کرونا، جلسے، ایس او پی اور لاک ڈاوٗن

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
عجب صورتحال نظر آرہی ہے۔ حکومت نے اپنے اس فیصلے کو دیر کا شکار کر کے بہت برُا کیا کہ جب خود جلسے کر لیئے تو بعد میں کرونا کے نام پر پکارنا شروع کر دیا کہ جلسے بند کردیئے جائیں۔ مخالفین نے اس امر کو اپنے فائدے میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور میں نا مانوں کے رَٹ لگاتے ہوئے اپنے سینے ایسے پیٹنے شروع کردیئے ہیں کہ جیسے بن مانس اپنے حریف کو ہرانے کے بعد کرتے ہیں۔

یہ بات تو طے ہے کہ یہ اعلان حکومت کی طرف سے تب ہو رہا ہے جب معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیئے تھا کہ کسی ایسے فریق کو تلاش کرکے اس معاملے کو اٹھاتی جو کہ مکمّل طور پر غیر جانب دار نظر آئے۔
حکومت کے اپنے اعلان کرنے پر یہ تاٗثر لیا جارہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں سے ڈر گئی ہے۔

ایسے میں دوسری بڑی غلطی یہ کہ اس صورتحال میں صرف اور صرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ جبکہ چاہیئے یہ تھا ملک کی اعلیٰ عدلیہ یعنی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاتا۔ اب عدالتیں بھی اس مسئلے میں ٹانگ اڑانے سے قاصر ہیں کیونکہ اب اس وقت کوئی بھی قدم انھیں سیاسی طور پر غیرجانبدار ثابت نہیں کرسکتا۔

تو پھر، اب اس صورتحال میں حکومت کے پاس کیا ممکنہ طریقہ کار بچتے ہیں؟
کرونا ایک حقیقت ہے، اور اس طرح کے جلسوں اور عوامی تقریبات سے بے شک اس وباء کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ موجود ہے۔

تشدّد کا راستہ اپنانے سے معاملات اور خراب ہونگے اور یہ اپوزیشن والے اس کے بعد سیاسی شہید بننے کی کوشش کرینگے۔

لہٰذا اب حکومت کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے اور اگر یہ کام حکومت بروقت کرلے تو شائد اب بھی کچھ معصوم جانوں کو بچایا جا سکے اور مزید کوئی سیاسی بحران بھی پیدا نہ ہونے دیا جائے۔

اسکا واحد حل اب صرف اور صرف ایس او پی ہیں۔

جلسے کی اجازت دے دیں لیکن ایس او پی ضرور واضع طور پر بنائیں اور سمجھا دیں۔

۔ اگر کسی کو جلسہ کرنا ہو تو وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ۲۰۰ مربع میٹر کے اندر صرف اور صرف ۵۰ سے ۷۵ افراد سے زیادہ لوگ نہ ہوں۔ اس کے لیئے ۲۰۰ مربع میٹر کے علاقے کو چونے کی مدد سے واضع کریں۔ اس کے بعد اگلے گروپ کو، اگلے ۲۰۰ مربع میٹر کا علاقعہ کم از کم ۵ میٹر کی دوری پر بنائیں اور اسمیں بھی ۷۵ سے زائد افراد نہ ہوں۔

۔ اگر اسٹیج سے زیادہ دوری ہو تو جلسہ کرنے والے اس بات کو خود یقینی بنائیں کہ جلسہ گاہ میں بڑی ٹی وی اسکرین موجود ہوں تاکہ دور کھڑے لوگ بھی تقریر سننے یا اپنے لیڈر کو قریب سے دیکھنے کے لیے اسٹیج کے قریب نہ جائیں۔

۔ ہر جلسے میں یہ لازمی قرار دیا جائے کہ کسی بھی تقریر سے پہلے لیڈران یا ان کا کوئی نمائندہ اسٹیج پر آ کر کرونا سے بچاوٗ کے ایس او پی با آواز بلند پڑھ کر عوام کو سنائے اور انھیں اس پر عمل کرنے کی تلقین کرے۔

۔ جلسہ گاہ میں جلسے کی اجازت کے لیئے اجازت طلب کرنے والے اپنی درخواست کے ساتھ سینیٹائزر اور ماسک کے پیسے جمع کروائیں گے اور جلسہ گاہ میں حکومتی ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ لوگوں نے سینیٹائزر اور ماسک کا استعمال صحیح طور پر کیا ہے۔


اس کے علاوہ بھی کوئی اور یا کچھ اور اقدامات ضرور اسے بہتر کرنے کے لیئے کیئے جاسکتے ہیں۔

دراصل حکومت صرف اس ایک بات پر مار کھا رہی ہے کہ انھوں نے پہلے جب خود جلسے جلوس کیئے تو کرونا نہیں پھیلا جبکہ اپوزیشن کے جلسوں سے اب کرونا پھیل رہا ہے؟

اب جب حکومت نے خود یہ حرکت کردی ہے تو اس کے بعد اپوزیشن کے جلسوں پر کسی بھی طرح کی طاقت کے استعمال کی کوئی اخلاقی جواز سے محروم ہوچکی ہے بلکہ خود اپنے آپ کو محروم کرچکی ہے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ حکومت ان کو کہے کہ سیاسی جلسے کرنا ان کا جمہوری حق ہے، لیکن عوام کو کرونا سے بچانا حکومت کا اور ان اپوزیشن لیڈروں، دونوں کی مجموعی ذمہّ داری ہے۔


ہاں اور اس ذمہّ داری سے روگردانی پر سزا دینا ضرور ریاستی اداروں کی ذمّہ داری ہے۔ یہاں پر سپریم کورٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
وہ میں نے آپ لوگوں کی ذہانت پر جان بوجھ کر چھوڑی ہے
?
خیر ہم ذہین ضرور ہیں لیکن نجومی نہیں جو جان لیں آپکے
من میں کیا ہے...اب اس میں کیا
ویسے میرا کچھ کہنا اتنا ضروری بھی نہیں.....ہاہاہا

?
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
خیر ہم ذہین ضرور ہیں لیکن نجومی نہیں جو جان لیں آپکے
من میں کیا ہے...اب اس میں کیا
ویسے میرا کچھ کہنا اتنا ضروری بھی نہیں.....ہاہاہا

?


میرا چھوٹا سا اعتراض بس اس بات پر ہے ..جس محبت سے اپوزیشن نے بلایا ہے .عوام کو ان کے سٹیج سے دور بیٹھنے کا مشورہ کیوں دیا جا رہا ہے ..میرا خیال تو یہ ہے کہ عوام کو بھی ان کے سٹیج پر ان سے جڑ کر بیٹھنا چاہئے
 

باس از باس

MPA (400+ posts)

واہ جی واہ۔۔۔ زبردست


ایس او پیز کا خیال وہ بھی جلسوں میں۔۔۔ یہ تو ایل او ایل ہو گیا

???

میرے سامنے کی بات ہے پرسوں مال جانے لگے تو ایک دوست دوسرے سے کہتا کار میں ماسک پڑا ہے اور دوسرا کہتا ایک ہی پڑا ہے بس تھوڑی دیر پہنا تھا تو الٹا کر کے پہن لے اور مزے کی بات دوسرے نے الٹا کر کے پہن بھی لیا
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
میرا چھوٹا سا اعتراض بس اس بات پر ہے ..جس محبت سے اپوزیشن نے بلایا ہے .عوام کو ان کے سٹیج سے دور بیٹھنے کا مشورہ کیوں دیا جا رہا ہے ..میرا خیال تو یہ ہے کہ عوام کو بھی ان کے سٹیج پر ان سے جڑ کر بیٹھنا چاہئے
جی آپکا اعترض بلکل بجا ہے...جب اپوزیشن اور عوام اپس میں اتنی محبت کرتے ہیں تو
دو محبت کرنے والوں میں دوریاں پیدا کرنا تو ویسے بھی گناہ ہے. پھر عوام اتنی زیادہ
بھی نہیں جو سٹیج پر اپنے محبوب لیڈرز کے ساتھ فٹ نہ آ سکے...اب اس میں کیا

?
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
عجب صورتحال نظر آرہی ہے۔ حکومت نے اپنے اس فیصلے کو دیر کا شکار کر کے بہت برُا کیا کہ جب خود جلسے کر لیئے تو بعد میں کرونا کے نام پر پکارنا شروع کر دیا کہ جلسے بند کردیئے جائیں۔ مخالفین نے اس امر کو اپنے فائدے میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور میں نا مانوں کے رَٹ لگاتے ہوئے اپنے سینے ایسے پیٹنے شروع کردیئے ہیں کہ جیسے بن مانس اپنے حریف کو ہرانے کے بعد کرتے ہیں۔

یہ بات تو طے ہے کہ یہ اعلان حکومت کی طرف سے تب ہو رہا ہے جب معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیئے تھا کہ کسی ایسے فریق کو تلاش کرکے اس معاملے کو اٹھاتی جو کہ مکمّل طور پر غیر جانب دار نظر آئے۔
حکومت کے اپنے اعلان کرنے پر یہ تاٗثر لیا جارہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں سے ڈر گئی ہے۔

ایسے میں دوسری بڑی غلطی یہ کہ اس صورتحال میں صرف اور صرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ جبکہ چاہیئے یہ تھا ملک کی اعلیٰ عدلیہ یعنی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاتا۔ اب عدالتیں بھی اس مسئلے میں ٹانگ اڑانے سے قاصر ہیں کیونکہ اب اس وقت کوئی بھی قدم انھیں سیاسی طور پر غیرجانبدار ثابت نہیں کرسکتا۔

تو پھر، اب اس صورتحال میں حکومت کے پاس کیا ممکنہ طریقہ کار بچتے ہیں؟
کرونا ایک حقیقت ہے، اور اس طرح کے جلسوں اور عوامی تقریبات سے بے شک اس وباء کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ موجود ہے۔

تشدّد کا راستہ اپنانے سے معاملات اور خراب ہونگے اور یہ اپوزیشن والے اس کے بعد سیاسی شہید بننے کی کوشش کرینگے۔

لہٰذا اب حکومت کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے اور اگر یہ کام حکومت بروقت کرلے تو شائد اب بھی کچھ معصوم جانوں کو بچایا جا سکے اور مزید کوئی سیاسی بحران بھی پیدا نہ ہونے دیا جائے۔

اسکا واحد حل اب صرف اور صرف ایس او پی ہیں۔

جلسے کی اجازت دے دیں لیکن ایس او پی ضرور واضع طور پر بنائیں اور سمجھا دیں۔

۔ اگر کسی کو جلسہ کرنا ہو تو وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ۲۰۰ مربع میٹر کے اندر صرف اور صرف ۵۰ سے ۷۵ افراد سے زیادہ لوگ نہ ہوں۔ اس کے لیئے ۲۰۰ مربع میٹر کے علاقے کو چونے کی مدد سے واضع کریں۔ اس کے بعد اگلے گروپ کو، اگلے ۲۰۰ مربع میٹر کا علاقعہ کم از کم ۵ میٹر کی دوری پر بنائیں اور اسمیں بھی ۷۵ سے زائد افراد نہ ہوں۔

۔ اگر اسٹیج سے زیادہ دوری ہو تو جلسہ کرنے والے اس بات کو خود یقینی بنائیں کہ جلسہ گاہ میں بڑی ٹی وی اسکرین موجود ہوں تاکہ دور کھڑے لوگ بھی تقریر سننے یا اپنے لیڈر کو قریب سے دیکھنے کے لیے اسٹیج کے قریب نہ جائیں۔

۔ ہر جلسے میں یہ لازمی قرار دیا جائے کہ کسی بھی تقریر سے پہلے لیڈران یا ان کا کوئی نمائندہ اسٹیج پر آ کر کرونا سے بچاوٗ کے ایس او پی با آواز بلند پڑھ کر عوام کو سنائے اور انھیں اس پر عمل کرنے کی تلقین کرے۔

۔ جلسہ گاہ میں جلسے کی اجازت کے لیئے اجازت طلب کرنے والے اپنی درخواست کے ساتھ سینیٹائزر اور ماسک کے پیسے جمع کروائیں گے اور جلسہ گاہ میں حکومتی ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ لوگوں نے سینیٹائزر اور ماسک کا استعمال صحیح طور پر کیا ہے۔


اس کے علاوہ بھی کوئی اور یا کچھ اور اقدامات ضرور اسے بہتر کرنے کے لیئے کیئے جاسکتے ہیں۔

دراصل حکومت صرف اس ایک بات پر مار کھا رہی ہے کہ انھوں نے پہلے جب خود جلسے جلوس کیئے تو کرونا نہیں پھیلا جبکہ اپوزیشن کے جلسوں سے اب کرونا پھیل رہا ہے؟

اب جب حکومت نے خود یہ حرکت کردی ہے تو اس کے بعد اپوزیشن کے جلسوں پر کسی بھی طرح کی طاقت کے استعمال کی کوئی اخلاقی جواز سے محروم ہوچکی ہے بلکہ خود اپنے آپ کو محروم کرچکی ہے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ حکومت ان کو کہے کہ سیاسی جلسے کرنا ان کا جمہوری حق ہے، لیکن عوام کو کرونا سے بچانا حکومت کا اور ان اپوزیشن لیڈروں، دونوں کی مجموعی ذمہّ داری ہے۔


ہاں اور اس ذمہّ داری سے روگردانی پر سزا دینا ضرور ریاستی اداروں کی ذمّہ داری ہے۔ یہاں پر سپریم کورٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔

سہیل ہمیشہ کی طرح آپ نے نیک نیتی سے ایک گھمبیر مسلے کی نشاندھی کی اور ساتھ قابل عمل حل بھی پیش کیا، جس سے اتفاق ہے
میرا ماننا ہے کہ پنجاب حکومت ایک ڈفر شخص کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے جو سیاسی موشگافیوں سے نابلد ایک نالائق اور ناکام آدمی ہے . اس بیوقوف گنوار شخص کو لیڈر شپ اور لفظ ٹیم ورک کا ادراک ہی نہیں ہے اور اوپر سے جھوٹی انا اتنی کہ الحفیظ الامان . چیف منسٹر کا کام لیڈرشپ پرووائیڈ کرنا ہوتا ہے . اس جاہل پینڈو شخص نے قسم کھا رکھی ہے کہ کسی بھی معاملے میں بیھائینڈ دا سین بھی گورنر سرور سے کوئی مشورہ نہیں لینا . خود اکا جاہل ہے اور کسی عقلمند سے کوئی عقل کی بات نہیں پوچھنی اس نے . فقط ایک کام اس کو آتا ہے کہ مسکین بن کے خان کی لیپا پوتی کس طرح کرنی ہے . مجھے غصہ فردوس عاشق اعوان پر بھی ہے پورا گیلن پینٹ کا منہ پر لگا لیتی ہے اور بازو میں شال لٹکائے گواچی بھینس کی طرح پھرتی رہے گی، کوئی آگاہی مہم نہیں کوئی انیشیٹیو نہیں

ملتان کے جلسے پر کچھ کرنے کا وقت تو نکل گیا ہے اب اللہ ہی اس اپوزیشن اور ان کے حامیوں کو ہوش کے ناخن لے کر سیدھی راہ دکھائے تو دکھائے ورنہ معاملہ بہت مشکل نظر آ رہا ہے . اپوزیشن نے اسے اپنی انا کا مسلہ بنا لیا ہوا ہے اور یہ بات لکھ لیں کہ اس جلسے کے بعد کرونا کا پھیلاؤ اور اس سے ہلاکتیں ہونا ہی ہونا ہیں . اب اگر الله کی طرف سے ہی مرنے والوں کی مہلت اتنی ہی ہے تو زھے نصیب

میں لاہور کے جلسے کے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی جسارت کروں گا کہ فوری طور پر کیا کیا جا سکتا ہے
بزدار کو خاموشی سے گورنر سرور کے ساتھ بیٹھ کر مکمل سٹریٹیجی ترتیب دینی چاھیے . اس کے بعد چیف منسٹر اپنے آفس میں ایک کنٹرول روم قائم کرے . مشیر اطلاعات، چیف سیکریٹری، کمشنر و ڈپٹی کمشنر لاہور، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب، آر پی او اور سی سی پی او لاہور کو لیڈر شپ پرووائیڈ کرے اور انہیں ٹاسک دے کہ یہ یہ اہداف ہیں جو بغیر کسی مار پیٹ کے ١٠٠ فیصد پورے ہونے چاہئیں . لاء اینڈ آرڈر کو مین ٹین کرنا سول ایڈمنسٹریشن کا کام ہے اور اسی کی وہ تنخواہ لیتے ہیں . سیاسی حکومت کا کام صرف لیڈرشپ دینا ہوتا ہے . چیف سیکریٹری سے نیچے تک سب کو بتا دیا جائے کہ آپ لوگوں کا ہر ایکشن آپ لوگوں کی سالانہ اے سی آرز میں قلمبند کیا جائے گا جو آپ کی اگلی ترقیوں میں چیف منسٹر کے کمینٹس کے ساتھ آپ لوگوں کی پرسنل فائلز کا لازمی حصہ بنیں گے . کسی بھی سرکاری افسر کی جان اسی پرسنل فائل کے طوطے میں ہوتی ہے. سب تیر کی طرح سیدھے ہو کر کام کریں گے
رینجرز کو الگ ٹاسک دیا جائے اور فردوس عاشق اور یاسمین راشد کو کرونا کی تباہی سے عوام کی آگاہی کے لیے ایک ایگریسو مہم ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پمفلٹس یعنی ہر اویلیبل ذریعہ کا استعمال کیا جائے . علماء اور مساجد کے ائمہ اکرام کو ساتھ ملایا جائے اور انہیں بھی اس مہم کا حصہ بنایا جائے

ڈنڈا ہر چیز کا علاج نہیں ہے . جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے . جلسوں میں بھٹکا کر ہانک کر لاۓ جانے والے لوگ بھی پاکستانی ہیں انہیں سمجھایا جائے . بہت سے سمجھ جائیں گے اور بہت سی جانیں بچ جائیں گی، جو نہ مانیں ان کا وقت آ گیا تھا
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
فضول ترین جلسے ہیں
یہ لوگ اپنے آبائی علاقے سے اپنے تنخواہ دار لے کر جاتے ہیں ، جہاں جلسہ ہو وہاں کی عوام انہیں گھاس نہیں ڈالتی
مجھے تو لگتا ہے کہ ان جلسوں میں رکاوٹ نورا کشتی ہے جیسا کہ اپنے ابتدائی دور میں بھٹو اپنے جلسے پر آپ لاٹھی چارج کروایا کرتا تھا

 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
واہ جی واہ۔۔۔ زبردست

ایس او پیز کا خیال وہ بھی جلسوں میں۔۔۔ یہ تو ایل او ایل ہو گیا

???

میرے سامنے کی بات ہے پرسوں مال جانے لگے تو ایک دوست دوسرے سے کہتا کار میں ماسک پڑا ہے اور دوسرا کہتا ایک ہی پڑا ہے بس تھوڑی دیر پہنا تھا تو الٹا کر کے پہن لے اور مزے کی بات دوسرے نے الٹا کر کے پہن بھی لیا
کبھی اپنے دونوں دوستوں کو کسی اسپتال کے کرونا وارڈ کا ایک چکّر لگوا دیں، امید ہے اس کے بعد رات سوتے وقت بھی ماسک نہیں اتاریں گے۔

دراصل ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ جب تک کسی چیز کو عین الیقین سے نہیں دیکھ لیتے، ہمیں وہ کہانیاں ہی معلوم ہوتی ہیں۔

جلسوں میں ایس او پی کی پاسداری کروانا گو کہ بہت مشکل کام ہے، لیکن اس کام کو مشکل خود ہمارے حکمرانوں نے کر لیا ہے۔ اگر یہ پہلے ہی خود جلسے کر کے غلط روایت نہ ڈالتے، تو آج ان کے پاس بھی کوئی اخلاقی جواز ہوتا اپوزیشن کو کہنے کا یا پھر شائد حکومتی ادارے بھی اِن کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے۔ عدلیہ بھی اب بیچ میں کود کر اپنے آپ کو سیاسی نہیں کروانا چاہتی۔

تو پھر اب اس صورت حال میں یہی ایک راستہ نظر آتا ہے کہ چلیں کم از کم کوئی ایسی بات ہی کر دیں کہ جس سے کہیں تو کچھ نہ کچھ لوگوں کی تو بچت ہوجائے اور یہ بھی کوئی تُک کی بات کرتے نظر آئیں۔

وگرنہ اسی ایل او ایل کی پاداش میں کہیں مبادا یہ نہ کہے کوئی:

یہ ہر وقت کا ہنسنا کہیں برباد نہ کر دے ۔۔۔۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
جی ڈاکٹر صاحب، آپ ہمیشہ کی طرح کسی نہ کسی دکھتی رگ پر ہی ہاتھ رکھتے ہیں۔ یہاں حکومت پنجاب کی طرف اشارہ بلکل درست ہے۔

چوھدری سرور کو نون لیگ نے بھی ضائع کیا اور اب پی ٹی آئی بھی وہی کر رہی ہے۔ پنجاب کی حکومت کے لیئے بہت ہی زیرک شخص کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں پر حکومت دراصل مختلف جماعتوں اور گروہوں کا مجموعہ ہے۔ یہاں مفادات کا بہت بڑا تصادم ہے۔

ماسی فردوس کی واپسی، بلکل ٹارزن کی واپسی کی طرح معلوم ہوتی ہے، جسکی ضرورت ہو نہ ہو لیکن پر زور فرمائش پر بہ طور فرمائشی پروگرام ایسی چیزوں کو وقت اور جگہہ دینی پڑتی ہے، وگرنہ ’’شو‘‘ کے پیسے بھی پورے کرنا مشکل ہوجاتے ہیں۔

خان صاحب کو ابھی تک یہی شکایت لگائی جاتی ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی چونکہ پچھلے تیس سال سے نونی ہے، لہٰذا وہ بزدار صاحب کو کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ کچھ حد تک بات صحیح بھی ہے، لیکن ابھی تک خان صاحب پنجاب کی بیوروکریسی کو اتنا اُچھار پچھاڑ چکے ہیں کہ وہ اب کوئی کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گئی۔ کام کرنے والے ڈرے ہوئے ہیں اور کام بگاڑنے والے اسوقت ڈکرائے ہوئے بیل کی طرح ادھر اُدھر سینگ اڑائے بیٹھے ہیں۔

اندرونی خبر جو ٹی وی کے ذریعے ہم تک انتہائی رازداری سے ڈاکڑ شاہد مسعود صاحب کے توّسط سے پہنچی ہے وہ یہ کہ پنجاب پولیس نے بھی جلسے والوں کے سامنے آنے سے انکار کردیا ہے، اور کہا ہے کہ ہمیں وفاقی حکومت لکھ کر دے کہ کسی تصادم کی صورت میں ہم کس حد تک جا سکتے ہیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ کسی ماسک نہ پہننے والے کو آپ گولی تو نہیں مار سکتے۔

بات آپکی سو فیصد اصولی ہے کہ اس وقت میں پنجاب کی حکومت اور سرکاری مشینری کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیئے اور کوئی واضع اور قابل عمل طریقہ کار وضع کرنا چاہیئے۔ لیکن یہاں ایک جگہہ بیٹھے کون؟
کرونا کے بارے میں بہت معلوماتی مُہمّات پہلے ہی چل چکی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سب کو نصیحت اور خود میاں فصیحت۔۔۔۔ پی ٹی آئی خود جلسے کر کے اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھی ہے جو کسی کو منع کرے۔ لوگ انھیں طنزیہ انداز میں سنتے ہیں۔

تو اب چار و ناچار، بیٹھنا پڑے گا اپوزیشن کے ساتھ، یا پھر کوئی ایسی بات تو کرنی پڑے گی کہ جس سے پلہّ کہیں برابر ہو۔
حکومت ان پر یہ تو واضع کرے کہ لوگوں کو کرونا سے بچانا صرف حکومت کی نہیں، ان اپوزیشن لیڈروں کی بھی اتنی ہی بڑی ذمّہ داری ہے۔ باقی آپکی بات حقیقت سے قریب تر ہے کہ کوئی کسی کو گریبان سے پکڑ کر تو آگ میں چھلانگ لگانے سے بچا نہیں سکتا۔۔۔ لہٰذا جو سمجھانے کے بعد بھی نہ سمجھے، تو سمجھ لیں کہ اسکا وقت آن پہنچا ہے۔

سہیل ہمیشہ کی طرح آپ نے نیک نیتی سے ایک گھمبیر مسلے کی نشاندھی کی اور ساتھ قابل عمل حل بھی پیش کیا، جس سے اتفاق ہے
میرا ماننا ہے کہ پنجاب حکومت ایک ڈفر شخص کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے جو سیاسی موشگافیوں سے نابلد ایک نالائق اور ناکام آدمی ہے . اس بیوقوف گنوار شخص کو لیڈر شپ اور لفظ ٹیم ورک کا ادراک ہی نہیں ہے اور اوپر سے جھوٹی انا اتنی کہ الحفیظ الامان . چیف منسٹر کا کام لیڈرشپ پرووائیڈ کرنا ہوتا ہے . اس جاہل پینڈو شخص نے قسم کھا رکھی ہے کہ کسی بھی معاملے میں بیھائینڈ دا سین بھی گورنر سرور سے کوئی مشورہ نہیں لینا . خود اکا جاہل ہے اور کسی عقلمند سے کوئی عقل کی بات نہیں پوچھنی اس نے . فقط ایک کام اس کو آتا ہے کہ مسکین بن کے خان کی لیپا پوتی کس طرح کرنی ہے . مجھے غصہ فردوس عاشق اعوان پر بھی ہے پورا گیلن پینٹ کا منہ پر لگا لیتی ہے اور بازو میں شال لٹکائے گواچی بھینس کی طرح پھرتی رہے گی، کوئی آگاہی مہم نہیں کوئی انیشیٹیو نہیں

ملتان کے جلسے پر کچھ کرنے کا وقت تو نکل گیا ہے اب اللہ ہی اس اپوزیشن اور ان کے حامیوں کو ہوش کے ناخن لے کر سیدھی راہ دکھائے تو دکھائے ورنہ معاملہ بہت مشکل نظر آ رہا ہے . اپوزیشن نے اسے اپنی انا کا مسلہ بنا لیا ہوا ہے اور یہ بات لکھ لیں کہ اس جلسے کے بعد کرونا کا پھیلاؤ اور اس سے ہلاکتیں ہونا ہی ہونا ہیں . اب اگر الله کی طرف سے ہی مرنے والوں کی مہلت اتنی ہی ہے تو زھے نصیب

