کیا ریاست مدینہ میں یہودیوں کو ایک ایک کرکے مارا گیا ؟

jani1

Chief Minister (5k+ posts)

عارف کریم کے علاوہ اور کون کون ہے جو سمجھتا ہے کہ مدینے کی ساری یہودی آبادی کو ایک ایک کرکے ہلاک کیا گیا تھا، ۔؟۔

مدینے میں یہودیوں کے تین بڑے قبائل بنی قینقاع، بنی نضیر، اور بنی قریظہ کے ناموں سے آباد تھے۔۔ جن میں بنی قینقاع کو اسکی عہد شکنی و بدمعاشیوں کی وجہ سے مدینے سے نکال دیا گیا۔۔ اور بنی نضیر کو اس کی عہد شکنی اور رسول اللہ ﷺ کے قتل کے منصوبے پر ۔بغیر کسی جانی نقصان کے۔۔۔

مگر بنی قریظہ کا جرم الگ تھا۔۔ یعنی عہد شکنی و غداری۔۔۔ اس قبیلے نے غزوہ خندق کے وقت غداری کی، جب باقی اطراف سے مدینہ محفوظ تھا۔۔ اور ایک ان ہی کی طرف سے مدینے کی حفاظت کا بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔ کیونکہ ان سے مسلمانوں کا معاہدہ تھا۔۔ مگر انہوں نے نہ صرف معاہدہ توڑا بلکہ کفار کی مدد بھی کرنے کی تیاری میں تھے۔۔ جس کی وجہ سے آگے سے کفار مکہ اور پیچھے سے ان یہودیوں کے حملے سے مدینہ پس کر رہ جاتا۔۔

اس ساری غداری کی سزا انہیں یہ ملی کہ، جب غزوہ خندق میں کفار کے خیمے اکھڑ گئے اور وہ بھاگ گئے، ۔اور۔خندق سے پلٹ کر جب حضورؐ گھر پہنچے تو ظہر کے وقت جبرئیلؑ نے آ کر حکم سنایا کہ ابھی ہتھیار نہ کھولے جائیں، بنی قریظہ کا معاملہ باقی ہے، ان سے بھی اسی وقت نمٹ لینا چاہئے۔ یہ حکم پاتے ہیں حضورؐ نے فوراً اعلان فرمایا کہ ’’جو کوئی سمع و طاعت پر قائم ہو وہ عصر کی نماز اس وقت تک نہ پڑھے جب تک دیار بنی قریظہ پر نہ پہنچ جائے ‘‘۔

اس اعلان کے ساتھ ہی آپؐ نے حضرت علیؓ کو ایک دستے کے ساتھ مقدمۃ الجیش کے طور پر بنی قریظہ کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ جب وہاں پہنچے تو یہودیوں نے کوٹھوں پر چڑھ کر نبی ﷺ اور مسلمانوں پر گالیوں کی بوچھار کر دی، لیکن یہ بدزبانی ان کو اس جرم عظیم کے خمیازے سے کیسے بچا سکتی تھی کہ انہوں نے عین لڑائی کے وقت معاہدہ توڑ ڈالا اور حملہ آوروں سے مل کر مدینے کی پوری آبادی کو ہلاکت کے خطرے میں مبتلا کر دیا۔ حضرت علیؓ کے دستے کو دیکھ کر وہ سمجھے تھے کہ یہ محض دھمکانے آئے ہیں۔ لیکن جب حضورؐ کی قیادت میں پورا اسلامی لشکر وہاں پہنچ گیا اور ان کی بستی کا محاصرہ کر لیا گیا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔

محاصرہ کی شدت کو وہ دو تین ہفتوں سے زیادہ برداشت نہ کر سکے اور آخر کار انہوں نے اس شرط پر اپنے آپ کو نبیﷺ کے حوالے کر دیا کہ وہ قبلہ اَوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے حق میں جو فیصلہ بھی کر دیں گے اس فریقین مان لیں گے۔۔ انہوں نے حضرت سعدؓ کو اس امید پر حُکم بنایا تھا کہ زمانۂ جاہلیت میں اَوس اور بنی قریظہ کے درمیان جو حلیفانہ تعلقات مدّتوں سے چلے آ رہے تھے وہ ان کا لحاظ کریں گے اور اُنہیں بھی اسی طرح مدینہ سے نِکل جانے دیں گے جس طرح پہلے بنی قَیْنقُا ع اور بنی النضیر کو نِکل جانے دیا گیا تھا۔ خود قبیلۂ اَوس کے لوگ بھی حضرت سعد ؓ سے تقاضا کر رہے تھے کہ اپنے حلیفوں کے ساتھ نرمی برتیں۔

لیکن حضرت سعدؓ ابھی بھی دیکھ چکے تھے کہ پہلے جن دو یہودی قبیلوں کو مدینہ سے نِکل جانے کا موقع دیا تھا وہ کس طرح ساری گرد و پیش کے قبائل کو بھڑکا کر مدینے پر دس بارہ ہزار کا لشکر چڑھا لائے تھے۔ اور یہ معاملہ بھی ان کی سامنے تھا کہ اس آخری یہودی قبیلے نے عین بیرونی حملے کے موقع پر بد عہدی کر کے اہل مدینہ کو تباہ کر دینے کا کیا سامان کیا تھا۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ دیا کہ بنی قریظہ کے لڑنے والے مرد قتل کر دیے جائیں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے، اور ان کی تمام املاک مسلمانوں میں تقسیم کر دی جائیں۔

اس فیصلے پر عمل کیا گیا اور جب بنی قریظہ کی گڑھیوں میں مسلمان داخل ہوئے تو انہیں پتہ چلا کہ جنگِ احزاب میں حصہ لینے کے لیے ان غدّاروں نے پندرہ سو تلواریں، تین سو زرہیں، دو ہزار نیزے اور پندرہ سو ڈھالیں فراہم کی تھیں۔ اگر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوتی تو یہ سارا جنگی سامان عین وقت مدینہ پر عقب سے حملہ کرنی کے لیے استعمال ہوتا جبکہ مشرکین یکبارگی خندق پار کر کے ٹوٹ پڑنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ س انکشاف کے بعد تو اس امر میں شک کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی کہ حضرت سعدؓ نے ان لوگوں کے معاملہ میں جو فیصلہ دیا وہ بالکل حق تھا۔


غزوہ خیبر کا سرسری احوال۔

غزوہ خیبر ؛ محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔

یہ علاقہ بالخصوص اس کے کئی قلعے یہودی فوجی طاقت کے مرکز تھے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے خطرہ بنے رہے اور مسلمانوں کے خلاف کئی سازشوں میں شریک رہے۔ ان سازشوں میں غزوہ خندق اور غزوہ احد کے دوران یہودیوں کی کارروائیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خیبر کے یہود نے قبیلہ بنی نظیر کو بھی پناہ دی تھی جو مسلمانوں کے ساتھ سازش اور جنگ میں ملوث رہے تھے۔ ۔۔اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر حملہ کر کے قلعہ خیبر فتح کر لیا۔ اور یہاں کی زمینوں کی پیداوار کا نصف حصہ اسلامی حکومت کے تصرف میں آیا۔

جب مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کو ان کی خواہش پر پہلے کی طرح خیبر میں رہنے کی اجازت دی اور ان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اپنی آمدنی کا نصف بطور جزیہ مسلمانوں کو دیں گے اور مسلمان جب مناسب سمجھیں گے انہیں خیبر سے نکال دیں گے۔ اس جنگ میں بنی نضیر کے سردار حئی بن اخطب کی بیٹی صفیہ بھی قید ہوئیں جن کو آزاد کر کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔

اس جنگ سے مسلمانوں کو ایک حد تک یہودیوں کی گھناؤنی سازشوں سے نجات مل گئی اور انہیں معاشی فوائد بھی حاصل ہوئے۔۔مسلمانوں کو اس جنگ سے بھاری تعداد میں جنگی ہتھیار بھی ملے جن سے مسلمانوں کی طاقت بڑھ گئی۔ اس جنگ کے اٹھارہ ماہ بعد مکہ فتح ہو گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ حشر کے مضامین کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مدینہ طیبہ اور حجاز کے یہودیوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے، کیوں کہ اس کے
بغیر آدمی ٹھیک ٹھیک یہ نہیں جان سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر کار ان کے مختلف قبائل کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کے حقیقی اسباب کیا تھے۔

عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑ سکے۔ اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آ کر وہ اپنے بقیہ ابنائے ملت سے بچھڑ گئے تھے، اور دنیا کے یہودی سرے سے ان کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں ان میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا، اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہود عرب کی تاریخ کا بیشتر انحصار ان زبانی روایات پر ہے جو اہل عرب میں مشہور تھیں، اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلا ہوا تھا۔

حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ اس کا قصہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسیٰؑ نے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عَمالقہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں، بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آ کر فرمان نبی کی تعمیل کی، مگر عمالقہ کے بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوبصورت جوان تھا، اسے انہوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اس وقت حضرت موسیٰ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے جانشینوں نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آ کر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی، ج ۱۹، ص ۹۴)۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ ۱۲ سو برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن در حقیقت اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہل عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔

دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق ۵۸۷ قبل مسیح میں ہوئی جبکہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتر بتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آ کر وادی القریٰ، تیماء اور یثرب میں آباد ہو گئے تھے (فُتُوح البلدان، البالاذری)۔ لیکن اس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔

در حقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب ۷۰ عیسوی میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا، اور پھر ۱۳۲ ء میں انہیں اس سر زمین سے بالکل نکال باہر کیا، اس دور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آ کر انہوں نے جہاں جہاں چشمے اور سر سبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعہ سے ان پر قبضہ جما لیا۔ ایلہ، مقنا، تبوک، تیماء، وادی القریٰ، خدک، اور خیبر پر ان کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا۔ اور بنی قرَیظہ، بنی نضیر، بنی یَہدَل، اور بنی قَینُقَاع بھی اسی دور میں آ کر یثرب پر قابض ہوئے۔

یثرب میں آباد ہونے والے قبائل میں سے بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ ممتاز تھے، کیونکہ وہ کاہنوں (Priests)یا (Co hens) کے طبقہ میں سے تھے، انہیں یہودیوں میں عالی نسب مانا جاتا تھا اور ان کو اپنی ملت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینہ میں آ کر آباد ہوئے اس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انہوں نے دبا لیا اور عملاً اس سر سبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد ۴۵۰ء یا ۴۵۱ ء میں یمن کے اس سیلاب عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے قوم سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غسانی شام میں، لخمی جبرہ (عراق) میں، بنی خزاعہ جدہ و مکہ کے درمیان، اور اَوس و خزرج یثرب میں جا کر آباد ہوئے۔

یثرب پر چونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے اول اول اوس و خزرج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چار و ناچار بنجر زمینوں پر بس گے جہاں ان کو قوت الایموت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخر کر ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غسانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اوس، و خزرج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نضیر اور بنی قریظہ شہر کے باہر جا کر بسنے پر مجبور ہو گئے۔ تیسرے قبیلے بنی قَینقاع کی چونکہ ان دونوں قبیلوں سے ان بن تھی اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اسے قبیلہ خزرج کی پناہ لینی پڑی۔ اور اس کے مقابلہ میں بنی نضیر و بنی قریظہ نے قبیلہ اوس کی پناہ لی تاکہ اطراف یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔ ذیل کے نقشہ سے واضح ہو گا کہ اس نئے انتظام کے ماتحت یثرب اور اس کے نواح میں یہودی بستیاں کہاں کہاں تھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے، آغاز ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خد و خال یہ تھے :
زبان، لباس، تہزیب، تمدن، ہر لحاظ سے انہوں نے پوری طرح عربیت کا رنگ اختیار کر لیا تھا، حتیٰ کہ ان کی غالب اکثریت کے نام تک عربی ہو گئے تھے۔ ۱۲ یہودی قبیلے جو حجاز میں آباد ہوئے تھے، ان میں سے بنی زَعُوراء کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ان کے چند گنے چنے علماء کے سوا کوئی عبرانی جانتا تک نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلام ہمیں ملتا ہے ان کی زبان اور خیالات اور مضامین میں شعرائے عرب سے الگ کوئی امتیازی شان نہیں پائی جاتی جو انہیں ممیز کرتی ہو۔ ان کے اور عربوں کے درمیان شادی بیاہ تک کے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ در حقیقت ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے، اور انہوں نے شدت کے ساتھ اپنی یہودی عصبیت برقرار رکھی تھی۔ یہ ظاہری عربیت انہوں نے صرف اس لیے اختیار کی تھی کہ اس کے بغیر وہ عرب میں نہ رہ سکتے تھے۔

ان کی اس عربیت کی وجہ سے مغربی مستشرقین کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ شاید یہ بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ یہودی مذہب قبول کرنے والے عرب تھے، یا کم از کم ان کی اکثریت عرب یہودیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ یہودیوں نے حجاز میں کبھی کوئی تبلیغی سرگرمی دکھائی ہو، یا ان کے علماء نصرانی پادریوں اور مشنریوں کی طرح اہل عرب کو دین یہود کی طرف دعوت دیتے ہوں۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہل عرب کو وہ اُمّی (Gentiles) کہتے تھے، جس کے معنی صرف ان پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان امیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و نا جائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔

سرداران عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انہیں دین یہود میں داخل کر کے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایات عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہو گئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجائے صرف اپنے کاروبار سے دلچسپی تھی۔ اسی لیے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چند اسرائیلی قبیلوں کا سرمایہ فخر و ناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علماء نے تعویذ گنڈوں اور فال گیر اور جادو گری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا جس کی وجہ سے عربوں پر ان کے ’’ علم‘‘ اور ’’عمل‘‘ کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔

معاشی حیثیت سے ان کی پوزیشن عرب قبائل کی بہ نسبت زیادہ مضبوط تھی۔ چونکہ وہ فلسطین و شام کے زیادہ متمدن علاقوں سے آئے تھے، اس لیے وہ بہت سے ایسے فنون جانتے تھے جو اہل عرب میں رائج نہ تھے۔ اور باہر کی دنیا سے ان کے کاروباری تعلقات بھی تھے۔ ان وجوہ سے یثرب اور بالائی حجاز میں غلے کی در آمد اور یہاں سے چھوہاروں کی برآمد ان کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پر بھی زیادہ تر انہی کا قبضہ تھ۔ پارچہ بانی کا کام بھی ان کے ہاں ہوتا تھا۔ جگہ جگہ میخانے بھی انہوں نے قائم کر رکھے تھے جہاں شام سے شراب لا کر فروخت کی جاتی تھی۔

نبی قینقاع زیادہ تر سنار اور لوہار اور ظروف سازی کا پیشہ کرتے تھے۔ اس سارے بَنَج بیوپار میں یہ یہودی بے تحاشا منافع خوری کرتے تھے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کاروبار سود خواری کا تھا جس کے جال میں انہوں نے گرد و پیش کی عرب آبادیوں کو پھانس رکھا تھا،اور خاص طور پر عرب قبائل کے شیوخ اور سردار، جنہیں قرض لے لے کر ٹھاٹھ جمانے اور شیخی بگھارنے کی بیماری لگی ہوئی تھی، ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔ یہ بھاری شرح سود پر قرضے دیتے، اور پھر سود در سود کا چکر چلاتے تھے جس کی گرفت میں آ جانے کے بعد مشکل ہی سے کوئی نکل سکتا تھا۔ اس طرح انہوں نے عربوں کو معاشی حیثیت سے کھوکھلا کر رکھا تھا، مگر اس کا فطری نتیجہ یہ بھی تھا کہ عربوں میں بالعموم ان کے خلاف ایک گہری نفرت پائی جاتی تھی۔

ان کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ عربوں میں کسی کے دوست بن کر کسی سے نہ بگاڑیں اور نہ ان کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مفاد ہی کا تقاضا یہ بھی تھا کہ عربوں کو باہم متحد نہ ہونے دیں، اور انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب بھی عرب قبیلے باہم متحد ہوئے، وہ ان بڑی بڑی جائدادوں اور باغات اور سرسبز زمینوں پر انہیں قابض نہ رہنے دیں گے جو انہوں نے اپنی منافع خوری اور سود خواری سے پیدا کی تھیں۔

مزید برآں اپنی حفاظت کے لیے ان کے ہر قبیلے کو کسی نہ کسی طاقت ور عرب قبیلے سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کرنے پڑتے تھے، تاکہ کوئی دوسرا زبردست قبیلہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس بنا پر بارہا انہیں نہ صرف ان عرب قبائل کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لینا پڑتا تھا، بلکہ بسا اوقات ایک یہودی قبیلہ اپنے حلیف عرب قبیلہ کے ساتھ مل کر کسی دوسرے یہودی قبیلے کے خلاف جنگ آزما ہو جاتا تھا جس کے حلیفانہ تعلقات فریق مخالف سے ہوتے تھے۔ یثرب میں بنی قیرظہ اور بنی نضیر اوس کے حلیف تھے اور بنی قینقاع خزرج کے۔ ہجرت سے تھوڑی مدت پہلے اوس اور خزرج کے درمیان جو خونریز لڑائی بُعاث کے مقام پر ہوئی تھی اس میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے۔

یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اولین کام کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اوس اور خزرج اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی، اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔ اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن امور کی پابندی قبول کی تھی:

’’یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء حملہ آور کے مقابلہ میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہو گا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا، اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے مصارف اٹھائیں گے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے، ………… اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آسر ہو اس کے مقابلے میں شرکاء معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے ……… ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہو گا۔


یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بروز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تین تھے۔

ایک یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو محض ایک رئیس قوم دیکھنا چاہتے تھے جو ان کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کر کے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے مگر انہوں نے دیکھا کہ آپ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں کود ان کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا) اور معصیت چھوڑ کر ان احکام الہیٰ کی اطاعت اختیار کرنے اور ان اخلاقی حدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیاء بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ ان کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالمگیر اصولی تحریک اگر چل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔

دوسرے یہ کہ اوس و خزرج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر، اور یہ دیکھ کر کہ گرد و پیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملت بنتے جا رہے ہیں، انہیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انہوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا الو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی وہ اب اس نئے نظام میں نہ چل سکے گی بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔

تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے تھے اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام نا جائز طریقوں کا سد باب شامل تھا،
اور اب سے بڑھ کر یہ کہ سود کو بھی آپ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے جس سے انہیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپ کی فرمانروائی قائم ہو گئی تو آپ اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اس میں ان کو اپنی موت نظر آتی تھی۔

ان وجوہ سے انہوں نے حضورؐ کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپ کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرہ برابر تامل نہ تھا۔ وہ آپ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے تاکہ لوگ آپ سے بد گمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے تاکہ وہ اس دین سے بر گشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے بر پا کرنے کے لیے منافقین سے ساز باز کرتے تھے۔ ہر اس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔

اوس اور خزرج کے لوگ خاص طور پر ان کے ہدف تھے جن سے ان کے مدتہائے دراز کے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ ان کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیا تھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جونہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے، اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمہارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمہارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔اس کی متعدد مثالیں تفسیر طبری تفسیر نیسابوری، تفسیر طبرسی اور تفسیر روح المعانی میں سورہ آل عمران، آیت ۷۵ کی تشریح کرتے ہوئے نقل کی گئی ہیں۔

معاہدے کے خلاف یہ کھلی کھلی معاندانہ روش تو جنگ بدر سے پہلے ہی وہ اختیار کر چکے تھے۔ مگر جب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو قریش پر فتح مبین حاصل ہوئی تو وہ تلملا اٹھے اور ان کے بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ اس جنگ سے وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ قریش کی طاقت سے ٹکرا کر مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے فتح اسلام کی خبر پہنچنے سے پہلے مدینے میں یہ افواہیں اڑانی شروع کر دی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو گئے، اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی، اور اب ابوجہل کی قیادت میں قریش کا لشکر مدینے کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ لیکن جب نتیجہ ان کی امیدوں اور تمناؤں کے خلاف نکلا تو وہ غم اور غصے کے مارے پھٹ پڑے۔
بنی نضیر کا سردار کعب بن اشرف چیخ اٹھا کہ ’’ خدا کی قَسم اگر محمدؐ نے ان اشراف عرب کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے ‘‘۔ پھر وہ مکہ پہنچا اور بدر میں جو سرداران قریش مارے گئے تھے ان کے نہایت اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر مکہ والوں کو انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینہ واپس آ کر اس نے اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء کے ساتھ عشق کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ربیع الاول ۳ ھ میں محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔


بنی قینقاع کی بد معاشیاں؛

یہودیوں کا پہلا قبیلہ جس نے اجتماعی طور پر جنگ بدر کے بعد کھلم کھلا اپنا معاہدہ توڑ دیا، بنی قینقاع تھا، یہ لوگ خود شہر مدینہ کے اندر ایک محلہ میں آباد تھے اور چونکہ یہ سنار، لوہار اور ظروف ساز تھے، اس لیے ان کے بازار میں اہل مدینہ کثرت سے جانا آنا پڑتا تھا۔ ان کو اپنی شجاعت پر بڑا ناز تھا۔ آہن گر ہونے کی وجہ سے ان کا بچہ بچہ مسلح تھا۔ سات سو مردان جنگی ان کے اندر موجود تھے۔ اور ان کو اس بات کا بھی زعم تھا کہ قبیلہ خزرج سے ان کے پرانے حلیفانہ تعلقات تھے اور خزرج کا سردار عبداللہ بن ابی ان کا پشتی بان تھا۔ بدر کے واقعہ سے یہ اس قدر مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اپنے بازار میں آنے جانے والے
مسلمانوں کو ستا نا، اور خاص طور پر ان کی عورتوں کو چھیڑنا شروع کر دیا۔

رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز ان کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو بر سر عام برہنہ کر دیا گیا۔ اس پر سخت جھگڑا ہوا اور ہنگامے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی قتل ہو گیا۔جب حالات اس حد کو پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے محلہ میں تشریف لے گئے اور ان کو جمع کر کے آپ نے ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین فرمائی۔ مگر انہوں نے جواب دیا’’ اے محمدؐ، تم نے شاید ہمیں بھی قریش سمجھا ہے؟ وہ لڑنا نہیں جانتے تھے،اس لیے تم نے انہیں مار لیا۔ ہم سے سابقہ پیش آئے گا تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔ ‘‘ یہ گویا صاف صاف اعلان جنگ تھا۔ آخر کار رسول اللہ علیہ و سلم نے شوال (اور بروایت بعض ذی القعدہ) ۲ ھ کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کر لیا۔ صرف پندرہ روز ہی یہ محاصرہ رہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان کے تمام قابل جنگ آدمی باندھ لیے گئے۔ اب عبداللہ بن ابی ان کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سخت اصرار کیا کہ آپ انہیں معاف کر دیں۔ چنانچہ حضور نے اس کی درخواست قبول کر کے یہ فیصلہ فرما دیا کہ بنی قینقاع اپنا سب مال، اسلحہ اور آلات صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔

ان دو سخت اقدامات (یعنی بنی قینقاع کے اخراج اور کعب بن اشرف کے قتل) سے کچھ مدت تک یہودی اتنے خوف زدہ رہے کہ انہیں کوئی مزید شرارت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر اس کے بعد شوال ۳ ھ میں قریش کے لوگ جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے بڑی تیاریوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھ کر آئے، اور ان یہودیوں نے دیکھا کہ قریش کی تین ہزار فوج کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف ایک ہزار آدمی لڑنے کے لیے نکلے ہیں، اور ان میں سے بھی تین سو منافقین الگ ہو کر پلٹ آئے ہیں، تو انہوں نے معاہدے کی پہلی اور صریح خلاف ورزی اس طرح کی کہ مدینہ کی مدافعت میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوئے، حالانکہ وہ اس کے پابند تھے۔ پھر جب معرکہ احد میں مسلمانوں کو نقصان عظیم پہنچا تو ان کی جرأتیں اور بڑھ گئیں، یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سازش کی جو عین وقت پر ناکام ہو گئی۔

بنی نضیر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی سازش؛

اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بئر معونہ کے سانحہ (صفر ۴ ھ) کے بعد عمرو بن امیہ ضمری نے انتقامی کار روائی کے طور پر غلطی سے بنی عامر کے دو آدمیوں کو قتل کر دیا جو دراصل ایک معاہِلہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے مگر عمرو نے ان کو دشمن قبیلہ کے آدمی سمجھ لیا تھا۔ اس غلطی کی وجہ سے ان کا خون بہا مسلمانوں پر واجب آگیا تھا، اور چونکہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے میں بنی نضیر بھی شریک تھ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چند صحابہ کے ساتھ خود ان کی بستی میں تشریف لے گئے تاکہ خون بہا کی ادائیگی میں ان کو بھی شرکت کی دعوت دین۔ وہاں انہوں نے آپ کو چکنی چپڑی باتوں میں لگا یا اور اندر ہی اندر یہ سازش کی کہ ایک شخص اس مکان کی چھت پر سے آپ کے اوپر ایک بھاری پتھر گرا دے جس کی دیوار کے سائے میں آپ تشریف فرما تھے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنی اس تدبیر پر عمل کرتے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بر وقت خبردار کر دیا، اور آپ فوراً وہاں سے اٹھ کر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

اب ان کے ساتھ کسی رعایت کا سوال باقی نہ رہا۔ حضورؐ نے ان کو بلاتا خیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی وہ میرے علم میں آ گئی ہے۔ لہٰذا دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد اگر تم یہاں ٹھیرے رہے تو جو شخص بھی تمہاری بستی میں پایا جائے گا۔ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ دوسری طرف عبداللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کروں گا، بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تمہاری مدد کو آئیں گے، تم ڈٹ جاؤ اور ہر گز اپنی جگہ نہ چھوڑو۔ اس جھوٹے بھروسے پر انہوں نے حضورؐ کے الٹی میٹم کا یہ جواب دیا کہ ہم یہاں سے ہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کر لیجیے۔ اس پر ربیع الاول ۴ ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا محاصرہ کر لیا، اور صرف چند روز کے محاصرہ کے بعد (جس کی مدت بعض روایات میں چھ دن اور بعض میں پندرہ دن آئی ہے )وہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے کے لیے راضی ہو گئے کہ اسلحہ کے سوا جو کچھ بھی وہ اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں گے لے جائیں گے۔ اس طرح یہودیوں کے اس دوسرے شریر قبیلے سے مدینہ کی سر زمین خالی کرالی گئی۔ ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہو کر یہاں ٹھیر گئے۔ باقی شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔



arifkarim Dr Adam brohiniaz karachiwala atensari

تحقیق و ایڈٹنگ دعاوں کا طالب؛ جانی

تاریخ ابن کثیر
مغازی
صحیح بخاری
ابن ھشام
 
Last edited:

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)

عارف کریم کے علاوہ اور کون کون ہے جو سمجھتا ہے کہ مدینے کی ساری یہودی آبادی کو ایک ایک کرکے ہلاک کیا گیا تھا، ۔؟۔

مدینے میں یہودیوں کے تین بڑے قبائل بنی قینقاع، بنی نضیر، اور بنی قریظہ کے ناموں سے آباد تھے۔۔ جن میں بنی قینقاع کو اسکی عہد شکنی و بدمعاشیوں کی وجہ سے مدینے سے نکال دیا گیا۔۔ اور بنی نضیر کو اس کی عہد شکنی اور رسول اللہ ﷺ کے قتل کے منصوبے پر ۔بغیر کسی جانی نقصان کے۔۔۔

مگر بنی قریظہ کا جرم الگ تھا۔۔ یعنی عہد شکنی و غداری۔۔۔ اس قبیلے نے غزوہ خندق کے وقت غداری کی، جب باقی اطراف سے مدینہ محفوظ تھا۔۔ اور ایک ان ہی کی طرف سے مدینے کی حفاظت کا بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔ کیونکہ ان سے مسلمانوں کا معاہدہ تھا۔۔ مگر انہوں نے نہ صرف معاہدہ توڑا بلکہ کفار کی مدد بھی کرنے کی تیاری میں تھے۔۔ جس کی وجہ سے آگے سے کفار مکہ اور پیچھے سے ان یہودیوں کے حملے سے مدینہ پس کر رہ جاتا۔۔

اس ساری غداری کی سزا انہیں یہ ملی کہ، جب غزوہ خندق میں کفار کے خیمے اکھڑ گئے اور وہ بھاگ گئے، ۔اور۔خندق سے پلٹ کر جب حضورؐ گھر پہنچے تو ظہر کے وقت جبرئیلؑ نے آ کر حکم سنایا کہ ابھی ہتھیار نہ کھولے جائیں، بنی قریظہ کا معاملہ باقی ہے، ان سے بھی اسی وقت نمٹ لینا چاہئے۔ یہ حکم پاتے ہیں حضورؐ نے فوراً اعلان فرمایا کہ ’’جو کوئی سمع و طاعت پر قائم ہو وہ عصر کی نماز اس وقت تک نہ پڑھے جب تک دیار بنی قریظہ پر نہ پہنچ جائے ‘‘۔

اس اعلان کے ساتھ ہی آپؐ نے حضرت علیؓ کو ایک دستے کے ساتھ مقدمۃ الجیش کے طور پر بنی قریظہ کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ جب وہاں پہنچے تو یہودیوں نے کوٹھوں پر چڑھ کر نبی ﷺ اور مسلمانوں پر گالیوں کی بوچھار کر دی، لیکن یہ بدزبانی ان کو اس جرم عظیم کے خمیازے سے کیسے بچا سکتی تھی کہ انہوں نے عین لڑائی کے وقت معاہدہ توڑ ڈالا اور حملہ آوروں سے مل کر مدینے کی پوری آبادی کو ہلاکت کے خطرے میں مبتلا کر دیا۔ حضرت علیؓ کے دستے کو دیکھ کر وہ سمجھے تھے کہ یہ محض دھمکانے آئے ہیں۔ لیکن جب حضورؐ کی قیادت میں پورا اسلامی لشکر وہاں پہنچ گیا اور ان کی بستی کا محاصرہ کر لیا گیا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔

محاصرہ کی شدت کو وہ دو تین ہفتوں سے زیادہ برداشت نہ کر سکے اور آخر کار انہوں نے اس شرط پر اپنے آپ کو نبیﷺ کے حوالے کر دیا کہ وہ قبلہ اَوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے حق میں جو فیصلہ بھی کر دیں گے اس فریقین مان لیں گے۔۔ انہوں نے حضرت سعدؓ کو اس امید پر حُکم بنایا تھا کہ زمانۂ جاہلیت میں اَوس اور بنی قریظہ کے درمیان جو حلیفانہ تعلقات مدّتوں سے چلے آ رہے تھے وہ ان کا لحاظ کریں گے اور اُنہیں بھی اسی طرح مدینہ سے نِکل جانے دیں گے جس طرح پہلے بنی قَیْنقُا ع اور بنی النضیر کو نِکل جانے دیا گیا تھا۔ خود قبیلۂ اَوس کے لوگ بھی حضرت سعد ؓ سے تقاضا کر رہے تھے کہ اپنے حلیفوں کے ساتھ نرمی برتیں۔

لیکن حضرت سعدؓ ابھی بھی دیکھ چکے تھے کہ پہلے جن دو یہودی قبیلوں کو مدینہ سے نِکل جانے کا موقع دیا تھا وہ کس طرح ساری گرد و پیش کے قبائل کو بھڑکا کر مدینے پر دس بارہ ہزار کا لشکر چڑھا لائے تھے۔ اور یہ معاملہ بھی ان کی سامنے تھا کہ اس آخری یہودی قبیلے نے عین بیرونی حملے کے موقع پر بد عہدی کر کے اہل مدینہ کو تباہ کر دینے کا کیا سامان کیا تھا۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ دیا کہ بنی قریظہ کے تمام مرد قتل کر دیے جائیں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے، اور ان کی تمام املاک مسلمانوں میں تقسیم کر دی جائیں۔

اس فیصلے پر عمل کیا گیا اور جب بنی قریظہ کی گڑھیوں میں مسلمان داخل ہوئے تو انہیں پتہ چلا کہ جنگِ احزاب میں حصہ لینے کے لیے ان غدّاروں نے پندرہ سو تلواریں، تین سو زرہیں، دو ہزار نیزے اور پندرہ سو ڈھالیں فراہم کی تھیں۔ اگر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوتی تو یہ سارا جنگی سامان عین وقت مدینہ پر عقب سے حملہ کرنی کے لیے استعمال ہوتا جبکہ مشرکین یکبارگی خندق پار کر کے ٹوٹ پڑنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ س انکشاف کے بعد تو اس امر میں شک کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی کہ حضرت سعدؓ نے ان لوگوں کے معاملہ میں جو فیصلہ دیا وہ بالکل حق تھا۔


غزوہ خیبر کا سرسری احوال۔

غزوہ خیبر ؛ محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔

یہ علاقہ بالخصوص اس کے کئی قلعے یہودی فوجی طاقت کے مرکز تھے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے خطرہ بنے رہے اور مسلمانوں کے خلاف کئی سازشوں میں شریک رہے۔ ان سازشوں میں غزوہ خندق اور غزوہ احد کے دوران یہودیوں کی کارروائیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خیبر کے یہود نے قبیلہ بنی نظیر کو بھی پناہ دی تھی جو مسلمانوں کے ساتھ سازش اور جنگ میں ملوث رہے تھے۔ ۔۔اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر حملہ کر کے قلعہ خیبر فتح کر لیا۔ اور یہاں کی زمینوں کی پیداوار کا نصف حصہ اسلامی حکومت کے تصرف میں آیا۔

جب مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کو ان کی خواہش پر پہلے کی طرح خیبر میں رہنے کی اجازت دی اور ان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اپنی آمدنی کا نصف بطور جزیہ مسلمانوں کو دیں گے اور مسلمان جب مناسب سمجھیں گے انہیں خیبر سے نکال دیں گے۔ اس جنگ میں بنی نضیر کے سردار حئی بن اخطب کی بیٹی صفیہ بھی قید ہوئیں جن کو آزاد کر کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔

اس جنگ سے مسلمانوں کو ایک حد تک یہودیوں کی گھناؤنی سازشوں سے نجات مل گئی اور انہیں معاشی فوائد بھی حاصل ہوئے۔۔مسلمانوں کو اس جنگ سے بھاری تعداد میں جنگی ہتھیار بھی ملے جن سے مسلمانوں کی طاقت بڑھ گئی۔ اس جنگ کے اٹھارہ ماہ بعد مکہ فتح ہو گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ حشر کے مضامین کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مدینہ طیبہ اور حجاز کے یہودیوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے، کیوں کہ اس کے
بغیر آدمی ٹھیک ٹھیک یہ نہیں جان سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر کار ان کے مختلف قبائل کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کے حقیقی اسباب کیا تھے۔

عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑ سکے۔ اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آ کر وہ اپنے بقیہ ابنائے ملت سے بچھڑ گئے تھے، اور دنیا کے یہودی سرے سے ان کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں ان میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا، اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہود عرب کی تاریخ کا بیشتر انحصار ان زبانی روایات پر ہے جو اہل عرب میں مشہور تھیں، اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلا ہوا تھا۔

حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ اس کا قصہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسیٰؑ نے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عَمالقہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں، بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آ کر فرمان نبی کی تعمیل کی، مگر عمالقہ کے بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوبصورت جوان تھا، اسے انہوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اس وقت حضرت موسیٰ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے جانشینوں نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آ کر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی، ج ۱۹، ص ۹۴)۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ ۱۲ سو برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن در حقیقت اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہل عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔

دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق ۵۸۷ قبل مسیح میں ہوئی جبکہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتر بتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آ کر وادی القریٰ، تیماء اور یثرب میں آباد ہو گئے تھے (فُتُوح البلدان، البالاذری)۔ لیکن اس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔

در حقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب ۷۰ عیسوی میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا، اور پھر ۱۳۲ ء میں انہیں اس سر زمین سے بالکل نکال باہر کیا، اس دور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آ کر انہوں نے جہاں جہاں چشمے اور سر سبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعہ سے ان پر قبضہ جما لیا۔ ایلہ، مقنا، تبوک، تیماء، وادی القریٰ، خدک، اور خیبر پر ان کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا۔ اور بنی قرَیظہ، بنی نضیر، بنی یَہدَل، اور بنی قَینُقَاع بھی اسی دور میں آ کر یثرب پر قابض ہوئے۔

یثرب میں آباد ہونے والے قبائل میں سے بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ ممتاز تھے، کیونکہ وہ کاہنوں (Priests)یا (Co hens) کے طبقہ میں سے تھے، انہیں یہودیوں میں عالی نسب مانا جاتا تھا اور ان کو اپنی ملت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینہ میں آ کر آباد ہوئے اس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انہوں نے دبا لیا اور عملاً اس سر سبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد ۴۵۰ء یا ۴۵۱ ء میں یمن کے اس سیلاب عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے قوم سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غسانی شام میں، لخمی جبرہ (عراق) میں، بنی خزاعہ جدہ و مکہ کے درمیان، اور اَوس و خزرج یثرب میں جا کر آباد ہوئے۔

یثرب پر چونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے اول اول اوس و خزرج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چار و ناچار بنجر زمینوں پر بس گے جہاں ان کو قوت الایموت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخر کر ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غسانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اوس، و خزرج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نضیر اور بنی قریظہ شہر کے باہر جا کر بسنے پر مجبور ہو گئے۔ تیسرے قبیلے بنی قَینقاع کی چونکہ ان دونوں قبیلوں سے ان بن تھی اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اسے قبیلہ خزرج کی پناہ لینی پڑی۔ اور اس کے مقابلہ میں بنی نضیر و بنی قریظہ نے قبیلہ اوس کی پناہ لی تاکہ اطراف یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔ ذیل کے نقشہ سے واضح ہو گا کہ اس نئے انتظام کے ماتحت یثرب اور اس کے نواح میں یہودی بستیاں کہاں کہاں تھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے، آغاز ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خد و خال یہ تھے :
زبان، لباس، تہزیب، تمدن، ہر لحاظ سے انہوں نے پوری طرح عربیت کا رنگ اختیار کر لیا تھا، حتیٰ کہ ان کی غالب اکثریت کے نام تک عربی ہو گئے تھے۔ ۱۲ یہودی قبیلے جو حجاز میں آباد ہوئے تھے، ان میں سے بنی زَعُوراء کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ان کے چند گنے چنے علماء کے سوا کوئی عبرانی جانتا تک نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلام ہمیں ملتا ہے ان کی زبان اور خیالات اور مضامین میں شعرائے عرب سے الگ کوئی امتیازی شان نہیں پائی جاتی جو انہیں ممیز کرتی ہو۔ ان کے اور عربوں کے درمیان شادی بیاہ تک کے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ در حقیقت ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے، اور انہوں نے شدت کے ساتھ اپنی یہودی عصبیت برقرار رکھی تھی۔ یہ ظاہری عربیت انہوں نے صرف اس لیے اختیار کی تھی کہ اس کے بغیر وہ عرب میں نہ رہ سکتے تھے۔

ان کی اس عربیت کی وجہ سے مغربی مستشرقین کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ شاید یہ بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ یہودی مذہب قبول کرنے والے عرب تھے، یا کم از کم ان کی اکثریت عرب یہودیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ یہودیوں نے حجاز میں کبھی کوئی تبلیغی سرگرمی دکھائی ہو، یا ان کے علماء نصرانی پادریوں اور مشنریوں کی طرح اہل عرب کو دین یہود کی طرف دعوت دیتے ہوں۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہل عرب کو وہ اُمّی (Gentiles) کہتے تھے، جس کے معنی صرف ان پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان امیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و نا جائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔

سرداران عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انہیں دین یہود میں داخل کر کے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایات عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہو گئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجائے صرف اپنے کاروبار سے دلچسپی تھی۔ اسی لیے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چند اسرائیلی قبیلوں کا سرمایہ فخر و ناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علماء نے تعویذ گنڈوں اور فال گیر اور جادو گری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا جس کی وجہ سے عربوں پر ان کے ’’ علم‘‘ اور ’’عمل‘‘ کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔

معاشی حیثیت سے ان کی پوزیشن عرب قبائل کی بہ نسبت زیادہ مضبوط تھی۔ چونکہ وہ فلسطین و شام کے زیادہ متمدن علاقوں سے آئے تھے، اس لیے وہ بہت سے ایسے فنون جانتے تھے جو اہل عرب میں رائج نہ تھے۔ اور باہر کی دنیا سے ان کے کاروباری تعلقات بھی تھے۔ ان وجوہ سے یثرب اور بالائی حجاز میں غلے کی در آمد اور یہاں سے چھوہاروں کی برآمد ان کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پر بھی زیادہ تر انہی کا قبضہ تھ۔ پارچہ بانی کا کام بھی ان کے ہاں ہوتا تھا۔ جگہ جگہ میخانے بھی انہوں نے قائم کر رکھے تھے جہاں شام سے شراب لا کر فروخت کی جاتی تھی۔

نبی قینقاع زیادہ تر سنار اور لوہار اور ظروف سازی کا پیشہ کرتے تھے۔ اس سارے بَنَج بیوپار میں یہ یہودی بے تحاشا منافع خوری کرتے تھے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کاروبار سود خواری کا تھا جس کے جال میں انہوں نے گرد و پیش کی عرب آبادیوں کو پھانس رکھا تھا،اور خاص طور پر عرب قبائل کے شیوخ اور سردار، جنہیں قرض لے لے کر ٹھاٹھ جمانے اور شیخی بگھارنے کی بیماری لگی ہوئی تھی، ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔ یہ بھاری شرح سود پر قرضے دیتے، اور پھر سود در سود کا چکر چلاتے تھے جس کی گرفت میں آ جانے کے بعد مشکل ہی سے کوئی نکل سکتا تھا۔ اس طرح انہوں نے عربوں کو معاشی حیثیت سے کھوکھلا کر رکھا تھا، مگر اس کا فطری نتیجہ یہ بھی تھا کہ عربوں میں بالعموم ان کے خلاف ایک گہری نفرت پائی جاتی تھی۔

ان کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ عربوں میں کسی کے دوست بن کر کسی سے نہ بگاڑیں اور نہ ان کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مفاد ہی کا تقاضا یہ بھی تھا کہ عربوں کو باہم متحد نہ ہونے دیں، اور انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب بھی عرب قبیلے باہم متحد ہوئے، وہ ان بڑی بڑی جائدادوں اور باغات اور سرسبز زمینوں پر انہیں قابض نہ رہنے دیں گے جو انہوں نے اپنی منافع خوری اور سود خواری سے پیدا کی تھیں۔

مزید برآں اپنی حفاظت کے لیے ان کے ہر قبیلے کو کسی نہ کسی طاقت ور عرب قبیلے سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کرنے پڑتے تھے، تاکہ کوئی دوسرا زبردست قبیلہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس بنا پر بارہا انہیں نہ صرف ان عرب قبائل کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لینا پڑتا تھا، بلکہ بسا اوقات ایک یہودی قبیلہ اپنے حلیف عرب قبیلہ کے ساتھ مل کر کسی دوسرے یہودی قبیلے کے خلاف جنگ آزما ہو جاتا تھا جس کے حلیفانہ تعلقات فریق مخالف سے ہوتے تھے۔ یثرب میں بنی قیرظہ اور بنی نضیر اوس کے حلیف تھے اور بنی قینقاع خزرج کے۔ ہجرت سے تھوڑی مدت پہلے اوس اور خزرج کے درمیان جو خونریز لڑائی بُعاث کے مقام پر ہوئی تھی اس میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے۔

یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اولین کام کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اوس اور خزرج اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی، اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔ اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن امور کی پابندی قبول کی تھی:

’’یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء حملہ آور کے مقابلہ میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہو گا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا، اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے مصارف اٹھائیں گے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے، ………… اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آسر ہو اس کے مقابلے میں شرکاء معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے ……… ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہو گا۔


یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بروز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تین تھے۔

ایک یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو محض ایک رئیس قوم دیکھنا چاہتے تھے جو ان کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کر کے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے مگر انہوں نے دیکھا کہ آپ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں کود ان کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا) اور معصیت چھوڑ کر ان احکام الہیٰ کی اطاعت اختیار کرنے اور ان اخلاقی حدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیاء بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ ان کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالمگیر اصولی تحریک اگر چل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔

دوسرے یہ کہ اوس و خزرج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر، اور یہ دیکھ کر کہ گرد و پیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملت بنتے جا رہے ہیں، انہیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انہوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا الو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی وہ اب اس نئے نظام میں نہ چل سکے گی بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔

تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے تھے اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام نا جائز طریقوں کا سد باب شامل تھا،
اور اب سے بڑھ کر یہ کہ سود کو بھی آپ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے جس سے انہیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپ کی فرمانروائی قائم ہو گئی تو آپ اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اس میں ان کو اپنی موت نظر آتی تھی۔

ان وجوہ سے انہوں نے حضورؐ کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپ کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرہ برابر تامل نہ تھا۔ وہ آپ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے تاکہ لوگ آپ سے بد گمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے تاکہ وہ اس دین سے بر گشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے بر پا کرنے کے لیے منافقین سے ساز باز کرتے تھے۔ ہر اس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔

اوس اور خزرج کے لوگ خاص طور پر ان کے ہدف تھے جن سے ان کے مدتہائے دراز کے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ ان کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیا تھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جونہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے، اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمہارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمہارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔اس کی متعدد مثالیں تفسیر طبری تفسیر نیسابوری، تفسیر طبرسی اور تفسیر روح المعانی میں سورہ آل عمران، آیت ۷۵ کی تشریح کرتے ہوئے نقل کی گئی ہیں۔

معاہدے کے خلاف یہ کھلی کھلی معاندانہ روش تو جنگ بدر سے پہلے ہی وہ اختیار کر چکے تھے۔ مگر جب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو قریش پر فتح مبین حاصل ہوئی تو وہ تلملا اٹھے اور ان کے بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ اس جنگ سے وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ قریش کی طاقت سے ٹکرا کر مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے فتح اسلام کی خبر پہنچنے سے پہلے مدینے میں یہ افواہیں اڑانی شروع کر دی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو گئے، اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی، اور اب ابوجہل کی قیادت میں قریش کا لشکر مدینے کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ لیکن جب نتیجہ ان کی امیدوں اور تمناؤں کے خلاف نکلا تو وہ غم اور غصے کے مارے پھٹ پڑے۔
بنی نضیر کا سردار کعب بن اشرف چیخ اٹھا کہ ’’ خدا کی قَسم اگر محمدؐ نے ان اشراف عرب کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے ‘‘۔ پھر وہ مکہ پہنچا اور بدر میں جو سرداران قریش مارے گئے تھے ان کے نہایت اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر مکہ والوں کو انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینہ واپس آ کر اس نے اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء کے ساتھ عشق کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ربیع الاول ۳ ھ میں محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔


بنی قینقاع کی بد معاشیاں؛

یہودیوں کا پہلا قبیلہ جس نے اجتماعی طور پر جنگ بدر کے بعد کھلم کھلا اپنا معاہدہ توڑ دیا، بنی قینقاع تھا، یہ لوگ خود شہر مدینہ کے اندر ایک محلہ میں آباد تھے اور چونکہ یہ سنار، لوہار اور ظروف ساز تھے، اس لیے ان کے بازار میں اہل مدینہ کثرت سے جانا آنا پڑتا تھا۔ ان کو اپنی شجاعت پر بڑا ناز تھا۔ آہن گر ہونے کی وجہ سے ان کا بچہ بچہ مسلح تھا۔ سات سو مردان جنگی ان کے اندر موجود تھے۔ اور ان کو اس بات کا بھی زعم تھا کہ قبیلہ خزرج سے ان کے پرانے حلیفانہ تعلقات تھے اور خزرج کا سردار عبداللہ بن ابی ان کا پشتی بان تھا۔ بدر کے واقعہ سے یہ اس قدر مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اپنے بازار میں آنے جانے والے
مسلمانوں کو ستا نا، اور خاص طور پر ان کی عورتوں کو چھیڑنا شروع کر دیا۔

رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز ان کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو بر سر عام برہنہ کر دیا گیا۔ اس پر سخت جھگڑا ہوا اور ہنگامے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی قتل ہو گیا۔جب حالات اس حد کو پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے محلہ میں تشریف لے گئے اور ان کو جمع کر کے آپ نے ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین فرمائی۔ مگر انہوں نے جواب دیا’’ اے محمدؐ، تم نے شاید ہمیں بھی قریش سمجھا ہے؟ وہ لڑنا نہیں جانتے تھے،اس لیے تم نے انہیں مار لیا۔ ہم سے سابقہ پیش آئے گا تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔ ‘‘ یہ گویا صاف صاف اعلان جنگ تھا۔ آخر کار رسول اللہ علیہ و سلم نے شوال (اور بروایت بعض ذی القعدہ) ۲ ھ کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کر لیا۔ صرف پندرہ روز ہی یہ محاصرہ رہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان کے تمام قابل جنگ آدمی باندھ لیے گئے۔ اب عبداللہ بن ابی ان کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سخت اصرار کیا کہ آپ انہیں معاف کر دیں۔ چنانچہ حضور نے اس کی درخواست قبول کر کے یہ فیصلہ فرما دیا کہ بنی قینقاع اپنا سب مال، اسلحہ اور آلات صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔

ان دو سخت اقدامات (یعنی بنی قینقاع کے اخراج اور کعب بن اشرف کے قتل) سے کچھ مدت تک یہودی اتنے خوف زدہ رہے کہ انہیں کوئی مزید شرارت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر اس کے بعد شوال ۳ ھ میں قریش کے لوگ جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے بڑی تیاریوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھ کر آئے، اور ان یہودیوں نے دیکھا کہ قریش کی تین ہزار فوج کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف ایک ہزار آدمی لڑنے کے لیے نکلے ہیں، اور ان میں سے بھی تین سو منافقین الگ ہو کر پلٹ آئے ہیں، تو انہوں نے معاہدے کی پہلی اور صریح خلاف ورزی اس طرح کی کہ مدینہ کی مدافعت میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوئے، حالانکہ وہ اس کے پابند تھے۔ پھر جب معرکہ احد میں مسلمانوں کو نقصان عظیم پہنچا تو ان کی جرأتیں اور بڑھ گئیں، یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سازش کی جو عین وقت پر ناکام ہو گئی۔

بنی نضیر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی سازش؛

اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بئر معونہ کے سانحہ (صفر ۴ ھ) کے بعد عمرو بن امیہ ضمری نے انتقامی کار روائی کے طور پر غلطی سے بنی عامر کے دو آدمیوں کو قتل کر دیا جو دراصل ایک معاہِلہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے مگر عمرو نے ان کو دشمن قبیلہ کے آدمی سمجھ لیا تھا۔ اس غلطی کی وجہ سے ان کا خون بہا مسلمانوں پر واجب آگیا تھا، اور چونکہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے میں بنی نضیر بھی شریک تھ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چند صحابہ کے ساتھ خود ان کی بستی میں تشریف لے گئے تاکہ خون بہا کی ادائیگی میں ان کو بھی شرکت کی دعوت دین۔ وہاں انہوں نے آپ کو چکنی چپڑی باتوں میں لگا یا اور اندر ہی اندر یہ سازش کی کہ ایک شخص اس مکان کی چھت پر سے آپ کے اوپر ایک بھاری پتھر گرا دے جس کی دیوار کے سائے میں آپ تشریف فرما تھے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنی اس تدبیر پر عمل کرتے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بر وقت خبردار کر دیا، اور آپ فوراً وہاں سے اٹھ کر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

