کوئٹہ کے منفی درجہ حرارت میں

zain10

Senator (1k+ posts)


دس جنوری شہدائے سانحہ علمدار روڈ کوئٹہ کی برسی ہے۔ ٹھیک آٹھ برس قبل اس روز تکفیری دہشتگردوں کے حملے میں ڈیڑھ سو کے قریب شیعہ ہزارہ شہید ہوگئے تھے جن میں جوان، بچے، بوڑھے خواتین سب شامل تھے۔ سانحہ کے بعد مقتولین کے ورثاء نے تین روز تک کوئٹہ کے منفی درجہ حرارت میں اپنے پیاروں کے جنازوں سمیت دھرنا دیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے احتجاج پورے ملک تک پھیل گیا تھا۔ قاتلوں کا تعین کرنا کسی بھی انسان دوست اور تاویل پرستی سے نفرت کرنے والے شخص کیلیے مشکل نہ تھا کیوں کہ قاتلوں نے خود اس سانحے کو اپنا عظیم کارنامہ تسلیم کرتے ہوئے کوئٹہ ہی میں ایک جلسے کے دوران ایک "ترانہ" گایا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے

جو سنچری تم نے کوئٹہ میں کردی
نشان اس کا دنیا میں باقی رہے گا

جلسے کے اسٹیج پر احمد لدھیانوی اور رمضان مینگل سمیت وہ تمام لوگ موجود تھے جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں بطور آزاد امیدوار یا پاکستان راہ حق پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لیا۔ اب یہاں ہمیں رک کر ہر اس تاویل پرست سے سوال پوچھنا چاہئے جو کبھی بڑھتی، کبھی تھمتی اور کبھی تھم کر دوبارہ شروع ہونے والی اس منظم نسل کشی کو بیرونی سازش قرار دیتا نظر آتا ہے۔
کوئی شک نہیں کہ بیرونی مداخلت حقیقت ہے لیکن کیا اعلانیہ نسل کشی کا اقرار کرنے والوں کو سرکاری سیکورٹی دینا، انہیں جلسوں اور الیکشن لڑنے کی اجازت دینا بھی بیرونی سازش کہلائے گی؟ یہ سوال میرے نہیں بلکہ خود مقتولین کے ورثاء کے ہیں جن کا جواب ہم سب کو ضرور ڈھونڈنا چاہئے۔
۔
وہی جنوری کا مہینہ ہے، سانحہ علمدار روڈ کو آٹھ برس گزر چکے ہیں اور پاکستان کے ہزارہ شیعہ ایک بار پھر مچھ میں بیدردی سے قتل کیے جانے والے اپنے پیاروں کے جنازوں کے ہمراہ دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ تاویل پرست حسب معمول بیرونی سازش کا راگ الاپنے میں مصروف ہیں البتہ حقیقت یہی ہے کہ سب سے اہم بیان مقتول کے ورثاء کا ہوا کرتا ہے۔ اس لیے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہزارہ شیعہ کیا کہہ رہے ہیں، کیا اور کس سے شکوہ کر رہے ہیں۔
۔
پاکستان اور افغانستان کی ہزارہ شیعہ برادری کی مظلومیت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن ہزاروں مقتول ہزارہ شیعہ میں سے ایک چہرہ ایسا تھا جو آج تک میرے ذہن سے محو نہ ہو سکا۔ یہ چہرہ نوجوان مرتضی ہزارہ کا تھا جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور کراچی میں آرٹ اینڈ ڈیزائن پڑھ رہا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ لاہور کے این سی اے میں داخلہ لے گا لیکن تین سال قبل مستونگ کے مقام پر کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے چار دیگر ہزارہ شیعہ سمیت قتل کردیا گیا۔ میں اگر ایمانداری سے کہوں تو مجھے سانحہ علمدار روڈ سے بھی زیادہ اس نوجوان کے یوں مارے جانے نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کا معصوم چہرہ، اس کے سامان والے سوٹ کیس میں سلیقے سے رکھے ہوئے اس کے کپڑے اور ایک چھوٹی سی جائے نماز۔ یہ سب آج بھی یاد آتا ہے تو دل میں کانٹا سا چبھتا ہے۔

زیر نظر تصویر اسی مرتضی کے والد کی ہے۔ اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے ایک سوال پوچھا تھا جو دراصل اس منظم نسل کشی میں مارے جانے والے ہر ہزارہ کے لواحقین کا سوال ہے۔

"میرے بیٹے کا کیا قصور تھا جو اسے سترہ گولیاں ماری گئیں؟"
۔




thumbnail



 
Last edited:

kakamuna420

Chief Minister (5k+ posts)
this is india messing in baluchistan. The people come from Afghanistan, kill and then run away.
The best thing would be to hit the country supporting it
 

<ChOuDhArY>

Chief Minister (5k+ posts)
Dear Its sad but the reality is that foreign countries are using Pakistan for their bloody proxy games against each other.

I think Pakistan need to start by punishing well known foreign agents..
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
امریکی جنگ میں صف اول کا سپاہی کا کردار نبھاتے نبھاتے پاکستان نے ہزاروں شہری اور فوجی گنوا دئیے. معلوم اور نامعلوم افراد شہریوں اور فوجیوں کو نشانہ بناتے رہے لیکن جذبہ جنگ کم نا ہوا. اب جب امریکا اس کے مقاصد حاصل کر چکا پاکستانی حکومت امریکا کے انہی طالبان افغان کے ساتھ مذاکرات کروا رہی ہے جن کے خلاف جنگ میں پاکستان صف اول کا امریکی سپاہی بنا رہا
 
Last edited: