کس سے پیمانِ وفا باندھ رھی ھے بُلبُل

کس سے پیمانِ وفا باندھ رھی ھے بُلبُل

آج کل فضل الرحمٰن کے مارچ اوردھرنے کے چرچے ھیں۔ ایک طرف ٹکے ٹوکری صحافی ھیں جو یوٹیوب یا تھرڈ ریٹڈ ٹی وی چینلوں پر دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں اور حکومت کے آج یا کل جانے کی خبریں دیتے ہیں۔

دوسری طرف کھوتا خور پٹواری اور جہالے ہیں جو خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے بلکہ فضل الرحمٰن کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پٹواریوں کے سرخیل حضرت گوالمنڈیلا کی بالکل بند ہوِئی پڑی ہے۔ چھوٹا اب بڑے کے ہاتھ نہیں آ
رہا۔

ایسے میں سب ایک بندر کا تماشا دیکھ رہے ہیں کہ اگلی چھلانگ کس شاخ کی طرف لگائے گا۔

سب کو یاد دلاتا چلوں کہ یہ بندر ہر دور میں تماشا دکھاتا تھا اور اپنی جانب پھینکے جانے والے سکے اٹھانے میں مصروف رہتا تھا ۔ یار لوگ پورا ملک لوٹنے میں لگے رہتے تھے مگر اس بندر کو بھی کھل کھیلنے کی آزادی دیتے تھے۔
اب کی بار تماشا لمبا چوڑا لگ رہا ہے ۔ یار لوگ خود گھڑے میں ہاتھ پھنسائے بیٹھے ہیں۔ وہ ہاتھ سے مال نہیں چھوڑ سکتے اسی وجہ سے گھڑا انکو نہیں چھوڑ سکتا ۔

اور سکے پھینکنے والا دوسرا بندہ اب سکے نہیں پھینک رہا اور باقی سب تماشائی جنکيی جیبیں خالی ہیں وہ مزید مزے لینا چاہتے ہیں۔ بیچارا بندر اتنی زیادہ محنت نہیں کرسکتا اور بھاگ نکلنے کی کوشش میں ہے ۔

اس سارے قضیے میں کچھ بچوں کی عیاشی لگی ہوئی ہے۔ خوب شور مچا رہے ہیں ۔ اپنے قد سے بھی بڑا گلا پھاڑ کر چیخ رہے ہیں ۔ ادھر بندر اب بھاگا کہ تب بھاگا۔

اور یہ بھی بتا دوں کہ اس بندر نے جاتے ہوئے یہ بھی نہیں کہنا کہ " ساڈے تے نہ رہنا"