دے تبسم کی خیرات ماحول کو
ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی
ایک شیریں جھلک ،ایک نوریں ڈلک ،
تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبی
اے نوید مسیحا ! تیری قوم کا حال
عیسی کی بھیڑوں سے ابتر ھوا
اس کے کمزور اور بے ھنر ہاتھ سے
چھین لی وقت نے برتری یا نبی
کام رکھا ہم نے صرف ازکار سے
تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھاۓ گے کیسے تجھے
ہم ہیں ناکردہ کار امّتی یا نبی
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو
میرے اندر عدو، میرے باہر عدو
روح ویران ہے ، آنکھ حیران ہے
ایک بحران تھا ایک بحران ہے
گلشن کوچہ شہرو بازار پہ
ہے پر فشاں گھمبیر افسردگی یا نبی
سچ مرے دور میں جرم ہے عیب ہے
جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے راہ روی
ایک آزار ہے آگہی یا نبی
رازداں اس جہاں میں بناؤں کسے
روح کے زخم جا کر دکھاؤں کسے
غیر کے سامنے کیوں تماشہ بنوں
کیوں کروں دوستوں کو دکھی یا نبی
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہ عرب
تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہوگی شاخ تمنّا میری
کب مٹے گی میری تشنگی یا نبی
یا نبی اب تو آشوب حالات نے
تیری یادوں کے چہرے بھی دھند لا دیے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری
بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبی
دے تبسّم کی خیرات ماحول کو
ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی