحیک کر رہی ہے اور گالیاں دیتی ہے لیکن لاہور ہائیکورٹ ان کو نوٹس بھیجنے کی ہمت نہیں کرتی۔
گذشتہ روز بھی لاڑکانہ میں مریم نے ججز کو گالیاں دی لیکن ان کو کوئی توہین عدالت کا نوٹس نہیں صرف سی سی پی او لاہور کو ۔

لاہور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عمر شیخ کے تمام انٹرویوز کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائیکورٹ میں شہری کو سی سی پی او لاہور کی جانب سے ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ سی سی پی او کہتے کہ پولیس ملزم پکڑتی ہے اور عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، یہ بیان توہین عدالت کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو سی سی پی او کے تمام انٹرویوز کا جائزہ لینے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ جہاں جہاں توہین عدالت ہوئی ایڈووکیٹ جنرل درخواستیں دائر کریں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ سی سی پی او کو پتہ ہے کہ عدلیہ نے خاموش رہنا ہے، اس لیے یہ جو چاہتے ہیں انٹرویو دے دیتے ہیں، عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ پولیس افسر خواہ وہ کسی بڑے کی کٹھ پتلی ہی کیوں نہ ہو، عدالت کے خلاف نہیں بول سکتا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سرکاری وکیل سے کہا کہ سی سی پی او کو کہہ دیں جو کہتا ہے کہ عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، اُس افسر کے کان میں ڈال دیں، عدالتیں پولیس کے ماتحت نہیں، قانون کے مطابق ضمانت لیتی ہیں، پولیس کی اپنی نالائقی ہے کہ ملزم بری ہو جاتے ہیں اور ذمہ داری عدالتوں پر ڈال دی جاتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سی سی پی او تو کہتے تھے تین ماہ میں سب ٹھیک ہو جائے گا، کچھ ٹھیک نہیں ہوا، ڈکیتیوں اور چوریوں میں اضافہ ہوا۔ عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور اور ڈپٹی کمشنر سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔

Source
چیف جسٹس کم شریفوں کا کتا زیادہ لگتا ہے
 

ali_786

MPA (400+ posts)
Ye hay shareefoon ka aik aur najaiz Nutfa, dallay ka bacha CJ of lahore .
iss haram kay nutfay ki shakel daikho aur dil pur haath rukh ker batao ye soaar iss qabil hay jo issay patwari bhi lagaya ja sakay ????
iss ki shakel pur laanet he laanet hay. Tasweer ko daikho pata chul jay ga ye haram ka pilla hay aur durbarioon ki najaiz aulaad hay .
 

MMushtaq

Minister (2k+ posts)
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور کو انٹرویو دینے پر نوٹس جاری کیا اور کہا عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جھوٹ بولا، شریف فیملی روزانہ کی بنیاد پر ججوں کی تضحیک کر رہی ہے اور گالیاں دیتی ہے لیکن لاہور ہائیکورٹ ان کو نوٹس بھیجنے کی ہمت نہیں کرتی۔
گذشتہ روز بھی لاڑکانہ میں مریم نے ججز کو گالیاں دی لیکن ان کو کوئی توہین عدالت کا نوٹس نہیں صرف سی سی پی او لاہور کو ۔

لاہور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عمر شیخ کے تمام انٹرویوز کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائیکورٹ میں شہری کو سی سی پی او لاہور کی جانب سے ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ سی سی پی او کہتے کہ پولیس ملزم پکڑتی ہے اور عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، یہ بیان توہین عدالت کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو سی سی پی او کے تمام انٹرویوز کا جائزہ لینے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ جہاں جہاں توہین عدالت ہوئی ایڈووکیٹ جنرل درخواستیں دائر کریں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ سی سی پی او کو پتہ ہے کہ عدلیہ نے خاموش رہنا ہے، اس لیے یہ جو چاہتے ہیں انٹرویو دے دیتے ہیں، عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ پولیس افسر خواہ وہ کسی بڑے کی کٹھ پتلی ہی کیوں نہ ہو، عدالت کے خلاف نہیں بول سکتا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سرکاری وکیل سے کہا کہ سی سی پی او کو کہہ دیں جو کہتا ہے کہ عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، اُس افسر کے کان میں ڈال دیں، عدالتیں پولیس کے ماتحت نہیں، قانون کے مطابق ضمانت لیتی ہیں، پولیس کی اپنی نالائقی ہے کہ ملزم بری ہو جاتے ہیں اور ذمہ داری عدالتوں پر ڈال دی جاتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سی سی پی او تو کہتے تھے تین ماہ میں سب ٹھیک ہو جائے گا، کچھ ٹھیک نہیں ہوا، ڈکیتیوں اور چوریوں میں اضافہ ہوا۔ عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور اور ڈپٹی کمشنر سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔

Source

He is Rana Sanallah #2