میں لاہور کے جلسے کے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی جسارت کروں گا کہ فوری طور پر کیا کیا جا سکتا ہے
بزدار کو خاموشی سے گورنر سرور کے ساتھ بیٹھ کر مکمل سٹریٹیجی ترتیب دینی چاھیے . اس کے بعد چیف منسٹر اپنے آفس میں ایک کنٹرول روم قائم کرے . مشیر اطلاعات، چیف سیکریٹری، کمشنر و ڈپٹی کمشنر لاہور، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب، آر پی او اور سی سی پی او لاہور کو لیڈر شپ پرووائیڈ کرے اور انہیں ٹاسک دے کہ یہ یہ اہداف ہیں جو بغیر کسی مار پیٹ کے ١٠٠ فیصد پورے ہونے چاہئیں . لاء اینڈ آرڈر کو مین ٹین کرنا سول ایڈمنسٹریشن کا کام ہے اور اسی کی وہ تنخواہ لیتے ہیں . سیاسی حکومت کا کام صرف لیڈرشپ دینا ہوتا ہے . چیف سیکریٹری سے نیچے تک سب کو بتا دیا جائے کہ آپ لوگوں کا ہر ایکشن آپ لوگوں کی سالانہ اے سی آرز میں قلمبند کیا جائے گا جو آپ کی اگلی ترقیوں میں چیف منسٹر کے کمینٹس کے ساتھ آپ لوگوں کی پرسنل فائلز کا لازمی حصہ بنیں گے . کسی بھی سرکاری افسر کی جان اسی پرسنل فائل کے طوطے میں ہوتی ہے. سب تیر کی طرح سیدھے ہو کر کام کریں گے
رینجرز کو الگ ٹاسک دیا جائے اور فردوس عاشق اور یاسمین راشد کو کرونا کی تباہی سے عوام کی آگاہی کے لیے ایک ایگریسو مہم ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پمفلٹس یعنی ہر اویلیبل ذریعہ کا استعمال کیا جائے . علماء اور مساجد کے ائمہ اکرام کو ساتھ ملایا جائے اور انہیں بھی اس مہم کا حصہ بنایا جائے

ڈنڈا ہر چیز کا علاج نہیں ہے . جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے . جلسوں میں بھٹکا کر ہانک کر لاۓ جانے والے لوگ بھی پاکستانی ہیں انہیں سمجھایا جائے . بہت سے سمجھ جائیں گے اور بہت سی جانیں بچ جائیں گی، جو نہ مانیں ان کا وقت آ گیا تھا
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
فضول ترین جلسے ہیں
یہ لوگ اپنے آبائی علاقے سے اپنے تنخواہ دار لے کر جاتے ہیں ، جہاں جلسہ ہو وہاں کی عوام انہیں گھاس نہیں ڈالتی
مجھے تو لگتا ہے کہ ان جلسوں میں رکاوٹ نورا کشتی ہے جیسا کہ اپنے ابتدائی دور میں بھٹو اپنے جلسے پر آپ لاٹھی چارج کروایا کرتا تھا


آپکے شکوک بعید القیاس نہیں، لیکن یہ شہر شہر پھرتے ہوئے کرائے کے ٹٹو بھی تو شہر شہر نگری نگری وباء کے پھیلاوٗ کا موٗجّب ہو سکتے ہیں۔ پھر بین الاقوامی سطح پر کیا پیغام جا رہا ہے؟ حکومت کی رِٹ چیلنج ہو رہی ہے، حکومت خود اخلاقی جواز سے محروم ۔۔۔۔ اب کیا کرے کوئی؟
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
جی ڈاکٹر صاحب، آپ ہمیشہ کی طرح کسی نہ کسی دکھتی رگ پر ہی ہاتھ رکھتے ہیں۔ یہاں حکومت پنجاب کی طرف اشارہ بلکل درست ہے۔

چوھدری سرور کو نون لیگ نے بھی ضائع کیا اور اب پی ٹی آئی بھی وہی کر رہی ہے۔ پنجاب کی حکومت کے لیئے بہت ہی زیرک شخص کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں پر حکومت دراصل مختلف جماعتوں اور گروہوں کا مجموعہ ہے۔ یہاں مفادات کا بہت بڑا تصادم ہے۔

ماسی فردوس کی واپسی، بلکل ٹارزن کی واپسی کی طرح معلوم ہوتی ہے، جسکی ضرورت ہو نہ ہو لیکن پر زور فرمائش پر بہ طور فرمائشی پروگرام ایسی چیزوں کو وقت اور جگہہ دینی پڑتی ہے، وگرنہ ’’شو‘‘ کے پیسے بھی پورے کرنا مشکل ہوجاتے ہیں۔

خان صاحب کو ابھی تک یہی شکایت لگائی جاتی ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی چونکہ پچھلے تیس سال سے نونی ہے، لہٰذا وہ بزدار صاحب کو کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ کچھ حد تک بات صحیح بھی ہے، لیکن ابھی تک خان صاحب پنجاب کی بیوروکریسی کو اتنا اُچھار پچھاڑ چکے ہیں کہ وہ اب کوئی کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گئی۔ کام کرنے والے ڈرے ہوئے ہیں اور کام بگاڑنے والے اسوقت ڈکرائے ہوئے بیل کی طرح ادھر اُدھر سینگ اڑائے بیٹھے ہیں۔

اندرونی خبر جو ٹی وی کے ذریعے ہم تک انتہائی رازداری سے ڈاکڑ شاہد مسعود صاحب کے توّسط سے پہنچی ہے وہ یہ کہ پنجاب پولیس نے بھی جلسے والوں کے سامنے آنے سے انکار کردیا ہے، اور کہا ہے کہ ہمیں وفاقی حکومت لکھ کر دے کہ کسی تصادم کی صورت میں ہم کس حد تک جا سکتے ہیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ کسی ماسک نہ پہننے والے کو آپ گولی تو نہیں مار سکتے۔

بات آپکی سو فیصد اصولی ہے کہ اس وقت میں پنجاب کی حکومت اور سرکاری مشینری کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیئے اور کوئی واضع اور قابل عمل طریقہ کار وضع کرنا چاہیئے۔ لیکن یہاں ایک جگہہ بیٹھے کون؟
کرونا کے بارے میں بہت معلوماتی مُہمّات پہلے ہی چل چکی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سب کو نصیحت اور خود میاں فصیحت۔۔۔۔ پی ٹی آئی خود جلسے کر کے اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھی ہے جو کسی کو منع کرے۔ لوگ انھیں طنزیہ انداز میں سنتے ہیں۔

تو اب چار و ناچار، بیٹھنا پڑے گا اپوزیشن کے ساتھ، یا پھر کوئی ایسی بات تو کرنی پڑے گی کہ جس سے پلہّ کہیں برابر ہو۔
حکومت ان پر یہ تو واضع کرے کہ لوگوں کو کرونا سے بچانا صرف حکومت کی نہیں، ان اپوزیشن لیڈروں کی بھی اتنی ہی بڑی ذمّہ داری ہے۔ باقی آپکی بات حقیقت سے قریب تر ہے کہ کوئی کسی کو گریبان سے پکڑ کر تو آگ میں چھلانگ لگانے سے بچا نہیں سکتا۔۔۔ لہٰذا جو سمجھانے کے بعد بھی نہ سمجھے، تو سمجھ لیں کہ اسکا وقت آن پہنچا ہے۔
پھر سے دوبارہ آپ کی پوسٹ سے متفق ہونے کے با وجود ایک بات سے اتفاق نہیں .
بزدار عمران کی مجبوری ہے ..لیکن یہ مجبوری محبت میں نہیں ..بلکہ اس کے اتحادیوں کی وجہ سے ہے جو کہتے ہیں ..بزدار تک تو ہم کچھ نہیں بولیں گے ..لیکن اسے ہٹایا تو پھر ہمارا بندہ بنے گا ..اب ایک سیٹ پر کتنے وزیر ا علی بٹھائے جا سکتے ہیں .
اس لئے یہ کروا گھونٹ پینا پڑے گا ..یہاں ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ ہے ..
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
پھر سے دوبارہ آپ کی پوسٹ سے متفق ہونے کے با وجود ایک بات سے اتفاق نہیں .
بزدار عمران کی مجبوری ہے ..لیکن یہ مجبوری محبت میں نہیں ..بلکہ اس کے اتحادیوں کی وجہ سے ہے جو کہتے ہیں ..بزدار تک تو ہم کچھ نہیں بولیں گے ..لیکن اسے ہٹایا تو پھر ہمارا بندہ بنے گا ..اب ایک سیٹ پر کتنے وزیر ا علی بٹھائے جا سکتے ہیں .
اس لئے یہ کروا گھونٹ پینا پڑے گا ..یہاں ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ ہے ..
جی اس اختلافی نوٹ میں کہیں مجھے اختلاف نظر نہیں آیا۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ بزدار عمران خان کی مجبوری نہیں ہے، بلکہ جہاں میں یہ کہتا ہوں کہ پنجاب میں مسائل ہی یہی ہیں کہ ایک تو اتحادیوں کی حکومت ہے اور دوسرا یہ کہ یہاں کچھ گروہ بھی ہیں جن کے ممبران تقریباً ہر پارٹی میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ان کے مفادات ایک ہی ہیں۔ مثلاً چینی کی مافیا اور گندم کی مافیا۔ ان کے ممبران پیپلز پارٹی، ن اور ق لیگ کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کاٹن مافیا علیٰحدہ ہے۔ تو اس بات کا تو میں ازخود اقرار کرتا ہوں کہ پنجاب میں حکومتی ترتیب کچھ گڈ مڈ ہو چکی ہے۔

بہرحال، جہاں کہیں بھی بزدار صاحب کی اپنی کارکردگی کو دیکھا جائے، تو اس بات سے شائد ہی کوئی متّفق نہ ہو کہ کبھی کسی نے پنجاب میں اتنی بری پرفارمنس نہیں دی۔