ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت کے باوجود پیاز کی قیمت میں ہوشربااضافہ

onion111.jpg

پاکستان میں درآمد شدہ پیاز کی آمد کے باوجود سندھ اور بلوچستان کے عوام پیاز 180 روپے فی کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ یہ لوگ کچھ ماہ قبل تک یہی پیاز 80 روپے فی کلو میں خرید رہے تھے مگر اب قیمت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

تفصیلات کے مطابق مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب نے سندھ اور بلوچستان میں پیاز کی فصلیں تباہ کر دی ہیں جو عام طور پر اکتوبر میں آتی ہیں، اس کے نتیجے میں طلب اور رسد کا بڑا فرق پیدا ہو گیا ہے جس نے قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

پیاز کیلئے دنیا بھر سے ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دے دی گئی ہے جس کے بعد مصر، ترکی اور چین سے دبئی کے راستے پیاز پاکستان پہنچ رہی ہے۔ مگر قیمتوں میں کمی کے حوالے سے صورتحال حکومت کے بس سے باہر نظر آتی ہے۔

ستمبر کے شروع میں میں کچھ کمی دیکھنے میں آئی اور پیاز 80 سے 100 روپے کلو کے درمیان فروخت ہونا شروع ہوا لیکن ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہوگیا

اگست کے آخری ہفتے میں ٹماٹر اور پیاز کی ریٹیل قیمتیں بالترتیب 480 روپے اور 200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھیں۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں ٹماٹر اور پیاز معیار کے لحاظ سے بالترتیب 110 سے 150 روپے فی کلو اور 60 سے 90 روپے فی کلو دستیاب تھے۔


آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد نے کہا کہ پیاز کی ماہانہ کھپت ڈیڑھ لاکھ ٹن ہے اس لیے درآمدات اس بڑی طلب کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔

وحید احمد کا کہنا ہے مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب نے سندھ اور بلوچستان میں پیاز کی فصلیں تباہ کر دی ہیں جو عام طور پر اکتوبر میں آتی ہیں، اس کے نتیجے میں طلب اور رسد کا بڑا فرق پیدا ہو گیا ہے جس نے قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا سیلاب کے سبب جمع ہونے والے پانی کی تاحال نکاسی نہیں ہوئی ہے، تاہم کچھ کاشتکاروں نے بوائی شروع کر دی ہے لیکن اسے منڈیوں تک پہنچنے میں 2 سے 3 ماہ لگیں گے۔ جب کہ افغانستان اور ایران کی فصلیں بھی ختم ہو رہی ہیں۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ریٹیل سطح پر ریٹ کو کنٹرول کرے جہاں قیمتوں کی جانچ کا کوئی مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے دکاندار زیادہ سے زیادہ منافع کا مارجن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وحید احمد نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ریٹیل سطح پر ریٹ کو کنٹرول کرے جہاں قیمتوں کی جانچ کا کوئی مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے دکاندار زیادہ سے زیادہ منافع کا مارجن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