ڈاکٹر کی ڈائری ۔۔۔۔ جنت کا بزنس کلاس مسافر !

khalid100

Minister (2k+ posts)


ڈاکٹر کی ڈائری ۔۔۔۔
جنت کا بزنس کلاس مسافر !
میں چوہدری ہسپتال میں اپنے روز مزہ کلینک میں مصروف تھا کہ ایک نوجوان آ کر بیٹھا اسکے ہاتھ میں پوری ایک فائل تھی رپورٹس کی اور کہنے لگا ؛ ڈاکٹر صاحب یہ میرے چھوٹے بھائی کی رپورٹس ہیں آپ دیکھ لیں زرا اسکی عمر تیئس سال ہے،آسڑیلیا پڑھنے گیا تھا کہ وہاں اسے بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی ایک سال سے علاج چل رہا تھا وہاں لیکن ریسپانس نہیں آیا علاج سے،اب ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اسکے پاس جینے کے صرف چار سے آٹھ ہفتے ہیں،اسکی آنکھوں کی بینائی بھی تقریباً چلی گئی ہے اور کمر سے نیچے کا دھڑ بھی مفلوج ہو گیا ہے
ہم چاہتے ہیں کہ اسے یہاں داخل کروا دیا جائے کہ اسکی تکلیف کیلئے جو کچھ کر سکتے ہیں کریں۔۔۔
میرے دل و دماغ میں ایک مرتبہ پھر فاطمہ اسد کے بلڈ کینسر اور آخری دنوں کی فلم چلنے کو تھی کہ میں نے پوچھا کیا نام ہے آپ کے بھائی کا۔۔
احمد نام ہے اسکا ۔۔
میں نے پوچھا کیا اسے پتا ہے اس ساری صورتحال کا
جی ڈاکٹر صاحب ۔۔
تو اسکا مورال کیسا ہے !!
وہ پوری طرح تیار ہے ۔۔
یہ کہتے ہوئے عمر (بھائی) کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ڈاکٹر صاحب میں بھی آسٹریلیا گیا تھا اس کیساتھ بون میرو ٹرانسپلانٹ کیلئے میچنگ ہو گئی تھی میری لیکن وہاں تک پہنچ ہی نہ پائے,
خیر میں نے عمر کو جوابدیا لے آیئں اپنے بھائی کو ۔۔
I will do my best ….
لیکن اصل میں تو میں ایک “ریڈی” انسان سے ملنا چاہتا تھا جاننا چاہتا تھا کہ یہ پہاڑ حوصلہ آتا کہاں سے اور کیسے ہے ۔۔
احمد کو ریسیو کیا تو بہت حالت خراب تھی جسم میں خون نہ ہونے کے برابر صرف تین ہیموگلوبن اورپلیٹلٹس صرف تین ہزار اور شدید بخار،میں نے پوچھا کیا حال ہے احمد ؛! کہنے لگا ٹھیک ہوں الحمداللہ؛ پوچھا ؛ کوئی تکلیف مسئلہ،کہنے لگا ؛ بس بخار ہے ۔۔۔اس سے زیادہ اس دن بات نہیں ہوئی
ہیماٹالوجسٹ کو آن بورڈ لیا اور دو دنوں میں احمد کا بخار اتر گیا اور خون کی کمی کو بلڈ ٹرانسفیثونز سے پورا کیا
تیسرے دن میں احمد کے کمرے میں راؤنڈ کرنے گیا
تو اچھے موڈ میں مُسکرا رہا تھا،سٹاف کو باہر بھیج کے میں اسکے سرہانے بیٹھ گیا اسکے گھر والوں سے اکیلے میں اس سے بات کرنے کی اجازت چاہی تو وہ بھی باہر چلے گئے ۔۔۔
ہم تقریباً آدھا گھنٹہ باتیں کرتے رہے میں میری آواز درمیان میں ُرندھ جاتی تھی( فاطمہ کو یاد کر کے،احمد کے خدو خال اور بات کرنے کا انداز فاطمہ سے حیران کُن طور پہ ملتا تھا) لیکن احمد ایسے مطمئن انداز سے اپنے کینسر کی روداد سنا رہا تھا جیسے کوئی نزلہ زکام ہوا ہو۔۔۔
میں نے پوچھا احمد تمہیں آسڑیلیا کے ڈاکٹرز نے کیا بتایا ہے تمہارے مستقبل بارے۔۔۔
ہس کر کہنے لگا مجھے کئی دفعہ انہوں نے کہا کہ میرے پاس صرف چند ہفتے ہیں جینے کیلئے لیکن سال ڈیڑھ گزر گیا،میرا آسڑیلین ڈاکٹر میرے ساتھ بہت اٹیچ ہو گیا تھا علاج میں پہ در پہ ناکامی دیکھ کر اور پھر جب میرا نچلا دھڑ بلکل مفلوج ہو گیا اور ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی تو کہنے لگا ؛ احمد میں تمہارے خدا سے ناراض ہوں تمہارے ضبط اور صبر کو شفا ملنی چاہئیے تھی۔۔
ڈاکٹر صاحب وہ تو مجھے ابھی بھی پاکستان آنے نہیں دے رہا تھا لیکن مجھے اب جانا ہی تھا،میں اپنے آخری دن اپنی فیملی کیساتھ گزارنا چاہتا تھا۔۔
میں نے پوچھا احمد تمہیں گلہ شکوہ نہیں آتا کہ تمہارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ۔۔کہنے لگا بلکل بھی نہیں ۔۔
میں ایسا بندہ ہی نہیں ہوں کہ جو گِلہ کرے۔۔
میں نے تو کبھی بہت زیادہ دعا بھی نہیں کی اپنی صحت کیلئے کہ اُسے
☝️
سب پتا ہے اس نے کچھ بہتر ہی پلان کیا ہوگا میرے بارے۔۔۔
آخری سوال ۔۔مرنے سے ڈر لگ رہا ہے!
مُسکراتے ہوئے ~بلکل بھی نہیں
I know I m going to much better place
میں نے اٹھتے اٹھتے کہا ؛ فاطمہ ملے تو میرا سلام کہنا ۔
مجھے یاد آ گیا کہ جب آخری دن میں فاطمہ کی حالت دیکھ کر رو پڑا تھا تو میں نے دعا کر دی تھی یا اللہ مجھے پتا لگ گیا ہے کہ تیری مرضی کچھ اور ہے ۔۔
الٹی ہو گیئں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا ؛
تو اب اسے اٹھا لے۔
تو چند گھنٹوں بعد ہی کام ہو گیا ۔۔۔
آج ایک بار پھر وہی دعا کرنا پڑی ۔۔
احمد کیساتھ ایک فوٹو کی اجازت مانگی اور پوچھا کیا ہماری یہ گفتگو شیئر کر سکتا ہوں میں ڈاکٹر کی ڈائری کے نام سے لکھتا ہوں،احمد نے بخوشی اجازت دے دی
پھر مجھے کراچی جانا پڑ گیا چار دن بعد کل کلینک پہ بیٹھا تھا کہ احمد کا وہی بھائی عمر اور والدہ صاحبہ تشریف لایئں(کمال صبر و شکر والے لوگ)
میں نے احمد بارے پوچھا تو کہنے لگے اسکا دو دن پہلے انتقال ہو گیا انا اللہ و انا الیہ راجعون
ہم بھی اللہ ہی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ~
ڈاکٹر صاحب ہم خاص طور پہ آپ سے یہ معلوم کرنے آئے ہیں کہ آپکی اس دن احمد سے کیا بات ہوئی تھی،اس دن کے بعد اس میں عجیب سا سکوت تھا،کہنے لگے ؛ احمد کہہ رہا تھا میرے آسٹریلیا کے ڈاکٹر کے بعد مجھے یہ ڈاکٹر صاحب بہت اچھے لگے۔
ڈاکٹر صاحب اس نے آخری دن پوچھا تھا کہ کیا ڈاکٹر اسد امتیاز کا فون آیا میرے لئے۔۔۔
تاسف کا اظہار کرتے ہوئے ؛ ڈاکٹر صاحب آپ کال کرتے تو اسے بہت اچھا لگتا !
میں نے نم آنکھوں سے جوابدیا۔۔کال
میں نے تو اتوار کو فاطمہ اسد دسترخوان ناشتہ بیٹھک کے موقع پہ اپنے والینٹئرز کیساتھ احمد کا ذکر کیا تو سب جذباتی ہو گئے کہ ہم نے بھی ملنا ہے،میں نے ہسپتال فون کیا کہ ہم آ رہے ہیں تو پتا چلا احمد ڈسچارج ہو کر گھر چلا گیا تھا۔۔
وہ افسوس کرنے لگے ہاں ڈاکٹر صاحب واقعی ہم آپ کو اطلاع دئیے بغیر ہی چلے گئے تھے ۔۔۔
پھر کہنے لگے ڈاکٹر صاحب احمد آخری لمحوں میں یہی کہتا رہا “میں جا رہا ہوں امی مبارک ہو ۔۔
میرا بزنس کلاس کا ٹکٹ آیا ہے ۔۔۔
احمد اور اسکی فیملی کی اس آزمائش کا وقت اب ختم ہو چکا تھا اب وہ “جنت کا بزنس کلاس کا مسافر تھا “
ڈاکٹر اور مریض کی یہ ڈائری پُژمردگی و افسوس کا پیغام بلکل نہیں اور قاریئن بھی یقیناً اسے مُثبت ہی لیں گے کہ
Death is not THE END
ایک عظیم ترین کامیابی جسکا سورہ فجر میں اعلان کیا ہے ہمارے پروردگار نے جو کہ انبیا کی گولڈن چین کے علاوہ دوسرے انسان بھی حاصل کر سکتے ہیں کہ وقت انتقال ہی رزلٹ آوٹ کر دیا جاتا ہے۔۔
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ
اے اطمینان والی روح ۔
ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾
تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش ۔
فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾
پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا ۔
وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ
اور میری جنت میں چلی جا ۔
انشااللہ
ڈاکٹر اسد امتیاز ابو فاطمہ
(کاپیڈ ڈاکٹر عرفان)​
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)


ڈاکٹر کی ڈائری ۔۔۔۔
جنت کا بزنس کلاس مسافر !
میں چوہدری ہسپتال میں اپنے روز مزہ کلینک میں مصروف تھا کہ ایک نوجوان آ کر بیٹھا اسکے ہاتھ میں پوری ایک فائل تھی رپورٹس کی اور کہنے لگا ؛ ڈاکٹر صاحب یہ میرے چھوٹے بھائی کی رپورٹس ہیں آپ دیکھ لیں زرا اسکی عمر تیئس سال ہے،آسڑیلیا پڑھنے گیا تھا کہ وہاں اسے بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی ایک سال سے علاج چل رہا تھا وہاں لیکن ریسپانس نہیں آیا علاج سے،اب ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اسکے پاس جینے کے صرف چار سے آٹھ ہفتے ہیں،اسکی آنکھوں کی بینائی بھی تقریباً چلی گئی ہے اور کمر سے نیچے کا دھڑ بھی مفلوج ہو گیا ہے
ہم چاہتے ہیں کہ اسے یہاں داخل کروا دیا جائے کہ اسکی تکلیف کیلئے جو کچھ کر سکتے ہیں کریں۔۔۔
میرے دل و دماغ میں ایک مرتبہ پھر فاطمہ اسد کے بلڈ کینسر اور آخری دنوں کی فلم چلنے کو تھی کہ میں نے پوچھا کیا نام ہے آپ کے بھائی کا۔۔
احمد نام ہے اسکا ۔۔
میں نے پوچھا کیا اسے پتا ہے اس ساری صورتحال کا
جی ڈاکٹر صاحب ۔۔
تو اسکا مورال کیسا ہے !!
وہ پوری طرح تیار ہے ۔۔
یہ کہتے ہوئے عمر (بھائی) کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ڈاکٹر صاحب میں بھی آسٹریلیا گیا تھا اس کیساتھ بون میرو ٹرانسپلانٹ کیلئے میچنگ ہو گئی تھی میری لیکن وہاں تک پہنچ ہی نہ پائے,
خیر میں نے عمر کو جوابدیا لے آیئں اپنے بھائی کو ۔۔
I will do my best ….
لیکن اصل میں تو میں ایک “ریڈی” انسان سے ملنا چاہتا تھا جاننا چاہتا تھا کہ یہ پہاڑ حوصلہ آتا کہاں سے اور کیسے ہے ۔۔
احمد کو ریسیو کیا تو بہت حالت خراب تھی جسم میں خون نہ ہونے کے برابر صرف تین ہیموگلوبن اورپلیٹلٹس صرف تین ہزار اور شدید بخار،میں نے پوچھا کیا حال ہے احمد ؛! کہنے لگا ٹھیک ہوں الحمداللہ؛ پوچھا ؛ کوئی تکلیف مسئلہ،کہنے لگا ؛ بس بخار ہے ۔۔۔اس سے زیادہ اس دن بات نہیں ہوئی
ہیماٹالوجسٹ کو آن بورڈ لیا اور دو دنوں میں احمد کا بخار اتر گیا اور خون کی کمی کو بلڈ ٹرانسفیثونز سے پورا کیا
تیسرے دن میں احمد کے کمرے میں راؤنڈ کرنے گیا
تو اچھے موڈ میں مُسکرا رہا تھا،سٹاف کو باہر بھیج کے میں اسکے سرہانے بیٹھ گیا اسکے گھر والوں سے اکیلے میں اس سے بات کرنے کی اجازت چاہی تو وہ بھی باہر چلے گئے ۔۔۔
ہم تقریباً آدھا گھنٹہ باتیں کرتے رہے میں میری آواز درمیان میں ُرندھ جاتی تھی( فاطمہ کو یاد کر کے،احمد کے خدو خال اور بات کرنے کا انداز فاطمہ سے حیران کُن طور پہ ملتا تھا) لیکن احمد ایسے مطمئن انداز سے اپنے کینسر کی روداد سنا رہا تھا جیسے کوئی نزلہ زکام ہوا ہو۔۔۔
میں نے پوچھا احمد تمہیں آسڑیلیا کے ڈاکٹرز نے کیا بتایا ہے تمہارے مستقبل بارے۔۔۔
ہس کر کہنے لگا مجھے کئی دفعہ انہوں نے کہا کہ میرے پاس صرف چند ہفتے ہیں جینے کیلئے لیکن سال ڈیڑھ گزر گیا،میرا آسڑیلین ڈاکٹر میرے ساتھ بہت اٹیچ ہو گیا تھا علاج میں پہ در پہ ناکامی دیکھ کر اور پھر جب میرا نچلا دھڑ بلکل مفلوج ہو گیا اور ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی تو کہنے لگا ؛ احمد میں تمہارے خدا سے ناراض ہوں تمہارے ضبط اور صبر کو شفا ملنی چاہئیے تھی۔۔
ڈاکٹر صاحب وہ تو مجھے ابھی بھی پاکستان آنے نہیں دے رہا تھا لیکن مجھے اب جانا ہی تھا،میں اپنے آخری دن اپنی فیملی کیساتھ گزارنا چاہتا تھا۔۔
میں نے پوچھا احمد تمہیں گلہ شکوہ نہیں آتا کہ تمہارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ۔۔کہنے لگا بلکل بھی نہیں ۔۔
میں ایسا بندہ ہی نہیں ہوں کہ جو گِلہ کرے۔۔
میں نے تو کبھی بہت زیادہ دعا بھی نہیں کی اپنی صحت کیلئے کہ اُسے
☝️
سب پتا ہے اس نے کچھ بہتر ہی پلان کیا ہوگا میرے بارے۔۔۔
آخری سوال ۔۔مرنے سے ڈر لگ رہا ہے!