اب ان کے ساتھ کسی رعایت کا سوال باقی نہ رہا۔ حضورؐ نے ان کو بلاتا خیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی وہ میرے علم میں آ گئی ہے۔ لہٰذا دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد اگر تم یہاں ٹھیرے رہے تو جو شخص بھی تمہاری بستی میں پایا جائے گا۔ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ دوسری طرف عبداللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کروں گا، بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تمہاری مدد کو آئیں گے، تم ڈٹ جاؤ اور ہر گز اپنی جگہ نہ چھوڑو۔ اس جھوٹے بھروسے پر انہوں نے حضورؐ کے الٹی میٹم کا یہ جواب دیا کہ ہم یہاں سے ہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کر لیجیے۔ اس پر ربیع الاول ۴ ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا محاصرہ کر لیا، اور صرف چند روز کے محاصرہ کے بعد (جس کی مدت بعض روایات میں چھ دن اور بعض میں پندرہ دن آئی ہے )وہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے کے لیے راضی ہو گئے کہ اسلحہ کے سوا جو کچھ بھی وہ اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں گے لے جائیں گے۔ اس طرح یہودیوں کے اس دوسرے شریر قبیلے سے مدینہ کی سر زمین خالی کرالی گئی۔ ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہو کر یہاں ٹھیر گئے۔ باقی شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔



arifkarim Dr Adam brohiniaz karachiwala atensari

تحقیق و ایڈٹنگ دعاوں کا طالب؛ جانی

تاریخ ابن کثیر
مغازی
صحیح بخاری
ابن ھشام
جزاک اللہ احسن الجزا
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
Based on the thread starter's title, not reading the lengthy true or false ahadith, my understanding is that Hazrat Mohammad was sent as a Rehmatul Aalameen.
We can not even imagine that Hazrat Mohammad will allow the killings of Jews or any other non-Muslims for that matter.
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Based on the thread starter's title, not reading the lengthy true or false ahadith, my understanding is that Hazrat Mohammad was sent as a Rehmatul Aalameen.
We can not even imagine that Hazrat Mohammad will allow the killings of Jews or any other non-Muslims for that matter.
بے وقوف آدمی کس نے کہا کہ انہوں نے ایسا کیا
کھبی پڑھ بھی لیا کرو تاکہ دماغ وسیع ہوسکے اور تم اس کرب سے نکلو
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
بے وقوف آدمی کس نے کہا کہ انہوں نے ایسا کیا
کھبی پڑھ بھی لیا کرو تاکہ دماغ وسیع ہوسکے اور تم اس کرب سے نکلو
Baywaqoof admi may arif kareem ko jo tumnay tag kiya hay uss baat per keh raha hoon. kabhi apni jaali darhi say bahar nikal kar bhi sooch liya kar.
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Baywaqoof admi may arif kareem ko jo tumnay tag kiya hay uss baat per keh raha hoon. kabhi apni jaali darhi say bahar nikal kar bhi sooch liya kar.

کمال کے سست واقع ہوئے ہو۔۔ پہلی لائن پڑھی اور اس پر تبصرہ کرڈالا۔۔
تمہاری طرح کا خوشیار تو ہر کوئی نہیں ۔۔ اسکا نام تو لکھ دیتے۔۔۔
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Based on the thread starter's title, not reading the lengthy true or false ahadith, my understanding is that Hazrat Mohammad was sent as a Rehmatul Aalameen.
We can not even imagine that Hazrat Mohammad will allow the killings of Jews or any other non-Muslims for that matter.
تمہارے لیئے سورۃ حشر کی پہلی رکوع کا ترجمہ؛
بتاو یہ کس بارے میں ہے ؟

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے​

اللہ ہی کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے آسمانوں اور زمین میں سے، اور وہی غالب اور حکیم ہے (۱)۔وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے (۲) میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا (۳)۔ تمھیں ہر گز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں (۴) گی۔ مگر اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا(۵)۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کر وار ہے (۶) تھے۔ پس عبرت حاصل کر و اے دیدہ بینا رکھنے والو (۷) !​

اگر اللہ نے ان کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی دنیا ہی میں وہ انہیں عذاب دے ڈالتا،(۸)۔ اور آخرت میں تو ان کے لیئے دوزخ کا عذاب ہے ہی۔ یہ سب کچھ اس لیئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کو سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، یہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا(۹)۔ اور (اللہ نے یہ اذن اس لیئے دیا ) تاکہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے (۱۰)۔​

اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیئے، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے۔ تسلط عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے (۱۲)۔ جو کچھ بھی اللہ ان بستیوں کے لوگوں سے اپ کی طرف پلٹا دے وہ اللہ پلٹا دے ،وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیئے (۱۳) ہے تا کہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے (۱۴)۔ جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا​

(۱۵)ہے۔ (نیز وہ مال ان غریب مہاجرین کے لیئے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گے ہیں (۱۶)۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور خشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی راستباز لوگ ہیں، (اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے ) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دار الہجرت میں مقیم تھے (۱۷)۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دیدیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں (۱۸)۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیئے گئے وہی فلاح پا نے والے ہیں (۱۹)۔ (اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے ) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں، (۲۰)۔ جو کہتے ہیں کہ '' اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیئے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہر بان اور رحیم (۲۱)۔ع​

 
Last edited:

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Mayray tabsray may ghalath kiya tha?
غلط یہ تھا ، جس کے بارے میں تھا اسکا نام تک نہ تھا۔۔ دوسرا۔۔ صرف پہلی لائن پر تھا۔۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب کتنے سست ہیں
 

socrates khan

Councller (250+ posts)
لیجئےناظرین حسبِ عادت ہمارے دورِ حاضر کے جدید محقق اور ایڈیٹر جناب جانی المعروف ڈیجیٹل مدھانی کی جانب سے ایک نیا تھریڈ حاضر ہے۔۔

جناب جانی صاحب جب سے نجدی ملاؤں کی گود اُچھلائی کے رسیا ہوئے ہیں تب سے انہیں اپنی مسلمانیت کو کمرشلائز کرنے کا دورہ پڑتا رہتا ہے۔۔۔کبھی یہ ایک غیر مسلم ہمسائے کی طرف سے ملنے والی معصوم چاکلیٹ کو ذبح کرنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں۔۔۔ کبھی اپنی ننھی مُنی سی "کوپڑی" میں دبیز و گفیف موضوعات کو کاپی پیسٹ کرکے ابنِ سقراط بنتے ہیں۔۔ کبھی اپنی مسلمانیت کو حلق سے اتارنے کیلئے آلِ سعود کا المشروب البدعت و الشرکیہ کا شربت تیار کرتے ہیں۔۔۔ کبھی ایک سانس میں قرآنی آیات کی تشہیر کرتے کرتے سیاسی مخالفت میں مستورات کی تضحیک و تمسخرکا پرچار کرتے ہیں۔۔۔



ان کے اس ذہنی و پُشتی اضطراب کو دیکھتے ہوئے اس فورم کی انتظامیہ کواپنی ویبسائٹ میں جانی فوبیا کے نام سے ایک علیحدہ کارنر الاٹ کر دینا چاہیئے۔۔۔ تاکہ وہاں پر جانی صاحب اپنی علمی پھُلجڑیوں کے ساتھ لٹک کر خود ستائشی کی "گُمن کیریاں" لگاتے رہیں۔۔ اور اپنے نفسانی و وجدانی فریب کے مریضِ النسیاں بن کر کُرلاتے رہیں۔۔۔

وما علینا الا لبلاغ
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی یہ تھریڈ جانی بھائی نے میری معلومات کیلئے بنایا ہے۔ پلیز آپ سرکاری مسلمان آپس میں مت لڑیں
کیا تم یہ بول رہے ہو کہ یہ فورم صرف تم اور میں دیکھتے ہیں۔۔؟
بھئی یہ دنیا میں جانے کہاں کہاں پہنچ جائے گا۔۔
انشا اللہ
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Jani ko tag kar bhai may nay tu uss ka thread parha nahi aur may guarantee say kehta hoon kisi nay bhi nahi parha.
تم کنویں میں ہو ، اور وہیں زندگی بسر کرنے پر خوش ہو تو باقی لوگوں کو ایسا کیوں سمجھتے ہو
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
I would like to request the moderators to limit the size of the posts. Ridiculously log posts like this one take away from the purpose and essence of a "political board".
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیا کسی نے تیرے سر پر بندوق رکھی ہے اسے پڑھنے کے لیئے
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
I would like to request the moderators to limit the size of the posts. Ridiculously log posts like this one take away from the purpose and essence of a "political board".
probably u do not know tht their is a limit of 3k ...