مُسکراتے ہوئے ~بلکل بھی نہیں
I know I m going to much better place
میں نے اٹھتے اٹھتے کہا ؛ فاطمہ ملے تو میرا سلام کہنا ۔
مجھے یاد آ گیا کہ جب آخری دن میں فاطمہ کی حالت دیکھ کر رو پڑا تھا تو میں نے دعا کر دی تھی یا اللہ مجھے پتا لگ گیا ہے کہ تیری مرضی کچھ اور ہے ۔۔
الٹی ہو گیئں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا ؛
تو اب اسے اٹھا لے۔
تو چند گھنٹوں بعد ہی کام ہو گیا ۔۔۔
آج ایک بار پھر وہی دعا کرنا پڑی ۔۔
احمد کیساتھ ایک فوٹو کی اجازت مانگی اور پوچھا کیا ہماری یہ گفتگو شیئر کر سکتا ہوں میں ڈاکٹر کی ڈائری کے نام سے لکھتا ہوں،احمد نے بخوشی اجازت دے دی
پھر مجھے کراچی جانا پڑ گیا چار دن بعد کل کلینک پہ بیٹھا تھا کہ احمد کا وہی بھائی عمر اور والدہ صاحبہ تشریف لایئں(کمال صبر و شکر والے لوگ)
میں نے احمد بارے پوچھا تو کہنے لگے اسکا دو دن پہلے انتقال ہو گیا انا اللہ و انا الیہ راجعون
ہم بھی اللہ ہی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ~
ڈاکٹر صاحب ہم خاص طور پہ آپ سے یہ معلوم کرنے آئے ہیں کہ آپکی اس دن احمد سے کیا بات ہوئی تھی،اس دن کے بعد اس میں عجیب سا سکوت تھا،کہنے لگے ؛ احمد کہہ رہا تھا میرے آسٹریلیا کے ڈاکٹر کے بعد مجھے یہ ڈاکٹر صاحب بہت اچھے لگے۔
ڈاکٹر صاحب اس نے آخری دن پوچھا تھا کہ کیا ڈاکٹر اسد امتیاز کا فون آیا میرے لئے۔۔۔
تاسف کا اظہار کرتے ہوئے ؛ ڈاکٹر صاحب آپ کال کرتے تو اسے بہت اچھا لگتا !
میں نے نم آنکھوں سے جوابدیا۔۔کال
میں نے تو اتوار کو فاطمہ اسد دسترخوان ناشتہ بیٹھک کے موقع پہ اپنے والینٹئرز کیساتھ احمد کا ذکر کیا تو سب جذباتی ہو گئے کہ ہم نے بھی ملنا ہے،میں نے ہسپتال فون کیا کہ ہم آ رہے ہیں تو پتا چلا احمد ڈسچارج ہو کر گھر چلا گیا تھا۔۔
وہ افسوس کرنے لگے ہاں ڈاکٹر صاحب واقعی ہم آپ کو اطلاع دئیے بغیر ہی چلے گئے تھے ۔۔۔
پھر کہنے لگے ڈاکٹر صاحب احمد آخری لمحوں میں یہی کہتا رہا “میں جا رہا ہوں امی مبارک ہو ۔۔
میرا بزنس کلاس کا ٹکٹ آیا ہے ۔۔۔
احمد اور اسکی فیملی کی اس آزمائش کا وقت اب ختم ہو چکا تھا اب وہ “جنت کا بزنس کلاس کا مسافر تھا “
ڈاکٹر اور مریض کی یہ ڈائری پُژمردگی و افسوس کا پیغام بلکل نہیں اور قاریئن بھی یقیناً اسے مُثبت ہی لیں گے کہ
Death is not THE END
ایک عظیم ترین کامیابی جسکا سورہ فجر میں اعلان کیا ہے ہمارے پروردگار نے جو کہ انبیا کی گولڈن چین کے علاوہ دوسرے انسان بھی حاصل کر سکتے ہیں کہ وقت انتقال ہی رزلٹ آوٹ کر دیا جاتا ہے۔۔
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ
اے اطمینان والی روح ۔
ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾
تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش ۔
فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾
پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا ۔
وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ
اور میری جنت میں چلی جا ۔
انشااللہ
ڈاکٹر اسد امتیاز ابو فاطمہ
(کاپیڈ ڈاکٹر عرفان)​

TEARS.....

RIP Ahmed

Allah bless you and Fatimah.